سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(288) خطیب حاضرین سے پوچھ گچھ کر سکتا ہے

  • 8257
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1008

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم نے ’’ بلیدہ‘‘ شہر میں دیکھا کہ خطیب صاحب منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سامعین سے کہتے تھے۔ وحدوااللہ اور مسلمان بلندآواز سے تہلیل وتکبر شروع کر دیتے ہیں کیا امام کو یہ حق حاصل ہے کہ سامعین سے اس طرح کہے’ اور کیا سامعین کو تہلیل وتکبر کہنا درست ہے؟ اور اس حدیث کا کیا مطلب ہے:’’ جب جمعہ کے دن امام خطبہ دے رہا ہو اور تم اپنے ساتھی سے کہو:’’ خاموش ہوجا‘‘ توتونے لغو کام کیا۔‘‘ امید ہے کہ جواب عنایت فرمائیں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

۱۔  اگر امام وحدوااللہ کے لفظ سے یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی ربوبیت ، الوہیت اور اسماء وصفات میں وحدہ لاشریک ماننا ضروری ہے تاکہ سامعین یہ عقیدہ رکھیں ۔ اس لیے نہیں کہتا کہ وہ اسے بلند آواز سے تکبیر وتہلیل کے ساتھ جواب دیں لیکن انہوں نے غلطی سے اس کے ارادہ کے خلاف یہ بات سمجھ لی اور بلند آواز سے یہ الفاظ کہہ کر جواب دیا تو اس میں امام کی غلطی نہیں ‘ البتہ سامعین نے اپنے فہم اور عمل میں غلطی کی ، لہٰذا امام کو چاہے کہ انہیں نصیحت کرے اور اپنی بات کا صحیح مفہوم واضح کرے تاکہ وہ لوگ دوبارہ یہ غلطی نہ کریں اور اگر وحدوااللہ سے اس کا مطلب یہ تھا کہ سامعین اسی وقت بلندآواز سے تکبیر وتہلیل کے ذریعے اس کا جواب دیں تو وہ غلطی پر ہے اور بدعت کا ارتکاب کر دہا رہے اور سامعین بھی غلطی پر ہیں اور بدعت کے مرتکب ہیں ۔ کیونکہ یہ طریقہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے خطبات میں اختیار کیا ہے نہ خلفائے راشدین نے اور نہ ان کے سامعین نے یہ کام کیا ہے البتہ خطیب کے لیے یہ جائز ہے کہ مسجد میں موجود کسی شخص سے اس سے تعلق رکھنے والے کسی کام کے بار ے میں پوچھ لے۔ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم   نے کیا جب سلیک رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ حضرت سیلک رضی اللہ عنہما (خطبہ سننے کے لیے) بیٹھ گئے۔ اور نماز تحیتہ المسجد ادا نہ کی۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں اٹھ کر دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ [1]

اسی طرح ایک بار ایک اعرابی نے خطبہ کے دوران قحط کی شکایت کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے دراخوست کی کہ بارش کے لیے دعا فرمائیں۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور بارش ہونے لگی۔ بارش مسلسل ہوتی رہی حتی کہ اس نے آئندہ جمعہ  کے خطبہ کے دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے دراخواس کی کہ وہ بارش بند ہونے کی دعا فرمائیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا فرمائی کہ بارش ان مقامات پر نازل ہو جہاں اس کا برسنا مفید ہے او رنقصان دہ نہیں۔[2]

اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کا ہے ۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہما جمعہ میں تاخیر سے تشریف لائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں کہا: ’’ یہ (جمعہ کے لیے آنے کا ) کون ساوقت ہے ؟‘‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہما نے عرض کی : ’ میں توصر ف وضو کر کے اگیا ہوں (تاکہ مزید دیرنہ ہوجائے) ‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ’’ صرف وضو؟ (غسل کرنا چاہے تھا)‘‘ [3] اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے صحیح سند مروی ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

((مَنْ أَحّدَثَ فِی أَمْرِنَا ہٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ))

’’ جس نے ہمارے دین میں وہ چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ ناقابل قبول ہے۔ ‘‘

اور فرمایا:

((مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسْ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَھُوَرَدٌّ))

’’ جس نے کوئی ایسا عمل کیاجو ہمارے دین کے مطابق نہیں وہ مردود ہے۔‘‘

۲۔  آپ نے جو حدیث ذکر کی ہے اسے بخاری، مسلم ، اور سنن اربعہ کے مصنفین نے روایت کیا ہے۔[4]

اس کامطلب یہ ہے کہ جب امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو ، اس وقت اگرآپ نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کوئی بات کی ہ، اگر چہ کوئی نصیحت کی بات ہو، کسی اچھی بات کی ترغیب ہو ، یا کسی غلط سے روکا ہو مثلا آپ کہیں ’’ خاموش ہو جاؤ اور خطبہ سنو‘‘ تو آپ نے ایک غلط کام کیا اور ایک نامناسب کے مرتکب ہوئے ا س موقع پر یوں کرنا چاہے کہ خطیب سے گزارش کی جائے کہ غلطی کرنیو الے کو نصیحت کریں تاکہ وہ غلط کام چھوڑ کر اچھے کام کی طرف متوجہ ہو جائے ۔ اس ممانعت میں یہ حکمت ہے کہ سامعین خطبہ کے دوران یکے بعد دیگرے باتیں کرنا شروع نہ کردیں۔ اس طرح شور ہوجائے گا۔ غلطی کرنے والے کو اشارہ کے ذریعے ا س کی غلطی سے منع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

وَبِاللّٰہِ التَّوفَیقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَصَحبِهِ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ، رکن : عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان ، نائب صدر : عبدالرزاق عفیفی، صدر : عبدالعزیز بن باز۔


[1]      مسند احمد ج: ۳، ص: ۳۶۳۔ صحیح بخاری حدیث نمبر: ۹۳۰، ۹۳۱، ۱۱۶۶۔ صحیح مسلم حدیث نمبر:۸۷۵۔

[2]     صحیح بخاری حدیث نمبر: ۹۳۳، ۱۰۱۳، ۱۰۱۵، صحیح مسلم حدیث نمبر: ۸۹۷۔ مسنداحمد ج: ۳، ص: ۱۰۴، ۱۸۷،۱۹۴، ۲۷۱، ۲۷۱۔

[3]     مسند احمد ج: ۱، ص: ۱۵، ۴۲۔ صحیح بخاری حدیث نمبر: ۸۸۲۔ صحیح مسلم حدیث نمبر : ۸۴۵۔ یہ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔

[4]     صحیح بخاری حدیث نمبر: ۳۹۴۔ صحیح مسلم حدیث نمبر: ۸۵۱۔ مسند احمد ج: ۲، ص: ۲۴۴، ۲۷۲،۳۸۳، ۳۹۲، ۴۸۵، ۵۱۸ ۵۳۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 323

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ