سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(242) نظریہ ڈارون اور قرآن

  • 8213
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1933

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 بعض لوگ کہتے ہیں کہ بہت عرصہ پہلے انسان بندر تھا، پھر ترقی کرکے موجودہ صورت تک پہنچ گیا۔ کیا اس کی کوئی دلیل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آدم علیہ السلام کی تخلیق کے جو مراحل ذکر کئے ہیں۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ﴾ (آل عمران۳؍۵۹)

’’اللہ کے ہاں عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے۔ اسے اللہ نے خاک سے پیدا کیا۔‘‘

پھر یہ مٹی بھگوئی گئی حتی کہ وہ ہاتھوں سے چپکنے والے گارے کی صورت اختیار کر گئی۔ ارشاد ربانی ہے:

﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِّنْ طِینٍ﴾ (المومنون۲۳؍۱۲)

’’ہم نے انسان کو گارے کے خلاصے سے پیدا کیا۔‘‘

اور ارشاد ہے:

﴿اِِنَّا خَلَقْنٰہُمْ مِّنْ طِینٍ لاَّزِبٍ﴾ (الصافات۳۷؍۱۱)

’’ہم نے انہیں چپکتے گارے سے پیدا کیا۔‘‘

پھر وہ سڑی ہوئی کیچڑ بن گیا۔ ارشاد ہے:

﴿وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ﴾ (الحجر۱۵؍۲۶)

’’ہم نے انسان کوگلی سڑی کیچڑ سے (بنی ہوئی) کھنکتی مٹی سے پیدا کیا۔‘‘

یہ گارا جب خشک ہوجائے تو مٹی کے برتن کی طرح کھنکنے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿خَلَقَ الْاِِنسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ﴾ (الرحمن۵۵؍۱۴)

’’اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتی مٹی سے پیدا کیا۔‘‘

اللہ نے اپنی مشیت اور ارادے کے مطابق اس کی صورت بنا کر اس میں جان ڈا ل دی۔ ارشاد ربانی ہے:

﴿وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ٭ فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ﴾ (الحجر۱۵؍۶۸۔۲۹)

’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: ’’میں گلے سڑے کیچڑ سے (بنی ہوئی) بجتی مٹی سے ایک انسان پیدا کرنے والا ہوں۔ تو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کردوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے لئے سجدے میں گرجانا۔‘‘

یہ ہیں وہ مراحل جو ازروئے قرآن تخلیق آدم پر گزرے۔ اولاد آدم علیہ السلام کی تخلیق کے مراحل اس آیت مبارکہ میں ذکر کئے گئے ہیں:

﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ سُلَالَة مِّنْ طِینٍ ٭ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَة فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ٭ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَة عَلَقَة فَخَلَقْنَا الْعَلَقَة مُضْغَة فَخَلَقْنَا الْمُضْغَة عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنشَئْنٰہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾ (المؤمنون۲۳؍۱۲۔۱۴)

’’ہم نے انسان کو گارے کے خلاصے سے پیدا کیا، پھر ہم نے اسے ایک مضبوط جگہ میں (رکھا ہوا) ایک قطرہ بنا دیا۔ پھر ہم نے قطرے کو لوتھڑا بنایا، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا، پھر بوٹی کو ہڈیاں بنایا، پھر ہڈیوں کو گوشت پہنایا، پھر ہم نے اسے ترقی دے کر ایک اور مخلوق بنادیا، برکتوں والا ہے اللہ جو سب سے بہترین تحلیق کار ہے۔‘‘

آدم علیہ السلام کی اہلیہ حوال علیہ السلام کے متعلق اللہ نے بیان فرمایا ہے کہ انہیں آدم علیہ السلام سے پیدا کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی تعالیٰ ہے:

﴿یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَ بَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآئً﴾ (النساء۴؍۱)

’’اے لوگو! اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی کو پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (زمین میں) پھیلادئیے۔‘‘

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 277

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ