سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(47) تعویذ لٹکانے والا ذبیحہ

  • 8306
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 2100

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو شخص قرآن یا غیر قرآن کا تعویز یاگرہ لگائے دھاگے لٹکائے اس کے ذبیحہ کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تمام تمیمہ کی جمع ہے۔اس سے مراد وہ منکے سیپی گھوٹکا اور تعویز ہیں جو بچوں عورتوں اور حیوانوں وغیرہ کی گردنوں میں یا سینوں کے وسط پر یا بالوں میں لٹکائے جاتے ہیں۔تاکہ شر سے محفوظ رہاجائے۔اور جو ضرر نازل ہوچکا ہو اسے دور کیا جاسکے تو یہ منع ہے بلکہ شرک ہے۔کیونکہ نفع نقصان صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ  سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ:

ان الرقي والتمائم والتولة شرك( سنن ابی دائود کتاب الطب باب فی تعلیق التمائم ج ؛ 3883۔مسند احمد 1/381)

''جھاڑ پھونک'تعویز اور حب کےاعمال شرک ہیں۔''

عبد اللہ بن حکیم رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ  سے مرفوع روایت ہے کہ:

من تعلق شيئا وكل اليه
(سنن ترمذی کتاب الطب ماجاء فی کراھیۃ التعلق ح: 2072) احمد فی المسند 4/310'311)

''جو شخص کوئی  چیز لٹکائے اسے اسی کے سپر دکردیا جاتا ہے۔''

حضرت ابو بشیر انصاری رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ  سے روایت ہے۔

انه كان مع النبي صلي الله عليه وسلم فارسل رسولا الا تبقين في رقبة بعير من وتر او قلادة الا قطعت
(صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر باب ما قبل فی الجرس ۔۔۔ح 3005)

کہ وہ نبی کریم ﷺکےساتھ تھے۔جب آپ نے ایک قاصد کو بھیجا کہ کسی اونٹ کی گردن میں کوئی ایسی رسی باقی نہ رہنے دی جائے۔(جو نظر بد وغیرہ کے سلسلے میں لوگ باندھ دیا کرتے تھے۔) مگر اسے کاٹ دیا جائے۔''

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریمﷺ نے اونٹوں پر رسیوں کے لٹکانے سے مطلقاً منع  فرمایا ہے۔خواہ ان میں گرہیں لگائی گئی ہوں۔یا نہ لگائی گئی ہوں۔نیز آپﷺ نے ان رسیوں کے کاٹ دینے کا حکم دیا۔ کیونکہ زمانہ جاہلیت کے لوگ اونٹوں پررسیاں باندھتے۔ان کی گردنوں میں ہار ڈالتے اور انھیں تعویز پہناتے تھے۔تا کہ انھیں  آفات اور نظر بد سے محفوظ رکھ سکیں۔رسول اللہ ﷺ نے انھیں ا ن سب باتوں سے سختی سے منع فرمادیا اور ان چیزوں کےکاٹ دینے کا حکم دیا لہذا اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے۔ کہ ان تعویزوں اور منتروں جنتروں میں حصول منفعت اور دفع مضرت کے سلسلہ میں ذاتی تاثیر ہے۔تو وہ مشرک اور شرک اکبر کا مرتکب ہے۔جس کی وجہ سے وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہوجاتا ہے۔والعیاذ باللہ۔ایسے شخص کا ذبیحہ کھانا حلال نہیں۔

جو شخص ان تعویزوں وغیرہ کو محض اسباب سمجھتا  اور یہ عقیدہ رکھتا ہے۔کہ نفع ونقصان کا اختیار اللہ تعالیٰ ٰ کے ہاتھ میں ہے۔اور وہی اسباب سے نتائج پیدا کرتا ہے۔تو وہ شرک اصغر کا ارتکاب کرتا  ہے۔کیونکہ یہ اسباب عادی ہیں۔نہ شرعی بلکہ یہ وہمی ہیں۔ہاں البتہ بعض علماء نے ایسے تعویزوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔جو قرآنی آیات پر مشتمل ہوں۔انہوں نے اس کے استعمال کی اجازت دی ہے۔اور ممانعت کی احادیث کو ایسے تعویزوں پر محمول کیا ہے۔جو غیر قرآنی ہیں۔لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ممانعت کی احادیث عام ہیں۔نبی کریمﷺ سے قرآنی تعویزوں کی تخصیص ثابت نہیں ہے۔ سد زریعہ کا بھی یہی تقاضا ہے۔کیونکہ پھر آدمی ایسے تعویز بھی استعمال کرنے لگ جاتا ہے۔جو غیر قرآنی ہوں۔قرآنی ہونے کی صورت میں قرآن مجید کی بے ادبی کا بھی احتمال ہے۔ہاں البتہ قرآنی تعویز استعمال کرنے والے کے ذبیحہ کو کھایا جاسکتاہے۔کیونکہ وہ اس میں تاثیر اور برکت کا عقیدہ رکھتا ہے۔اور یہ عقیدہ اسے ملت اسلامیہ سےخارج نہیں کرتا۔ اور پھر اس لئے بھی قرآن مجید اللہ کاکلام ہے۔اور اللہ تعالیٰ ٰ کا کلام اس کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی بن باز رحمہ اللہ

جلددوم 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ