سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(68) اسماءوصفات سےمتعلق چند آیات کی تفسیر

  • 7433
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1045

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازکی طرف سے جناب بردارمکرم ڈاکٹر محمد امین حسین سلمہ اللہ کے نام۔

آپ کے اس خط کے جواب میں یہ خط لکھا جارہا ہے،جس میں آپ نے یہ تحریر کیا ہے کہ امید ہے کہ آپ حسب ذیل آیات کے معنی کی وضاحت فرماکرشکریہ کا موقعہ بخشیں گے:

﴿وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْ‌ضِ ۖ يَعْلَمُ سِرَّ‌كُمْ وَجَهْرَ‌كُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ﴾ (الانعام۶/۳)  

﴿وَسِعَ كُرْ‌سِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ﴾ (البقرۃ۲/۲۵۵)

﴿وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْ‌ضِ ۖ يَعْلَمُ سِرَّ‌كُمْ وَجَهْرَ‌كُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ﴾ (الزخرف۸۴/۴۳)

امیدہے کہ آپ ان آیات کریمہ کے معنی اوراس احدیث مبارکہ کے معنی کی وضاحت فرمائیں گے جسے امام مسلم نےروایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺنے اس بچی سے پوچھا کہ ‘‘اللہ کہاں ہے؟’’تو اس نے کہا ‘‘آسمان میں۔’’آپﷺنے اس پوچھا کہ ‘‘میں کون ہوں؟’’تو اس نے جواب دیا کہ ‘‘آپ اللہ کے رسول ہیں۔’’تو یہ جواب سن کررسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا ‘‘اسے آزادکردو،یہ مومنہ ہے۔۔۔۔؟’’


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ان آیات کریمہ اورحدیث نبوی شریف کےعام معنی تویہ ہیں کہ ان میں اللہ سبحانہ وتعالی کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے اوریہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی مخلوق سے بلند وبالا اورارفع واعلی ہے ،تمام مخلوق کا وہ معبود ہے ،اس کا علم ہرچیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے خواہ وہ چیز چھوٹی ہو یا بڑی ،ظاہر ہو یا مخفی ،نیز ان میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ہرچیز پر قادر ہے اوراس سے عجز کی نفی کی گئی ہے۔

خاص معنی کے اعتبار سے ارشادباری تعالی وَسِعَ كُرْ‌سِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ کرسی کی عظمت ووسعت نیز اللہ سبحانہ وتعالی کی عظمت اورکمال قدرت پر دلالت کناں ہے۔ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُکےمعنی یہ ہیں کہ آسمانوں اورزمین اورجوکچھ ان میں ہے اورجوکچھ ان کے مابین ہے،ان کی حفاظت کرنا اللہ تعالی کے لئے گراں یا دشوارنہیں ہے بلکہ اس کے لئے یہ بہت ہی آسان ہے ۔وہ ہر جاندار کے عمل کو دیکھ رہا اورتمام اشیاء کی نگہبانی فرمارہا ہےکہ کوئی چیز اس کی دسترس سے باہرہے اورنہ وہ اس سے اوجھل ہوسکتی ہے ،اس کے سامنے تمام اشیاء حقیر ہیں ،متواضع،ذلیل اورچھوٹی ہیں اور سب اس کی محتاج اورفقیر ہیں،وہ غنی ،حمید اوراپنے ارادہ کے مطابق کرگزرنے والا ہے،وہ جو کرتاہے اس سے پوچھا نہیں جاسکتا جبکہ بندگان الہی سے پوچھا جائے گا،وہ ہرچیز پر غالب ہے ،وہ ہر چیز کا محاسب ہے ،وہ نگہبان ،بلندو بالااورعظیم ہے،اس کے سواکوئی معبود اورپروردگارنہیں،اللہ تعالی نے جو یہ ارشاد فرمایا ہےکہ:

﴿وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْ‌ضِ ۖ يَعْلَمُ سِرَّ‌كُمْ وَجَهْرَ‌كُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ﴾ (الانعام۶/۳)

‘‘اورآسمان اورزمین میں وہی (ایک ) اللہ ہے ۔تمہاری پوشیدہ اورظاہر سب باتیں جانتا ہے اورتم جو عمل کرتے ہوسب سے واقف ہے۔’’

تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ جسے اللہ کہا جاتا ہے وہ آسمانوں اورزمین میں ہے۔آسمانوں اورزمین میں بسنے والے،اس کی عبادت کرتے،اسے واحد مانتے اوراس کی الوہیت کا اقرارکرتے ہیں،اسے اللہ کے نام سے یاد کرتے اورشوق اورڈرسے اسے پکارتے ہیں،سوائے ان جنوں اورانسانوں کے جنہوں نے کفر کو اختیار کررکھا ہے ۔یہ آیت کریمہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا علم کس قدربےپایاں ہے۔اسے اپنے بندوں کے حالات کی اطلاع ہے اوروہ ان کےاوعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے ،خواہ وہ اعمال مخفی ہوں یا ظاہرکہ اس کے ہاں مخفی وظاہراعمال یکساں ہیں اوراللہ سبحانہ وتعالی اپنے بندوں کے تمام اعمال سےخواہ وہ اچھے ہوں یا برے آگاہ ہے۔اسی طرح

ارشادباری تعالی ہے:

﴿وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَـٰهٌ وَفِي الْأَرْ‌ضِ إِلَـٰهٌ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ﴾ (الزخرف۸۴/۴۳)

‘‘اوروہی (ایک) آسمانوں میں معبود ہے اور (وہی) زمین میں معبود ہےاوروہ دانا (اور) علم والاہے۔’’

کے معنی یہ ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی ہی آسمانوں میں معبود ہے اوروہی زمینوں میں بھی معبود ہے۔آسمانوں اورزمینوں میں رہنے والے اسی کی عبادت کرتے ہیں اورسب اس کے سامنے عاجزودرماندہ ہیں سوائے اس کے جس پر بدبختی غالب آگئی ہو اوراس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا ہو اورایما ن نہ لایا ہو ،وہ اپنی شریعت وتقدیر میں دانا اوراپنے بندوں کے تمام اعمال کو جاننے والا ہے ۔اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے:

﴿أَلَمْ تَرَ‌ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۖ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ‌ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾ (المجادلۃ۵۸/۷)

‘‘کیا تم کو معلوم نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اورجو کچھ زمین میں ہے،اللہ کو سب معلوم ہے (کسی جگہ) تین آدمیوں کا کانوں میں صلاح ومشورہ نہیں ہوتا مگر وہ ان میں چوتھا ہوتا ہے اورنہ کہیں پانچ کا مگروہ ان میں چھٹا ہوتا ہے اورنہ اس سے کم یا زیادہ مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہےخواہ وہ کہیں ہوں پھر جو کام یہ کرتے رہے ہیں قیامت کے دن وہ (ایک ایک) ان کو بتائے گا۔بے شک اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔’’

کے معنی یہ ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے تمام بندوں کے حالات سے آگاہ ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں،وہ ان کے کلام اورمخفی باتوں اورسرگوشیوں کو سنتا اوران کے اعمال کو جانتا ہے ۔اللہ تعالی کے علم اوران تمام باتوں کے سننے کے ساتھ ساتھ اس کی طرف سے مقررکردہ فرشتے کراما کاتبین ان سب باتوں کو لکھتے بھی جارہے ہیں۔اہلسنت والجماعت کے نزدیک اس آیت کریمہ میں مذکور‘‘معیت’’سے مراد‘‘معیت علم’’ہے یعنی اللہ تعالی اپنے علم کے ساتھ ان کے پاس ہے،ان کا احاطہ کئے ہوئے ہے،ان کو دیکھ رہا ہے،اپنی مخلوق سے مطلع اورباخبر ہے کہ مخلوق کا کوئی کام بھی اس سے مخفی نہیں رہ سکتا اوراس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی تمام مخلوق سے اوپر ہے،عرش پر اس طرح مستوی ہے جس طرح اس کے جلال اور عظمت کے لائق ہے اوروہ اپنی صفات میں مخلوق کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتا ،جس طرح کہ اس نے خود ہی ارشاد فرمایا ہے:

﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾‌ (الشوری۴۲/۱۱)

‘‘اس جیسی کوئی چیز نہیں اوروہ سنتادیکھتا ہے۔’’

پھر وہ روز قیامت اپنے بندوں کو ان تمام اعمال کی خبر دے گا جو انہوں نے دنیا کی زندگی میں کئے تھے کیونکہ وہ ہر چیز کو جانتا اورہرچیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔وہ عالم الغیب ہے کہ آسمانوں اورزمینوں کی کوئی ذرہ بھر چیز بھی اس کے علم سے باہر نہیں بلکہ ہرچھوٹی بڑی چیز کتاب مبین میں لکھی ہوئی ہے۔

باقی رہی اس باندی والی حدیث جس کے آقا نے اسے مارنے کے کفارہ کے طور پر آزادکرنا چاہا تھا تونبی کریم ﷺنے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے؟تو اس نے کہا ‘‘آسمان میں۔’’آپﷺنے فرمایا‘‘میں کون ہوں؟’’تو اس نے جواب دیا کہ‘‘آپ اللہ کے رسول ہیں۔’’تو آپؐ نے فرمایا‘‘اسے آزادکردویہ مومنہ ہے۔’’تویہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی مخلوق سے بلند ہے نیز اس بات کا اورنبی کریم ﷺکی رسالت کا اعتراف ایمان کی دلیل ہے۔

یہ ان آیات کے مختصر معنی ہیں جن کے بارے میں آپ نے پوچھا تھا ،ان آیات اوران کے ہم معنی ان صیح احادیث کے بارے میں جو اللہ تعالی کے اسماء وصفات پردلالت کناں ہیں ،مسلمان پر واجب ہےکہ وہ مسلک اہلسنت والجماعت کو اختیار کرے اوروہ یہ کہ ان آیات واحادیث پر ایمان لایا جائے،جن امور پر یہ دلالت کرتی ہیں ان کی صحت کا اعتقاد رکھاجائےاوراللہ تعالی کے لئے انہیں اس طرح مانا جائے جس طرح اس کی ذات گرامی کے لائق ہے اوران میں تحریف ، تکییف اور تمثیل کی روش کو اختیار نہ کاجائے کہ یہی وہ صحیح مسلک ہے جس پر سلف صالح گامزن تھے اورسب کااس کی صحت پر اتفاق تھا۔اسی طرح ہر مسلمان جو اپنے لئے سلامتی چاہتا ہے،پریہ بھی واجب ہے کہ وہ ان امورمیں واقع ہونے سے اجتناب کرے جو اللہ تعالی کی ناراضی کا باعث ہیں اوران اہل ضلالت کے راستے سےدورہوجائے جو اللہ تعالی کی صفات کی تاویل کرتے اوران کی نفی کرتے ہیں۔اللہ تعالی ان ظالموں اورجاہلوں کی باتوں سے بہت ہی بلند وبالااورارفع واعلی ہے۔ہم آپ کے لئے ‘‘العقیدۃ الواسطیۃ’’از شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ مع شرح ازشیخ محمد خلیل ہر اس کا ایک نسخہ بھی ارسال کررہے ہیں کیونکہ اس کتاب میں اس موضوع سے متعلق خاصی مفصل بحث ہے جس کے بارے میں آپ نے سوال کیا ہے۔ہم اللہ تعالی کے حضوردعاکرتے ہیں کہ وہ ہم سب کو اعلی نافع اوراس کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے،نیز ہم سب کو اپنی رضا کے مطابق عمل کی توفیق ارزاں فرمائے۔

 ( (انه سميع مجيب-والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته) )

 

فتاویٰ ابن باز

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ