سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(240) دوسرے مکالمہ میں جھوٹ اور فریب کی وضاحت

  • 8211
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1602

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دوسرے مکالمہ میں جھوٹ اور فریب کی وضاحت


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پمفلٹ میں دوسرے مکالمہ کا ایک فریق انکے دعوے کے مطابق ایک سنی عالم ہے، جس کا نام ’’شیخ الحق حسینی‘‘ ہے۔ جو کسی کالج میں شعبہ علوم شرقیہ کا سربراہ ہے۔ دوسرا فریق دروز کے مذہب سے تعلق رکھنے والا ایک پروفیسر ہے جس کا نام ’’ابوحسن زیدان‘‘ ہے۔ اس مکالمہ میں اس شخص نے کچھ سوال کئے ہیں جسے سنی ظاہر کیا گیا ہے اور دروزی ان کے جواب میں دیتا ہے۔ ان سوالات اور جوابات کا اسلوب بڑا گھٹیا، زبان عربی قواعد کے لحاظ سے کمزور اورمطالب پھس پھسے، مجمل اور غیر تعلق نہیں اور مناظرہ میں ان کی کوئی اہمیت نہیں، نہ اس کے نتائج قابل توجہ ہیں۔ ان کی پوری بات چیت یہاں درج کی جاتی ہے۔

سوال۱:  فرضی سنی نے کہا: ’’تمہارا دین کیا ہے؟‘‘

درزی نے جواب دیا: ’’ہمارا دین اسلام ہے۔‘‘

ہم گذشتہ سوالات میں واضح کرچکے ہیں کہ درزی فرقہ والے مسلمان نہیں۔ بلکہ وہ یہودونصاریٰ سے بھی بڑھ کر کافر ہیں۔ آئندہ سوالوں میں درزی نے جو جوابات دئیے ہیں اور جس طرح اپنے عقائد کی وضاحت کی ہے اور ارکان اسلام وغیرہ کے متعلق جو کچھ کہا ہے اس سے بھی اسی موقف کی تائید ہوتی ہے کہ وہ مسلمان نہیں۔

سوال۲:  تمہارا مذہب کیا ہے؟

جواب:  ’’ہمارا مذہب اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت کا اقرار ہے اور یہ اسلام میں تقیہ والے مذہب میں سے ایک ہے۔‘‘

اس سوال کے جواب میں دروزی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کا مذہب تقیہ ہے۔ اس اقرار میں اس نے سچ کہا ہے۔ واضح رہے کہ عقیدہ،قول اور عمل میں منافقت‘ دھوکے اور فریب کا نام ہے اور اس سوال کے جواب میں دروزی نے اس پر عمل بھی کیا ہے۔ اس نے کہا کہ دروز کا مذہب اللہ کی توحید اور رسول اللہ کی رسالت کا اقرار ہے لیکن ان کا معبود جس کی توحید کے وہ قائل ہیں اور جس کی عبادت کرتے ہیں وہ مصر کا حکمران ’’حاکم عبیدی‘‘ ہے اور جس رسول کو مانتے ہیں وہ حاکم کا بھیجا ہوا مبلغ ’’حمزہ بن علی بن احمد فارقی حاکم درزی‘‘ ہے جس کو اس نے اس لیے بھیجا تھا کہ لوگوں کو اس کی عبادت کی طرف بلائے کیونکہ اسی کو فاطمی حاکم نے ’’رسول‘‘ کا لقب دیا تھا۔ جواب کا یہ انداز تقیہ کی واضح ترین تفسیر اور سچی عملی مثال ہے۔

سوال:  ’’نہ سنی نہ شیعہ بلکہ ان فرقوں میں سے ایک ہیں جن کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے:

(سَتَنْقَسِمُ أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي ِألَی ثَلاَثَۃٍ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً)

’’میری امت میرے بعد تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی۔‘‘

اس سوال کے جواب میں دروزی نے اجمال سے کام لیا ہے۔ اس نے اپنے فرقہ کے سنی یا شیعہ ہونے سے انکار کیا ہے لیکن اس کی حقیقت سے پردہ نہیں اٹھایا، بلکہ مبہم جواب دیا ہے کہ وہ ان فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے جن کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ کہہ کر اشارہ کیا ہے:

(سَتَنْقَسِمُ أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي ِألَی ثَلاَثَۃٍ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً)

اس جواب میں اس نے عربی زبان میں لغوی غلطی بھی کی ہے، حدیث میں تحریف بھی کی ہے اور سائل کو دھوکا بھی دیا ہے اسے کوئی واضح اور دوٹوک جواب نہیں دیا او ریہ جھوٹ بھی بولاہے کہ وہ شیعہ نہیں۔ کیونکہ وہ فرقہ باطنیہ کی قرامطہ شاخ سے تعلق رکھتے ہیں، جو غلو کرنے والے شیعہ کا بدترین فرقہ ہے۔

سوال۵:  نماز کیسے ہوتی ہے؟‘‘ (یعنی اس کا طریقہ کیا ہے؟)

جواب:  ’’جب ہم میت پر نماز (جنازہ) پڑھتے ہیں تو ہم قبلہ کی طرف منہ کرتے ہیں، لیکن عمومی نماز ذکر کا حلقہ ہے۔‘‘

چوتھا اور پا نچواں سوال غیر واضح ہے اور ناقص بھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ سوالات کو عمداً اس انداز میں پیش کیا گیا ہے تاکہ درزی پہلے مجمل جواب دے سکے اور ثانیاً اصل جواب سے فرار اختیار کرکے نماز کے مفہوم میں تحریف کرسکے اور اس نے ایسا ہی کیا ہے۔ اس نے کہا: ’’ہم نماز پڑھتے ہیں کیونکہ نماز واجب ہے اور اس لئے کہ وہ بندے اور خالق کے درمیان تعلق کو مظبوط کرتی ہے۔‘‘

اس کے علاوہ وہ اس چیز کے بیان میں بھی موضوع سے ہٹ گیا ہے، کہ نماز سے کیا مراد ہے؟ (اور عام نماز کے بجائے نماز جنازہ کی بات شروع کردی ہے)۔ اس نے کہا:’’جب میت پر نماز پڑھتے ہیں تو قبلہ کی طرف منہ کرتے ہیں۔‘‘

نمازیں اس انداز سے پڑھنے کا منکر ہے جس طرح ہمیں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سکھایا ہے۔ اسی طرح پہلے سوال کے جواب میں اس نے جو کہا تھا کہ ہمارا دین اسلام ہے‘‘اس کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوگیا۔

سوال۶:  ’’کیا تم نماز کے وقت رکوع کرتے ہو؟‘‘

جواب:  ’’ہمارے ہاں رکوع نفل ہے۔‘‘

سوال:  ’’کیا تم نماز کے وقت سجدہ کرتے ہو؟‘‘

جواب:  ’’ہاں، ہم سجدے کرے وقت سجدہ کرتے ہیں کیونکہ یہ فرض ہے اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔‘‘ چھٹا اور ساتواں سوال بھی ناقص اور غیر واضح ہیں۔ اس کے باوجود دروزی نے رکوع کی فرضیت کا انکار کیا ہے اور کہا ہے وہ نفل ہے۔ سجدے کے فرض ہونے کا اقرار کیا ہے لیکن اس کی کیفیت کو واضح نہیں کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ سائل اور جواب دینے والے میں پہلے سے گٹھ جوڑ ہے۔ یا سوال کے جواب میں کہی ہے کہ ’’ہمارا دین اسلام ہے‘‘ کیونکہ بدایۃ معلوم ہے۔ لہٰذا یہ شخض نص اور اجماع کی روشنی میں جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔

سوال۸:  ’’کیا آپ لوگ روزوں کے مہینے میں روزے رکھتے ہیں؟‘‘

جواب:  ’’ہاں‘‘ بعض لوگ‘ خصوصاً معمر افراد روزے رکھتے ہیں، لیکن ہمارے عرف میں ظاہر روزہ نفل ہے اور حقیقی روزہ یعنی خود کو حرام کاموں سے بچانا لازمی فریضہ ہے، جو زندگی بھر کے لیے خاص اوقات میں نہیں۔ کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی حکم عدولی کرتے ہوئے ظاہری روزہ کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘

اس آٹھویں سوال کے جواب میں دروزی نے رمضان کے فرض روزوں کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’ظاہری روزہ نفل ہے‘‘ اور حقیری روزے کا مطلب نفس کو حرام سے بچانا بتایا ہے اور یہ اسلام کی بدیہی تعلیم کا انکار ہے اور قرآن کے ذمہ سے ساقط کردیا ہے۔ یہ انکار نص اور اجماع کی روشنی میں صریح کفر اور ارتداد ثابت ہوتا ہے۔ اور اس سے اس کے اس دعویٰ کی تردید ہوجاتی ہے کہ ان لوگوں کا دین اسلام ہے۔

سوال۹:  ’’کیا آپ لوگ حج کرتے ہیں؟‘‘

جواب:  ’’ہمارے ہاں حج بھی نفل ہے کیونکہ آیت کریمہ فرماتی ہے:

﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا﴾ (آل عمران۳؍۹۷)

’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پاسکتے ہیں بیت اللہ کاحج فرض کر دیا ہے یہاں مَنِ اسْتَطَاعَ کے لفظ سے ان لوگوں کے لئے کھلی گنجائش ثابت ہوتی ہے جو فریضۂ  حج ادا نہیں کرسکتے۔‘‘

نویں سوال کے جواب میں بھی اس نے وہی طریقہ اختیار کیا ہے جس طرح رمضان کی فرضیت کا انکار کیا تھا۔ اسی طرح حج کے فریضہ کا بھی انکر کیا ہے۔ اس نے کہا ہے’’ہمارے ہاں حج نفل ہے‘‘ اس طرح اس کی فرضیت کا انکار کیا ہے اور یہ کفر ہے کیونکہ یہ دین کی بدیہی چیز کا انکار ہے۔ پھر اس نے آیت لاکر دھوکا دیا ہے جو طاقت رکھنے والے پر حج کی فرضیت کو صراحت کے ساتھ ثابت کرتی ہے۔ گنجائش تو اس کے لئے ہے جو خودحج کرسکتا ہو نہ کسی کو نائب بنا کر فریضہ حج سے سبکدوش ہوسکتا ہو۔ اس سے پہلے سوال میں کہی گئی اس بات کی بھی تردید ہوتی ہے کہ دروز کا دین اسلام ہے۔

سوال۱۰:  ’’کیا تم میں سے کسی نے مکہ کا حج کیا ہے؟‘‘

جواب:  ’’ہاں ہم میں سے بہت سے لوگوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کی ہے۔‘‘

اس (دسویں) سوال میں بھی ابہام اور نقص ہے جس کا مقصدجواب دینے والے کو بھاگنے کا راستہ دینا اور بات پلٹنے کا مقع مہیا کرنا ہے اور ج واب دینے والے نے بھی مجمل جواب دیا ہے جس کامطلب مکہ عام سفر بھی لیا جاسکتا ہے یعنی کسی بھی شہر میں سیروتفریح کے لئے جاتے ہیں۔ اسی لئے اس نے کہا:’’ہم میں سے بہت سے لوگوں نے مکہ اور مدینہ کی زیارت کی ہے۔‘‘ یہی باطنیہ اور قرامطہ کا دین ہے۔ ان کا عادت بھی فریب اور تقیہ کی ہے جس طرح کہ پہلے بیان ہوا ہے۔

سوال۱۱:  ’’تم لوگ میت کی نماز جنازہ کیسے پڑھتے ہو؟‘‘

جواب:  ’’ہم میت کی نماز جنازہ اہل سنت کی طرح شافعی طریقے پر پڑھتے ہیں، آپ کو لمبی چوڑی بحث کی مشقت سے بچانے کے لئے ہم آپ کی خدمت میں یہ کتاب پیش کرتے ہیں جو ’’عقل جلیل کے مشائخ‘‘ کی طرف سے شائع کی گئی ہے۔ وہ ہمارے توحیدی مذہب کا بلند ترین مرجع ہیں۔ اس کتاب سے آپ کو نماز جنازہ کے متعلق ہمارے مذہبی طریقوں، شادی کی دستاویزات تحریر کرنے ‘ وفات کی صورت میں میراث کے احکام ودیگر مسائل کا علم ہوگا۔‘‘ سائل نے اس کتاب کی ورق گردانی کی اور جواب دینے والے کو مخاطب کرکے کہا: ’’تم واقعی مسلمان ہو۔‘‘

اس سوال کے جواب میں جھوٹ بھی ہے اور تناقص بھی۔ کیونکہ تیسرے سوال کے جواب میں دروز کے اہل سنت میں سے ہونے کی مطلقاً نفی کرچکا ہے اور یہاں کہہ رہا ہے کہ وہ شافعی مذہب کے مطابق نماز جنازہ پڑھتے ہیں۔ حالانکہ امام شافعی اہل سنت میں سے ہیں پھر ان کی نماز شافعیؒ کے مذہب پر کیسے ہوسکتی ہے؟ پھر اس نے جواب کو واضح کرنے سے بھی گریز کیا ہے اور کسی مبہم کتاب کا حوالہ دے دیا ہے جس کا نام بھی نہیں بتایا، تاکہ لوگ اس کتاب کو پڑھ کر اس کے دعویٰ کا سچ جھوٹ معلوم نہ کرسکیں کہ ان کے ہاں نماز جنازہ واقعتا شافعی مسلک کے مطابق ہے یا نہیں۔ پھر اس نے کہا ہے کہ اسی فرضی سنی عالم نے کتاب کی ورق گردانی کرنے کے بعد کہا: ’’تم واقعی مسلمان ہو‘‘ اور ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اس قسم کی جعلی گفتگو میں اس قسم کے اعتراف کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ یہ محض دھوکا، فریب اور دروزی مذہب کا جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔

اگر درز کا مذہب واقعی اسلام کے مطابق ہوتا تو وہ اس کا اظہار کرتا اور کتاب کا نام بتاتا تاکہ حقیقت معلوم کرنے کے لئے اس کی طرف رجوع کیا جاسکے۔ لیکن اسے رسوائی کا خطرہ محسوس ہوا، اس لئے حسب عادت کتاب کی وضاحت نہیں کی۔ اس فرقے کی یہی عادت ہے۔ اللہ محفوظ رکھے۔

سوال۱۲:  ’’آپ لوگوں کے ہاں ترکہ (میراث) تقسیم کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

جواب:  ’’ہمارے ہاں ترکہ کی تقسیم کا طریقہ شرعی فریضہ کے مطابق ہی ہے جب کہ میت نے وصیت نہ چھوڑی ہو۔ البتہ جب اس نے وصیت چھوڑی ہو تو وراثت اس وصیت کے مطابق تقسیم ہوگی۔ کیونکہ ہمارے ہاں وصیت فرض ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ تاکہ آیت مبارکہ:

﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ (النساء۴؍۱۱)

’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے، مرد کے لئے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے اور اس آیت پر عمل کرتے ہوئے کہ بعد وصیۃ یوصی بھا أودین وصیت جو کی گئی ہو اس کے بعد اور قرض کے بعد۔‘‘

سوال:۱۳  ’’آپ کے ہاں وصیت کا کیا طریقہ ہے؟‘‘

جواب:  ’’صیت کاطریقہ ہے کہ انسان کو اپنے مال میں جس کے لئے چاہے وصیت کرنے کا پورا پورا حق ہے خواہ کوئی رشتہ دار ہو یا نہ ہو۔‘‘

سوال۱۴:  ’’اہل سنت لے مذہب میں تو وارث کے لئے وصیت کرنا منع ہے، پھرآپ کیوں وارث کے وصیت کرتے ہیں۔‘‘

جواب:  ’’ہم وارث کے کلئے وصیت کرکے اس آیت مبارکہ پر عمل کرتے ہیں:

﴿کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَ کُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَ نِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ (البقرہ۲؍۱۸۰)

’’جب تم میں سے کسی کو موت آئے تو اگر اس نے مال چھوڑا ہے تو (اس پر) والدین اور اقارب کے لئے وصیت کرنا فرض کردیا گیا ہے۔‘‘

 اس آیت شریفہ سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ وصیت وارث اور غیر وارث سب کے لے جائز ہے اور ہم اسی طریقہ پر عمل پیرا ہیں۔

دروزی نے ان تین سوالوں کے جواب میں کہا ہے کہ ان کے ہاں وصیت شرعی فریضہ کے مطابق ہے لیکن اس کی تعین کسی وارث یا غیر وارث کے لئے سارے مال کی وصیت کر کے جائے تو ترکہ کی تقسیم میں وصیت کا اعتبار کیا جائے گا (شرعی اصولوں کا نہیں) حالانکہ شریعت نے اس کے برعکس صاف الفاظ میں یہ حکم دیا ہے کہ وارث کے لئے وصیت جائز نہیں اور اس مسئلہ پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سوال کے جواب میں اس نے جھوٹ بولا ہے کہ دروز کا دین اسلام ہے۔

آیت مبارکہ: یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ … اور اس کے بعد والی آیت میں میراث کے شرعی طور پر مقرر حصوں کا بیان ہے اور مختلف وارثوں کے حصے تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں اور اس آیت میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ اللہ کی اس مقررہ حد سے تجاوز نہ کیا جائے جو اللہ نے ہر وارث کے لے مقرر کردی ہے۔ لہٰذا ہمارے لئے یہ اختیار باقی نہیں چھوڑ گیا کہ مذکورہ دو آیتوں کے مذکور واثوں کے متعلق وصیت کرنیں، نہ ہر وارث کے لئے مقرر حصہ میں ہمیں اختیار دیا گیا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے وارثوں کی قسمیں بیان کی ہیں اور ہر قسم کے وارث کا حصہ بیان کر دیا ہے اور ہمارے لئے اس پر عمل کرنا لازمی قرار دیا ہے۔ اللہ عزوجل نے ان آیات میں یہ بھی بتایا ہے کہ ترکہ وارثوں میں تقسیم کرنے سے پہلے میت کے ذمہ جو قرض ہے، وہ ادا کیا جائے گا اور ایک تہائی مال کی حد تک اس نے غیر وارث افراد کے لئے جو وصیت کی ہے اس پر عمل کیا جائے۔ جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی وضاحت فرمادی ہے۔ لہٰذا دروزی نے ان دو آیتوں سے استدلال کرنے میں اجمال اور تلبیس سے کام لیا ہے اور ترکہ کی تقسیم میں وصیت سے جو مراد ہے اس کی غلط تشریح کی ہے اور تقسیم سے قبل تقسیم کے معاملے کو الجھانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے سنت نبوی سے بالکل اعراض کیا ہے جس سے قرآن مجید میں موجود وصیت کا مطلق حکم مقید ہوجاتا ہے حالانکہ ا س کا لحاظ کرنا ضروری تھا اور اس مسئلہ میں اس نے مسلمانوں کے اجماع کی طرف بالکل توجہ نہیں کی اور غلط استدلال کرنے والے یوں ہی کیا کرتے ہیں کہ کلام کو مجمل رکھتے ہیں اور مخاطب کو شبہ میں ڈال کر باطل کوحق کے رنگ میں پیش کرکے دھوکا دیتے ہیں۔ اسی طرح وہ کج روی کا طریقہ اپناتے اور قرآن کے الفاظ کو صحیح معانی سے ہٹا کر خود ساختہ غلط مفہوم کی طرف لے جاتے ہیں۔ اسی طرح قولی اور عملی طور پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بھی مخالفت کرتے ہیں اور صحابہ کرام وائمہ دین کے اجماع کی مخالفت کرکے اپنے دل کی خواہش پوری کرتے اور اپنے جیسوں کی تائید کرتے ہیں۔

سوال۱۵:  ’’کیا تم لوگ بیک وقت ایک سے زیادہ عورتیں نکاح میں رکھتے ہو؟‘‘

جواب:  ’’ہرگز نہیں، ہمارے مذہب میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا جائز نہیں، کیونکہ قرآن مجید کی آیت ہے:

﴿وَخَلَقْنٰکُمْ أَزْوَاجاً﴾ (النساء)

’’اور ہم نے تمہیں جوڑے جوڑے پیدا کیا۔‘‘

اور:

﴿وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ﴾ (الذاریات۵۱؍۴۹)

’’ہم نے ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا۔‘‘

اور:

﴿فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا﴾ (النساء۴؍۳)

’’اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ انصاف نہیں کرسکو گے تو ایک سے (نکاح کرو۔)‘‘

اور:

(وَلَنْ تَعْدِلَوْا أَبَدًا عَلَی النِّسَائِ وَِأنْ حَرَصْتُمْ)

’’اور تم عورتوں میں کبھی انصاف نہیں کرسکو گے اگرچہ تم (انصاف ک) حرص کرو۔‘‘

چونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ دوعورتوں میں عدل ممکن نہیں ا س لئے صاحب شریعت نے ہم پر ایک کے ساتھ رہنا واجب کردیا ہے۔‘‘

دروزی نے سوال (۱۵) کے جواب میں اس چیز کا انکار کیا ہے جس کا دین میں وجود بدیہی ہے۔ یعنی ایک سے زیادہ بیویوں کا جواز اور اپنے باطل مؤقف پر ان چیزوں سے دلیل لانے کی کوشش کی ہے جس سے ان کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس نے ارشاد ربانی تعالیٰ: وَخَلَقْنٰکُمْ أَزْوَاجاً اور ارشاد ربانی تعالیٰ: وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْن سے استدلال کیا ہے۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اشیاء کی تخلیق میں اپنی تکوینی سنت کو بیان کیا ہے کہ اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ جانداروں کی ہر نوع کو۔ خواہ وہ حیوانات ہوں یا نباتات‘ مذکر اور مؤنث پیدا کیا ہے۔ ہر ایک میں دو مقابل انواع پیدا کی ہیں تاکہ ان کے ملاپ سے نسل قائم رہے اور زندہ مخلوقات باقی رہیں اور مختلف فوائد حاصل ہوں۔ ان آیات کا تعددازدواج سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ لہٰذ ان سے متعدد بیویوں کے ممنوع ہونے پر استدلال کرنا تحریف اور قرآن کے الفاظ کو من مانا مفہوم دینے کے متراف ہے۔ باقی رہی آیت کریمہ:

﴿فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ﴾ (النساء۴؍۳)’’پس اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہیں کرسکو گے تو ایک سے (نکاح کرو) یا  جو (لونڈیاں) تمہاری ملکیت ہیں (ان سے جائز تعلق قائم کرو۔)‘‘

اس آیت کا ابتدائی حصہ صاف طور پر ایک سے زیادہ بیویاں جائز ہونے کی دلیل ہے جب کہ ان کے ساتھ رہنے سہنے، سلوک ا ور خرچ وغیرہ میں ظلم ہوجانے کا خطرہ نہ ہو اور یہ چیز ممکن ہے اور مرد کے بس میں ہے۔ باقی رہا فرمان الٰہی:

﴿وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآئِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ﴾(النساء۴؍۱۲۹)

’’اور تم ہرگز عورتوں کے درمیان انصاف نہیں کرسکو گے، اگرچہ اس کی حرص کرو، تو (ایک عورت کی طرف سے) بالکل ہی کنارہ کش نہ ہوجاؤ کہ اسے اس طرح چھوڑ دو جس طرح (درمیان میں) لٹکی ہوئی (ہوتی ہے)۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ دل کی محبت او رقلبی میلان میں عدل ممکن نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کے ساتھ بردباری کے مطابق وقت گزارنے اور اخراجات مہیا کرنے میں عدل نہیں ہوسکتا۔ اس نکتہ کی وضاحت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے ارشادات سے بھی فرمائی ہے اور عمل سے بھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے متعدد خواتین سے نکاح کیا اور ان کے درمیا رہن سہن اور اخراجات وغیرہ کے امور میں پوری طرح انصاف فرمایا۔ ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’اے اللہ! جو کچھ میرے بس میں ہے اس میں تو میں نے یہ تقسیم کر دی ہے اور جو چیز تیرے قبضے میں ہے، میرے قبضے میں نہیں، اس میں مجھے ملامت نہ فرمانا۔‘‘

متعدد بیویاں کرنے کے جواز پر صحابہ کا اجماع ہے اور انہوں نے اس پر عمل بھی کیا، حالانکہ قرآن مجید ان کی زبانوں میں نازل ہوا تھا اور وہ لوگ اس دروزی اور اس جیسے دوسرے خواہش پرستوں سے زیادہ قرآن مجید کو سمجھتے تھے۔ جبکہ یہ تو نصاریٰ اور ملحدین کے ہم قدم چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور بزعم خوش صنف نازک کو راضی رکھنا چاہتے ہیں۔

دروزی نے چوتھی آیت کے الفاظ میں تحریف کی ہے۔ صحیح آیت اس طرح ہیں:

وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآئِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ  اس نے آیت میں اپنے پاس سے الفاظ شامل کردئے ہیں۔

سوال۱۶:  ’’کیا تمہارے نزدیک اطلاق جائز ہے۔‘‘

جواب:  ’’ہاں جائز اسباب کی بنا پر طلاق جائز ہے۔ البتہ جو شخص کسی جائز سبب کے بغیر یا مطلقہ کی رضا مندی کے بغیر طلاق دیتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی تمام املاک اور مال ودولت کا نصف پیش کرے۔ لیکن اگر طلاق عورت کے کسی جرم کی وجہ سے ہوئی ہے تو پھر عورت اپنی آدھی جائیداد اور دولت مرد کو ادا کرے گی۔‘‘

اس سوال کے جواب میں دروزی نے طلاق کو جائز تسلیم کیا ہے لیکن جائز اسلوب کی شرط لگائی ہے۔ لیکن چونکہ دروز کا اصول ہے کہ تقیہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے مذہب کی اصل حقیقت کو پوشیدہ رکھا جائے اور مخالفین سے بات کرتے ہوئے وہ اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے وہ اسی اصول پر عمل کرتے ہیں، اس لئے یہاں بھی اس نے ان ’’جائز اسباب‘‘ کی وضاحت نہیں کی۔ پھر اس پر ایک اور گل کھلایا ہے کہ اپنے دل سے شریعت سازی کرتے ہوئے خاوند کو حک دے دیا کہ اگر اس نے باہمی رضا مندی کے بغیر جائز سبب کے بغیر طلاق دی تو بیوی کو آدھی جائیداد دے اور عورت پر بھی یہ واجب کردیا ہے کہ ا سکی کسی غلطی کی وجہ سے طلاق ہو تو وہ اپنی آدھی جائیداد خاوند کو دے۔ اسلام میں طلاق کے موقع پر خاوند اور بیوی کے جو حقوق رکھے گئے ہیں، یہ قانون کی صریح خلاف ورزی کرتا ہے اور اس طرح اس بات کی تردید کرتا ہے جو پہلے سوال کے جواب میں کہی گئی کہ ’’ہمارا دین اسلام ہے۔‘‘

سوال۱۷:  ’’سناہے کہ آپ تناسخ کا عقیدہ رکھتے ہیں؟ آپ کے اس عقیدہ کی بنیاد کیا ہے؟

جواب:  ’’ہاں ہم تناسخ کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اس عقیدہ کی بنیاد دوچیزوں پر ہے۔ ایک نقلی دلیل اور ایک عقلی دلیل۔ نقلی دلیل تو یہ آیت کریمہ ہے:

﴿کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ کُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ﴾ (البقرہ۲؍۲۸)

’’تم اللہ کے ساتھ کس طرح کفر کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے تو اس نے تمہیں زندہ کیا، پھر وہ تم کو موت دے گا، پھر وہ تم کو زندہ کرے گا، پھر تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘

اس آیت کریمہ اور بعض دوسری آیات کی تفسیر ہم اس عقیدہ کے مطابق کرتے ہیں۔ عقلی دلیل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ مخلوق کے درمیان عدل کرنے والا ہے، پھر اس نے ان کے درمیان امیر، غریب‘ خوش قسمت‘ بدنصیب‘ خوبصورت اور بدصورت کا اتنا فرق کیوں رکھا؟ جب کہ لوگ اس دنیا میں نئے پیدا کئے جاتے ہیں، تو اس عظیم فرق کو دیکھتے ہوئے اور اس پختہ ایمان کی بنیاد پرکہ اللہ تعالیٰ انتہائی عادل ہے اور مذکورہ بالا آیت کی وجہ سے ہم تقمص (نتاسخ) کا عقیدہ رکھتے ہیں۔‘‘

دروزی نے سوال (۱۷) کے جواب میں دروزی نقطہ نظر کے مطابق تقمص(تناسخ = اواگون) کے عقلی اور نقلی دلائل ذکر کئے گئے ہیں۔ پہلے مکالمہ کے چوتھے پیراگراف میں تقمص کیمفہوم کی وضٓحت اور ان کے نقلی دلائل پر بحت ہچوکی ہے اور وہا ں بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ تصور محض وہم گمان پر مبنی ہے۔ کیونکہ موت کے بعد زندگی‘ قیامت کے دن کی جزا وسزاء‘ ا سکی نوعیت وکیفیت‘ یہ سب کے سب وحی کے ذریعے ہی معلوم ہوسکتے ہیں۔ ان کی تعیین می ں عقل کا کوئی دخل نہیں۔ انہوں نے جو عقلی دلیل پیش کی ہے کہ اللہ کا عدل اور حکمت کامل ہے اور مخلوق کے کردار، اخلاق‘ اعمال اور روزی میں فرق ہے اور اس کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر جان کو اس کے اعمال کا بدلہ دینے کے لئے دوبارہ دنیا میں پیدا کرے تاکہ ہر جان کو اس کا بدلہ مل جائے اور اس کاطریقہ یہ ہے کہ وہ مرنے والے کیروح کسی اور بدن میں ڈال کر دنیا میں بھیجتا ہے تاکہ اس وجود میں اسے اسکی سزا مل جائے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ بالا دلائل میں سے کسی سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مرنے کے بعد روح کسی اور جسم میں داخل ہوجاتی ہے، بلکہ یہ صرف ظن وتخمین ہے۔ اس جزاوسزا کی صحیح تفصیل اور کیفیت قرآن وحدیث کی نصوص میں موجود ہے۔ کہ یہ جزا اور سزا اس دنیا کے خاتمے کے بعد ایک اور دن میں ملے گی جس کا نام حشر (قبروں سے اٹھ کر جمع ہونے) اور قیامت (موت سے اٹھنے) کا دن ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اس کے کسی خاص عمل کا بدلہ دنیا میں جیسے چاہتے ہیں دے دیتے ہیں، لیکن اس طرح نہیں جس طرح دروزیوں نے تناسخ کے عقیدہ میں متعین کردیا۔

سوال۱۸:  ’’کیا آپ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد خلافت کا حق علی سے زیادہ عمر، ابو بکر اور عثمان کا تھا یا علی کا حق ان سے زیادہ تھا؟‘‘

جواب:  ’’یہ چیز تو اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن یہ عقیدہ ہے کہ عمریں متعین ہیں جس طرح آیت میں مذکور ہے:

﴿وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِِذَا جَائَ اَجَلُہَا﴾ (المنافقون۶۳؍۱۱)

’’اللہ کسی جان کو مؤخر نہیں کرتا جب اس کا مقرر وقت آجائے۔‘‘

چونکہ ابوبکر، عمر او رعثمان رضی اللہ عنہما علی رضی اللہ عنہما کی زندگی میں فوت ہوئے ہیں اس لئے اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعدعلی خلیفہ بن جاتے تو ابوبکر، عمر اور عثمان ان کی زندگی میں فوت ہوجاتے اور اس طرح کہ امت سے متعلق اپنا کردار ادا نہ کرسکتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی مشیت کا تقاضا یہ تھا کہ (ان میں سے) ہر ایک اپنے اپنے وقت میں امت کی خدمت کا فرض ادا کرے اور یہ سب اللہ کی تقدیر کے مطابق تھا۔‘‘

دروزی نے سوال (۱۸) کا جواب دینے سے پہلو تہی کی ہے اور ’’اللہ اعلم‘‘ کہہ کر تقیہ کرلیا ہے جس طرح اس کی اور اس کی قوم کی یہ عادت ہے کہ غیروں سے اپنے مذہب کی حقیقت چھپالیتے ہیں۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہما کی خلافت خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے بعد ہونے کا ایک خود ساختہ فلسفہ بیان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ تینوں علی سے پہلے فوت ہوجائیں گے اس لئے ان کی خلافت علی سے پہلے کر دی تاکہ ہر کوئی امت کی خدمت میں اپنا کرداد ادا کرسکے، اس لئے اللہ کی مشیت یہ ہوئی کہ خلافت اس معروف تربیت سے واقع ہو۔ اس فلفسلہ میں اصل سوال کے جواب سے گریز کیا گیا ہے۔ سوال تو شرعی حکم کا تھا اس نے واقعاتی ترتیب کی حکمت بیان کردی۔ اس کے باوجود اس کا یہ جواب اس عقیدہ کے خلاف ہے جو وہ خلفائے ثلاثہ کے متعلق رکھتے ہیں کیونکہ وہ تو اصحاب ثلاثہ رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہتے ہیں اور علی کو معبود مانتے ہیں۔ لہٰذا یہ پورے کا پورا جواب تقیہ کا عملی نمونہ اور ہیرا پھیری پر مشتمل ہے اور اس کے بیان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کا حضرت علی رضی اللہ عنہما سے پہلے خلیفہ بننا ان کی فضیلت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اللہ کی مرضی کے مطابق ایک تکوینی معاملہ تھا اور یہ تصور اس عقیدہ کے برعکس ہے جس پر اہل سنت کا اجماع ہے۔

سوال۱۹:  ’’کیا تم لوگ ابو بکر، عمر، عثمان اور علی کو ان کی خلافت کی ترتیب سے افضل مانتے ہو؟‘‘

جواب:  ’’ہاں! لیکن اس کے باوجود ہم انہیں درجہ میں کسی سے افضل نہیں کہتے بلکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ علی ان سے اعلیٰ ہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حجۃ الوداع میں خطبہ کے دن فرمایا تھا:

(مَنْ کُنْتُ أَنَا مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہ،اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاَہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ………)

’’جس کا میں مولیٰ ہوں، اس کا علی بھی مولیٰ ہے۔ یا اللہ! جو اس سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے، تو اس سے دشمنی رکھ۔‘‘

دروزی کے اس سوال (۱۹) کے جواب میں تناقص پایا جاتا ہے اور تینوں خلفائے راشدین جناب ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی فضیلت کا انکار بھی ہے۔ پہلے اس نے کہا : ’’ہاں‘‘ یعنی ہم خلفائے اربعہ کو ان کی خلافت کی ترتیب سے افضل ماتنے ہیں۔‘‘ پھر کہا: ’’ہم انہیں درجہ میں کسی سے افضل نہیں سمجھتے۔‘‘ اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ وہ انہیں کائنات میں کسی ایک سے بھی اچھا نہیں سمجھتے۔ پھر اس نے کہا علی رضی اللہ عنہ ان سب سے افضل ہیں (f) حالانکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہما نے حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو اپنے آپ سے افضل فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ امت کا اجماع ہے کہ جناب ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما جناب حضرت علی رضی اللہ عنہما سے افضل ہیں۔ اور اکثر علماء کے نزدیک حضرت عثمان رضی اللہ عنہما بھی ان سے افضل ہیں۔ علی رضی اللہ عنہما کی فضیلت کی دلیل کے طور پر یہ حدیث ذکر کی گئی ہے:

(مَنْ کُنْتُ أَنَا مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہ،اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاَہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ………)

’’جس کا میں مولیٰ ہوں، اس کا علی بھی مولیٰ ہے۔ یا اللہ! جو اس سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے، تو اس سے دشمنی رکھ۔‘‘

اس حدیث کے متعلق شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ فرمایا:

’’یہ روایت کہ جس کا میں مولیٰ ہوں، علی بھی اس کا مولیٰ ہے، حدث کی بنیادی کتابوں میں سے ترمذی کے سوا کسی میں نہیں ہے۔ وہاں بھی صرف اتنا ہی جملہ مروی ہے:

(مَنْ کُنْتُ أَنَا مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہُ)

’’جس کا میں مولیٰ ہوں، اس کا علی بھی مولیٰ ہے۔ ‘‘اگلا جملہ ’’یا اللہ جو اس سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی رکھ… الخ‘‘

وہ حدیث میں نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ سے اس جملہ کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’یہ کوئی اضافہ ہے۔‘‘

یہ جملہ کئی لحاظ سے جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔ جن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ حق نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے سوا کسی فرد معین کے ساتھ لازم وملزوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر ہر بات میں اس کی اتباع بھی فرض ہوتی۔ (اور ہر بات صرف نبی کی ماننا فرض ہوتی ہے) اور یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہما سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما بلکہ خود ان کے متبعین کا کئی مسائل میں اختلاف ہوا، جن میں نص فریق ثانی کی موافقت میں دستیاب ہوئی۔ مثلاً اس عورت کا مسۂ  جس کا خاوند فوت ہوجائے جب کہ یہ عورت امید سے ہو۔

اور یہ جملہ

(اَللّٰھُمَّ انْصُرْ مَنْ نَصَرَہُ)

’’اے اللہ! جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر…‘‘

واقعات سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ صفین میں آپ کی حمایت میں جو لوگ آپ کے ساتھ مل کر لڑے انہیں فتح حاصل نہیں ہوئی اور کچھ لوگ آپ کی حمایت میں نہیں لڑے لیکن وہ (دوسرے موقعوں پر) فتح سے محروم نہیں رہے مثلاً سعد رضی اللہ عنہما جنہوں نے عراق فتح کیا، آپ کی حمایت میں نہیں لڑے تھے۔ اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے حامی اور بنو امیہ جو خود حضرت علی رضی اللہ عنہما کے خلاف لڑتے رہے، انہوں نے کافروں کے بہت سے علاقے فتح کئے اور اللہ نے ان کی مدد فرمائی۔

اسی طرح جملہ

(اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاَہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ)

’’اے اللہ! جو سے دوستی رکھے تو اس سے دوسرے رکھ اورجو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ۔‘‘

یہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ قرآن مجید نے بیان کیا ہے سب مومن بھائی بھائی ہیں حالانکہ وہ آپس میں لڑے بھی ہیں، ایک دوسرے پر زیادتی بھی کرتے ہیں اور باقی رہا یہ جملہ:

(مَنْ کُنْتُ أَنَا مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہُ)

’’جس کا میں مولیٰ ہوں، اس کا علی بھی مولیٰ ہے۔ ‘‘

بعض محدثین نے تو اسے ضعیف قراردیا ہے مثلاً امام بخاری وغیرہ نے اور بعض نے حسن کہا ہے۔ پس اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ جملہ فرمایا بھی ہے تو اس سے مراد ایسی دوستی نہیں ہوتی ہے اور ’’مولاہ‘‘ (دوستی) کا لفظ ’’معاداہ‘‘ (دشمنی) کے مقابلے میں بولاجاتا ہے اورظاہر ہے کہ غیرمسلموں کے خلاف مومنوں سے دوستی رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ اس سے ناصبیوں کی تردید ہوتی ہے۔‘‘ یہاں تک ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام ہے۔

سوال۲۰:  ’’اس گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کے ہر عقیدہ کی بنیاد کسی آیت یا حدیث شریف پر ہے۔‘‘

جواب:  ’’ہم رائے اور قیاس پر عمل نہیں کرتے، بلکہ جس چیز کا ہمیں حکم دیا جاتا ہے اسی پر عمل کرتے ہیں‘‘

اس سوال اور جواب میں مذکور اعتراف کہ دروز کے ہر عقیدہ کی بنیاد کسی نہ کسی آیت یا حدیث پر ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ کیونکہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ساری گفتگو جعلی ہے اور اگر اسے حقیقی بھی فرض کر لیا جائے تو مسلمانوں کا ہر مناظر اہل سنت کی نمائندگی نہیں کرتا اور دروزی کا یہ دعویٰ کہ دروز رائے اور قیاس پر عمل نہیں کرتے، حقائق اس کو جھٹلاتے ہیں کیونکہ ان کے عقیدہ میں الحاد اور عمل میں خواہش نفس کو دخل ہے اور اس جواب میں ہیرا پھیری اور تقیہ بھی ہے۔ اس نے کہا ہے: ’’ہمیں جس چیز کا حکم ملتا ہے ہم وہی کرتے ہیں‘‘ اس میں فعل مجہول کے صیضہ سے بات کی گئی ہے تاکہ یہ واضح نہ ہوسکے کہ حکم کس کی طرف سے ملتا ہے۔ کیا وہ حاکم بامرہ اور دوسرے (بقول ان کے) معصوم ائمہ کی طرف سے ہوتا ہے یا کسی اور کی طرف سے؟ اور اس میں تعجب نہیں کہ تقیہ ان کا امتیازی نشان ہے، ا س پر عمل کرنے میں کسر نہیں چھوڑتے۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 265

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ