سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(54) ایسی مسجدوں میں نماز کا حکم جن میں قبریں ہوں اور جو شخص مسجد میں نبی کریمﷺ کی قبر سےاستدلال کرتا ہے اس کا جواب

  • 8313
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1855

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بحوث العلمیۃ والافتاء کی فتویٰ کمیٹی کے علم میں یہ سوال آیا جو جناب ڈایئرکٹر جنرل کی خدمت میں پیش ہوا تھا کہ''آپ سے سوال کہ اس مسجد میں نمازکاکیا حکم ہے۔جس میں قبر ہو؟ بعض علماء کہتے ہیں کہ ایسی مسجد میں نماز جائز نہیں خواہ شہر میں اس کے علاوہ کوئی اور مسجد نہ ہو ایسی مسجد میں نماز پڑھنے کی نسبت گھر میں نماز  پڑھنے کازیادہ ثواب ہے جبکہ  بعض دیگر علماء یہ کہتے ہیں کہ ایسی مسجد میں نماز جائز ہے کیونکہ مسجد نبوی ﷺ میں بھی تو رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ  اور حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ  کی قبریں موجود ہیں۔مجھے ان دونوں اقوال کی کوئی دلیل نہیں مل سکی اس لئے حقیقت اور دلیل سمجھنے کے لئے آپ کی خدمت میں یہ خظ ارسال کر رہا ہوں۔میں سینگال کے دیہاتی علاقے میں رہتا ہوں۔اور وہاں صرف ایک ہی مسجد ہے۔ اور اس مسجد میں چار قبریں ہیں تین قبریں تو مسجد سے باہر قبلہ والی دیوار کے ساتھ ہیں اور ایک قبر بالکل مسجد کے اندر ہے مجھے اس مئلہ کا قطعا علم نہیں۔براہ کرم آپ مجھے حقیقت اور دلیل سے آگاہ فرمائیں مجھے چونکہ علم نہیں تھا اس لئے ارشاد باری تعالیٰ ٰ:

﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾کے مطابق  آپ کی طرف رجوع کررہا ہوں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اولا:قبروں پر مسجدیں بنانا جائز نہیں اور نہ کسی ایسی مسجد میں نماز جائز ہے جو کسی قبریا قبروں پر  بنائی گئی ہو کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہا  سے  روایت ہے۔کہ مرض الموت میں رسول اللہﷺ نے اپنے چہرے مبارک سے چادر ہٹا کر فرمایا:

لعنة الله علي اليهود والنصاريٰ اتخذوا قبور انبيائهم مساجد يحذر ما صنعوا ولو لا ذلك لا برز قبره غير انه خشي ان يتخذ مسجدا

(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب ما یکرہ من اتخاذ المساجد علی القبور ح: 1330 صحیح مسلم کتاب المساجد باب النھی عن بناء المسجد ۔۔۔ح :529 وسنن نسائی رقم:704 واحمد فی المسند 5/604 وموطا امام مالک کتاب نصر الصلاۃ فی السفر رقم :85)

''یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو۔کہ انہوں نے اپنے نبیوں ؑ کی قبروں کو مسجدیں بنالیا۔آپﷺ ان کے فعل سے اپنی اُمت کو ڈرا رہے تھے۔اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ ﷺ کی قبر کو بھی نمایاں کردیا جاتا۔نمایاں اس لئے نہیں کیا گیا کہ اسے مسجد نہ بنا لیا جائے۔''

حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ میں نے رسول اللہ ﷺکو وفات سے پانچ دن پہلے یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ

اني  ابرا الي الله ان يكون لي منكم خليل فان الله قد اتخذني خليلا كما اتخذ ابراهيم خليلا ولو كنت متخذا من امتي خليلا لاتخذت ابا بكر خليلا ال وان من كان قبلكم كانوا يتخزون قبور انبيائهم وصالحيهم مساجد الا فلا تتخذوا القبور مساجد فاني انهاكم عن ذلك

(صحیح مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ باب النھی عن بناء المسجد علی القبور ۔۔ح :532)

  ‘‘میں اللہ تعالیٰ  کی جناب (بارگاہ)میں اس بات سے اظہار برات کرتا ہوں کہ تم میں سے میرا کوئی خلیل ہوکیونکہ اللہ تعالیٰ  نے مجھے اپنا خلیل بنالیا ہےجس طرح کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس نے اپنا خلیل بنا لیا تھا ۔اگرمیں نے امت میں سے کسی کو اپنا خلیل (بےحد گہرا دوست)بنانا ہوتا تو ابوبکر کو اپنا خلیل بناتا۔لوگو!آگاہ رہو کہ تم سے پہلے لوگ اپنے نبیوں اورولیوں کی قبروں پر مسجدیں بنالیتے تھے لہذا تم ایسا نہ کرنا،قبروں پر مسجدیں نہ بنانا ،میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں۔’’

رسول اللہ ﷺ نے جو قبروں پر مسجدیں بنانے سے منع فرمایا اور ایسا کرنے والوں پر لعنت فرمائی تو معلوم ہو اکہ یہ ایک کبیرہ گناہ ہے مسجدوں پر قبریں بنانے اور ان میں نماز پڑھنے سے غلو فی الدین بھی ہے اور یہ شرک کا زریعہ بھی ہے۔اسی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہا  نے  فرمایا کہ''آپﷺ ان کے فعل(کام) سے اپنی امت کو ڈرا رہے تھے اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ کی قبر کو بھی نمایاں کردیا جاتا۔نمایاں اس لئے نہ کیا گیا کہ اسے بھی مسجد نہ بنا لیا جائے۔''

ثانیا:جب کسی ایک یا زیادہ قبروں پر کوئی مسجد بنالی جائے تو اس کا گرادینا واجب ہے۔کیونکہ اسے خلاف شریعت تعمیر کیا گیا ہے۔اسے باقی رکھنا اور اس میں نماز پڑھنا گناہ پر اصرار  ہے۔غلو فی الدین اور جس کی قبر پر مسجد بنائی گئی ہے۔اس کی تعظیم میں اضافہ ہے۔اور یہ شرک کا زریعہ ہے۔والعیاذ باللہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے۔:

﴿يـأَهلَ الكِتـبِ لا تَغلوا فى دينِكُم...١٧١﴾... سورة النساء

‘‘اے اہل کتاب اپنے دین(کی بات)میں حد سے نہ بڑھو۔’’

اورنبی کریمﷺکا بھی فرمان ہے کہ

ايا كم والغلو فانما اهلك من كان قبلكم الغلو
(احمد فی المسند 1/374 والحاکم فی المستدرک 1/466 وابن ماجہ فی السنن رقم : 3029)

‘‘دین میں غلو سے بچو کیونکہ پہلے لوگوں کو دین میں غلو ہی نے تباہ وبربادکردیا تھا’’

مسجد اگر قبر پر نہ بنائی گئی ہو بلکہ بعدمیں میت کومسجد میں دفن کیا گیا ہو تو اس صورت میں مسجد کو نہیں گرایا جائے گا۔بلکہ میت کو قبر سے نکال کر باہر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔کیونکہ اس کامسجد میں دفن کیا جانا ایک منکر بات ہے اور اس منکر کے ازالہ کی صرف یہی صورت ہے۔ کہ اسے قبر سے نکال کر قبرستان میں دفن کردیا جائے۔

ثالثا: مسجد نبوی ﷺ کو نبی کریمﷺ نے اللہ کے تقویٰ اور اس کی رضا کی بنیادوں پر تعمیر فرمایا تھا اور آپ کی وفات کے بعد آپ کو اس مسجد میں دفن نہیں کیا گیا تھا۔بلکہ آپ ﷺ کی تدفین تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہا  کے حجرہ میں عمل میں آئی تھی۔ آپﷺ کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ  کا انتقال ہوا تو  انھیں بھی آپ کے ساتھ حجرہ میں دفن کیا گیا تھا اور پھر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ  کا انتقال ہوا تو انھیں بھی حجرہ میں دفن کیا گیا تھا۔اور اس وقت حجرہ نبوی میں شامل نہ تھا بلکہ اسے خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین  کے دور کے بعد مسجد میں داخل کیا گیالہذا اس مسجد میں نماز کی شرعی طور پر نہ یہ کہ صرف اجازت ہے۔ بلکہ مسجد حرام کے بعد اس میں نماز سب سے افضل اور دیگر مسجدوں میں پڑھی گئی تو ایک ہزار نمازوں سے بہتر ہے۔اس کے برعکس ایک ایسی مسجد جسے کسی قبر یا قبروں پر تعمیر کیا گیا ہو یا اس میں میت کو دفن کیا گیا ہو تو اس میں نماز پڑھنا حرام ہے۔

رابعا:فرض نماز گھر میں پڑھنا جائز نہیں بلکہ آپ کو چاہیے کہ اپنے بعض مسلمان بھایئوں کےساتھ مل کر باجماعت ادا کریں اور کسی ایسی مسجد میں ادا کریں جسے قبر پر نہ بنایا گیا ہو خواہ کھلی جگہ ہی پڑھ لیں اور آپ لوگوں کو چاہیے کہ اللہ کے حکم کے مطابق ایک مسجد بنایئں تاکہ ا س میں باجماعت نماز پنجگانہ ادا کرسکیں۔نصوص شریعت ک مطابق عمل کرسکیں اور جس سے اللہ تعالیٰ ٰ نے منع فرمایا ہے۔اس سے باز رہ سکیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی بن باز رحمہ اللہ

جلددوم 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ