سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(352) تمام مسلمانوں کے لئے ایک نصیحت

  • 7717
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2296

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تمام مسلمانوں کے لئے ایک نصیحت


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تمام مسلمانوں کے لئے ایک نصیحت

عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازکی طرف سے ہر اس مسلمان کے نام جو اس تحریر کو دیکھے ۔۔مجھے اورانہیں اللہ تعالی اپنے مومن بندوں کے راستہ پر چلنے کی توفیق عطافرمائے اورمجھے اورانہیں ان لوگوں کے راستے سے بچائے جن پر وہ غصے ہوااورگمراہوں کے راستے سےبھی بچائے۔آمین۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،امابعد:

حسب ذیل ارشادباری تعالی پر عمل کے پیش نظریہ تحریر محض نصیحت وتذکیرکے لئے ہے:

﴿وَذَكِّرْ‌ فَإِنَّ الذِّكْرَ‌ىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (الذاریات۵۱/۵۵)

‘‘اورنصیحت کرتے رہیں یقینا نصیحت مومنوں کو نفع دیتی ہے۔’’

اورفرمایا:

﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائدۃ۲/۵)

‘‘نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور ظلم کے کاموں میں مدد نہ کیا کرو۔’’

نیز فرمایا:

﴿وَالْعَصْرِ‌ ﴿١﴾ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ‌ ﴿٢﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‌﴾ (العصر۱۰۳/۱۔۳)

‘‘عصر کی قسم!یقینا تمام انسان نقصان میں ہیں مگر وہ لوگ جوایمان لائے اورنیک عمل کرتے رہے اورآپس میں (ایک دوسرے کو ) حق (بات ) کی تلقین اورصبر کی تاکید کرتے رہے ۔’’

اورنبی کریمﷺنے فرمایا‘‘دین نصیحت وخیرخواہی کا نام ہے۔’’عرض کیا گیا کس کے لئے نصیحت وخیرخواہی؟فرمایا‘‘اللہ کے لئے’’اس کی کتاب کے لئے،اس کے رسول کے لئے ،مسلم حکمرانوں کے لئےاورعام مسلمانوں کے لئے۔’’ (مسلم)

یہ محکم آیات اوریہ حدیث شریف تذکیر ونصیحت کی مشروعیت پر صریحا دلالت کرتی ہیں،نیز ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حق بات کی تلقین کی جائے اوراس کی دعوت دی جائے کیونکہ اس سے مومنوں کو نفع حاصل ہوتا ہے،جاہلوں کوعلم حاصل ہوتا ہے گمراہوں کو راہنمائی ملتی ہے ،غافل کو تنبیہہ ہوجاتی ہے ،بھولے ہوئے کو سبق آجاتا ہے،عالم کو عمل کی ترغیب حاصل ہوتی ہے،علاوہ ازیں اس میں اوربھی بہت سی مصلحتیں کارفرماہیں۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے مخلوق کو اس لئے پیدا فرمایاکہ وہ اس کی عبادت واطاعت بجالائے اوررسولوں کو اس لئے مبعوث فرمایاکہ وہ اسے یاددہانی کرائیں،جنت کی بشارت سنائیں اورجہنم کے عذاب سے ڈرائیں ،ارشادباری تعالی ہے:

﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات۵۱/۵۶)

‘‘اورمیں نے جنوں اورانسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔’’

فرمایا:

﴿وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ ۚ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَىٰ رَ‌سُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ﴾ (التغابن۶۴/۱۲)

‘‘اوراللہ کی اطاعت کرواوراس کے رسول کی اطاعت کرو،اگرتم منہ پھیر لوگے توہمارےپیغمبرکے ذمے توصر ف پیغام کا کھول کھول کر پہنچادینا ہے۔’’

مزید فرمایا:

﴿رُّ‌سُلًا مُّبَشِّرِ‌ينَ وَمُنذِرِ‌ينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّـهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّ‌سُلِ﴾

 (النساء۱۶۵/۴)

‘‘ (سب) پیغمبروں کو (اللہ نے) خوش خبری سنانے اورڈرانے والے (بناکربھیجا) تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کے لئے اللہ پر الزام کا موقعہ نہ رہے۔’’

اورفرمایا:

﴿فَذَكِّرْ‌ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ‌﴾ (الغاشیۃ۸۸/۲۱)

‘‘پس تم نصیحت کرتے رہو کہ تم نصیحت کرنے والے ہی ہو۔’’

ہر وہ شخص جس کے پاس علم ہے ،اس پر واجب ہے کہ وہ نصیحت کرے،اللہ تعالی کے لئے ہمدردی وخیر خواہی کرے،حسب استطاعت دعوت الی اللہ کا کام کرے تاکہ وہ تبلیغ ودعوت کے فریضہ کااداکرسکے،حضرات انبیاء علیہم السلام کے اسوہ حسنہ پر عمل کرسکے اورکتمان علم کے گناہ سے بچ سکے کہ اس جرم کی پاداش میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہ وعید سنائی ہے:

﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ﴾ (البقرۃ۲/۱۵۹)

‘‘تحقیق جو لوگ ہمار ے حکموں اورہدایتوں کو جو ہم نے نازل کی ہیں (کسی غرض فاسد سے) چھپاتے ہیں باوجود یکہ ہم نے لوگوں کے (سمجھانے کے ) لئے اپنی کتاب میں کھول کھول کربیان کردیا ہے،ایسے لوگوں پر اللہ تعالی اورتمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔’’

صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا کہ‘‘جو شخص نیکی کے کام کی طرف راہنمائی کرےاسے بھی عمل کرنےوالے کے برابر ثواب ملے گا۔’’نبی علیہ السلام نے یہ بھی فرمایاہے‘‘جس نے کسی گمراہی کی طرف دعوت دی ،اسے ان سب لوگوں کے گناہ کے برابر گناہ ہوگاجو اس پر عمل کریں گے جو عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ کی جائے گی۔’’

ان بنیادی حقائق کو معلوم کرنے کے بعد میں،تمہیں اوراپنے آپ کو بھی یہ وصیت کرتا ہوں کہ ظاہر وباطن اورتنگی وخوشحالی ہر حال میں ،اللہ سبحا نہ وتعالی کے تقوی کو اختیار کیا جائے کہ اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکی بھی یہی وصیت ہے جیسا کہ ارشادباری تعالی ہے:

﴿وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّـهَ﴾ (النساء۴/۱۳۱)

‘‘جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ،ان کو بھی اور (اے محمد ﷺ!) آپ کو بھی ہم نے تاکیدی حکم کیا ہے کہ اللہ سےڈرتے رہو۔’’

نبی کریمﷺنے اپنے خطبہ میں ارشادفرمایاکرتے ےتھے کہ ‘‘میں تمہیں اللہ کے تقوی اورسمع وطاعت کے بجالانے کی وصیت کرتا ہوں۔’’

تقوی ایک ایسا جامع کلمہ ہے جس میں خیر وبھلائی کی تمام صورتیں آجاتی ہیں اوراس کی حقیقت یہ ہے کہ ان تمام امور کو ادا کیا جائے جن کو اللہ تعالی نے فرض قراردیا ہے ،ان تمام امور سے اجتناب کیا جائے جن کو اللہ تعالی نے حرام قراردیا ہے اورپھر یہ سب کچھ اخلاص ومحبت،ثواب کی امید اورعذاب کے خوف سے کیا جائے ۔اللہ تعالی نے اپنے بندوں کوتقوی کا حکم دیا ہے اوروعدہ فرمایا ہے کہ تقوی اختیار کرنے سے ان کے معاملات آسان ہوجائیں گے،مشکلات چھٹ جائیں گی ،رزق میں کشادگی آجائے گی،گناہ معاف ہوجائیں گے اورجنت کی کامیابی وکامرنی ان کا مقدر بنے گی ۔ارشادباری تعالی ہے:

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَ‌بَّكُمْ ۚ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ﴾ (الحج۲۲/۱)

‘‘اے لوگو!اپنے پروردگار سے ڈرو،یقینا قیامت کا زلزلہ ایک حادثہ عظیم ہے ۔’’

اورفرمایا:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَلْتَنظُرْ‌ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ‌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾ (الحشر۱۸/۵۹)  

‘‘اےایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل (یعنی قیامت) کے لئے کیاسامان بھیجا ہے؟اور (ہم پھر کہتے ہیں کہ) اللہ سے ڈرتے رہو،بےشک اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔’’

نیز فرمایا:

﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَ‌جًا ﴿٢﴾ وَيَرْ‌زُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ﴾ (الطلاق۶۵/۲۔۳)

‘‘اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا،وہ اس کے لئے (رنج ومحن سے) خلاصی کی صورت پیدا کردےگا۔’’

مزیدفرمایا:

﴿إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِندَ رَ‌بِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ﴾ (القلم۶۸/۳۴)

‘‘بلاشبہ پرہیز گاروں کے لئے ان کے پروردگارکے ہاں نعمت کے باغ ہیں۔’’

اورفرمایا:

﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يُكَفِّرْ‌ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرً‌ا﴾ (الطلاق۶۵/۵)

‘‘اور جوشخص الله سےڈرے گا،وہ اس سے،اس کے گناہ دورکردےگااوراسےاجرعظیم بخشے گا۔’’

اے مسلمانو!اللہ سبحانہ وتعالی کی اطاعت وبندگی بجالاو،تمام حالات میں تقوی اختیار کرو،اپنے تمام اقوال ،اعمال اورمعاملات میں اپنا محاسبہ کرتے رہا کرو ،ان میں سے جو شریعت کے مطابق ہوں انہیں اختیار کئے رکھواورجو شریعت کے مخالف ہوں انہیں ترک کردوخواہ اس میں بظاہر کتنا ہی دنیوی فائدہ کیوں نہ ہو کیونکہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ دنیوی مال ودولت سے بہت بہتر اورباقی رہنے والا ہے ۔یاد رکھو کہ جو شخص اللہ تعالی کے ڈر کی وجہ سے کسی چیز کو چھوڑ دے ،اللہ تعالی اسے یقینا اس سے بہتر چیز نواز دیتا ہے۔اگربندگان الہی اپنے رب کی اطاعت بجالائیں ،اس کے تقوی کو اختیار کریں،اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیں اوراس سے جس نے منع کیا ہے اس سے اجتنا ب کریں تواللہ تعالی انہیں عزت،کامیابی وکامرانی اوررزق کی فروانی عطافرمائے گا،مشکلات سے نکال دے گااوردنیا وآخرت میں سعادت ونجات سے سرفرازفرمائے گا۔

ہر وہ عقل مند جس میں ادنی سی بھی بصیرت ہواس سے یہ بات مخفی نہیں کہ آج مسلمانوں کی اکثریت قساوت قلبی اورآخرت سے روگردانی میں مبتلا ہوکر اسباب نجات سے غافل اوردنیا میں منہمک ہے اورحلال وحرام کی تمیز کے بغیر حرص وہوس کے ساتھ زیادہ سےزیادہ دنیا (دھن دولت وغیرہ ) جمع کرنے اورانواع اقسام کے لہوولعب اورغفلت ومدہوشی میں مبتلا ہے اور اس کا سبب صرف یہ ہے کہ دل آخرت سے غافل اوراللہ کے ذکر اوراس کی محبت سے خالی ہیں اوراس کی نعمتوں اورظاہری وباطنی نشانیوں میں غوروفکر سے کام نہیں لیتے ،اس کی ملاقات کے لئے تیاری نہیں کرتے،اس کی بارگاہ اقد س میں کھڑے ہونے کا تصور نہیں کرتے اورنہ یہ خیا ل کرتے ہیں کہ بارگاہ الہی سے انہیں جنت میں جانےکی اجازت ملے گی یا جہنم رسید ہونے کا حکم!

مسلمانو!اپنی حقیقت کو پہچانو،اپنے رب کی بارگاہ اقد س میں توبہ کرو،دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرو ،فرائض کی ادائیگی میں جلدی کرو،حرام امور سے اجتناب کرو تاکہ دنیا وآخرت میں عزت ،امن ہدایت اورسعادت کی کامرانیوں سے ہمکنارہوسکو،دنیا ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے اوراسے آخرت پر ترجیح دینے سے باز آجاو کیونکہ یہ تو اللہ کے دشمنوں اورتمہارےکافرومنافق دشمنوں کی صفت ہے اوردنیوی واخروی عذاب کاایک اہم سبب بھی ،جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے دشمنوں کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا:

﴿إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُ‌ونَ وَرَ‌اءَهُمْ يَوْمًا ثَقِيلًا﴾ (الانسان۷۶/٢٧)

‘‘يقينا یہ لوگ دنیا کو دوست رکھتے ہیں اور (قیامت کے) بھاری دن کو پس پشت چھوڑ (ڈال) دیتے ہیں۔’’

اورفرمایا:

﴿فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُ‌ونَ﴾ (التوبۃ۹/۵۵)

‘‘آپ کو ان کے مال اوراولاد تعجب میں نہ ڈالیں (یعنی تم ان کے مال اوراولاد سے تعجب نہ کرنا) یقینااللہ چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے دنیا کی زندگی میں ان کو عذاب دے اور (جب) ان کی جا نکلے تو (اس وقت بھی ) وہ کافر ہی ہوں۔’’

تم دنیا کے لئے پیدا نہیں کئے گئے ،بلکہ تم تو آخرت کے لئے پیدا کئے گئے ہو،تمہیں حکم یہ دیا گیا ہے کہ آخرت کےلئے زادراہ تیار کرو۔یا رکھوتمہیں دنیا کے لئے نہیں بلکہ تمام دنیا کو تمہارے لئے پیدا کیا گیا ہے تاکہ اللہ تعالی کی عبادت کے لئے جس کی خاطر تمہیں پیدا کیا گیا ہے ،دنیا کو استعمال کرسکواوراس کی ملاقات کے لئے تیاری کرسکوتاکہ اس کےفضل وکرم اورجنت میں اس کے پڑوس کے مستحق قرارپاسکو ۔ایک عقل مند آدمی کویہ قطعا زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنےخالق ومربی کی عبادت سے اورجو اس نے اس کی عزت وسرخ روئی کے لئے تیارکررکھا ہے،اس سے اعراض کرے،شہوت پرستیوں میں مشغول رہے،عارضی دنیا کے حصول ہی کو مقصد حیات قراردےلے،جب کہ اللہ تعالی نے اس سے بہتر دینے اوردنیا وآخرت کے احسن انجام کا وعدہ فرمایاہے۔مسلمان آدمی کو اس سے پرہیزکرنا چاہئے کہ وہ اکثر یت کے طرز عمل سے فریب خوردہ ہواورکہے کہ لوگ تواس طرف جارہے ہیں،اورلوگ تواس بات کے عادی ہیں اورمیں بھی ان میں سے ایک ہوں حالانکہ یہ طرز فکر ایک بہت بڑی مصیبت ہے ،سابقہ لوگوں میں سے اکثریت کی تباہی وبربادی کا سبب یہی مریضانہ سوچ تھی۔اس کے برعکس

عقل مند آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنا محاسبہ کرے،حق کو مضبوطی سے تھام لےخواہ لوگوں نے اسے چھوڑ رکھا ہواوران امورسےباز رہے جن سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے خواہ لوگ ان کا ارتکاب کررہے ہوں کیونکہ حق اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایاہے:

﴿وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ‌ مَن فِي الْأَرْ‌ضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ (الانعام۶/۱۱۶)

‘‘اوراكثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں (گمراہ ہیں) اگرتم ان کا کہنا مان لوگے تووہ تمہیں اللہ کے راستے سے بہکادیں گے۔’’

اورفرمایا:

﴿وَمَا أَكْثَرُ‌ النَّاسِ وَلَوْ حَرَ‌صْتَ بِمُؤْمِنِينَ﴾ (یوسف۱۲/۱۰۳)

‘‘اوربہت سے آدمی گوآپ کتنی ہی خواہش کریں،ایمان لانے والے نہیں ہیں’’

بعض سلف صالحین نے کیا خوب صورت بات کہی ہے کہ حق سے روگردانی نہ کرو خواہ حق پر چلنے والوں کی تعدادکتنی ہی کم کیوں نہ ہو اورباطل سے فریب نہ کھاو،خواہ باطل کی وجہ سے ہلا ک ہونے والوں کی تعدادکتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔

میں اپنی اس نصیحت کو ان پانچ امور پر ختم کرتا ہوں جوتمام خیرو بھلائی کا سرچشمہ ہیں:

 (۱) تمام قولی وعملی (فعلی) عبادتوں کو اخلاص کے ساتھ صرف اللہ وحدہ لاشریک ہی کے لئے انجام دیا جائے،ہر طرح کے چھوٹے اوربڑے شرک سے اجتناب کیا جائے،یہ تمام واجبات میں سے سب سے بڑا واجب اورتمام امور میں سے سب سےزیادہ اہم امر ہےاوریہی معنی ہیں لاالہ الااللہ کی گواہی دینے کے۔اگر یہ اصول صحیح سلامت ہے توپھر بندوں کے اعمال واقوال بھی صحیح ہیں ورنہ نہیں،جیسا کہ ارشادباری تعالی ہے:

﴿وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَ‌كْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ﴾ (الزمر۳۹/۶۵)

‘‘اوریقینا (اے محمد !ﷺ!) آپ کی طرف اوران (پیغمبروں) کی طرف جو تم سے پہلے ہوچکے ہیں یہی وحی بھیجی گئی ہے اگر تم نے شرک کیا تو تمھارے عمل برباد ہوجائیں گے اورتم زیاں کاروں میں سے ہوجاوگے۔’’

 (۲) قرآن اورسنت رسولﷺمیں تفقہ حاصل کرنا اوران دونوں کو مضبوطی سے تھام لینا اوراگر دین کے معاملہ میں کوئی مشکل پیش آئے تواس کے لئے اہل علم کی طرف رجوع کرنا،چنانچہ ہر مسلمان کے لئے یہی واجب ہے کہ وہ اس مشکل کے حل کے لئے اہل علم کی طرف رجوع کرے ،اسے ترک نہ کرے اورنہ اس سے اعراض کرے اورعلم وبصیرت کے بغیر محض اپنی رائے اورخواہش کی پیروی نہ کرے،چنانچہ محمد رسول اللہ ﷺکی گواہی دینے کے یہی معنی ہیں ۔اس گواہی نے بندے پر یہ واجب کردیا ہے کہ وہ اس بات پر ایمان رکھے کہ بلاشک وشبہ حضرت محمد ﷺ،اللہ کے سچے رسول ہیں لہذا آپ ؐ جس دین وشریعت کو لائے ہیں اسے مضبوطی سے تھام لیا جائے،آپؐ نے جو خبریں دی ہیں ان کی دل وجا ن سے تصدیق کی جائے اوراللہ سبحانہ وتعالی کی عبادت کے لئے صرف وہی طریقے اختیار کئے جائیں جو اس نے اپنےرسول ﷺکی ز بانی ہمیں سمجھائے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشادفرمایاہے:

﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ‌ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ﴾ (آل عمران۳/۳۱)

‘‘ (اے پیغمبر!لوگوں سے) کہہ دیجئے کہ اگرتم اللہ سےمحبت کرتے ہوتومیری پیروی کرو،اللہ بھی تم سے محبت کرے گااورتمہارے گناہ معاف کردے گا۔’’

اورفرمایا:

﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا﴾ (الحشر۷/۵۹)

‘‘جوچیز تم کو رسول (ﷺ) دیں وہ لے لواورجس سے منع کریں (اس سے) بازرہو۔’’

اورنبی کریمﷺنے فرمایاہے کہ‘‘جس نے ہمارے اس دین (اسلام ) میں کوئی ایسی نئی چیز پیدا کرلی جو اس میں نہ ہو تووہ عمل مردودہے۔’’ (متفق علیہ)

آنحضرت علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا:‘‘جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہماراامر نہیں ہے تو وہ مردود ہے’’ (صحیح مسلم) جو شخص بھی قرآن وسنت سے اعراض کرے وہ اپنی خواہش کا پجاری اوراپنےمولا کا نہ فرمان ہو اوراس نافرمانی کی وجہ سے عذاب اورسزاکا مستحق ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایاہے:

﴿فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ‌ هُدًى مِّنَ اللَّـهِ﴾ (القصص۲۸/۵۰)

‘‘پھراگریہ لوگ تمہاری بات قبول نہ کریں توجان لو کہ یہ صرف اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں اوراس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔’’

اللہ تعالی نے کافروں کے بارے میں فرمایاہے :

﴿إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ ۖ وَلَقَدْ جَاءَهُم مِّن رَّ‌بِّهِمُ الْهُدَىٰ﴾ (النجم۵۳/٢٣)

‘‘یہ لوگ محض ظن (فاسد) اورخواہشات نفس کے پیچھے چل رہے ہیں حالانکہ ان کےپروردگارکی طر ف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے۔’’

خواہش نفس کی پیروی سے اللہ محفوظ رکھے ،یہ دل کے نور کوبجھادیتی اورراہ حق سے روک دیتی ہے جیسا کہ ارشادباری تعالی ہے:

﴿وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ (ص۳۸/۲۶)

‘‘اورخواہش کی پیروی نہ کرووہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکادے گی۔’’

اللہ تعالی تمہارے حال پر رحم فرمائے،خواہش نفس کی پیروی کرنے اورہدایت سے اعراض کرنے سے بچو،حق کے دامن کو مضبوطی سے تھامو،اسی کی دعوت دواوراس کی مخالفت سےبچو تاکہ دنیا وآخرت کی بھلائیوں کو سمیٹ کرکامیابی وکامرانی حاصل کرسکو!

 (۳) نماز پنجگانہ کو قائم کرنا اورباجماعت اداکرکے اس کی حفاظت کرنا کیونکہ شہادتین کے بعد یہ سب سے اہم اورعظیم فریضہ ہے ،یہ دین کا ستون اورارکان اسلام میں سے دوسرابڑارکن ہے۔قیامت کے دن بندے کے اعمال میں سب سے پہلے اسی کا حساب ہوگا ،جس نے اس کی حفا ظت کرلی اس نے گویا اپنے سارے دین کی حفاظت کرلی اورجس نے اسے ترک کردیا اس نے اسلام ہی کوچھوڑ دیا۔آہ!نماز چھوڑنے والے جب اللہ تعالی کے دربار میں کھڑے ہوں گے تووہ کس قدرحسرت وندامت کے ساتھ کف افسوس ملیں گے اورکس قدربدترین انجام سے دوچارہوں گے!

اللہ تعالی تم پر رحم فرمائے!خود بھی نماز کی حفاظت فرماواورلوگوں کو بھی اس کی تلقین کرو۔جوشخص نماز میں سستی کرے یا اسےچھوڑے اسے خوب خوب سمجھاو کیونکہ یہ نیکی وتقوی کے کاموں میں تعاون ہے اورصحیح حدیث میں ہے ،نبی کریمﷺنے ارشادفرمایا:

 ( (العهد الذي بينناوبينهم الصلاة ’فمن تركها فقد كفر) )

ہمارے اوران کے درمیان جوعہدہے وہ نماز ہے جس نے اسے ترک کردیا اس نے کفرکیا۔’’

اس حدیث کو امام احمد اوراہل سنن نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے اسی طرح نبی کریمﷺنے یہ بھی فرمایاہےکہ:

 ( (بين الرجل وبين الكفر والشرك ترك الصلوة ) )

‘‘آدمی اورکفر وشرک کے درمیان فرق،ترک نماز سے ہے۔’’

اس حدیث کوامام مسلم نے اپنی‘‘صحیح’’میں بیان فرمایاہےاورنبی کریمﷺکا مشہورارشادگرامی ہے کہ ‘‘تم میں سےجو شخص کوئی برائی دیکھےتواسے اپنے ہاتھ سے مٹادے،اگراس کی طاقت نہ ہو توزبان سے سمجھادےاوراگراس کی طاقت بھی نہ ہوتوپھر دل سے برا جانے اوریہ ایمان کاکمزورترین درجہ ہے’’ ‘‘صحیح مسلم’’

 (۴) فریضہ زکوۃ کے اداکرنے کی طرف بھی خصوصی توجہ دینی چاہئے اورکوشش کرکے اسے اس طرح اداکیا جائےجس طرح اللہ تعالی نے واجب قراردیا ہے کیونکہ یہ ارکان اسلام میں سے تیسرااہم رکن ہے ۔ہرمکلف مسلمان پر یہ واجب ہے کہ وہ اپنے مال کا حساب کرے،خوب اچھی طرح اسے گنے اورجس مال پر ایک سال گزرگیا ہو،اس کی زکوۃ اداکرے بشرطیکہ وہ نصاب کے مطابق ہواورپھراسے طیب خاطر (خوش دلی) اورانشراح صدر کے ساتھ اس جزبہ سے اداکرے کہ وہ فریضہ کو ادااوراس کی نعمت کاشکریہ اداکررہا ہے۔اوراس کے بندوں پر احسان کررہا ہے،جب مسلمان اس انداز سے زکوۃ اداکرے گاتواللہ تعالی اسے دوگنا اجروثواب عطافرمائے گا،اس نے جو خرچ کیا اس کے بدلہ میں اسےاورمال عطافرمائے گا،اس کے مال میں برکت عطافرمائے گااوراس کے مال کو پاک صاف کردے گاجیساکہ اس نے فرمایاہے:

﴿١خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُ‌هُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا﴾ (التوبۃ۹/۱۰۳)

‘‘ (اے پیغمبر!) ان کے اموال میں زکوۃ لیجئےاس کے ذریعےسےآپ ان کوپاک صاف کردیں کردیں اوران کے لئے دعاکردیجئے’’

اگر کوئی شخص سستی کرے اورزکوۃ اداکرنے میں بخل سے کام لے تواللہ تعالی اس سے ناراض ہوجاتا ہے ،اس کے مال کو برکت سے محروم کردیتا ہے،اس پر تباہی وبربادی کومسلط کردیتا ہےاورایسے اسباب پیدا کردیتا ہے کہ اس کا مال تلف ہو اورناحق کاموں میں خرچ ہواورپھر قیامت کے دن اسے عذاب بھی دے گا،چنانچہ فرمان باری تعالی ہے:

﴿وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْ‌هُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾ (التوبۃ۹/۳۴)

‘‘اورجولوگ سونا اورچاندی جمع کرتے ہیں اوراس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے انہیں اس دن کے دردناک عذاب کی خبرسنادو۔’’

ہر وہ مال جس کی زکوۃ ادانہ کی جائے وہ کنز ہے ،اس کے مالک کو قیامت کے دن عذاب ہوگا،اللہ تعالی ہمیں اورآپ سب اپنے عذاب سے بچائے۔

مسلمانوں کے غیر مکلف افراد (یعنی جو شرعی احکام کی ادائیگی سے مستثنی ہیں) جیسے نابالغ بچہ یا دیوانہ آدمی ان کے پاس اگر مال ہے تو ان کے سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ وہ سال گزرنے پر اس مال میں سے زکوۃ اداکریں،کیونکہ کتاب وسنت کے عمومی دلائل پر مسلمان کے مال ہیں زکوۃ کے وجوب پر دلالت کرتے ہیں،چاہے وہ مکلف ہویا غیر مکلف۔

 (۵) ہر مکلف مسلمان پر یہ واجب ہے خواہ وہ مرد ہویا عورت کہ وہ ہر اس کام میں جس کا اللہ اوراس کے رسول نےحکم دیا ہے ،اللہ تعالی اوراس کے رسول کی اطاعت بجالائے مثلا رمضان کے روزے رکھے،استطاعت ہوتوبیت اللہ کا حج کرے اوران دیگر تمام امور کو بھی ادا کرے،جن کے کرنے کا اللہ اوراس کے رسول ﷺنے حکم دیا ہے،حرمات الہی کی تعظیم بجالائے،غوروفکر کرتا رہے کہ اسے کس نے پیدا کیا اورکیا حکم دیا گیا ہے،ہمیشہ اپنا محاسبہ بھی کرتا رہے کہ اگر وہ اپنے فرائض وواجبات کو صحیح طورپر اداکررہا ہےتو اس پر خوش ہو،اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کرے،اس سے ثابت قدمی کی دعامانگے اورفخر وغرورنہ کرے اوراپنے آپ کو پاک سمجھنے سےپرہیز کرے اوراگرمحاسبہ کے وقت یہ محسوس کرے کہ فرائض وواجبات کے اداکرنے میں کوتاہی ہورہی ہے یا وہ بعض حرام امورکا ارتکاب کررہا ہے تواسے فورااللہ تعالی کی بارگاہ میں سچی توبہ کرنی چاہئے ۔ندامت کااظہار کرنا چاہئے اوراللہ تعالی کے حکم پر استقامت کے ساتھ چلنا چاہئے،کثرت سے اللہ تعالی کا ذکر ،استغفاراورالحاح وزاری کرناچاہئے ،سابقہ گناہوں سے اللہ تعالی کے ہاں توبہ کرنی چاہئے اورآئندہ کے لئے نیک قول عمل کی توفیق مانگنی چاہئے۔بندے کو اگر اس امر عظیم کی توفیق مل جائے تویہ سعادت اوردنیا وآخرت میں نجات کو عنوان ہے۔

جب کوئی شخص اپنے نفس سے غافل ہوکر اپنی خواہشات وشہوات کے پیچھے چل پڑے اوراپنی آخرت کی تیاری سےغافل ہوجائے تویہ ہلاکت کا عنوان اورخسارے کی دلیل ہے لہذا ہر ایک کو خود اپنا جائزہ لینا چاہئے،اپنا محاسبہ خود کرتے رہناچاہیئے، اپنے عیوب پر نظر رکھنی چاہئے کیونکہ اپنے عیوب کودیکھنے سےآدمی کوبہت غم واندوہ لاحق ہوگا،اپنے ہی فکرمیں،دوسروں سے بےنیاز ہوکر غلطاں وپیچاں ہوگااوراس وجہ سے اللہ تعالی کے سامنے ذلت وانکساری کا اظہارکرتے ہوئےاس سے عفوومغفرت کا سوال کرے گا۔محاسبہ اوراللہ تعالی کے سامنے ذلت وانکساری کا اظہار دنیا وآخرت میں سعادت اورفلاح وعزت کا سبب ہے ۔

ہر مسلمان کو جاننا چاہئے کہ اسے جوبھی صحت ،نعمت ،مقام ومرتبہ کی بلندی اورخوشحالی نصیب ہوتو یہ محض اللہ تعالی کا فضل واحسان ہے اوراسے جومرض ،مصیبت ،فقر،قحط سالی اوردشمن کے غلبہ کی صورت میں مصائب لاحق ہوں تویہ اس کے گناہوں کا نتیجہ ہیں۔

دینا میں جو بھی آلام ومصائب پیش آتے ہیں تو ان کا سبب اللہ تعالی کی نافرمانی ،اس کے حکم کی مخالفت اوراس کےحقوق اداکرنے میں سستی وکوتاہی ہے جیسا کہ اس نے ارشادفرمایاہے:

﴿وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ‌﴾ (الشوری۴۲/۳۰)

‘‘اورجو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے،سوتمہارے اپنے فعلوں سے ہے اوروہ (یعنی اللہ تعالی) بہت سے گناہ تومعاف کردیتا ہے۔’’

اورفرمایا:

﴿ظَهَرَ‌ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ‌ وَالْبَحْرِ‌ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْ‌جِعُونَ﴾ (الروم۳۰/۴۱)

‘‘خشکی اورتری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ ان کو ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائےعجب نہیں کہ وہ باز آجائیں۔’’

اےاللہ کے بندوں !اللہ سے ڈرو،اس کے امرونہی کی تعظیم بجالاو،اپنے تمام گناہوں سے اس کے حضورجلدتوبہ کرو،اسی کی ذات گرامی پر اعتماداورتوکل کرو،وہ ساری مخلوق کا خالق ورازق ہے ،ساری مخلوق کی پیشانیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں،مخلوق میں سے کوئی بھی اپنے لئے نقصان ،نفع ،موت،حیات اورمرنے کے بعد ازخود جی اٹھنے کا مالک نہیں ہے۔

اللہ کے بندوں !اللہ تمہارے حال پر رحم فرمائے،اپنے رب اوراس کے رسول کے حق کو دوسروں کے حق وطاعت پر مقدم جانوخواہ وہ کوئی بھی ہوں۔ایک دوسرے کو نیکی کا حکم دو،برائی سے منع کرو،اپنے رب کے ساتھ حسن ظن رکھو،کثرت سے ذکرالہی اورتوبہ استغفارکرتے رہو،نیکی وتقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرولیکن گناہ اورظلم کے کاموں میں تعاون نہ کرو،بے وقوف لوگوں کے ہاتھوں کو پکڑلو،ان سے احکام الہی کی پابندی کراو،نواہی سے انہیں روکو،اللہ تعالی کے لئے محبت کرواوراسی کی خاطر بغض رکھو،اللہ کے دوستوں سے دوستی اوراس کے دشمنوں سے دشمنی رکھو،صبر کروایک دوسرے کوصبر کی تلقین کروحتی کہ اپنے رب کی ملاقات کرلوان اعمال صالحہ کے بجالانے سےتم حددرجہ سعادت ،عزت وکامرانی اوربلند وبالااورارفع واعلی درجات پر فائز ہوجاوگے۔

ازلی وابدی نعمتوں سے بھر پورجنتوں سے فیض یاب ہوجاوگے،اللہ تعالی ہی سے دعا ہےکہ وہ ہم سب کو اپنی رضاکے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے،سب کے دلوں کی اصلاح فرمادے ،ہمارے دلوں کو اپنی خشیت ،محبت ،تقوی اپنے دین کی محبت اوراپنے بندوں کی ہمدردی وخیر خواہی سے بھر دے،ہمیں اورآپ کو اپنے نفس کی شرارتوں اوراپنے برےاعمال کی خرابیوں سے بچائے،ہمارے اوردیگر مسلمانوں کے تمام حکمرانوں کو اپنی رضا کے مطابق عمل کی توفیق عطافرمائے،ان کی بدولت حق کو غلبہ اورباطل کو ذلت ورسوائی سے دوچارکرے اورہم سب کو گمراہ کن فتنوں سے محفوظ رکھے،بے شک وہی قادروکارساز ہے۔

والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته-وصلي الله وسلم علي نبينا محمد’وآله وصحبه وسلم

 

 

مقالات وفتاویٰ ابن باز

صفحہ 457

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ