سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(248) مسلمانوں کے لئے نصیحت

  • 7613
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1308

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسلمانوں کےلئےنصیحت


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمانوں کےلئےنصیحت

الحمدلله وحده والصلاةوالسلام علي من لانبي معده وعلي آله وصحبه

عبدالعزیزبن عبداللہ بن بازکی طرف سےہراس مسلمان کےنام جومیری اس نصیحت کودیکھے،اللہ تعالیٰ مجھےاوران سب کودین میں فقاہت عطافرمائےاورمجھےاورانہیں صراط مستقیم پرچلنےکی توفیق عطافرمائے۔

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،امابعد:

اس نصیحت کےذریعہ میں نےان بعض منکرامورکی طرف توجہ مبذول کروائی ہےجن میں بہت سےمسلمان مبتلاہوچکےہیں اوراس کاسبب ان کی جہالت یایہ کہ شیطان ان کےافکاراورعقلوں کےساتھ کھیل رہاہےاوریہ لوگ محض خواہش نفس کی پیروی کی وجہ سےان منکرامورکاارتکاب کررہےہیں۔

ان منکرامور،فاسدعقائداورکھلم کھلاضلالت وگمراہی سےتعلق رکھنےوالاایک امریہ ہےکہ بعض غافل اورجاہل لوگ کچھ خرافات بکنےوالےمشرکوں،گمراہوں اورگمراہ کرنےوالوں کےبارےمیں یہ عقیدہ رکھتےہیں کہ وہ بیماروں کوشفادےسکتےہیں،ان سےنقصان کودورکرسکتےاورانہیں نفع پہنچاسکتےہیں۔اس بےبصیرتی اورگمراہی سےہم اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتےہیں کیونکہ یہ عقیدہ ایمان باللہ کےمنافی ہے،اس لئےکہ اللہ رب ذوالجلال ہی نافع،ضار،رزاق،محی،ممیت،مدبراورقادرہےاوروہ ان گمراہوں اورافتراءپردازوں کی باتوں سےبلندوبالا،ارفع واعلیٰ اورپاک ہے،ارشادباری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ‌ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِ‌دْكَ بِخَيْرٍ‌ فَلَا رَ‌ادَّ لِفَضْلِهِ﴾ (یونس۱۰۷/۱۰)

‘‘اوراگراللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائےتواس کےسوااس کاکوئی دورکرنےوالانہیں ہےاوراگروہ تم سےبھلائی کرناچاہےتواس کےفضل کوکوئی روکنےوالانہیں۔’’

لہٰذااگرکوئی شخص یہ عقیدہ رکھےکہ اللہ تعالیٰ کےسواکوئی اوربھی نفع ونقصان کامالک یاشفادےسکتاہےتووہ اللہ تعالیٰ،اس کی کتاب،اس کےفرشتوں اوراس کےرسولوں کےساتھ کفرکرتاہے،اللہ تعالیٰ نےاپنی مخلوق میں سب سےاشرف وافضل انسان سےکہاکہ وہ یہ اعلان کردیں کہ:

﴿قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّ‌ا وَلَا رَ‌شَدًا ﴿٢١﴾ قُلْ إِنِّي لَن يُجِيرَ‌نِي مِنَ اللَّـهِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا ﴿٢٢﴾ إِلَّا بَلَاغًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِ‌سَالَاتِهِ﴾ (الجن۷۲/۲۱۔۲۳)

‘‘ (اےپیغمبر!) کہہ دیجئےکہ میں تمہارےحق میں نقصان اورنفع کاکچھ اختیارنہیں رکھتا (یہ بھی) کہہ دیجئےکہ اللہ سےمجھےہرگزکوئی پناہ نہیں دےسکتااورمیں اس کےسواکہیں جائےپناہ بھی بہیؓ پاسکتاہاں اللہ کی طرف سے (احکام) اوراس کےپیغاموں کاپہنچادینا (ہی میرےذمےہے۔) ’’

اورفرمایا:

﴿قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّ‌ا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ﴾ (الاعراف۱۸۸/۷)

‘‘کہہ دوکہ میں اپنےفائدےاورنقصان کاکچھ بھی اختیارنہیں رکھتامگرجواللہ چاہے۔’’

اوررسول اللہﷺنےفرمایاکہ‘‘جب سوال کروتواللہ سےکرواورجب مددمانگوتواللہ سےمانگو۔’’جب نمی کریمﷺاپنےلئےیاکسی اورکےلئےنفع ونقصان کےمالک نہیں تواورکوئی کس طرح نفع ونقصان کامالک ہوسکتاہے؟لہٰذاہروہ شخص جوکسی نبی یانیک آدمی یااولیاءمیں سےکسی ولی کےبارےمیں غلوسےکام لےاوران کےبارےمیں الوہیت کی کسی قسم کاگمان رکھےمثلایہ کہےکہ‘‘اےفلاں!تومجھےشفادےیامیری مددکریامجھےرزق عطاکریایہ کےہکہ مجھےدولت مندبنادے۔’’وغیرہ تویہ شرک وضلالت ہےایسےشخص سےتوبہ کروائی جائےگی،اگرتوبہ کرلےتودرست ورنہ اسےقتل کردیاجائےگا۔

اسی طرح جوشخص اپنےاوراللہ تعالیٰ کےدرمیان واسطےبنالےاوران پرتوکل کرے،ان سےدعاکرےاوران سےسوال کرےتوبالاجماع وہ بھی کافرہے،اسی طرح اگرکوئی شخص یہ اعتقادرکھےکہ اللہ تعالیٰ کےسواکسی نبی یاولی یاجن یاروح وغیرہ کوبھی اختیارہےکہ وہ مشکل کودور،حاجت کوپورا،بیماری کورفع اوربلاکودورکرسکتاہےتووہ بھی بہت بڑی گمراہی اورجہالت کی ایک خطرناک وادی میں داخل ہوگیاہےیعنی وہ جہنم کےگڑھےکےکنارےپرکھڑاہےکیونکہ اس نےاللہ العظیم کےساتھ شرک کیااوراسی طرح جوبھی صالحین اوراولیاءمیں سےکسی کوامدادکےلئےپکارےتواس نےبھی اللہ تعالیٰ کےساتھ شرک کیاکہ اللہ کےسواکوئی بھی کسی کی مشکل دورکرنےپرقادرنہیں ہے۔

ان منکرامورمیں سے،جن میں مسلمان مبتلاہیں،ایک یہ بھی ہےکہ بعض لوگ یہ دعویٰ کرتےہیں کہ وہ بنوہاشم میں سےہیں اوردیگرلوگوں میں سےکوئی بھی ان کےبرابرنہیں ہےلہٰذا وہ اپنےسوانہ کسی کو رشتہ دیتےاورنہ کسی سےرشتہ لیتےہیں یہ بھی بہت بڑی غلطی،بہت بڑی جہالت،عورت پرظلم اورایساحکم شریعت ہے،جس کااللہ تعالیٰ اوراس کےرسول نےحکم نہیں دیابلکہ ارشادباری تعالیٰ تویہ ہےکہ:

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ‌ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَ‌فُوا ۚ إِنَّ أَكْرَ‌مَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ﴾ (الحجرات۱۳/۴۹)

‘‘اےلوگو!ہم نےتمہیں ایک مرداورایک عورت سےپیداکیااورتمہاری قومیں اورقبیلےبنائےتاکہ تم ایک دوسرےکوشناخت کرو (اور) اللہ کےنزدیک تم میں زیادہ عزت والاوہ ہےجوزیادہ پرہیزگارہے۔’’

اورفرمایا:

﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾ (الحجرات۱۰/۴۹)

‘‘مومن توآپس میں بھائی بھائی ہیں۔’’

نیزفرمایا:

﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ﴾ (التوبۃ۷۱/۹)

‘‘اورمومن مرداورمومن عورتیں ایک دوسرےکےدوست ہیں۔’’

مزیدفرمایا:

﴿فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَ‌بُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ‌ أَوْ أُنثَىٰ ۖ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ﴾ (آل عمران۱۹۵/۳)

‘‘توان کےپروردگارنےان کی دعاقبول کرلی (اورفرمایا) کہ میں کسی عمل کرنےوالےمردیاعورت کےعمل کوضائع نہیں کرتاتم ایک دوسرےکی جنس ہو۔’’

رسول اللہﷺنےفرمایا‘‘کسی عربی کوعجمی پر،کسی عجمی کوعربی پر،کسی سفیدکوسیاہ پراورکسی سیاہ کوسفیدپرفضیلت حاصل نہیں ہےمگربجزتقویٰ کے،سبھی لوگ آدم کی اولادہیں اورآدمؑ مٹی سےپیداہوئےتھے۔’’ نبیﷺنےفرمایاکہ‘‘آل بنی فلاں میرےدوست نہیں ہیں کیونکہ میرےدوست تواللہ اورنیک مومن ہیں۔’’ (متفق علیہ)

ایک حدیث میں ہےکہ نبی کریمﷺنےفرمایاکہ‘‘جب تمہارےپاس ایساشخص منگنی کاپیغام لےکرآئےجس کادین واخلاق تمہیں اسےپسندہوتواسےرشتہ دےدو،ورنہ زمین میں فتنہ اوربہت بڑافسادبرپاہوجائےگا’’ (ترمذی نےاسےحسن قراردیاہے) نبی کریمﷺنےزینب بنت بخش اسدیہ کااپنےغلام زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ سےنکاح کردیاتھااورفاطمہ بنت قیس قرشیہ رضی اللہ عنہ کااسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سےنکاح کردیاتھاحالانکہ یہ دونوں آزادکردہ غلام تھے،حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ حبشی کا نکاح آپ نےحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بہن سے کردیا تھا جو کہ زہری اورقریشی تھیں ،اسی طرح حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ قرشی نے اپنے بھائی ولید کی بیٹی کا رشتہ حضرت سالم کو دےدیا تھاجسے ایک انصاری خاتون نے آزادکیا تھا،ارشادباری تعالی ہے:

﴿وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ﴾ (النور۲۴/۲۶)

‘‘اورپاک عورتیں پاک مردوں کے لئے ہیں اورپاک مردپاک عورتوں کے لئے!’’

اسی طرح خود نبی کریمﷺنے اپنی دوصاحبزادیوں یعنی حضرت رقیہ اورحضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اوراپنی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ سے نکا ح کردیا تھااورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ اورحضرت ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ دونوں ہی بنو ہاشم سے نہیں بلکہ بنو عبدالشمس سے تھے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی ام کلثوم کا نکاح حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے کردیا تھا حالانکہ حضرت عمرفاروق

رضی اللہ عنہ بھی ہاشمی نہیں بلکہ عدوی ہیں ،اسی طرح عبداللہ بن عمروبن عثمان کے حبالہ عقد میں فاطمہ بنت حسین بن علی تھیں حالانکہ وہ اموی ہیں ہاشمی نہیں اسی طرح حضرت مصعب بن زبیر کے نکا ح میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری صاحبزادی حضرت سکینہ تھیں حالانکہ مصعب بھی ہاشمی نہیں تھے بلکہ اسدی تھے یعنی اسد قریش سے آپ کا تعلق تھا ۔مقدادبن اسود نے نبی کریم ﷺکے چچازبیر بن عبدالمطلب کی صاحبزادی ضباعہ سے شادی کی تھی حالانکہ مقداد بھی ہاشمی نہیں بلکہ کندی تھے،چنانچہ اس طرح کی اوربھی بہت سی مثالیں ہیں،اس سےمقصود یہ ہے کہ بعض ہاشمیوں کا یہ دعوی باطل ہے کہ ہاشمی خاتون کا غیر ہاشمی کے ساتھ نکا ح حرام یا مکروہ ہے کیونکہ غیر ہاشمی ایک ہاشمی خاتون کا کفو نہیں بن سکتا حالانکہ کفوسےمراددینی کفوہے ۔ابوطالب اورابولہب کو جس بات نے دورکیا وہ اسلام سے محرومی تھی اورسلمان فارسی،صہیب رومی اوربلال حبشی رضی اللہ عنہ کو جس بات نے قریب کردیا تھا وہ دولت ایمان تھی نیکی ،تقوی،اتباع شریعت اورصراط مستقیم کی پابندی تھی لیکن آج کل بعض ہاشمی لوگوں نے جویہ خود ساختہ اصول بنالیا ہے کہ ہاشمی خاتون کا غیر ہاشمی مرد سے نکاح جائز نہیں تو اس جہالت اورباطل تصرف کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہاشمی خاندان سے رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے بہت سی ہاشمی خواتین نکاح سے محروم رہتی ہیں یا ان کی شادی میں بے پناہ تاخیر ہوجاتی ہے اوراس کانتیجہ بھی خوشگوار نہیں ہوتا کہ اس قدر تاخیر سے شادی کی وجہ سے یہ خواتین اولاد سے بالکل محروم رہتی ہیں یا ان کے ہاں بہت کم اولاد ہوتی ہے ۔ارشادباری تعالی ہے:

﴿وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَ‌اءَ يُغْنِهِمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾ (النور۲۴/۳۲)

‘‘اوراپنی (قوم کی) بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو اوراپنے غلاموں اورلونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں (نکاح کردیاکرو) اگروہ مفلس ہوں گے تو اللہ تعالی ان کو اپنے فضل سے خوش حال کردے گااوراللہ (بہت) وسعت والا (اور) سب کچھ جاننے والاہے۔’’

اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالی نے بیوہ عورتوں کے نکاح کرنے کامطلق حکم دیا ہے تاکہ یہ حکم غنی ،فقیر اوردیگر تمام مسلمانوں کے لئے عام ہو۔اسلامی شریعت نے چونکہ نکاح کی ترغیب دی ہے اوربہت تاکید کے ساتھ اس کی ترغیب دی ہے لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکے حکم کی اطاعت کے لئے جلدی کریں،چنانچہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایاہے کہ‘‘اے گروہ نوجواناں!تم میں سے جس شخص کے پاس مالی استطاعت ہو تو شادی کرلے کیونکہ اس سے نظر نیچی رہتی ہے اورشرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے اورجس کو استطاعت نہ ہو تواسے چاہئیے کہ وہ روزہ رکھے،روزہ اس کے لئے شہوت کو دبانے کا سبب ہوگا’’عورتوں کے وارثوں کو چاہئے کہ وہ عورتوں کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈریں یہ ان کے پا س اللہ تعالی کی امانت ہیں،اللہ تعالی اس امانت کے بارے میں ان سے ضرور بازپرس کرے گالہذا انہیں چاہئے کہ یہ فورا اپنی بیٹیوں ،بہنوں اوراپنے بیٹوں کی شادی کریں تاکہ ہر ایک اس زندگی میں اپنا کرداراداکرسکے اورفتنہ وفساداورجرائم بھی کم ہوں اوریہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ بچیوں کی شادی نہ کرنا یا اس میں بہت تاخیر کردینا اخلاقی جرائم اورمعاشرے میں بگاڑ پیداکرنے کا سبب ہے بلکہ یوں سمجھئے کہ یہ وہ کدال ہے جو معاشرہ کی اخلاقی قدروں کو توڑ پھوڑ دیتا اورتباہی وبربادی سے دوچارکردیتا ہے۔

اے بندگان الہی!اپنے بارے میں بھی اللہ سے ڈرو،ان بہنوں اوربیٹیوں کے بارے میں بھی،جن کا اللہ تعالی نے تم کو والی بنادیا ہےاوراپنے مسلمان بھائیوں کے بارے میں بھی اورسب مل کرکوشش کروکہ معاشرہ خیروبھلائی اورسعادت وکامرانی کا گہوارہ بن جائے۔معاشرہ کی نمو،ارتقاء اوتکاثر کے راستے آسان ہوں اورمعاشرہ میں جرائم کے پھیلانے والے اسباب کاازالہ ہو اورجان لوکہ تم سب سے ایک دن تمہارے اعمال کے بارے میں سوال اورحساب وکتاب ہوگا اورتمہیں اپنے اعمال کے مطابق جزایاسزاسےدوچارہونا پڑے گا۔ارشادباری تعالی ہے:

﴿فَوَرَ‌بِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٩٢﴾ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ (الحجر۱۵/۹۲۔۹۳)

‘‘تمہارے پروردگار کی قسم!ہم ان سے ضرورپرسش کریں گے ان کاموں کی جو وہ کرتے رہے۔’’

اورفرمایا:

﴿وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى﴾ (النجم۵۳/۳۱)

‘‘اورجوکچھ آسمانوں میں ہے اورجوکچھ زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے (اوراس نے خلقت کو) اس لئے (پیداکیا ہے) کہ جن لوگوں نے برے کام کئے ان کو ان کے اعمال کا (برا) بدلہ دے اورجنہوں نے نیکیاں کیں ان کو نیک بدلہ دے۔۔’’

پس اے مسلمانو!تم اپنے نبی کریمﷺاورآپؐ کےحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوران کے نقش قدم پر چلنے والے تمام لوگوں کی اقتداء کرتے ہوئے اپنے بیٹوں اوربیٹیوں کی جلد شادی کرواورمیں تمہیں یہ بھی وصیت کرتا ہوں کہ شادی پر اخراجات بھی کم کرو،مہرباندھنے میں بھی بہت مبالغہ سے کام نہ لو ،شادی کےاخراجات میں اعتدال اورمیانہ روی اختیار کرو،شادی کے لئے ایسے لوگوں کا انتخاب کرنے کی کوشش کروجو نیک ،متقی ،امانت داراورپاکبازہوں ۔اللہ تعالی ہم سب کو دین کی سمجھ بوجھ عطافرمائے،دین پر ثبات واستقامت سےنوازے ،ہمیں اورتمھیں اپنے نفسوں کی شرارتوں اوربرے عملوں سے محفوظ رکھے،اورسب کو ظاہری وباطنی تمام گمراہ کن فتنوں سے بچائے اورہم اللہ تعالی سے یہ دعابھی کرتے ہیں کہ وہ ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرمادے اورانہیں دوسروں کے لئے اصلاح کا ذریعہ بنادے،بے شک وہ ہرچیز پرقادر ہے۔

وصلي الله وسلم علي نبينا محمد واآله وصحبه

 

 

مقالات وفتاویٰ ابن باز

صفحہ 334

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ