سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(239) پہلے مکالمہ میں جو کذب بیانی اور فریب ہے اس کی وضاحت

  • 8210
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1160

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پہلے مکالمہ میں جو کذب بیانی اور فریب ہے اس کی وضاحت


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱)  پہلے مکالمہ کے شروع میں مذکور ہے کہ یہ بات چیت ابو ازہر یونیورسٹی کے ایک درزی طالب علم شیخ شوقی حمادہ اور ازہر کے امام شیخ مصطفی رافعی کے درمیان ہوئی‘ جنہیں بعد میں ’’ازھر کے شیخ المشائخ‘‘ کے لقب سے بھی یاد کیا گیا ہے۔

اس کلام میں خلط وتلبیس بھی ہے اور کذب وافترا بھی۔ خلط اس طرح کہ امام ازہرن صاحب کو کہا جاتا ہے جوازہر یونیورسٹی کی جامع مسجد میں پانچویں نمازیں پڑھاتے ہیں اور بسا اوقات جمعہ کا خطبہ بھی دیتے ہیں۔ ان کی ڈیوٹی کا تعلق وزارت اوقاف سے ہے اور ازھر کے شیخ المشائخ نہ تو نماز کے امام مقرر ہیں نہ جمعہ کا خطبہ دیتے ہیں بلکہ وہ ازھر کے تعلیمی امور کے نگران ہیں۔ ان کا عہدہ نماز کے امام سے اعلیٰ مانا جاتا ہے۔ (یعنی یہ وہ الگ الگ شحصیتیں ہیں، جب کہ مذکورہ مکالمہ میں انہیں ایک شخص قرار دیا گیا ہے۔)

اس میں جھوٹ اور افترا یہ ہے کہ ازہر کی تاریخ میں کسی دور میں ایک دن کے لئے بھی مصطفی رافعی نام کا کوئی شخص جامع ازھر کا شیخ (چانسلر) نہیں رہا، نہ ازہر کے مشائخ کا استاد رہا۔ یہ تاریخی حقیقت اس دعویٰ کے جھوٹا ہونے پر عظیم ترین شاہد ہے اور یہ اس بات کی پختہ ترین دلیل ہے کہ اس پمفلٹ کو شائع کرنے ولا حقائق کی بنیاد پر نہیں لکھ رہا، بلکہ یہ تمام مکالمہ جعلی اور فرضی ہے اور یہ کوئی عجیب بات نہیں کیونکہ درزی باطنی فرقہ کی شاخ ہیں جن کا کام بھی جھوٹ‘ فریب اور تقیہ ہے اور کسی چیز کا اپنے معدن میں پایا جانا باعث تعجب نہیں ہوتا۔

(۲)  درزی نے اس فرضی شیخ مصطفی رافعی سے سوال کیا: ’’دروز کے متعلق جناب کی کیا رائے ہے؟‘‘

شیخ رافعی نے جواب میں کہا: ’’درزی فرقہ کے لوگ اپنے رسم ورواج اور اخلاق وعادات کے لحاظ سے تو مسلمان ہیں۔ البتہ مذہبی طور پر ہم انہیں مسلمان شمار نہیں کرتے۔‘‘

اس قسم کا جواب کوئی ایسا عام انسان بھی نہیں دے سکتا جو اسلام کے عقائد واحکام سے واقف ہو اور دروز کے عقائد‘ کردار وار حالات سے واقف ہو۔ چہ جائیکہ ازھر کے شیخ المشائخ اس قسم کا جواب دیں اور اسلام کے عقائد اور دروز کی تاریخ سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ ظاہر میں مسلمان ہیں نہ حقیقت میں۔ حالات جب بھی ان کے حق میں ساز گار ہوتے ہیں، ان کی حقیقت کھل جاتی ہے اور وہ اپنے کفر والحد کا برملا اظہار کردیتے ہیں، مسلمان وں کے مال‘ جان اور آبرو پر دست رازی کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔

جس طرح مصر کے ایک عبیدی حکمران ’’حاکم عبیدی‘‘ کے دور میں ہوا۔ البتہ جب ان پر حالات کا دباؤ پڑتا ہے اور وہ مشکلات میں گھر جاتے ہیں تو تقیہ پر عمل کرتے ہوئے دین داری کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں اور منافقت اختیار کریت ہوئے غیرت اور اصلاح کا اظہار کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ یہی رہا ہے۔ اس کے باوجود درزی طالب علم نے نام نہاد شیخ المشائخ ازھر کے جواب کو پسند نہیں کیا اور

(۳)  اس نے کہا: ’’کیا وجہ؟

فرضی شیخ نے جواب دیا: ’’کیونکہ وہ حاکم کی عبادت کرتے ہیں۔‘‘ اس پر درزی طالب علم غصے میں آگیا، اس نے شیخ کو غلطی پر قرار دیا اور اس موقع پر ایسی باتیں کہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار جھلکتا ہے اور اس سے درزیوں کا کفر اور ان کے عقیدہ کی خرابی کا واضح اظہار ہوتا ہے۔

اس نے کہا: ’’جو شخص یہ کہتا ہے ہم کسی حاکم کو معبود سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہے۔ ہمارا تو عقیدہ لاالہ الا اللہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ واحد‘ احد اور اکیلا ہے، بے نیاز ہے، وہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا، نہ ا سکا کوئی ہم سر ہے۔‘‘

ہمارے مذہب میں تو یہ (عقیدہ) ہے جو ہر کسی کو معلوم ہے کہ اللہ کے مثل کوئی چیز نہیں، اس کا ادراک ہو سکتا ہے، نہ ا س کا کوئی وصف بیان کیا جاسکتا ہے۔ وہ بیٹھا ہے نہ کھڑا ہے، نہ جاگتا ہے نہ سوتا ہے۔ اور ارواح اور عدو سے پاک ہے، ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کے سامنے ظاہر ہوگا، تاکہ اس پر سچا اور صحیح ایمان لایا جاسکے۔ وہ ان پر اپنی حجت قائم کرنے کے لئے ان سے انس کا اظہار کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی کیفیت کا ادارک کرنے سے عاجز ہیں اور اپنی عقلوں کی طاقت سے اس کی ماہیت تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس کو دیکھنے والے کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص آئینے میں اپنی صورت دیکھتا ہے۔ جناب امام اکبر صاحب! آپ دیکھتے نہیں کہ جب آپ آئینے کی طرف دیکتھے ہیں تو آپ کو آئینے میں آپ کی صورت جیسی ایک صورت نظر نہیں آتی ہے؟‘‘

شیخ نے کہا: ’’ہاں‘‘ درزی طالب علم نے کہا: ’’یہ صورت تمام انسانی صفات سے پاک ہے، وہ نہ کھاتی ہے، نہ پیتی ہے، نہ سمجھتی ہے نہ …نہ … ہمارا عقیدہ ہے کہ جس طرح ہم آئینے کی طرف دیکھتے ہیں تو اس میں اپنی صورت دیکھتے ہیں جو تمام صفات سے مجرد ہوتی ہے، اسی طرح ہمیں اللہ تعالیٰ کی صورت تمام صفات سے پاک نظر آتی ہے۔‘‘

تاریخی او رعلمی طور پر یہ حقیقت ہے کہ درزی فرقہ کے لوگ ’’حاکم عبیدی‘‘ کو پوجتے ہیں او راسے الٰہ (معبود) قرار دیتے ہیں اور ’’حاکم عبیدی‘‘ نے خود اپنی ربوبیت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس کے قریبی ساتھی‘ لوگوں کو اس کی عبادت کی طرف بلاتے تھے۔ اس درزی طالب علم نے اس کا انکار کرکے کذب بیانی کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کلا میں تلبیس سے کام لیا ہے اور تردید کرتے ہوئے بھی ایسی باتیں کہہ گیا ہے جو کفر ہیں۔

اس نے کہا: ’’وہ شخص غلطی پر ہے جو کہتا ہے کہ ہم کسی حاکم کو معبود سمجھتے ہیں۔‘‘

اس میں اس نے ’’کسی حاکم‘‘ کی بات کی ہے۔ حالانکہ موضوع بحث اس ’’عبیدی حاکم‘‘ کی عبادت اور الوہیت کا دعویٰ ہے جو مصر کا بادشاہ تھا۔

اس شحض نے اللہ کی تمام صفات کا انکار کرکے اسے آئینے میں موجود صورت سے تشبیہ دی اور کہا: ’’اس کو دیکھنے والے کی مثال کیسے ہے جیسے کوئی شخص آئینے میں صورت دیکھتا ہے۔‘‘ اور کہا: ’’جناب امام اکبر صاحب… ہمارا عقیدہ ہے کہ جس طرح ہم آئینے کی طرف دیکھتے ہیں جو تمام کائنات سے مجرد ہوتی ہے۔ اسی طرح ہمیں اللہ کی صورت تمام صفاف سے پا ک نظر آتی ہے۔‘‘ ا س طرح اس نے اللہ تعالیٰ کو ایسی معدوم ہستی بنادیا ہے جس کا کوئی وجودنہیں۔

(۴)  شیخ نے کہا: ’’ہم تقمص (تناسخ) پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ ایک قدیم فلسفی مذہب ہے جو فاطمیوں کے ظہور میں آنے سے پہلے بلکہ ظہور اسلام سے بھی پہلے موجود تھا۔ یہ مذہب شروع سے انسانوں کے ساتھ رہا ہے۔ بہت سے قدیم غالی فلسفی بھی اس کے قائل رہے ہیں، اس لئے دروز کا تقمص پر ایمان رکھنا کوئی عجیب بات نہیں۔ عجیب بات تو ہے کہ مسلمان تقمص کا انکار کرتے ہیں حالانکہ قرآن مجید اس کی تائید کرتا ہے۔ اس کے بعد تقمص کے دلائل کے طور یہ دو آیتیں ذکر کی ہیں۔ ارشاد ربانی تعالیٰ ہے:

﴿کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ کُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ﴾ (البقرۃ۲؍۲۸)

’’تم کس طرح اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے تو اس نے تمہیں زندگی دی‘ پھر وہ تمہیں موت دے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹاے جاؤ گے۔‘‘

دوسری آیت ہے:

﴿مِنْہَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْہَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی﴾ (طہ۲۰؍۵۵)

’’اسی سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اوراسی میں تمہیں لوٹا دیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری بار نکالیں گے۔‘‘

اور ایک مصنوعی حدیث پیش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(مَازِلَتُ أنْتَقِلُ أِلَیْکُمْ مِنْ أَصْلاَبِ الْمُؤمِنِیْنَ أِلَی أَرْحَامِ الْمُؤْمِنَاتِ ِألَی یَوْمِنَا ھٰذا…)

’’میں آج تک مومن مردوں کی پشتوں سے مومن عورتوں کے پیٹوں میں منتقل ہوتا رہا ہوں۔‘‘

یہاں اس درزی طالب علم نے اقرار کیا ہے کہ دروز تقمص یعنی تناسخ ارواح پر یقین رکھتے ہیں۔ اس عقیدہ کا مفہوم ہے کہ جب کوئی زندہ انسان یا حیوان مرتا ہے تو ا سکی روح کسی اور جسم میں منتقل ہوجاتی ہے اور وہ دوسرا انسان یا حیوان پیدا ہوجاتا ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کا یہ عقیدہ وہ وہ عقیدہۂ  قیامت پر ایمان نہیں لاسکتے، جس کی صراحت قرآن وحدیث میں موجود ہے اور جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع اور اتفاق ہے۔ وہ جزاوسزا اور حساب وکتاب کے قائل ہیں نہ جنت اور جہنم پر ایمان رکھتے ہیں۔ قرآن وحدیث میں جہاں قیامت کاذکر آیا ہے وہ اس سے امام کا ظہور مراد لیتے ہیں۔ جس طرح دروز کے خیال میں ’’حاکم ‘‘ پوشیدہ ہوجانے کے بعد دوبارہ ظاہر ہوگیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب روح خواہشات نفسانی سے پرہیز اور علم وعبادت کے ذریعے صاف ہوجاتی ہے تو وہ اپنے اصلی گھر کی طرف لوٹ آتی ہے موت کے ذریعہ اسے کمال حاصل ہوتا ہے اور وہ بدن کے قیدوبند سے آزاد ہوجاتی ہے۔ البتہ جو روحیں ترقی نہیں کرسکتیں کیونکہ انہیں آئمہ معصومین سے ہدایت طلب نہیں کی‘ بلکہ ان سے دور رہیں، انہیں جسموں میں باقی رکھ کر عذاب دیا جاتا ہے۔ وہ ایک سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ جب کوئی ایسی روح مر کر ای ک جسم سے نکلتی ہے تو دوسرا جسم اسے لے لیتا ہے۔ اس کے لیے وہ مذکورہ بالا دلائل کے علاوہ اس آیت کریمہ سے بھی استدلال کرتے ہیں:

﴿کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنٰہُمْ جُلُوْدًاغَیْرَہَا لِیَذُوْقُوا  الْعَذَابَ﴾ (النساء۴؍۵۶)

’’جب بھی ان کی کھالیں جل جائیں گی ہم تبدیل کر کے انہیں دوسری کھالیں دے دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھیں۔‘‘

قیامت سے امام کا ظہور مراد لینا کلام اللہ میں واضح تحریف ہے۔ اس طرح انہوں نے قرآن کے الفاظ کو عربی زبان کے اصل مفہوم سے الگ کردیا ہے، حالانکہ قرآن اہل عرب کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ یہ تاویل قرآن مجید کیدوسری آیات کی صراحتاً مخالف ہے اور بے شمار صریح متواتر احادیث کے خَاف ہے جن میں قبروں سے زندہ ہو کر اٹھنا، حساب و کتاب‘ جزاوسزا اور جنت جہنم کا بیان ہے۔

لہٰذا ان کی یہ تاویل صریح گمراہی اور صریح کفر ہے اور ان کا عقیدہ جس کی تفصیل پہلے بیان ہوچکی ہے کہ روحیں اپنے بدن تبدیل کرتی رہتی ہیں (عقیدۂ  تناسخ)‘ محض وہم وگمان پر مبنی ایک خیال ہے جس کی کوئی عقلی بنیاد نہیں، نہ اس کی تائید کسی نقلی دلیل سے ہوتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ عقیدہ قرآن سے ثابت ہے، سراسر جھوٹ ہے۔ قرآن مجید کی آیت مبارکہ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ… (تم بے جان تھے، پھر اس نے تمہیں زندگی بخشی) کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ نے ماؤں کے پیٹوں میں تمہاری صورت ابھی نہیں بنائی تھی اور تمہارے اندر روح نہیں ڈالی تھی اس وقت تم مردہ تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمہارے جسم میں روح ڈال کر تمہیں زندہ کیا۔ پھر جب تمہاری دنیا میں رہنے کی مقررہ مدت ختم ہوجائے گی تو تمہاری روحیں قبض کرکے تمہیں فوت کرلے گا، قیامت کے دن تمہارا حساب کرنے اور تمہیں جزا دینے کے لیے دوبارہ زندہ کرے گا۔

عرب کی جس زبان میں قرآن نازل ہوا ہے، اس کے مطابق تو اس کا صاف صریح مطلب یہی ہے۔ اور صحیح صریح احادیث سے بھی اس کی یہی وضاحت سامنے آتی ہے، اس سے کسی طرح یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جب انسان مرتا ہے اور اس کی روح اس کے جسم سے نکل جاتی ہے تو پھر اسے کسی اور جسم میں ڈال دیا جاتا ہے تاکہ وہ دوبارہ پیدا ہو کر اسی دنیا میں زندگی گزارے۔

اسی طرح دوسری آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿مِنْہَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْہَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی﴾ (طہ۲۰؍۵۵)

’’ہم نے اسی (زمین) سے پیدا کیا، اسی میں تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری بار نکالیں گے۔‘‘

اس کا مطلب بھی واضح ہے کہ ہم نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے۔ پھر تمہیں اس دنیا میں زندگی گزاررہے ہو، ھھر تم اسی زمین کی طرف لوٹ جاؤگے یعنی جب تم مروگے تو اس میں دفن ہوگ‘ اس کے بعد جب دوبارہ زندہ ہونے کا وقت آئے گا اور قیامت قائم ہوگی تو ہم تمہیں اسی زمین سے ۔کدہ کر کے نکال لیں گے۔ ان آیتوں سے تناسخ کا عقیدہ کشید کرنے کی کوشش کرنا تو من مانی تفسیر اور معنوی تحریف ہے جس کی تائید عربی زبان سے نہیں ہوتی اور قرآن وحدیث کی صریح نصوص اس کی تردید کرتی ہیں، تمام اہل ایمان علماء کا اجماع اس کے برعکس ہے۔

باقی رہی حدیث جو انہوں نے ذکر کی ہے تو اس کا پتہ حدیث کی مشہور کتابوں میں سے کسی میں نہیں ملتا اور مختلف زبانوں میں کافر طبقات کا وجود اس حدیث کے جعلی ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے آباؤاجداد کے ہر طبقہ میں مومن مرد کی پشت اور مومن عورت کے پیٹ میں منتقل نہیں ہوئے۔ بلکہ ان میں سے بعض مومن تھے مثلاً ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام اور بعض کافر تھے (مثلاً آزر) پس یہ حدیث موضوع ہے یعنی کسی نے جھوٹ گھڑ کر اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف منسب کردیا ہے۔ اسی طرح آیت مبارکہ:

﴿کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنٰہُمْ جُلُوْدًاغَیْرَہَا لِیَذُوْقُوا  الْعَذَابَ﴾ (النساء۴؍۵۶)

’’جب بھی ان کی کھالیں جل جائیں گی ہم تبدیل کر کے انہیں دوسری کھالیں دے دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھیں۔‘‘

یہ واضح طور پر کافر جہنمیوں کے بارے میں ہے کہ قیامت کے دن انہیں مسلسل عذاب ہوتا رہے گا۔ یہ کسی بھی طرح اس بات کی دلیل نہیں بن سکتی کہ جب کوئی انسان دیا میں مرتا ہے تو اس کی روح اس کے جسم سے نکل کر کسی اور جسم میں داخل ہوجاتی ہے تاکہ وہ جسم ا س کے لیے قید اور عذاب کا باعث بنا رہے۔ اس آیت کی تفسیر اس انداز میں کرنا صریح تحریف بلکہ آیات قرآنی سے مذاق کے مترادف ہے۔

اس مکالمہ کے آخر میں درزی نے لکھا ہے کہ نام نہاد شیخ رافعی نے اعتراف کیا ہے کہ دروز ایک اسلامی فرقہ ہے، یہ اعتراف یقیناً ایک خیالی اعتراف ہے جو ایک فرضی تصوراتی شیخ نے کیا ہے۔

اگر ہم کچھ دیر کے لیے فرض کر لیں کہ واقعی کسی شیخ نے کسی درزی طالب علم سے بحث کی ہو اور ان دونوں میں یقیناً یہی بات چیت ہوئی ہو، تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس بات چیت سے جو نتیجہ نکالا گیا ہے، وہ صحی ہے، کیونکہ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی اپنے موقف میں سچا ہوتا ہے لیکن کم علمی اور مناظرہ میں کمزوری کی وجہ سے شکست کھا جاتا ہے۔ لہٰذا اس کا ہار مان لینا مناظرہ کے موقف کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہوتا، نہ اس سے اس کا دعویٰ اور عقیدہ ثابت ہوتا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 261

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ