سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(127) اسلام کافرقوں اور پارٹیوں کے متعلق نظریہ

  • 8104
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2309

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پارٹیوں کے متعلق اسلام کا کیا فیصلہ ہے؟ کیا اسلام میں اس قسم کی پارٹیوں بنانا جائز ہے جیسے حزب التحریر (آزادی کی پارٹی یالبریشن فرنٹ)‘ الاخوان المسلمون کی پارٹی وغیرہ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمانو ں کیلئے جائز نہیں کہ دین میں ایسے فرقے اور پارٹیا ں بنائی جائیں جو ایک دوسرے کو برا بھلا کہتی رہیں اور ایک دوسرے کو قتل کرتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس افتراق سے منع فرمایا ہے۔ اس افتراق کو پیدا کرنے والے اور اس کے پیچھے چلنے والے کی مذمت کی ہے اور ایسی حرکت کرنے والوں کو عذاب عظیم سے ڈرایا ہے نیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے بیزاری کا اظہا رفرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ ٭وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُالْمُفْلِحُوْنَ ٭وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ  وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ (آل عمران۳؍۱۰۳۔۱۰۵)

’’تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مظبوطی سے پکڑ لو اور متفرق نہ ہوجاؤ اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلو ں میں الفت ڈال دی پس تم اسکی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ پاؤ۔ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حک کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح ونجات پانے والے ہیں اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو متفرق ہوگئے اور انہوں نے اختلاف کیا، اس چیز کے بعد کہ ان کے پاس واضح ہدایات آچکی تھیں۔ ان ہی لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْادِیْنَمُ وَکَانُوْ اشِیَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْئٍ اِنَّمَآ اَمْرُہُمْ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّمْ بِمَا کَانُوْایَفْعَلُوْنَ٭مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِہَا وَ مَنْ جَآئَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَہَا وَ ہُمْ لَا یُظْلَمُوْن﴾ (الانعام۶؍۱۵۹۔۱۶۰)

’’جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور (مختلف) پارٹیاں بن گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ پھر وہ انہیں بتائے گا کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے تھے۔ جو نیکی لے کر آیا تو اس کے لئے اس کا دس گناہ (اجروثواب) ہے اور جوبرائی لے کر آیا، اسے صرف اس کے برابر ہی بدلہ (گناہ اور عذاب) ملے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

اور یہ حدیث ثابت ہے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِی کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ)

’’میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنی کاٹنے لگو۔‘‘

افتراق کی مذمت میں اور بھی بہت سی آیات اور احادیث موجود ہیں۔

اگر مسلمانوں کے حکمران نے انہیں اس انداز سے منظم کیا ہو کہ زندگی کے مختلف اعمال اور دینی ودنیوی معاملات ان کے درمیان تقسیم کردئیے ہوں تاکہ ہر شخص دین یا دنیا کے کسی پہلوسے متعلق اپنا فرض اداکرے تو یہ درست ہے۔ بلکہ یہ مسلمانوں کے حکمران کا فرض ہے کہ (تقسیم کار کے اصول پر) رعایا پر مختلف اقسام کے دینی اور دنیوی فرائض تقسیم کردے۔ مثلاً ایک جماعت کو علم حدیث کی خدمت کیلئے مقرر کرے وہ اسے دوسروں تک پہنچانے، مدون کرنے اور صحیح وضعیف احادیث کی پہچان وغیرہ کا کام کرے، دوسری جماعت فقہ کی تدوین اور تعلیم وتعلم میں مشغول ہوجائے، تیسری جماعت عربی زبان گرائمر اور زبان ادبی‘ بلاغت اور اس کے علمی اسرار کوظاہر کرنے کی خدمات انجام دے، چوتھی جماعت جہاد کرے، مسلمانوں کی سرزمین کی حفاظت کرے، مزید علاقے فتح کرے اور اسلام کی نشرواشاعت میں پائی جانے والی رکاوٹوں کو دور کرے، ایک اور جماعت صنعتی اور زرعی پیداوار اور تجارت کے فرائض انجام دے۔ اسی طرح دوسرے کام بھی کئے جائیں تو اس قسم کی تقسیم زندگی کی ضرورت ہے، اس کے غیر امت کا نظام قائم رہ سکتا ہے نہ اس کے بغیر اسلام کی حفاظت اور نشرواشاعت ہوسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سب لوگ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر سختی سے عمل پیرا رہیں، ان سب کا ہدف ایک ہو، اسلام کی تائیدونصرت۔ اس کے دفاع اور خوشحال زندگی کے وسائل کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں، سب کے سب اسلام زیر سایہ،اس کے جھنڈے تلے اللہ تعالیٰ کی سیدھی راہ پر چلتے رہیں، گمراہ کن راستوں پرچلنے سے اجتناب کریں اور ہلاک ہونے ولے فرقوں سے بچ کررہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (الانعام۶؍۱۵۳)

’’اور یہ میرا راستہ ہے بالکل سیدھا، تو اس کی پیروی کرو اور (دوسری) راہوں کی پیروی نہ کرو (ورنہ) وہ تمہیں اس کے راستے سے جدا کردیں گی اور اس نے تمہیں یہ نصیحت کی ہے تاکہ تم بچ جاؤ۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 140

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ