سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(44) منتروں تعویزوں اور دموں کے لکھنے کا حکم

  • 8303
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2000

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ لوگ مریضوں مجنونوں اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کے  لئے قرآن وسنت کے کلمات کو بطور  تعویز لکھتے ہیں۔ ہم نے انہیں ایسا نہ کرنے کی نصیحت کی تو انھوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے کلمات کوبطور تعویز لکھنا منع نہیں حالانکہ یہ ایسے لوگوں پر بھی تعویز لٹکا دیتے ہیں جو پاک نہیں ہوتے۔مثلا حیض اور نفاس والی عورت مجنون ومدہوش مرد اور چھوٹا بچہ جسے عقل ہوتی ہے۔نہ  طہارت کاشعور تو کیا ان تعویزوں وغیرہ کا لکھناجائز ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی کریمﷺ نے قرآن مجید اذکار اور دعائوں کے ساتھ دم کی اجازت دی ہے۔بشرط یہ کہ ازکار اور ادعیہ میں شرک نہ ہویا وہ ایسے کلام پر مشتمل نہ ہوں۔جن کا مفہوم واضح نہ ہو۔کیونکہ عوف بن مالک سے مروی ہے۔کہ ہم زمانہ جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے اور اس بارے میں جب ہم نے رسول اللہﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا:

اعرضوا علي رقاكم لا باس بالرقي ما لم يكن فيه شرك

(صحيح مسلم كتاب السلام باب لا باس بالرقي مالم يكن فيه شرك ح :2200)

''میرے سامنے اپنے دم پیش کرو دم میں کوئی حرج نہیں بشرط یہ کہ شرکیہ نہ ہو''

اس طرح کے دم کے بارے میں علماء  کا اجماع ہے۔کہ یہ جائز ہے۔بشرط یہ کہ عقیدہ رکھا جائے کہ اس میں تاثیر صر  ف اسی صورت میں ہے کہ  جب اللہ تعالیٰ ٰ پیدا فرمادے۔گردن یا جسم کے کسی دوسرے حصے کے ساتھ باندھنے والا تعویز اگر قرآن کے علاوہ کچھ اورہو تو حرام ہے بلکہ شرک ہے۔حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ  سے مروی ہے کہ:

ان النبي  صلي الله عليه وسلم راي رجلا في يده حلقه من صغر فقال ما هذا؟ قال من الواهية فقال انزعها فانها لا تزيدك الا وهنا فانك لومت وهي عليك ما افلحت ابدا

(سنن ابن ماجہ کتاب الطب باب تعلیق التمائم ح : 3531 مسند احمد 4/445)

''نبی کریمﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ میں پیتل کا چھلہ دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہ واہنہ (کمزوری )کی وجہ سے ہے۔آپﷺ نےفرمایا''اسے اُتار دے یہ تجھے کمزوری کے سوا اور کوئی فائدہ نہ دے گا۔اگر اس  چھلے کو پہنے ہوئے تجھے موت آگئی تو تو کبھی نجات نہ  پائےگا۔''

مسند احمد ہی کی ایک اور روایت میں ہے کہ:

من تعلق تميمة فقداشرك (احمد في السند ٤/ ١٥٤/وابو يعلي في المسند رقم : ١٧٥٩) والحاكم في المستدرك ٤/٤١٧)

''جس نے تعویز لٹکایا اس نے شرک کیا۔''

امام احمد اور ابو دائود نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ  سے مروی یہ حدیث زکر کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ:

ان الرقي والتمائم والتولة شرك( سنن ابی دائود کتاب الطب باب فی تعلیق التمائم ج ؛ 3883۔مسند احمد 1/381)

''جھاڑ پھونک تعویز اور حب کے اعمال شرک ہیں۔''

خواہ جو  اس نے لٹکایا ہو وہ قرآنی آیات ہی ہوں۔صحیح بات یہی ہے کہ قرآنی آیات کا لٹکانا ممنوع ہے۔اور اس کے تین اسباب ہیں:

1۔تعویز لٹکانے کی ممانعت کے بارے میں احادیث عام ہیں تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

2۔سد زریعہ کے لئے ا س کی ممانعت ہے کیونکہ اس سے غیر قرآن لٹکانے کا راستہ کھلتا ہے۔

3۔لٹکائے جانے والے کلمات کی توہین ہوتی ہے۔کیونکہ آدمی انہیں قضائے حاجت استنجاء اور جنسی عمل کے وقت بھی اپنے ساتھ لٹکائے ہوتا ہے۔

قرآن مجید کی سورت یا آیات کا پلیٹ یا کاغذ پر لکھنا اور پھر اسے پانی یا زعفران وغیرہ کے ساتھ دھونا اور اسے برکت یا علمی استفادہ یا کسب مال یا صحت وعافیت وغیرہ کے حصول کی نیت سے پینا نبی ﷺ سے ثابت نہیں۔آپ نے خود کبھی اپنے لئے ایسا کیا نہ کسی دوسرے انسان کے لئے اور نہ آپ نے اس کے لئے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  یا امت میں سے کسی کو اجازت دی حالانکہ اس وقت اس کےدواعی اور اسباب بھی موجود تھے۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ اسے ترک کردیا جائے۔اور صرف اسی پر اکتفا ءکیا جائے۔جو شریعت میں ثابت ہے۔یعنی قرآن کریم اسماء حُسنیٰ اور رسول اللہﷺ سے ثابت ازکار اور دعایئں اور ایسے کلمات جن کے معنی واضح ہوں۔جن میں شرک کا شائبہ نہ ہو۔اور ایسے طریقے سے قرب الٰہی کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔جو اس نے خود مقرر فرمایا ہے۔تاکہ ثواب  حاصل ہوسکے۔اللہ تعالیٰ ٰ پریشانیوں کو دور فرمادے۔غم وفکر سے نجات دےدے۔علم نافع سے سرفراز فرمائے۔ایک مسلمان کے لئے اللہ اور اس کے ر سول ﷺ کے مقرر کردہ طریقے ہی کافی ہیں۔اور جو شخص اللہ تعالیٰ ٰ کے احکام اور ارشادات کوکافی سمجھے تو وہ اسے  غیر اللہ سے بے نیاز کردیتا ہے۔اللہ تعالیٰ ٰ ہی توفیق عطا فرمانے والا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی بن باز رحمہ اللہ

جلددوم 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ