سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(360) جنتر ، منتر، تعویذ اور گنڈا شرک ہے

  • 7725
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 2473

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عبداللہ بن معسود رضى الله عنه فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ کہتے سناہے کہ:

((إِنَّ الرُّقی والتَّمَائِمَ والتَّولۃَ شِرکٌ))

جنتر ، منتر، تعویذ اور گنڈا شرک ہے۔

اورجابر رضى الله عنه فرماتے ہیں کہ میرا ایک ماموں تھا جو بچھو کے کاٹے کے لیے جھاڑ پھونک کیا کرتا تھا جب رسول اللہ ﷺ نے جھاڑ پھونک سے منع فرمایا تو وہ آپﷺ کے پاس آیا اورکہنے لگا: ’’ اے اللہ کے رسول ﷺ!آپ نے جھاڑ پھونک سے منع فرمایا ہے جبکہ میں بچھو کے کاٹے کا جھاڑ پھونک (دم) کرتا ہوں ‘‘ توآپ ﷺ نے فرمایا: ‘‘ اگر کوئی اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، تواسے وہ کام کرنا چاہئے‘‘۔

جھاڑ پھونک کے بارے میں ایک حدیث ممانعت کی ہے دوسری جواز کی ۔ ان دونوں میں تطبیق کی کیا صورت ہے؟ اگر کوئی بیمار شخص اپنے سینے پر قرآن کی آیات والا تعویذ لٹکائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

عبدالرحمن۔ س ۔ ف۔ الریاض

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس جھاڑ پھونک سے منع کیا گیا ہے وہ وہ ہے جس میں شرک ہو یا غیر اللہ سے توسل ہو ، یا اس کے الفاظ مجہول ہوں جن کی سمجھ نہ آسکے۔

رہا کسی ڈسے ہوئے آدمی کو دم جھاڑ کرنے کا مسئلہ تو یہ جائز ہیاور شفاء کا بڑا ذریعہ ہے کیونکہ نبیﷺ نے فرمایاہے:

((لا بأسَ بالرُّقی ماَلَم تکُنْ شرکاً))

’’جس دم جھاڑ میں شرک نہ ہو اس میں کوئی حرج نہیں ‘‘

نیز آپ ﷺ نے فرمایا:

((منِ اسْتطاَعَ أَنْ یَنفعَ أخَاہ فَلَیَنْفَعَہُ))

’’ جو شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو اسے وہ کام کرنا چاہئے‘‘

ان دونوں احادیث کی مسلم نے اپنی صحیح میں تخریج کی ہے۔نیز آپﷺ نے فرمایا:

((لا رُقیۃَ إِلا مِن عین أَوحُمَۃٍ))

’’ دم جھاڑ نظر بد اور بخار کے لیے ہی ہوتا ہے‘‘

جس کا معنی یہ ہے کہ ان دو باتوں میں ہی دم جھاڑ بہتر اور شفابخش ہوتا ہے اور نبیﷺ نے خود دم جھاڑ کیا بھی ہے اور کرایا بھی ہے

رہادم جھاڑ یا تعویذ کو مریضوں اور بچوں کے گلے میں لٹکانا تو یہ جائز نہیں ۔ ایسے لٹکائے ہوئے تعویذ کو تمائم بھی کہتے ہیں اور حروز اور جو امع بھی ۔اورحق بات یہ ہے کہ یہ حرام اور شرک کی اقسام میں سے ایک قسم ہے کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:

((مَنْ تعلَّق تمیمۃ فلاَ أَتمَّ اللَّہُ لَہ، ومَنْ تعلَّق وَدعۃً فَلَا وَدَع اللّٰہُ لہ۔))

’’ جس شخص نے تعویذ لٹکایا اللہ تعالی اس کا بچاؤ نہیں کر ے گا اور جس نے گھونگا باندھا وہ اللہ کی حفاظت میں نہ رہا‘‘

نیز آپ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ تعلَّق تمیمۃً فقد أَشرْکَ))

’’ جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا‘‘

نیز آپ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ الرُّقی وَالتَّمائِمَ والتَّولۃَ شِرْکٌ))

دم جھاڑ، تعویذ اور گنڈا شرک ہے‘‘

ایسے تعویذ جن میں قرآنی آیات یا مباح دعائیں ہوں ان کے بارے علماء کا اختلاف ہے کہ آیا وہ حرام ہیں یانہیں ؟ اور راہ صواب یہی ہے کہ وہ دو وجوہ کی بنا پر حرام ہیں ۔

ایک وجہ تو مذکورہ احادیث کی عمومت ہے کیوں کہ یہ احادیث قرآنی اور غیر قرآنی ہر طرح کے تعویذوں کے لیے عام ہیں ۔

 اور دوسری وجہ شرک کا سدباب ہے کیونکہ جب قرآنی تعویذوں کو مباح قرار دے جائے توان میں دوسرے بھی شامل ہو کر معاملہ کو مشتبہ بنادیں گے اور ان سے مشرک کا دروازہ کھل جائے گا۔ جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ جو ذرائع شرک یا معاصی تک پہنچانے والے ہوں ان کا سدباب شریعت کے بڑے قواعد میں سے ایک قاعدہ ہے اور توفیق تو اللہ ہی سے ہے۔

 

 

فتاوی بن باز رحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 32

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ