سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(98) کسی کو جنتی یا بخشا ہوا کہنا

  • 8076
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1053

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے کچھ الفاظ سنے ہیں جو کہ عام لوگ اپنی بات چیت میں اکثر استعمال کرتے ہیں، میں ان کے متعلق اسلام کا موقف معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ مثلاً جب کوئی شخص فوت ہوجاتا ہے تو اس کا ذکر کرتے ہوئے عموماً ’’فلاں صاحب مرحوم‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگرکوئی صاحب حیثیت وصاحب منصب ہوتو (الْمَغْفُورُ لَہُ فُلَانٌ) بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ کیا ان لوگوں نے لوح محفوظ میں دیکھ لیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:

﴿وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَکْتُمُوْنَہٗ﴾ (آل عمران۳؍۱۸۷)

’’اور جب اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ لیا جنہیں کتاب دی گئی تھی کہ تم اسے ضرور لوگوں کے لئے بیان کروگے اور چھپاؤ گے نہیں، لہٰذا فتویٰ ارشاد فرمائیے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ کا کسی شخص کو بخش دینا یا موت کے بعد اس پر رحم فرمانا ان غیبی معاملات میں شامل ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس کے بعد جس فرشتے، نبی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ اطلاع دے دے وہ جان سکتا ہے۔ کسی اور فرد کا کسی میت کے بارے میں یہ کہنا کہ اللہ نے اسے بخش دیا ہے یااس پر رحم کر دیا ہے، جائز نہیں۔ سوائے اس شخص کے جس کے متعلق نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان موجود ہو۔ اس کے بغیر ایسی بات کہنا ہوا میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ﴾ (النمل۲۷؍۶۵)

’’(اے پیغمبر!) فرمادیجئے کہ اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہِ اَحَدًا٭ اِِلَّا مَنْ ارْتَضَی مِنْ رَّسُوْلٍ﴾ (الجن۷۲؍۲۶۔۲۷)

’’ وہ غیب جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، مگر جس رسول کو (کچھ بتانا) پسند کرے‘‘

لیکن ایک مسلمان کے لئے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل ورحمت سے اس کی مغفرت فرمادے اور اس پر رحم فرمادے لہٰذا اس کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعا کرنی چاہئے نہ کہ اس کے بارے میں یہ فیصلہ کردیا جائے کہ اس کی مغفرت ہوگئی ہے اواس پر رحمت کر دی گئی ہے۔ ارشاد ربانی تعالیٰ ہے:

﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ  یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا  دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ  یَّشَآئُ﴾ (النساء ۴؍۴۸)

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ ( یہ جرم) معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ شریک کیا جائے۔ اس کے سوا (دوسرے گناہ) جس کے چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔‘‘

صحیح بخاری میں حضرت خارجہ بن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ایک انصاری خاتون ام العلاء  رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا اور یہ خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کا شرف رکھتی ہیں، وہ فرماتی ہیں (ہجرت کے موقع پر) مہاجرین کو قرعہ اندازی کر کے (انصار پر) تقسیم کیا گیا (اور انہیں بھائی بھائی بنادیا گیا) ہمارے حصہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  بن مظعون رضی اللہ عنہ  آئے۔ ہم نے انہیں اپنے گھروں میں رہائش مہیا کی۔ پھر (کچھ عرصہ بعد) وہ بیمار ہوگئے اور اسی بیماری میں ان کی وفات ہوگئی۔ جب وہ فوت ہوگئے اور انہیں غسل دے کرکفن کے کپڑے پہنا دئیے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ میں نے کہا: ’’اے ابو سائب (عثمان بن مظعون)! تجھ پر اللہ کی رحمت ہو، میں تو تیرے بارے میں یہی گواہی دیتی ہوں کہ اللہ نے تجھے عزت بخشی ہے‘‘ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(وَمَا یُدْرِیکِ أَنَّ اللّٰہُ أَکْرَمَہُ)

’’تجھے کیا معلوم کہ اللہ نے اسے عزت بخش دی ہے؟‘‘ میں نے عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! (اگر اس شخص کی بھی عزت افزائی نہیں ہوئی تو پھر) اللہ تعالیٰ اور کس کی عزت افزائی فرمائے گا؟‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(أَمَّا ھُوَ فَقَدْ جَاۂ  الْیَقِینُ وَاللّٰہِ أِنِّی لأَرْجُو لَہُ الْخَیْرَ وَاللّٰہِ مَا أدْرِی وَأَنَارَسُولُ اللّٰہِ مَا یُفْعَلُ بِی)

’’اس کے پاس یقنی چیز (موت) آچکی ہے۔ قسم اللہ کی! میں اس کے لئے بھلائی کی امید رکھتا ہوں۔ قسم ہے اللہ کی! میں اللہ کا رسول ہونے کے باوجود نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔‘‘ ام العلاء رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’ اللہ کی قسم! اس کے بعد میں کسی کی صفائی نہیں دوں گی (کہ وہ یقیناً صالح اور بخشا ہوا ہے)‘‘جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ بات فرمائی ہے کہ

(وَاللّٰہِ مَا أَدْرِی وَأَنَا رَسُولُ اللّٰہِ مَا یُفْعَلُ بِی)

’’مجھے بھی معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘

تو یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمائی تھی جب یہ آیت ناز ل ہوئی تھی:

﴿اِِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ٭لِّیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ﴾ (الفتح۴۸؍۱۔۲)

’’یقینا ہم نے آپ کو واضح فتح عطا فرمائی ہے۔ تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کو اگلی پچھلی لغزشیں معاف فرمادے۔‘‘

اور اس وقت تک اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر نہیں دی تھی کہ آپ جنت میں جائی گے۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز فتویٰ (۸۸۸۶)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 108

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ