سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(147) ہم اللہ تعالیٰ ٰ کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟

  • 8406
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 2775

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم طالب علم درس کی ایک مجلس میں بحث مباحثہ کررہے تھے۔کہ ایک صاحب نے سوال کیا کہ  اللہ سبحانہ وتعالیٰ ٰ کی عبادت کیوں کی جاتی ہے۔؟ایک ساتھی نے جواب دیا کہ ہم اللہ کی عبادت  اس کے عذاب کے خوف اور ا س کی رحمت کی امید کی وجہ س کرتے ہیں۔اور اس کی دلیل اس نے یہ پیش کی کہ   عبادت کے لوازم میں یہ ہے کہ جن باتوں کے کرنے کا اللہ اوراس کے رسولﷺ نے حکم د یا ہے۔انہیں ہم بجالائیں اور جن سے انھوں نے منع کیا ہے۔ان سےرک جایئں ایسا کرنے ہی سے اللہ کی  عبادت ہوگی۔اوراسی عبادت پر ہی جزاء کاانحصار ہوگااوراسی  کی ہم  رغبت کرتے اور خوف کھاتے ہیں۔یہ سن کر ایک دوسرے طالب علم نے کہا کہ ہم اللہ کی عباد ت اس کی ذات کےلئے کرتے ہیں۔اس نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔صرف وہی عبادت کامستحق ہے۔ لہذا ہم جنت وجہنم سے نے نیاز ہوکر اس کی  عبادت کرتے ہیں۔ فرض کریں کہ  جنت اور جہنم نہ ہو تو کیا اس کی عبادت نہ کی جائے  گی۔؟الغرض اسی طرح  اس نے پہلے قول کی زبردست تردید کی اور اسے ایک قول ''منکر''قرار دیا۔

سوال یہ ہے  کہ ان میں سے کون سا قول صحیح ہے؟ کیا آداب علم تعلم میں سے یہ بھی ہے کہ بغیردلیل کے قول رد کردیا جائے۔اپنے مؤقف کے خلاف قول کو کسی دلیل کے بغیر رد کردیا جائے۔اس  طرح کے امور مسائل میں زیادہ بحث مباحثے کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعض روایات میں یوں آیا ہے کہ  اللہ تعالیٰ ٰ آخر ت میں حساب کے وقت ایک آدمی کو حاضر کرکے  یہ پوچھے گا کہ تو نے میری عبادت کیوں کی؟ وہ بندہ عرض کرے گا کہ :''اے اللہ ! میں نے جنت اور اس کی ابدی نعمتوں کے بارے میں سنا تو  راتوں کو بیدار رہا۔دنوں کوتیری عبادت میں مشغول رہا۔ اور پیاسا رہا کہ جنت میں داخل ہونے کے شوق اور نعیم مقیم اور ثواب عظیم کے حصول کی خواہش تھی۔اللہ تعالیٰ ٰ یہ سن کر فرمائے  گا۔''یہ ہے میری جنت جا ا س میں داخل ہوجا'' تیری ہر تمنا و خواہش کو پورا کردیا جائےگا۔ اللہ ایک  اور بندے کو بلائے گا اور اس سے فرمائے  گا کہ''تو نے میری عبادت کیوں کی وہ کہے گا کہ میں نے جہنم اور اس کے عذاب اس کی عبرت ناک سزائوں اور اس کی زنجیروں اور اس کی بیڑیوں (طوقوں) اور اس کے آلام ومصائب کے بارے میں سنا تو میں نے جہنم اور اس کی سزائوں اور اس کے عذابوں سے بچنے کے لئے رات کے آرام اور دن کے چین کو تج دیا۔اور خوب خوب مشقتیں برداشت کیں۔ اللہ تعالیٰ ٰ یہ جواب سن کر فرمائے گا۔''میں نے تجھے جہنم سے بچا لیا جا تو جنت میں داخل ہوجا'' تیری ہر خواہش پوری ہوگی''پھر اللہ تعالیٰ ٰ ایک اور بندے کو بلائے گا۔ اس سے  فرمائے گا کہ ''اے میرے بندے تو نے میری عبادت کیوں کی؟''وہ بندہ عرض کرے گا    ۔''  اللہ میں نے تیری صفات تیرے جلال  تیری کبریائی تیری نعمتوں اور تیری نوازشوں کو پہچان لیا تھا۔تو میں نے تیری ملاقات کے شوق اور  تیری محبت کی خاطر میں نے تیری عبادت کی۔مخلوق پر اپنے فضل وانعام اور کمال صفات اور عظیم جلا ل کے باعث تو ہی عبادت وتعظیم کا مستحق ہے۔''اللہ رب زوالجلال فرمائے میں یہ موجود ہوں۔ تو میرا دیدار کرلے۔میں نے تجھے بے پایاں اجر وثواب سے نوازا اور  تیری تمام خواہشوں اور تمنائوں کو پورا کردیا۔

اس کا مطلب ہے کہ مذکورہ جواب دینے میں دونوں برحق ہیں۔ لیکن وہ شخص جو اللہ تعالیٰ ٰ کی عبادت اس لئے کرتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ ٰ کی معرفت حاصل ہے اور وہ جانتا ہے کہ اوہ اس بات کا مستحق ہے۔کہ اس کی عبادت کیجائے۔وہ اہل تقویٰ اور اہل مغفرت ہے۔وہ اپنے بندے کا خالق  ومنعم حقیقی ہے۔ وہی فضل وکرم اور ثنا حسن کا مالک ہے۔جو اس احساس وادراک کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرے گا۔اسے یقیناً ثواب زیادہ ہوگا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی بن باز رحمہ اللہ

جلددوم 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ