سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(07) چند اہم سوالات

  • 7984
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1243

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مندرجہ ذیل افر اد کے بارے میں اسلام کا کیا فیصلہ ہے؟ کیا انہیں کافر سمجھا جائے؟

(۱)  جو کہتا ہے ’’میں قرآن کو نہیں مانتا‘‘ یا ’’فلاں آیت پر ایمان نہیں رکھتا‘‘ کیا اسے کافر قرار دیا جائے گا۔؟

(۲)  جو کہتاہے ’’میں تو صرف اپنی عقل پر ایمان لاتا ہوں۔‘‘

(۳)  جو کسی کو کہتا ہے ’’تم مرتد ہوگئے ہو‘‘ کیونکہ وہ ایک بے پردہ لڑکے ساتھ کہیں گیا تھا۔

(۴)  جوکہتا ہے ’’مجھے فلاں تفسیر کی کوئی ضرورت نہیں‘‘

(۵)  جو گھر کے افراد کو اپنے گھر میں جمعہ پڑھاتا ہے اور خطبہ دیتا ہے او رکہتا ہے ’’میں نے گھر میں ہی جمعہ کی نماز ادا کرلی ہے‘‘کیا اس کی نماز ہوجاتی ہے؟

(۶)  جو کسی کو کہتا ہے ’’تم داڑھی کے بجائے مونچھیں کیوں نہیں بڑھاتے؟‘‘

(۷)  ان حرکات کے ساتھ ساتھ وہ اپنی روش پر اڑا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں کرتا۔ کیا ایسے شخص کو کافر اور کتاب وسنت کا دشمن قرار دیا جائے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱)  جو شخص قرآن مجید یا ا س کی کسی ایک آیت پر ایمان نہ رکھنے کا اظہار کرتا ہے، یا یہ کہتا ہے کہ وہ شریعت کی بجائے عقل پر ایمان رکھتا ہے تو اسے سمجھایا جائے کہ یہ کفر ہے۔ اگر وہ پھر بھی اپنی ان باتوں پر اصرار کرے تو اسلام سے خارج ہو کر کافر ہوگیا ہے۔ اسلامی حکمرانو ں کو چاہئے کہ اسے توبہ کرنے کا حکم دیں۔ اگر توبہ کر لے تو ٹھیک ورنہ ارتداد کی سزائے کے طور پر اسے قتل کیا جائے۔ کیونکہ قرآن مجید پر ایمان رکھنا ایمان کا جزوہے اور اس کی آیت کا انکاربھی پورے قرآن کے انکار جیسا ہے۔

(۲)  جو شخص اپنی عقل پر اعتماد کرتے ہوئے شریعت کا انکار کرتا ہے وہ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت دونوں کا منکر ہے۔

(۳)بے پردہ لڑکی کے ساتھ گھومنا کفر نہیں، گناہ ہے کیونکہ اسے بدکاری کا راستہ کھلتاہے، ایسے شخص کو نصیحت کرنی چاہئے اور سمجھانا چاہئے، شاید اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دے۔

(۴)  قرآن مجید کی تفسیریں طرح طرح کی ہیں۔ کچھ تو ایسی ہیں کہ ان سے بچنا ضروری ہے اور کچھ ایسی ہیں کہ قرآن فہمی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں مثلاً ابن جریر اور تفسیر ابن کثیر۔ چونکہ آپ نے کسی تفسیر کا نام نہیں لیا لہٰذا ہم اس سوال کا دوٹوک جواب نہیں دے سکتے۔

(۵)  جو شخص اپنے اہل خانہ کو گھر میں جمعہ پڑھاتا ہے، ان کا جمعہ ادا نہیں ہوتا، لہٰذا انہیں دوبارہ ظہر کی نماز پڑھنی ضروری ہے۔ کیونکہ مردوں پر واجب ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مسجد میں جمعہ پڑہیں۔ عورتوں پر جمعہ فرض نہیں ہے، ان کے لئے ظہر کی نماز پڑھنا ضروری ہے۔ لیکن اگر وہ مسجد میں جا کر مردوں کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ لیں تو ظہر کی نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں۔

(۶)  داڑھی کے متعلق پہلے بھی ہمارا ایک فتویٰ جاری ہوچکا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ’’داڑھی مونڈناحرام ہے۔ کیونکہ امام احمد بن حنبل‘ امام مسلم اور دیگر محدثین' نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے۔

(خَالِقُوْا الْمُشْرِکِیْنَ وَفِّرُوْا اللِّحَی وَأَجْفُوالشَّوَرِبَ)

’’مشرکین کی مخالفت کرو’ داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کاٹو۔‘‘

امام احمد او رامام مسلم رحمہما اللہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَ رْخٰا اللِّحَی، خَالِفُوا الْمَجُوسَ)

’’مونچھیں کاٹو داڑھیاں لٹکاؤ اور مجوسویوں کی مخالفت کرو‘‘ [1]

داڑھی مونڈنے پر اصرار کبیرہ گناہ ہے۔ ایسے شخص کو سمجھانا اور اس غلطی سے منع کرنا چاہئے۔

(۷)  جب ایسا شخص دینی قیادت کے مقام پر فائز ہو پھر تو اسے منع کرنا اور بھی زیادہ ضروری ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اگر وہ نماز کی امامت کرتا ہے اور نصیحت کرنے پر بھی باز نہیں آتا تو اسے اس منصب سے ہٹا دینا ضروری ہے بشرطیکہ یہ ممکن ہو اور فتنہ پیدا ہو نے کا خطرہ نہ ہو۔ ورنہ اس سے ناراضگی کا اظہار کرنے کے لئے اور اسے اس گناہ سے باز رکھنے کے لئے کسی دوسرے نیک آدمی کے پیچھے نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ البتہ اگر کوئی دوسرا نیک آدمی میسر نہ ہو یا اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی مشکل ہو تو نماز باجماعت قائم رکھنے کے لئے اس کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے۔ اسی طرح اگر دوسرے آدمی کے پیچھے نماز پڑھنے سے فتنہ پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو فتنہ کے سدباب کے لئے کم نقصان برداشت کرتے ہوئے اس کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز


[1]     یعنی داڑھی لمبی کرو حتیٰ کہ وہ اس طرح نظر آئے جس طرح کوئی چیز لٹکتی ہے۔ یا لٹکانے کا لفظ اس لئے ارشاد فرمایا کہ داڑھی کے بال چہرے سے نیچے کی طرف بڑھتے ہیں۔ زیادہ لمبی ہو تو زیادہ نیچے تک پہنچے گی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 17

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ