سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(353) نصیحت اوریاددہانی

  • 7718
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1051

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نصیحت اوریاددہانی


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نصیحت اوریاددہانی

یہ تحریرہراس مسلمان کے نام ہے جس کی نظر سے گزرےاللہ تعالی ہم سب کو اپنے مومن بندوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائےاوران لوگوں کے راستے سے بچائےجن پر وہ غصے ہوانیز گمراہوں کے راستے سے بھی بچائے۔ آمین!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔۔۔۔۔امابعد:

اس تحریر کا باعث آپ کی ہمدردی وخیر خواہی ،اللہ تعالی کاتقوی اختیار کرنے کی وصیت،دنیاوآخرت میں نفع دینےوالے امور کی ترغیب اورایسے کاموں سے بچانے (متنبہ اورچوکنا کرنے ) کی تلقین کرنا ہے جو دنیاوآخرت میں تمہارے لئےنقصان دہ ہوں تاکہ حسب ذیل ارشادباری تعالی پر عمل ہوسکے:

﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ (المائدۃ۲/۵)

‘‘نیکی اورپرہیزگاری کےکاموں میں ایک دوسرےکی مددکیاکرواورگناہ اورظلم کےکاموں میں مددنہ کیاکرواوراللہ سےڈرتےرہو،کچھ شک نہیں کہ اللہ کاعذاب سخت ہے۔’’

نیز اس ارشادباری تعالی پر ہم عمل پیرا ہوسکیں:

﴿وَالْعَصْرِ‌ ﴿١﴾ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ‌ ﴿٢﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‌﴾ (العصر۱۰۳/۱۔۳)

‘‘عصر کی قسم!یقینا تمام انسان نقصان میں ہیں مگر وہ لوگ جوایمان لائے اورنیک عمل کرتے رہے اورآپس میں حق (بات ) کی تلقین اورصبر کی تاکید کرتے رہے ۔’’

مذکورہ بالاآیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالی نے نیکی اورتقوی کے کاموں میں تعاون کرنے کا حکم دیا ہے نیز گناہ اورظلم کی باتوں میں تعاون نہ کرنے کی تلقین فرمائی ہےاورجو شخص ایسا نہ کرے اسے سخت عذاب کی وعید بھی سنائی ہے اوراس مختصر مگر جامع سورہ مبارکہ۔۔۔۔۔سورہ العصر۔۔۔۔۔میں اللہ تعالی نے ہمیں بتایا ہے کہ تمام لوگوں کو دوقسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ (۱) ناکام ونامراداور (۲) کامیاب وبامراد۔پھر فرمایاکامیاب اوربامرادوہ لوگ ہیں جو ایمان لائے،نیک عمل کرتے رہے ،آپس میں حق بات کی تلقین اورصبر کی تاکید کرتے رہے ،توجس شخص میں یہ چاروں صفات جمع ہوجائیں وہ مکمل طورپرکامیاب وکامران اوردنیا وآخرت کی ابدی سعادت اورعزت ونجات سےشادکام (ہمکنار) ہے اورجو شخص ان صفات سے جس قدر محروم ہوگا وہ اسی قدرکامیابی وکامرانی سے بھی محروم ہوگا اوراپنی کمی وکوتاہی اورواجبات سے ٖغفلت واعراض کے مطابق خسارہ نقصان اورشروفساد سے دوچارہوگا۔لہذا اے اللہ کے بندو!اپنے اللہ سے ڈر جاو،کامیاب وکامران لوگوں کے اخلاق کو اختیار کرو،آپس میں ایک دوسرے کو بھی اسی کی تلقین کرو،خسارہ نقصان اٹھانے والوں کی صفات اورمفسدین کے اعمال سے بچو،ان کے ترک کردینے کے سلسلہ میں ایک دوسرے کی مدد کرواورلوگوں کو ان اعمال سے بچاوتاکہ نجات ،سلامتی اورعافیت کی کامیابی وکامرانی سے بہرہ ورہوسکو۔نبی کریمﷺنے ارشادفرمایاکہ‘‘دین ہمدردی وخیرخواہی کا نام ہے۔’’دین ہمدردی وخیرخواہی کا نام ہے،دین ہمدردی وخیرخواہی کا نام ہے،عرض کیا گیا کس کے لئے ہمدردی وخیر خواہی؟فرمایا:‘‘اللہ کے لئے’’ اللہ کی کتاب کے لئے، اللہ کے رسول کے لئے ،مسلم حکمرانوں کے لئےاورعامۃ المسلمین کے لئے!’’

سب سے اہم امور جن کے لئے ہمدردی وخیر خواہی اورتلقین وتاکید ضروری ہے وہ اللہ تعالی کی کتاب اوراس کےنبی امینﷺکی سنت کی تعظیم کرنا،ان کے دامن کو مضبوطی سے تھامنااورتمام احوال میں لوگوں کو انہی کی طرف دعوت دینا ہے کیونکہ دنیا وآخرت میں سعادت ،ہدایت اورنجات حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کتاب اللہ اورسنت رسول اللہﷺکی تعظیم نہ کی جائےاوروفات تک صبرواستقامت کے ساتھ اعتقاد اورقول وعمل کو انہی کے ساتھ وابستہ نہ رکھاجائے ۔کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپنی اوراپنے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے ،ہرخیرو بھلائی کو اسی کے ساتھ مشروط قراراردیا ہے اوراللہ اواس ک رسول ﷺکی معصیت کی صورت میں دنیا وآخرت کے طرح طرح کے عذابوں ،ذلتوں اوررسوائیوں کی وعید سنائی ہے ،جیسا کہ اس نے ارشادفرمایاہے:

﴿قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۚ وَمَا عَلَى الرَّ‌سُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ﴾ (النور۲۴/٥٤)

‘‘ (اے پیغمبر!) کہہ دیجئے کہ اللہ کی فرماں برداری کرو اوررسول (اللہ) کے حکم پر چلو،اگرتم منہ موڑوگے تورسول پر (اس چیز کو اداکرنا) ہے جو ان کے ذمے ہےاورتم پر (اس چیز کا اداکرنا) جو تمہارے ذمے ہےاوراگرتم ان کے فرمان پر چلو گے تو سیدھا راستہ پالوگے اوررسول اللہ کے ذمے توصاف صاف (اللہ کے احکام کا ) پہنچادینا ہے۔’’

اورفرمایا:

﴿وَهَـٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَ‌كٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ﴾

 (الانعام۱۰۰/۶)

‘‘یہ برکت والی کتاب بھی ہم نے اتاری ہے ،تو اس کی پیروی کرو اور (اللہ سے )

ڈروتاکہ تم پر مہربانی کی جائے’’

اورفرمایا:

﴿فَلْيَحْذَرِ‌ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِ‌هِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ (النور۲۴/۶۳)

‘‘جولوگ پیغمبرکے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہئے (ایسا نہ ہوکہ) ان پر (دنیا میں) کوئی آفت پڑجائے یا (آخرت میں) تکلیف دینے والاعذاب نازل ہو۔’’

نیز فرمایا:

﴿ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٣﴾ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارً‌ا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ﴾ (النساء۴/۱۳۔۱۴)  

‘‘ (یہ تمام احکام) اللہ کی حدیں ہیں اور جو شخص اللہ اوراس کے پیغمبرکی فرمان برداری کرےگا،اللہ اس کو بہشتوں (باغات) میں داخل کرےگا،جن میں نہریں بہہ رہی ہیں۔وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرےگااوراس کی حدود سے نکل جائےگا اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ میں ڈالےگا،جہاں وہ ہمیشہ رہےگااوراس کو ذلت کا عذاب ہوگا۔’’

ان آیات محکمات میں اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکی اطاعت کا حکم ہے ،کتاب اللہ کی اتباع کی ترغیب ہے،ہدایت ورحمت اوردخول جنت کو اللہ ورسول کی اطاعت کے ساتھ مشروط قراردیا گیا ہے۔اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکی معصیت ونافرمانی کی صورت میں فتنہ اورذلت کے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔لہذا اے مسلمانو!اس سے ڈر جاوجس سے تمہیں اللہ تعالی نے ڈرایا ہے ،اس چیز کے بجالانے میں سبقت کرو،جس کا اس نے حکم دیا ہے اورپھر اس سلسلہ میں اخلاص ،صدق ،شوق اورخوف کے پہلو کو بھی فراموش نہ کروتوہر چیز کے حاصل کرلینے اوردنیا وآخرت کے ہر شر سےمحفوظ رہنے میں کامیاب ہوجاگے۔اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکی سب سے بڑی اطاعت تویہ ہے کہ اس کی شریعت کو نافذ کیا جائے ،حکم شریعت کےسامنے سرتسلیم ورضا خم کردیا جائے،اس کی ایک دوسرے کو تلقین کی جائے اوراس کی مخالفت سے ڈرایا جائے تاکہ حسب ذیل آیت ارشادباری تعالی پر عمل ہوسکے۔

﴿فَلَا وَرَ‌بِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ‌ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَ‌جًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ (النساء۶۵/۴)

‘‘تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں،تب تک مومن نہیں ہوں گے۔’’

اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالی نے قسم کھاکرفرمایاہے کہ لوگ اس وقت تک ایماندارنہیں ہوسکتے جب تک اپنے تمام تنازعات میں رسول اللہﷺکومنصف نہ بنالیں اوردکسی جبرواکرہ کے بغیر ،تسلیم ورضا کے ساتھ آپؐ کے ارشادات کے سامنے سراطاعت نہ جھکا دیں اورپھر اس ارشادکا تعلق دین ودنیا کے تمام مسائل ومشکلات سے ہے ۔جیسےاپنی حیات طیبہ میں آپؐ کی ذات گرامی تمام مسائل میں منصف تھی ،ایسے ہی اب آپؐ کی وفات کے بعد آپؐ کی سنت منصف وحاکم ہے اوروہ شخص بلاشک وشبہ ایمان سے محروم ہے جوآپؐ کی سنت سے اعراض کرے یا اس کے سامنے سرتسلیم ورضا خم نہ کرے،ارشادباری تعالی ہے:

﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ﴾ (الشوری۱۰/۴۲)

‘‘اورتم جس بات (مسئلہ) میں اختلا ف کرتے ہوتواس کا فیصلہ اللہ کی طرف (سےہوگا) ’’

اس دنیا میں اللہ سبحانہ وتعالی ہی اپنے بندوں کے اختلافات کا فیصلہ فرماتا ہے،اس وحی کے ذریعے جو اس نے قرآن وسنت کی صورت میں اپنے رسولﷺپر نازل فرمائی ہے اورقیامت کے دن وہ خود بنفس نفیس اپنے بندوں کے فیصلے فرمائے گا۔ارشادباری تعالی ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّ‌سُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ‌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾ (النساء۵۹/۴)

‘‘اے ایمان والو!اللہ اوراس کے رسول کی فرماں برداری کرو اورجو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی،کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر اللہ اورروز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تواس میں اللہ اوراس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو،یہ بہت اچھی بات ہے اوراس کا مآل (انجام) بھی اچھا ہے۔’’

اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالی نےاپنی اوراپنے رسولﷺکی اطاعت کا حکم دیا ہے کیونکہ اسی پر دنیا وآخرت کی خیروبھلائی اورعزت اورقیامت کےدن عذاب الہی سے نجات کا نحصارہے ۔اللہ تعالی نے صاحب حکومت لوگوں کی اطاعت کا اطاعت اللہ واطاعت رسول پر عطف کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اورعامل کو دوبارہ ذکر نہیں فرمایاکیونکہ اولوالامرکی اطاعت صرف اسی صورت میں واجب ہے جب وہ اللہ اوراس کے رسولﷺکی اطاعت پر مبنی ہواوراگراللہ اوراس کے رسولﷺکی معصیت ونافرمانی لازم آتی ہوتوپھر کسی بھی انسان کی اطاعت واجب نہیں خواہ وہ کوئی بھی ہو کیونکہ نبی کریمﷺکا ارشادہے کہ ‘‘اطاعت توصرف نیکی میں ہے ’’اسی طرح آپؐ نے یہ بھی ارشادفرمایا ہے کہ‘‘اگرخالق کی نافرمانی لازم آتی ہے توپھرمخلوق کی اطاعت نہیں کیا جاتی’’پھر مذکورہ بالاآیت میں اللہ تعالی نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ اپنے تنازعات کو اللہ اوراس کے رسول کی طرف لوٹا دو،چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّ‌سُولِ﴾ (النساء۵۹/۴)

‘‘اوراگرکسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تواس میں اللہ اوراس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو۔’’

اللہ کی طرف رجوع کرنے سے مراد اس کی کتاب کریم کی طرف رجوع کرنا ہے اوررسول اللہﷺکی طرف رجوع سے مرادآپﷺکی حیات طیبہ میں آپؐ کی ذات گرامی کی طرف اوربعد از وفات آپؐ کی سنت مطہرہ کی طرف رجوع کرناہے اوراس حکم کے بعد فرمایاکہ:

﴿ذَٰلِكَ خَيْرٌ‌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾ (النساء۵۹/۴)

‘‘یہ بہت اچھی بات ہے اوراس کا مآل (انجام) بھی اچھا ہے۔’’

اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تمام مشکلات اورتنازعات کو اللہ اوراس کے رسول کی طر ف لوٹانے ہی میں ان کی بہتری ہے اوردنیا وآخرت میں انجام کارکے اعتبارسےبھی اسی میں ان کی بھلائی ہے لہذا اے

اللہ کے بندو!اللہ تم پر اپنی رحمت کے پھول برسائے !اس حقیقت کو جان لو!کتاب اللہ وسنت رسول اللہﷺکےدامن سے وابستہ ہوجاوتاکہ حیات طیبہ اورابدی سعادت کی کامرانیاں تمہارامقدربن سکیں ارشادباری تعالی ہے:

﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ‌ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَ‌هُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ (النحل۱۶/۹۷)

‘‘جومرداورعورت بحال ایمان نیک عمل کرے ہم اس کو (دنیا میں) پاک (اورآرام کی) زندگی سے زندہ رکھیں گےاور (آخرت میں) ان کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے۔’’

سب سے بدترین برائی اورخرابی یہ ہے کہ اللہ تعالی کی شریعت کو چھوڑ کر وضعی قوانین،انسانوں کے بنائے ہوئےنظام،آباواجداد کی عادات اورکاہنوں ،جادوگروں اورنجومیوں کی باتوں کو اختیار کرلیا جائے جیسا کہ آج کل بہت سے لوگ ان باتوں میں مبتلاہوکراللہ تعالی کی شریعت کی بجائے انہی کو اپنے لئے پسند کئے ہوئے ہیں حالانکہ یہ بہت بڑے نفاق،کفروظلم اورفسق کی بہت بڑی علامت اوران احکام جاہلیت میں سے ہے جن کوقرآن کریم نے باطل قراردیااورجن سے رسول اللہﷺنے منع فرمایاہے۔ارشادباری تعالی ہے:

﴿أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِ‌يدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُ‌وا أَن يَكْفُرُ‌وا بِهِ وَيُرِ‌يدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿٦٠﴾ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَإِلَى الرَّ‌سُولِ رَ‌أَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا﴾

 ( النساء۴/۶۰/۶۱)

‘‘کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اورجو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اورچاہتے یہ ہیں کہ ایک سرکش کے پاس لے جاکرفیصلے کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس کا انکار کریں اور شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر (سیدھے ) راستے سے دورڈال دےاورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہےاس کی طرف (رجوع کرو) اورپیغمبر کی طرف آوتم منافقوں کو دیکھتے ہوکہ تم سے اعراض کرتے اوررکے جاتے ہیں۔’’

اورفرمایا:

﴿وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْ‌هُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ إِلَيْكَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ وَإِنَّ كَثِيرً‌ا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ ﴿٤٩﴾ أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ﴾ (المائدۃ۵/۴۹۔۵۰)

‘‘اورجو (حکم) اللہ نے نازل فرمایاہے،اسی کے مطابق ان میں فیصلہ کرنااوران کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنااوران سے بچتے رہنا کہ کسی حکم سے جو اللہ نے تم پر نازل فرمایا ہے کہ کہیں تم کو بہکانہ دیں،اگریہ نہ مانیں تو جان لوکہ اللہ چاہتا ہے کہ ان کے بعض گناہوں کے سبب ان پر مصیبت نازل کرے اوراکثر لوگ تونافرمان ہیں ،کیا یہ زمانہ جاہلیت کے حکم فیصلے کے خواہش مند ہیں اورجو یقین رکھتے ہیں ان کے لئے اللہ سے اچھا حکم (فیصلہ ) کس کا ہے۔’’

نیز فرمایا:

﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُ‌ونَ﴾ (المائدۃ۵/٤٤)

‘‘اورجواللہ کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دیں توایسے لوگ کافر ہیں۔’’

﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ (المائدۃ۵/۴۵)

‘‘اورجواللہ تعالی کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ کریں تووہی لوگ ظالم ہیں۔’’

﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ (المائدۃ۵/۴۷)

‘‘اورجواللہ تعالی کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم نہ دیں توایسے لوگ نافرمان (فاسق) ہیں۔’’

یہ اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے شدید وعید ہے کہ وہ اس کی کتاب اوراس کے رسولﷺکی سنت سے اعراض کرکے کسی اورچیز کے مطابق حکم نہ دیں۔اس مقام پر اللہ تعالی نے نہایت صراحت کے ساتھ یہ بیان فرمایا ہے کہ جو شخص شریعت کے بغیر حکم دے،اورکافر ،فاسق اورمنافقین واہل جاہلیت کے عادات واطوارکو اپنائے ہوئے ہے۔لہذا مسلمانو!اس سے ڈر جاو جس سے اللہ تعالی نے تمہیں درایا ہے،ہر چیزمیں اس کی شریعت کے مطابق عمل کرو،شریعت کی مخالفت سے اجتناب کرو،آپس میں ایک دوسرے کو اسی کی تلقین کرو،شریعت سے اعراض اوراس کی تنقیص کرنے والوں سےبغض رکھو اورانہیں اپنا دشمن سمجھو تاکہ اللہ تعالی کر رحمت سے کامیاب ہوجاو،اس کے عذاب سے بچ جاو،اسی سے تم اپنے اس فرض کو اداکرسکتے ہوجو اللہ تعالی نے تم پر عائد کیا ہے کہ اس کے ان دوستوں کے دوست بن جاوجو اس کی شریعت کے مطابق حکم دیتے ہیں اوراس کی کتاب اوراس کے رسول کی سنت پر راضی ہیں اوراس کے ان دشمنوں کےدشمن بن جاوجو اس کی شریعت سے بے نیاز اور

کتاب اللہ وسنت رسول اللہ ﷺسے اعراض کرنے والے ہیں۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اورآپ کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے،ہمیں اورآپ کو کافروں اورمنافقوں کی مشابہت سے بچائے،اپنے دین کی مددفرمائے اوراپنے دشمنوں کو ذلت ورسوائی سے دوچارکرے،بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

وصلي الله علي عبده ورسوله محمد وعلي آله وصحبه وسلم تسليما كثيرا الي يوم الدين

 

 

مقالات وفتاویٰ ابن باز

صفحہ 466

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ