سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) مختلف مواقع پر مساجد کی تزئین و آرائش

  • 8569
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1910

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض مسجدوں میں یہ رواج ہے کہ عید الفطر یا دیگر دینی مناسبتوں کے موقع پر انہیں بجلی کے رنگ برنگے قمقموں اور پھولوں وغیرہ سے سجایا جاتا ہے کیا اسلام میں یہ عمل جائز ہے؟ اس کے جواز یا ممانعت کی کیا دلیل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 مسجدیں اللہ کے گھر اور زمین کے بہترین ٹکڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی توحید، ذکر الہی اور اقامت نماز کے ساتھ رفعت و عظمت بخشی جائے، لوگ مسجدوں میں آ کر دین سیکھیں اور رشد و بھلائی کی وہ دولت حاصل کریں جو ان کے لیے دنیا و آخرت میں سعادت و کامرانی کا ذریعہ بنے۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی حکم ہے کہ مسجدوں کو گندگی، بتوں، شرک و بدعت کے اعمال، خرافات، میل کچیل، نجاست، لہو لعب اور شوروغوغا سے پاک صاف رکھا جائے حتیٰ کہ مسجد میں کسی گم شدہ چیز کا اعلان کرنا بھی ممنوع ہے اور وہ تمام امور بھی منع ہیں جن سے مسجد ایک عام راستہ یا تجارت کا بازار معلوم ہو نیز اس بات سے بھی منع کر دیا گیا ہے کہ مسجد میں کسی مردے کو دفن کیا جائے یا مسجد کو قبروں پر بنایا جائے۔ مسجد کی دیواروں پر تصویریں لٹکانے اور بنانے سے بھی منع کر دیا گیا ہے، الغرض ان تمام امور سے منع کر دیا گیا ہے جو شرک کا ذریعہ ہوں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے کے دل کو کسی اور طرف مشغول کرنے والے ہوں یا اس مقصد کے منافی ہوں جس کی خاطر مسجد بنائی جاتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان تمام امور کو ملحوظ خاطر رکھا جیسا کہ آپ کی سیرت اور آپ کے عمل سے معلوم ہوتا ہے۔ امت کے سامنے بھی آپ نے تمام امور کو واضح فرما دیا تاکہ احترام اور تعمیر مساجد کے مسئلہ میں بھی امت آپ کے نقش قدم پر چلے، آپ کی ہدایت سے فیض یاب ہو اور اللہ کے رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء و پیروی کرتے ہوئے مساجد کے ذریعہ اسلامی شعائر کو سر بلند کرنے کے لیے سر گرم عمل ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہے کہ آپ نے مسجد کی عظمت کی خاطر کبھی عیدوں یا دیگر مناسبتوں سے روشنیوں اور پھولوں کا اہتمام کیا ہو حضرات خلفاء راشدین اور ان قرون اولیٰ کے ائمہ مہتدین سے بھی ایسا ثابت نہیں ہے، جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ گواہی ہے کہ وہ ’’خیر القرون‘‘ ہیں حالانکہ پہلی تین صدیوں ہی میں لوگ بہت ترقی کر چکے تھے، مال و دولت کی بھی فراوانی ہو چکی تھی، تہذیب و ثقافت سے بھی وہ خوب آشنا ہو چکے تھے، آرائش و زیبائش اور رنگ و نور کی انواع و اقسام کی چیزیں بھی انہیں میسر تھیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود انہوں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا تھا اور پھر ہر طرح کی خیر و بھلائی تو صرف اور صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے خلفاء راشدین رضی اللہ عنھم اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے ائمہ دین کی اتباع ہی میں ہے۔

پھر مسجدوں میں چراغ جلانے، بجلی کے قمقمے لگانے، جھنڈے لہرانے اور تزئین و آرائش کے لیے عیدوں اور دیگر موقعوں پر بھول سجانے میں کفار کے ساتھ مشابہت بھی تو ہے۔ وہ بھی تو اپنے گرجوں اور مندروں میں ایسا ہی کرتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات سے منع فرمایا ہے کہ ہم کافروں کی عیدوں اور عبادتوں میں ان کے ساتھ مشابہت اختیار کریں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

مساجد کے احکام:  ج 2  صفحہ41

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ