سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(230) داڑھی منڈانے والے کا حکم

  • 8524
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1358

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسلا می نقطہ  نگا ہ سے مو نچھوں  کی کیا صورت ہو نی چا ہئے ؟ہم نے بعض فا ضل  علما ء سے یہ سنا ہے  کہ یہ بھی بدعت اور با لوں کا مثلہ ہے  کہ مونچھوں کو با لکل منڈوا دیا جا ئے جب کہ حا فظ  ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے  زاد المعا د  میں  اس با ت کو تر جیح دی ہے  کہ ہو نٹ کے زید با ل لینے کی نسبت  یہ افضل ہے کہ ساری  مونچھیں  منڈوادی جا ئیں  تو سوال  یہ ہے  کہ ان  میں کو ن سی صورت افضل  اور راجح ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بخا ری اور صحیح مسلم میں  حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی  یہ حدیث  ہے کہ نبی کر یم ﷺ  نے فر ما یا :

خالفوا المشركين ووفروا اللحي واحفوا الشوارب (صحيح بخاری)

"مشرکو ں کی مخالفت کرو  داڑھیا ں بڑھا ئو  اور مونچھیں  کترائو ۔"اور حضرت انس سے مر وی ہے کہ:

وقت لنا في قص الشارب وتقليم الاظافر ونتف الابط وحلق العانة ان لا نترك اكثر من اربعين يوما (صحيح مسلم)

رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لئے وقت کا تعین  فر ما دیا  کہ مونچھیں  کا ٹنے  نا خن  ترا شنے  زیر   بغل  با ل صاف کر نے اور زیر  نا ف با ل صاف  کر نے  پر چا  لیس   سے  زیا دہ  نہیں گزرنے  چا ہئیں ۔"صحیح مسلم  میں ہی ابو ہر یرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی  یہ حدیث  بھی ہے  کہ رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا

جزوا الشوارب وارخوا اللحي وخالفوا المجوس (صحيح مسلم)

مو نچھیں کٹوا ئو  داڑھیا ں بڑھا ئو  اور مجو سیں  کی مخا لفت کر و ۔"ترندی نے بروا یت  زید  بن  ارقم  بیا ن کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فر مایا

من لم ياخذ من شاربه فليس منا (جامع ترمذی)

"جو شخص اپنی مو نچھیں  نہ کٹوائے  وہ ہم میں سے نہیں  ہے ۔"(امام ترندی  نے فر ما یا  ہے کہ  یہ حدیث  صحیح ہے )ابن عبدالبررضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حسن  بن صا لح رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے انہوں  نے سما ک بن  حرب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انہوں  نے عکرمہ سے اور انہوں نے  ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا ہے  کہ رسول اللہ ﷺ اپنی مونچھوں کو کترایا کر تے تھے  اور بیا ن  فر ما یا کر تے تھے۔کہ حضرت ابراہیمعلیہ السلام  بھی اپنی مو نچھوں کو  کترا یا کر تے تھے ۔ (محدثین کی ایک جماعت نے  اس روایت کو حضرت ابن  عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پر مو قوف  قرار دیا ہے )۔ان حدیث میں  یہا ں دولفظ  استعما ل  ہو ئے ہیں ایک ہے "احفا ء " جس کے معنی خوب اچھی طرح  مونڈنا  دوسرا ہے "قص " جس کے معنی قینچی  وغیرہ سے کا ٹنے ہیں  لہذا اس مسئلہ میں  شرعا دوطرح اختیا ر ہے  لہذا  ہماری  را ئے  میں یہ کہنا  جا ئز نہیں  کہ مو نچھوں  کو خو ب اچھی طرح  مو نڈنا  مثلہ  یا بدعت ہے کیو  نکہ  ایسا  کہنا  مذکو ہ  نص کے خلا ف  ہے اور رسو ل  اللہ ﷺ  کی  سنت صحیحہ کی مو جو د گی  میں کسی کے قو ل  کی کو ئی اہمیت  نہیں ہے ۔

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1 ص38

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ