سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(69) فتح المجید پر علامہ محمد حامد فقی کے حواشی پر تبصرہ

  • 7434
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1272

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فتح المجید پر علامہ محمد حامد فقی کے حواشی پر تبصرہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الحمدلله رب العالمين والصلوة والسلام على اشرف الانبياء والمرسلين نبينا محمد واله وا صحبه اجمعين اما بعد:

میں نےکتاب‘‘فتح المجید شرح کتاب التوحید’’تالیف امام علامہ محقق شیخ عبدالرحمن ابن حسن بن شیخ امام مجدد لعالم الاسلام فی القران الثانی عشرالہجری الشیخ محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان بن علی تمیمی حنبلی رحمہم اللہ جمیعا،پر استاذ علامہ شیخ محمد حامد فقی کے حواشی کا مطالعہ کیا اور انہیں کثیر فوائد پر مشتمل پایا کہ انہوں نے بہت ہی احسن اورمفید انداز میں ان حواشی کو لکھا ہے۔ان میں سے اگرچہ اکثر حواشی شیخ عبدالرحمن مذکورکی کتاب‘‘قرۃ العیون’’سے ماخوذ ہیں تاہم شیخ محمد حامد فقی کے ان حواشی میں کچھ غلطیاں بھی ہیں۔لہذا ضروری محسوس ہو اکہ ان کے بارے میں مطلع کردیا جائے،ان کے حواشی اوراپنے حواشی میں فرق کرنے کے لئے میں نے ان کے حواشی کے ساتھ سٹار (ستارے) کی علامت لگادی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہےکہ وہ اجر بے پایاں سے نوازے۔انه جواد كريمان حواشی کی تفصیل ذیل میں ملاحظہ فرمائیے واللہ ولی التوفیق۔

ص۸۷حاشیہ (۱)

*‘‘وفدعبدالقیس ۹ہجری میں آیا تھا۔’’

یہ بات محل نظر ہے کیونکہ وفدعبدالقیس فتح مکہ سے پہلےآیا تھا جیسا کہ ان کے اس قول سے ظاہر ہوتا ہےکہ :

ان بيننا وبينك هذا الحي من كفار مضر

‘‘ہمارےاورآپ کے مابین کفار مضر کا یہ خاندان (قبیلہ ) حائل ہے۔’’

اوریہ سبھی جانتے ہیں کہ اہل مکہ کفار مضر کے قائد اورسربراہ تھے اوروہ فتح مکہ کے سال یعنی ۸ہجری میں مسلمان ہوئے ،چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی تاریخ کی کتاب البداية الناية میں اس واقعہ کے سیاق سباق سے یہی معنی اخذ کئے ہیں۔واللہ اعلم۔

ص۱۲۸حاشیہ (۲)

*اس لئے یہ اللہ تعالی کی آیات کے ساتھ بہت شدید مذاق ہے اوریہ بات آیات کے مقاصد کے منافی بھی ہے۔۔۔۔’’الخ۔

یہ بات بھی محل نظر ہے کیونکہ تعویذوں کا لٹکانا دین کے ساتھ مذاق نہیں بلکہ یہ توشرک اصغر اورجاہلیت کے ساتھ مشابہت ہے بلکہ کبھی یہ تعویذ لٹکانے والے کی نیت کی وجہ سے شرک اکبر بھی ہوجاتا ہے۔مثلا اگر وہ یہ نیت کرے کہ اللہ تعالی کی بجائے یہ تعویذ نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں یا اس طرح کا کوئی اوراعتقاد رکھے تویہ شرک اکبر ہے اوراگریہ اعتقادرکھے کہ یہ نظر بد یا جنات وغیرہ سے محفوظ رہنے کا سبب ہیں تو یہ شرک اصغر ہوگا کیونکہ اللہ تعالی نے ان کو سبب قرارنہیں دیا بلکہ ان سے منع فرمایا اوران کے استعمال کی ممانعت کی ہے اوراپنے رسول ﷺکی زبانی واضح فرمایا ہے کہ یہ شرک ہے کیونکہ تعویذ استعمال کرنے والا انہی کی طرف التفات کرتا اورانہی سے تعلق رکھتا ہے،اگر تعویذوں کا لٹکانا آیات الہی کے ساتھ مذاق ہوتا توپھر تویہ کفر اورارتدادتھا۔جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ:

﴿قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَ‌سُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾ لَا تَعْتَذِرُ‌وا قَدْ كَفَرْ‌تُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾ (التوبۃ۹/۶۵۔۶۶)

‘‘کہوکیا تم اللہ اوراس کی آیتوں اوراس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے،بہانے مت بناوتم ایمان لانے کے بعدکافرہوچکے ہو۔’’

 ہمیں نہیں معلوم کے اہل علم میں سے کسی نے یہ کہا ہو کہ تعویذ آیات الہی کے ساتھ مذاق ہیں اورپھر لٹکانے والوں کاعمل بھی ا س کی نفی کرتا ہے کیونکہ وہ نفع وبرکت کی امید سے لٹکاتے ہیں،ان کا مقصد استہزاء یا مذاق نہیں ہوتا جیسا کہ اس پر غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے ۔واللہ المستعان۔

 ص۱۴۵،۱۴۶حاشیہ (۱)

*اسی طرح کھانے پینے کی ہر وہ چیز یا کوئی اورچیز جس کا نام غیر اللہ کی نذر یا تقرب رکھا جائے نیز وہ کھانا جسے ان قبروں کے مجاوروں اورطاغوتوں میں تقسیم کرنے کے لئے تیار کرایا جائے۔۔۔۔۔’’

یہ مقام تفصیل طلب ہے ،اگرمراد یہ ہے کہ غیراللہ کی عبادت اورتقرب کی وجہ سے شرک ہے تویہ بات صحیح ہےکیونکہ کسی کے لئے یہ بات جائز نہیں ہےکہ وہ عبادت کی کسی بھی صورت کے ساتھ غیراللہ کی پوجاکرے خواہ وہ نبی ہویاکوئی اور!لاریب!!مردوں کے لئے کھانا ،پینا یا نقدی وغیرہ امید اورخوف سے پیش کرنا خواہ وہ نبی ہوں یا ولی یا بت وغیرہ تویہ غیرللہ کی عبادت میں داخل ہے کیونکہ اللہ تعالی کی عبادت وہ ہے جس کا اللہ اوراس کے رسول ﷺنے حکم دیا ہواوراگرشیخ حامد کی مراد یہ ہے کہ وہ نقدی ،کھانا پینا اورزندہ حیوانات جن کو ان کے مالکوں نے انبیاء واولیاء کے لئے پیش کیا ہو تو انہیں پکڑنا اوران سے نفع اٹھا نا حرام ہے ،تویہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ وہ اموال ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہےکیونکہ ان اموال کے مالک ان سے بے نیاز ہوچکے ہیں اوریہ مرادرکے حکم میں بھی نہیں ہیں۔لہذا جو لوگ ان اموال کو لے لیں،ان کے لئے یہ مباح ہیں جیسا کہ دیگر وہ تمام ایسے اموال جن کے مالکان نے ان سے بے نیاز ہوکر انہیں ترک کردیا ہو کہ جو انہیں لینا چاہے لے لے جیسا کہ زمیندارخوشوں اوررکھجور کے درختوں کے مالک کھجوروں وغیرہ کو فقراء کے لئے چھوڑ دیتے ہیں اوراس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺنے وہ اموال اپنے قبضہ میں لے لئے تھے جو لات کے خزانوں سے برآمد ہوئے تھے اورانہی اموال ہی سے آپﷺنے عروہ بن مسعود ثقفی کے قرضوں کو ادافرمایا تھا،طاقت کے بعدآپﷺ ان اموال کو اپنے قبضہ میں لینے سے اس لئے نہیں رکے کہ انہیں لات کے نام پر پیش کیا گیا تھا،لیکن یہ واجب ہے کہ جب جاہلوں اورمشرکوں کو اس طرح مال پیش کرتے ہوئے دیکھے توانہیں سمجھائے اوربتائے کہ یہ شرک ہے تاکہ خاموشی سے اوران مالوں کو لے لینے سے وہ یہ نہ سمجھیں کہ غیراللہ کے نام پر ان مالوں کو پیش کرنا اوراسے ذریعہ تقرب سمجھنا جائز ہے۔شرک تو سب سے بڑا گناہ ہے لہذا اس کا ارتکاب کرنے والے کی تردید کرنا واجب ہے۔ہاں البتہ کھانا اگرمشرکوں کے ذبیحہ جانوروں کے گوشت یا چربی یا شوربے سےبنایا گیا ہوتووہ حرام ہے کیونکہ مشرکوں کا ذبیحہ مردارکے حکم میں ہے،لہٰذا وہ حرام ہے اور اس کے ساتھ ملنے والا کھانا بھی نجس ہے لیکن وہ روٹی وغیرہ کس میں مشرکوں کے ذبیحہ وغیرہ کی کسی چیز کی آمیزش نہ ہو تو وہ استعمال کرنے والے کے لئے حلال ہے،اسی طرح نقدی وغیرہ بھی حلال ہے جیسا کہ قبل ازیں بیان کیاجاچکاہے۔والله اعلم۔

ص۱۵۴حاشیہ (۲)

*‘‘یہ گویا ان کی عبادت کی ایک قسم ہے۔’’

یہ بہت مجمل بات ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ یہاں اس طرح تفصیل سے بات کی جائے کہ جو شخص میلاد کی محفل اس لئے قائم کرتا ہے کہ صاحب میلاد کا تقرب حاصل کرے اور اس طرح نفع وبرکت حاصل کرنے کی امید کرے یا یہ قصد (ارادہ) کرے کہ اس سے اس کی مشکلات اور پریشانیوں کا ازالہ ہوجائے گا تو اس نیت سے محفل میلاد کے قیام کو صاحب میلاد کی عبادت تصور کیا جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ اسے پکارے بھی یااس سےاستغاثہ کرےیااس کےلئےنذر مانےیااس کےلئےذبح کرےیاعبادت کی دیگر اقسام میں سے کسی عبادت کو اختیار کرے تو یہ شرک ہوگااوراکثر وہ لوگ اسی طرح کرتےہیں جو نبی کریمﷺیاحضرت حسینؓ یابدوی وغیرہ کے مولود کا اہتمام کرتےہیں۔

اگر کوئی شخص تقرب الہٰی کےحصول کےلئےمیلاد منانےکااہتمام کرتاہےیعنی وہ یہ سمجھتاہےکہ میلاد منانابھی ان عبادات میں سےہے،جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتاہےتو یہ (شخص) صاحب میلاد کی عبادت کرنےوالا نہیں سمجھا جائےگابشرطیکہ محفل میلاد میںیہ کسی اور شرکیہ عمل کا ارتکاب نہ کرےہاں!البتہ میلاد کا منانا بجائے خود ایک ایسی بدعت ہےکہ اس کا اللہ تعالیٰ نہ حکم دیا نہ اس کے رسولﷺنے اورنہ ہی سلف صالحؓ نےاسےکیالہٰذایہ بدعت ہےخواہ اس کا مقصد اچھا ہی ہو کیونکہ تمام عبادات توقیفی ہیں۔لہٰذااللہ تعالیٰ اوراس کے رسولﷺکےحکم کےبغیر کسی کو یہ اختیارنہیں ہےکہ وہ ازخود عبادت کی کسی صورت کو اختیار کرے۔سچی بات یہ ہےکہ میلاد کی یہ محفلیں دین میں بہت بڑی مصیبت ہیں ان کی وجہ سےاس قدر شرک اورفسادپیدا ہوتاہےکہ اسےاللہ تعالیٰ ہی جانتاہے‘‘فاانالله وانااليه راجعون’’ہم اللہ تعالیٰ سےیہ دعا کرتےہیں کہ وہمسلمانوں کےحالات کی اصلاح فرمادے،انہیں دین میں فقاہت عطا فرمائےاورانہیں اتباع سنت اورترک بدعت کی توفیق عطا فرمائے۔انه سميع مجيب!

ص۳۰۴حاشیہ (۱)

*‘‘اس طرح کےمسائل میں لیث بن ابی سلیم یاابن قیم کی رائےکےمطابق عمل نہیں کیاجاسکتا۔’’

شارح نے یہاں جو بات ابن ابی سلیم،وھب بن منبہ اورابن قیم کےحوالہ سےذکر فرمائی ہے،اس پر شیخ حامد کا اعتراض صحیح نہیں بلکہ شیخ حامد کا یہ اعتراض بالکل غلط ہے کیونکہ قرآن کریم اور بیری کے درخت کے پتوں کے ساتھ علاج مباح دواؤں کےساتھ علاج کےقبیل سےہے۔یہ باب بدعات سےنہیں ہےبلکہ یہ باب التداوی میں سے ہے اورنبی کریمﷺنے فرمایا ہے ‘‘اللہ کے بندو!علاج کرو لیکن حرام چیزوں کے ساتھ علاج نہ کرو۔’’سنن ابی داود کی کتاب الطب میں ہے کہ نبی کریمﷺنے برتن میں موجو دپانی پرپڑھ کردم کیا اوراس سے مریض پر چھینٹے مارے اس سے بھی معلوم ہواکہ بیری کے پتوں اوردم شدہ پانی کے ساتھ مریض کے علاج کرنے اورمریض پر اس کے چھینٹے مارنے میں ازروئے شریعت کوئی حرج نہیں ،بشرطیکہ د م کے الفاظ شرک وبدعت سے پاک ہوں اوراستعمال کی جانے والی دوامباح ہو۔ واللہ ولی التوفیق!

ص۳۷۳حاشیہ (۱)

*‘‘نسخ کا یہ دعوی بہت عجیب ہے۔’’

اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ سلف کے ہاں فقہا ءکی نسبت نسخ کے بہت وسیع معنی ہیں کیونکہ سلف نسخ کے لفظ کو مطلق کی تقیید اورعام کی تخصیص کے لئے استعمال کرتے ہیں۔کیونکہ ان کا مفہوم اس سے مختلف ہوتا ہے جونص مطلق اورنص عام سے سمجھ میں آتا ہے۔سورہ ہود کی آیت مطلق ہے اس سے بظاہریوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے طلب گارکواس کے اعمال کے مطابق اس کی مراددی جاتی ہے۔جب کہ سورۃ الاسراءکی آیت نے یہ بیان کیا ہے کہ دنیا بھی اسی قدرملتی ہے جس قدر اللہ تعالی چاہے اوراسی کو ملتی ہے جس کے لئے اللہ چاہے تواس سے معلوم ہوا کہ دنیا کے طلب گارکو اپنی خواہش کے مطابق دنیا صرف اسی وقت ملتی ہے۔جب اللہ تعالی چاہے اورکبھی یوں ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے لئے عمل توکرتا ہے لیکن دنیا اسے نہیں ملتی کیونکہ اللہ تعالی نہیں چاہتا اوریہ بات بہت ہی واضح ہے ۔واللہ اعلم۔

ص۳۷۸حاشیہ (۲)

*‘‘بردچغہ کی طرح ہوتی ہے۔’’

یہ بات محل نظر ہے کیونکہ صحیح بات یہ ہے کہ برد چغہ کی طرح نہیں بلکہ یہ اورچیز ہے،چنانچہ‘‘القاموس’’میں ہے کہ برد ضمہ کے ساتھ ہے اوراس کے معنی دھاری دار کپڑے کے ہیں ،اس کی جمع ‘‘ابراد’’،‘‘ابرداور’’‘‘برود’’ہے اوراس سے مراد وہ چادریں ہیں جنہیں اوڑھ لیا جاتا ہے۔’’

ص۴۲۲حاشیہ (۱)

*‘‘باقی رہا اوامراورنواہی کی تبلیغ میں حیا ۔۔۔۔’’الخ۔

یہ ایک اچھی بات ہے ،شارح نے جس روایت کو ذکر کیا ہے اس کے ،جوا ب میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے (یاد رہےشارح نے یہ کہا ہے کہ بعض سندوں سے یہ الفاظ واردہیں کہ آپﷺکو اس بات سے انہیں منع کرنے سے حیا مانع تھی) کہ اگر یہ روایت صحیح ہو تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ نبی کریمﷺکو اس بات سے حیا مانع تھی کہ آپؐ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بذریعہ وحی ممانعت کے نزول سے قبل ،کسی کام سے منع فرمادیں خواہ اسے ترک کردینا مستحسن ہی کیوں نہ ہو لیکن آپؐ اپنی طرف سے منع نہیں فرمایا کرتے تھے ۔جیسا کہ آپﷺنے حکم دیا تھا کہ لیلۃ القدر کو رمضان کی آخری سات راتوں میں تلاش کرو کیونکہ جب بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مسلسل یہ خواب آیا کہ یہ رات رمضان کی آخری سات راتوں میں سے ایک رات ہے تویہ خواب اس بات کی دلیل بن گئے کہ ان سات راتوں میں عبادت کے لئے اوربھی زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔

ص۴۲۲حاشیہ (۲)

*‘‘اس حدیث کے ذریعے نبی کریمﷺقبل از نبوت کے واقعات کے بارے میں خبر دینا چاہتے ہیں۔’’

شیخ حامد کا اس بات سے مقصود یہ ہے کہ نبیﷺنے سچے خواب کے بارے میں جو یہ فرمایا ہے کہ یہ نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے تو یہ آپﷺنے ماضی میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی خبر دی ہے حالانکہ بات یہ نہیں بلکہ اس باب میں وارد روایات اس امر پر دلالت کناں ہیں کہ نبی ﷺکی مراد ماضی ومستقبل میں جس خواب کی خبر دینا ہے خواہ اس کا تعلق ماضی سے ہو یا مستقبل سے ،سچے خواب مفید ہوتے ہیں اوران سے بشارت حاصل ہوتی ہے،ان کا فائدہ یہ ہے کہ یہ نبوت کاپینتالیسواں بعض روایات کے مطابق چھیالیسواں اوربعض کے مطابق سینتالیسواں حصہ ہیں اوراگر ان روایات سے مراد وہ ہوتی جو شیخ حامد نے بیان فرمائی ہے تو احادیث کے یہ الفاظ مختلف نہ ہوتے اس تنوع کی وجہ ۔واللہ اعلم۔

یہ ہے کہ سچا خواب بجائے خود دیکھنے والے کی صلاحیت اوراس میں مخفی ان قرائن وشواہد کی وجہ سے مختلف ہوتا ہے جو خواب کے سچا ہونے پر دلالت کرتے ہیں جیسا کہ علماء نے اسے ذکر فرمایا ہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ‘‘شرح مسلم’’میں فرماتے ہیں کہ‘‘قاضی نے کہا ہےکہ امام طبری نے ارشادفرمایا ہے کہ روایات میں یہ اختلا ف درحقیقت خواب دیکھنے والے کے حالات کے اعتبارسے ہے کہ صالح شخص کا خواب چھیالیسواں حصہ ہوگاجب کہ فاسق کا خواب سترواں حصہ ہوگا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ خفی خواب سترواں حصہ اورجلی خواب چھیالیسواں حصہ ہوگا’’پھرخطابی کے حوالہ سے بھی انہوں نے بعض اہل علم سے اسی طرح نقل کیا ہے اورپھر مازوی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’خوابوں میں شکوک وشبہات بھی ہوتے ہیں جب کہ نبوت میں نہیں ہوتے تو نبوت خوابوں کی نسبت چھیالیس درجے زیادہ روشن اورممتاز ہوتی ہے۔’’واللہ اعلم۔

ص۴۳۴حاشیہ (۳)

‘‘نسعة’’نون کے کسرہ اورمہملہ کے سکون کے ساتھ ،بٹی ہوئی رسی جس سے اونٹ وغیرہ کو نکیل ڈالی جاتی ہے۔’’

یہ بات محل نظر ہے کہ اس سے اونٹ وغیرہ کو نکیل ڈالی جاتی ہےکیونکہ نسع اس رسی کو کہتے ہیں جس سے کجاوہ کو کساجاتا ہے، اس کا اطلاق نکیل پر نہیں ہوتا،چنانچہ ‘‘القاموس’’میں ہے کہ نسع کسرہ کے ساتھ ہے اوراس سے مرادوہ تسمہ ہے جسے جوتوں کی ڈوری کی صورت میں عرض کی طرف س بنا جاتا ہے اوراس سے کجاووں کو باندھا جاتا ہے۔اس کے ایک ٹکڑے کو نسع کہتے ہیں۔اور اس کا نام نسع اس کے طول کی وجہ سے ہے۔’’

ص۴۳۶حاشیہ (۱)

*‘‘اوراسی باب سے علم اوراہل علم کا مذاق اڑانا اورعلم کی وجہ سے ان کا احترام نہ کرنا بھی ہے۔’’

اس کلام میں اجمال ہے اورصحیح بات یہ ہے کہ یہاں اس طرح تفصیل سے بات کی جائے کہ اگر علم شرعی یا اس کی وجہ سے علماء کا مذاق اڑایا جارہا ہے تویہ اتدادہے کیونکہ یہ اس چیز کی تنقیص اورتوہین ہے ،جسے اللہ تعالی نے عظمت بخشی ہے،اسی طرح اگر وہ اس علم کو حقیر سمجھتا اوراس کی تکذیب کرتا ہے تو اس کا حکم بھی یہی ہے اوراگروہ علماء کا مذاق ان کے لباس کی وجہ سے یا بعض کے دنیا کے حریص ہونے کی وجہ سے لوگوں سے ان کی بعض عادتوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے اڑاتا ہے،جن کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں توایسے شخص کو مرتد قراردیا جائے گا کیونکہ اس کا تعلق دین سے نہیں بلکہ کچھ اورامورسے ہے۔ والله سبحانه وتعالي اعلم

 

فتاویٰ ابن باز

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ