سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(55) آسیب زدہ کے جسم میں جن کے داخل ہونے کا مسئلہ

  • 7385
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2762

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آسیب زدہ کے جسم میں جن کے داخل ہونے کا مسئلہ اورجن کے انسان سے مخاطب ہونے کا جواز


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آسیب زدہ کے جسم میں جن کے داخل ہونے کا مسئلہ اورجن کے انسان سے مخاطب ہونے کا جواز

الحمدلله وحده ، والصلوة  والسلام علي من لانبي بعده، وعلي آله وصحبه ومن اهتدي بهداه _امابعد:

شعبان۱۴۰۷ہجری کے بعض مقامی وغیر مقامی اخبارات وجرائد نے مختصر ومطول پر وہ خبریں شائع کیں،جو میرے پاس اس جن کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بارے میں تھیں،جس کا یہاں ریاض میں ایک مسلمان خاتون پر سایہ تھا،اس آسیب زدہ خاتون پر جب برادرعبداللہ بن مشرف عمری مقیم ریاض نے قرآن مجید آیات پڑھیں اورجن سے مخاطب ہوکر اسے اللہ تعالی کا خوف یاد دلایا،وعظ ونصیحت کی اوراسے بتایاکہ ظلم کرنا حرام اورکبیرہ گناہ ہے اورپھر جب جن نے عبداللہ کو بتایا کہ وہ کافر ہےاوربدھ مت سے اس کا تعلق ہے توعبداللہ نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو اس نے عبداللہ کے پاس اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا،پھرعبداللہ اورعورت کے وارثوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس عورت کو لے کر میرے پاس آئیں تاکہ میں بھی جن کے مشرف بہ اسلام ہونے کے اعلان کو سن سکوں،چنانچہ جب یہ لوگ میرے پاس آئے تومیں نے اس جن سے پوچھا کہ تمہارے اس عورت کے جسم میں داخل ہونے کے اسباب کیا ہیں؟اس نے مجھے اسباب بتائے ،اس وقت وہ اگرچہ عورت کی زبان سے بات کررہا تھا لیکن وہ مرد کا کلام تھا ،عورت کا کلام نہ تھا،یہ آسیب زدہ خاتون میرے قریب ہی کرسی پر بیٹھی تھی ،اس عورت کا بھائی ،اس کی بہن،عبداللہ بن مشرف مذکوراور بعض علماء بھی اس موقع پر موجود تھے اوروہ سب جن کی باتوں کو سن رہے تھے ،اس نے بڑی صراحت کے ساتھ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا اوربتایا کہ اس کا تعلق بدھ مت سے ہے اور وہ ہندوستان کا رہنے والا ہے ۔میں نے بھی اسےنصیحت کی ،اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرنے کی وصیت کی اورکہا کہ اس عورت کے جسم سے نکل جاو اوراس پر ظلم سے باز رہو،اس نے میری ان سب باتوں کو قبول کرلیااورکہا کہ اب میں دائرہ اسلام میں  داخل ہوچکا ہوں تو میں نے کہا کہ جب تمہیں  اللہ تعالی نے ہدایت سے نواز دیا ہے تواب اپنی قوم کے سامنے بھی اسلام کی دعوت کو پیش کرو،اس نے وعدہ کیا اورعورت کو چھوڑ کر چلا گیا،جاتے وقت اس کی زبان سے آخری کلمہ جوسنا وہ یہ تھا کہ ‘‘السلام علیکم’’اس کے بعد عورت نے اپنے معمول کے مطابق اپنے لہجہ میں گفتگو شروع کردی اورمحسوس کیا کہ اس کا بوجھ ختم ہوگیا ہے اوراب وہ راحت اورسکون محسوس کرتی ہے۔اس کے بعد وہ قریبا ایک ماہ یا کچھ دن زیادہ تھے کہ دوبارہ اپنے دوبھائیوں ،خالہ اوربہن کے ساتھ میرے پاس آئی اوراس نے بتایا کہ وہ خیروعافیت سے ہےاوروہ دوبارہ اس کے پاس نہیں آیا۔والحمدللہ !میں نے اس عورت سے پوچھا کہ وہ جن جب اس کے جسم کے اند رموجود تھا تووہ کیا محسوس کرتی تھی ؟اس نے جواب دیا کہ ا س وقت وہ بہت غلط قسم کے افکاروخیالات محسوس کرتی تھی جو شریعت کے خلاف ہیں،وہ بدھ مت کی طرف میلان محسوس کرتی تھی اوراس مذہب کی کتابوں کی طرف اس کا میلان تھا لیکن جب اللہ تعالی نے اس جن سے نجات دی تو یہ غلط افکاروخیالات بھی ازخود زائل ہوگئے اوروہ ان خیالات وافکارپریشان سے نجات پاکراپنی پہلی حالت پرآگئی ،جس میں اس قسم کے غلط خیالات کا قطعا کوئی وجود نہ تھا۔

فضیلۃ الشیخ علی طنطاوی کے بارے میں مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ انہوں نے ا س قسم کے واقعہ کے رونماہونے کا انکارکیاہے اورکہا ہے کہ یہ دجل وفریب اورجھوٹ ہے اورممکن ہے کہ عورت کے پاس اس وقت کوئی ٹیپ رکارڈرہوجس پر گفتگو رکارڈ کی گئی ہوجواس وقت سنادی گئی اورعورت نے خود بات نہ کی ہومیں نے وہ کیسٹ بھی منگوائی جس پر شیخ  طنطاوی کی یہ گفتگوریکارڈ کی ہوئی تھی تومجھے ان کی اس بات سے بہت تعجب ہوا ہے کہ میں نے تو خود جن سے کئی سوالات کئے تھے،جن کے اس نے جواب دیئے تو کوئی عقلمند یہ کیسے گمان کرسکتا ہےکہ میرے ذہن کے سوالات اورجن کے جوابات پہلے ہی سےریکارڈ کرلئے گئے تھے نیز شیخ  طنطاوی نے یہ بھی کہا کہ کسی جن کا انسان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہونا حسب ذیل ارشاد باری تعالی کے منافی ہے،جو قصہ سلیمان کے ضمن میں مذکورہوا ہےکہ :

﴿وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي﴾ (ص۳۵/۳۸)

‘‘اورمجھ کو ایسی بادشاہی عطاکرکہ میرے بعد کسی کو شایاں نہ ہو۔’’

بلاشک وشبہ شیخ  طنطاوی کی یہ بات غلط اوران کا یہ فہم باطل ہے۔۔۔اللہ تعالی انہیں ہدایت سے نوازے۔۔۔کسی جن کا کسی انسان کے ہاتھ پر مشرف بہ  اسلام ہونا حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا کے منافی نہیں ہےکیونکہ جنوں کی ایک بہت بڑی جماعت نبی کریمﷺکے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئی تھی۔اللہ تعالی نے سورۃ الاحقاف اورسورۃ الجن میں اس کی وضاحت فرمائی ہےاورصیحین میں حضرت ابوہریرہ

 رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایاکہ ‘‘شیطان میرے سامنے آیا اوراس نے بڑا زورلگایا  کہ میری نماز کو توڑ دے لیکن اللہ تعالی نے مجھے اس پر غلبہ عطا کیا اورمیں نے اسے پچھاڑ دیا اورارادہ کیا کہ اسے ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ صبح ہوجائے توتم اسے دیکھو لیکن مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی یہ دعا یاد آگئی کہ ’’وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِيتواللہ تعالی نے اسے ناکام نامراد واپس لوٹا دیا۔’’یہ الفاظ صیح بخاری کی روایت کے ہیں اورصیح مسلم کی روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ ‘‘عفریت جن رات کو میرے پاس آیا تاکہ میری نماز کو قطع کردے لیکن اللہ تعالی نے مجھے اس پر غلبہ عطاکیا اورمیں نے اسے پچھاڑ دیا ۔میں نے ارادہ کیا کہ اسے ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ صبح ہوجائے توتم اسے دیکھو لیکن مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی یہ دعا یاد آگئی کہ ’’وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِيتواللہ تعالی نے اسے ناکام نامراد واپس لوٹا دیا۔’’

امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ کی شرط کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی یہ روایت ذکر کی ہےکہ نبیﷺنماز پڑھ رہے تھے کہ آپؐ کے پاس شیطان آیا لیکن آپؐ نے اسے پکڑ کر پچھاڑدیا اوراس کا گلاگھونٹ دیا،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا‘‘حتی کہ میں نے اس کی زبان کی ٹھنڈک اپنے ہاتھ پر محسوس کی ۔اگرسلیمان علیہ السلام کی  دعانہ ہوتی تولوگ اسے صبح بندھا ہوا دیکھتے۔’’امام احمد اورابوداودنے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی ہے جس میں یہ الفاظ ہیں کہ ‘‘میں نے اسے اپنے ہاتھ سے پکڑ لیا اورمیں اس کا گلہ دباتا رہا حتی کہ میں نے اس کے لعاب کی ٹھنڈک کو اپنی دوانگلیوں یعنی انگوٹھے اوراس کے ساتھ والی انگلی کے درمیان محسوس کیا۔’’

امام بخاری نے ‘‘صیح ’’میں تعلیقا مگر صحت کے وثوق کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺنے مجھے صدقہ رمضان کی حفاظت کے لئے مامورفرمایا لیکن رات کو میرے پاس ایک آنے والا آیا اوراس نے کھانے کی اشیاء کو کپڑے میں ڈالنا شروع کردیا تومیں نے اسے پکڑ لیا اورکہا اللہ کی قسم !میں تجھے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں پیش کروں گا تو وہ کہنے لگا ‘‘میں بہت ضرورت مند ہوں ،اہل وعیال کا مجھ پر بوجھ ہے اورمجھے بڑی سخت ضرورت ہے۔’’تومیں نے اسے چھوڑ دیا اورجب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا‘‘ابوہریرہ!تمہارے رات والے قیدی کا کیا بنا ؟’’میں نے عرض کیا ‘‘یارسول اللہ!اس نے سخت ضرورت اور اہل وعیال کے بوجھ کی شکایت کی تو میں نے اس پر رحم کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا۔’’آپؐ نے فرمایا‘‘اس نے جھوٹ بولا ہے اوروہ دوبارہ پھر آئے گا۔’’رسول اللہ ﷺکے اس فرمان کی وجہ سے مجھے یقین ہوگیا کہ وہ دوبارہ پھر آئے گا۔لہذا میں گھات لگا کر بیٹھ گیا،چنانچہ وہ آیا اوراس  نے پھر کھانے کی اشیاء کو کپڑے میں  کپڑے میں ڈالنا شروع کردیا اورمیں نے اسے پکڑ لیا اورکہا کہ تجھے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں پیش کروں گا تو وہ کہنے لگاکہ مجھے چھوڑ دومیں بہت ضرورت مند ہوں ،اہل وعیال کا مجھ پر بوجھ ہے۔میں دوبارہ نہیں آوں گا ۔’’ تو میں نے اس پر رحم کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺنے مجھ سے فرمایا‘‘ابوہریرہ!تمہارے رات والے قیدی کا کیا بنا ؟’’میں نے عرض کیا ‘‘یارسول اللہ!اس نے  ضرورت اور اہل وعیال کی شکایت کی تو میں نے اس پر رحم کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا۔’’آپؐ نے فرمایا‘‘اس نے جھوٹ بولا ہے اوروہ دوبارہ پھر آئے گا۔’’تو میں تیسری بار پھر اس کی گھات میں بیٹھ گیا ،وہ آیا اوراس  نے کھانے کی اشیاء کو کپڑے میں  کپڑے میں ڈالنا شروع کردیا تومیں نے اسے پکڑ لیا اورکہا کہ میں اب تجھےضرور  رسول اللہ ﷺکی خدمت میں پیش کروں گا،یہ تیسری دفعہ ہے ،تم وعدہ کرتے ہو کہ آئندہ نہیں آوگے لیکن پھر آجاتے ہو۔’’تووہ کہنے لگا‘‘میں چھوڑ دو میں تجھے کلمات سکھاتا ہوں،جن سے اللہ تعالی تمہیں نفع دے گا ؟’’میں نے کہا کہ‘‘ کون سے کلمات؟’’کہنے لگاکہ‘‘جب تم سونے کے لئے بستر پر آو تو آیۃ الکرسی

﴿اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ﴾ (البقرۃ۲۵۵/۲)

آخرتک پڑھ لو،اس سے اللہ تعالی کی طرف سے مقررکردہ ایک فرشتہ تمہاری حفاظت کرتارہے گااورصبح تک شیطان تمہارے قریب نہ آئے گا۔’’میں نے اسے چھوڑ دیا صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺنے مجھ سے فرمایا‘‘تمہارے رات والے قیدی کا کیا بنا ؟’’میں نے عرض کیا ‘‘یارسول اللہ(ﷺ)اس نے مجھے کچھ کلمات سکھائے جن کے بارے میں اس کا یہ کہنا تھا کہ ان سے اللہ تعالی مجھے نفع دے گا ۔’’تومیں نے اسے چھوڑدیا ۔آپؐ نے فرمایا ‘‘کون سے کلمات ؟’’ میں نے عرض کیا‘‘اس نے مجھ سے کہاکہ جب تم اپنے بستر پرسونے کے لئے آو تو آیۃ الکرسی اول سے آخرتک پڑھ لو،اس سے اللہ تعالی کی طرف سے مقررکردہ ایک فرشتہ تمہاری حفاظت کرتارہے گااورصبح تک شیطان تمہارے قریب نہ آئے گا۔’’صحابہ کرامؓ خیروبھلائی کی بات حاصل کرنے کے چونکہ شدید خواہش مند تھے،اس لئےحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن کر اسے چھوڑ دیا۔نبی کریمﷺنے فرمایا‘‘اس نے بات سچی کی ہے اگرچہ وہ خود بڑا جھوٹا ہے۔’’پھرآپؐ نےفرمایا‘‘ابوہریرہ!تمہیں معلوم ہے یہ تین راتیں تم کس سے باتیں کرتے رہےہو؟’’ابوہریرہ نے عرض کیا ‘‘جی نہیں۔’’فرمایا‘‘یہ شیطان تھا ۔’’

(صیح البخاری مع الفتح،ج۴ص:۴۸۶)

صیح بخاری وصیح مسلم کی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاسے مروی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایاکہ ‘‘شیطان انسان کے اندر اس طرح چل پھر سکتا ہے،جس طرح خون گردش کرتا ہے۔’’

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے ‘‘مسند’’جلد۴،ص:۲۱۶میں صیح سند کے ساتھ یہ حدیث ذکر کی ہے کہ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے یہ عرض کیا ‘‘یارسول اللہ!شیطان میرے اورمیری نماز وقرات میں حائل ہوجاتا ہے۔’’آپؐ نے فرمایا‘‘یہ شیطان خنزب ہے جب تم اسے محسوس کروتوتعوذ پڑھ کر اپنے بائیں جانب تین بارتھوکو۔’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ‘‘میں نے جب اسی طرح کیا تو اللہ عزوجل نے اسے مجھ سے دورفرمادیا۔’’اسی طرح احادیث صیحہ سے یہ ثابت ہے  کہ نبی کریمﷺنے فرمایا ہر انسان کے ساتھ اللہ تعالی نے اس کا ایک ساتھ فرشتوں میں سے اورایک شیطانوں میں سے مقررکیاہے حتی کہ خود نبی کریمﷺبھی اس سے مستثنی نہیں ہیں لیکن اللہ تعالی نے شیطان کے سلسلہ میں آپؐ کی مددفرمائی اوروہ مسلمان ہوگیا ہےاورآپؐ کو وہ خیروبھلائی کے کام ہی کی ترغیب دیتا ہے۔

اللہ عزوجل کی کتاب ،رسول اللہ ﷺکی سنت اوراجماع امت سے یہ ثابت ہے کہ جن انسان کے جسم میں داخل ہوسکتا اور اسے آسیب میں مبتلا کرسکتا ہے۔لہذا کسی عالم کے لئے کہ کیسے جائز ہےکہ وہ اس کا انکار کرے جب کہ اس کی بنیاد بھی علم وہدایت کے بجائے بعض ان اہل بدعت کی تقلید پر  ہو جو اہل سنت والجماعت کے مخالف ہیں۔

فالله المستعان ولا حول ولا قوة الابالله

اب میں قارئین کرام کے سامنے اس سلسلہ میں اہل علم کے چند ارشادات نقل کروں گا۔مندرجہ ذیل ارشاد باری تعالی ہے:

﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّ‌بَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ(البقرۃ۲۷۵/۲)

‘‘جولوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے)اس طرح(حواس باختہ)اٹھیں گے جیسے کسی کو شیطان (جن)نے لپٹ کردیوانہ بنادیا ہو۔’’

کے بارے مفسرین کے اقوال:

ابوجعفربن جریر(طبری)رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ سود کھانے والے اس طرح حواس باختہ ہوکراٹھیں گے جس طرح دینا میں وہ شخص تھا جسے شیطان نے آسیب میں مبتلا کرکے مجنون بنادیا ہو۔امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی لکھا ہے کہ سود خور قبروں سے اس طرح اٹھیں گے جیسے وہ شخص جو شیطان کے آسیب کی وجہ سے مجنون بن گیا ہو۔حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ سودکھانے والے قیامت کے دن اپنی قبروں سےاس طرح اٹھیں گےجس طرح آسیب زدہ اورجسے شیطان نے دیوانہ بنادیا ہو،دیوانگی کی حالت میں کھڑا ہوتا ہے اور اس کے کھڑے ہونے کی یہ حالت نہایت مضحکہ خیز ہوتی ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں‘‘سودخور کو روز قیامت اس مجنون کی طرح اٹھایا جائے گا جس کا گلاگھونٹا جارہا ہو’’(ابن ابی حاتم)عوف بن مالک ،سعید بن جبیر،سدی،ربیع بن انس ،قتادہ اورمقاتل بن حیان سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ ا س شخص کا قول فاسد ہے جواس بات کا انکار کرتا ہے کہ جن انسان کو آسیب میں مبتلا کرسکتا ہے اورگمان کرتا ہے کہ یہ بعض طبیعتوں کا اپنا فعل ہوتا ہے کیونکہ شیطان انسان کا اند ر نہیں چل سکتا اورنہ اسے جنون میں مبتلا کرسکتا ہے۔

اس مسئلہ میں مفسرین کے بہت سے ارشادات ہیں ،جو انہیں معلوم  کرنا چاہیں ،وہ کتب تفسیر میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب

 ‘‘ايضاح الدلالة في عموم الرسالة للثقلين’’جومجموع الفتاوی،ج۱۹،ص:۹سے۶۵تک موجود ہے،میں فرماتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ معتزلہ کی ایک جماعت مثلا جبائی اورابوبکر رازی وغیرہ نے جن کے آسیب زدہ کے جسم میں داخل ہونے کا انکار کیا ہے۔البتہ جنوں کے وجود کا انہوں نے انکار نہیں کیا کیونکہ رسول اللہﷺسے منقول احادیث سے جس طرح جنوں کا وجود ظاہر ہے،اس طرح انسانی جسم میں ان کا داخل ہونا ظاہر ہے لیکن ان کی یہ بات غلط ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ابوالحسن اشعری نے ‘‘مقالات اہلسنت والجماعت’’میں ذکر کیا ہے کہ اہل سنت کا یہ بھی قول ہے کہ جن آسیب زدہ کے جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔ ﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّ‌بَا﴾ (البقرۃ۲/۲۷۵)

عبداللہ بن احمد بن حنبل بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی سے کہا کہ کچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ جن،انسانوں کے جسم میں داخل نہیں ہوسکتاتو انہوں نے فرمایا بیٹا یا لوگ غلط کہتے ہیں۔جن ،انسانوں کے اندر داخل ہوکر اس کی زبان سے بات کرسکتا ہے،اس مسئلہ کو ہم نے اپنی جگہ پر تفصیل سے بیان کیا ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے مجموع الفتاوی،ج۲۴،ص:۲۷۶،۲۷۷میں یہ بھی لکھا ہے کہ وجود کتاب اللہ ،سنت رسول اللہ ﷺاورامت کے سلف اورائمہ کے اتفاق سے ثابت ہے نیز باتفاق ائمہ اہلسنت والجماعت یہ بھی ثابت ہے کہ جن ،انسان کے بدن میں داخل ہوسکتا ہے کہ ارشادباری تعالی ہے﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّ‌بَا﴾ (البقرۃ۲/۲۷۵)صیح بخاری میں ہےکہ نبی کریمﷺنے فرمایا کہ ‘‘شیطان ابن آدم کے جسم میں یوں چل سکتا ہے ،جس طرح خون کی گردش جاری ہے۔’’

عبداللہ بن امام احمد بن حنبل بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی سے کہا کہ کچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ جن،انسانوں کے جسم میں داخل نہیں ہوسکتاتو انہوں نے فرمایا بیٹا یا لوگ غلط کہتے ہیں۔جن ،انسانوں کے اندر داخل ہوکر اس کی زبان سے بات کرسکتا ہے، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات فرمائی  ہے یہ ایک مشہورامر ہے،چنانچہ دیکھاگیا ہے کہ آدمی جب آسیب زدہ ہوتا ہے تووہ ایسی زبان بولتا ہے جو ناقابل فہم ہوتی ہے اور اس کے جسم پر ایسی سخت ضرب لگائی جاتی ہے کہ اگر اونٹ کو بھی لگائی جائے تو اس پر بھی زبردست اثر انداز ہولیکن آسیب زدہ اس ضرب کو محسوس نہیں کرتا اورنہ وہ اس کلام کو محسوس کررہا ہوتا ہے ،جسے وہ بول رہا ہوتا ہے اورکبھی یوں ہوتا ہے کہ آسیب زدہ کسی ایسے انسان کو کھنیچتا ہےجو تندرست ہوتا ہے اورکبھی اس بستر کو لپیٹنے لگ جاتا ہے،جس پر وہ بیٹھا ہو،لیکن اشیاء کو ایک جگہ سے دوسری جگہ الٹ پلٹ کرنا شروع کردیتا ہے اور کبھی اس طرح کی کئی اورحرکتیں کرتا ہے جن کے دیکھنے والے کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ انسان کی زبان سے بات کرنے والا اوران تمام اشیاء کو حرکت دینے والا انسان نہیں بلکہ کوئی اورجنس ہے۔

ائمہ مسلمین میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس نے آسیب زدہ کے جسم میں جن کے داخل ہونے کا انکار کیا ہو،جو شخص اس کا انکار کرے اور یہ دعویٰ کرے کہ شریعت اس کی تکذیب کرتی ہے تو وہ شریعت کی طرف ایک جھوٹی بات منسوب کرتا ہے کیونکہ اولۂ شرعیہ میں کوئی ایسی دلیل نہیں جو اس کی نفی کرتی ہو۔

امام ابن قیمؒ اپنی کتاب زاد المعاد في هدي خير العبادج۴،ص:۶۶۔۶۹میں فرماتے ہیں کہ‘‘آسیب کی دو قسمیں ہیں(۱)وہ جو خبیث زمینی روحوں کی وجہ سے ہوتا ہے اور(۲)وہ جو ردی اخلاط کی وجہ سے ہوتا ہے،اور متاخر الذکر قسم وہ ہے جس کے سبب اور علاج وغیرہ کے بارے میں اطباء گفتگو کرتے ہیں۔

روحوں کی وجہ سے جو جنون ہے،مسلمانوں کے ائمہ اور عقلاء اس کا اعتراف کرتے ہیں،اس کی تردیدنہیں کرتے بلکہ اعتراف کرتے ہیں کہ اس کا علاج یہ ہے کہ خبیث اور شریر روحوں کے مقابلہ میں نیک،شریف اور عظیم الشان روحوں کو پیش کیا جائے،اس سے خبیث روحوں کے اثرات ختم ہوجائیں گے،ان کے افعال باطل ہوجائیں گے۔بقراط نے بھی اس کا اپنی کتابوں میں ذکر کیاہے،چنانچہ اس نے جنون کی بعض صورتوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ اس جنون کے لئے مفید ہے جس کا سبب اخلاط(جسمانی رطوبتوں کا بگاڑ)اور مادہ ہو اور وہ جنون جس کا سبب ارواح ہوں،اس کے لئے یہ طریق علاج مفید نہیں ہے۔

جاہل ،گٹھیا اور نچلے درجہ کے اطباء اور زندیقیت پر اعتقاد رکھنے والے،روحوں کے جنون کا انکار کرتے ہیں اور اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ روحیں مجنون کے جسم پر اثرانداز ہوسکتی ہیں اور ان کا یہ انکار جہالت کی وجہ سے ہے کیونکہ فن طب میں بھی اس کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے اور پھر حس اور وجود اس کے شاہد عدل ہیں،ان کا یہ کہنا کہ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ بعض اخلاط غالب آجاتی ہیں،تو یہ جنون کی بعض قسموں میں تو ہوتا ہے لیکن تمام قسموں میں ایسا نہیں ہوتا۔اس کے بعد آگے لکھتے ہیں کہ بعد میں زندیق(بےدین)طبیب آئے اور انہوں نے کہا کہ جنون کی صرف ایک ہی قسم ہے لیکن جس شخص کو ان روحوں کے بارے میں عقل ومعرفت حاصل ہوگی اور اسے ان کی تاثیرات کا علم ہوگا تو وہ ان کی جہالت اور کم عقلی پر ہنسے گا۔

جنون کی اس قسم کے علاج کے دو پہلو ہیں۔ایک پہلو تو آسیب زدہ کی طرف سے ہے اور دوسرا معالج کی طرف سے۔آسیب زدہ کی طرف سے تو یہ ہے کہ وہ نفسیاتی قوت سے کام لے اور ان تمام روحوں کو پیدا کرنے والے کی طرف صدق دل سے متوجہ ہو اور صحیح طور پر دل وزبان کی ہم آہنگی کے ساتھ تعوذ کرے،یہ گویا جنگ کی ایک قسم ہے اور جنگجو کو اپنے دشمن پر غلبہ پانے کے لئے کامیابی حاصل ہو نہیں سکتی جب تک اس میں دو باتیں نہ ہوں،ایک تو یہ کہ اسلحہ فی نفسہ صحیح اور بہت اعلیٰ کوالٹی کا ہو اور دوسرا یہ کہ اس کا اپنا بازو بھی مضبوط ہو۔جب ان میں سے ایک شرط بھی ختم ہوگئی تو اسلحہ کی موجودگی اس کے لئے کوئی بہت مفید ثابت نہ ہوگی اور اگر دونوں پہلو ہی ختم ہوں تو پھر کسی کو اپنے دشمن کے مقابلہ میں فتح کس طرح حاصل ہوسکتی ہے یعنی دل اگر توحید،توکل،تقویٰ اور توجہ سے خالی ہو اور ہتھیار بھی نہ ہو تو پھر کامیابی کیسے حاصل ہوگی؟

علاج کے دوسرے پہلو کا تعلق معالج سے ہے۔معالج میں بھی نذکورہ دونوں باتوں کا ہونا ضروری ہے حتٰی کہ کئی معالج صرف اتنی بات کہتے ہیں کہ‘‘اس کے جسم سے نکل جا’’یا وہ صرف‘‘بسم اللہ’’یا‘‘لاحول ولا قوۃ الا باللہ’’کہتے ہیں تو جن،انسان کے جسم سے نکل جاتا ہے۔نبی کریمﷺیہ فرمایا کرتے تھے‘‘اے اللہ کے دشمن!میں اللہ کا رسول تجھ سے یہ کہتا ہوں کہ نکل جا۔’’(چنانچہ جن نکل جاتا تھا)۔

میں نے اپنے شیخ(امام ابن تیمیہؒ)کو دیکھا کہ وہ آسیب زدہ کے پاس اپنے کسی قاصد کو بھیج دیتے جو یہ کہتا ہے کہ شیخ نے تجھ سے یہ کہا ہے کہ نکل جا کیونکہ اس انسان کو تکلیف دینا تیرے لئے حلال نہیں ہے تو اس سے آسیب زدہ کو فورااِفاقہ ہوجاتا۔بسااوقات استاد گرامی خود بھی جن سے بات کرتے اور اگر کبھی جن سرکش ہوتا تو اسے مار کر باہر نکالتے،آسیب زدہ صحیح ہوجاتا اور مار کی وجہ سے اسے کوئی تکلیف محسوح نہ ہوتی۔ہم نے اور دیگر لوگوں نے کئی بار اس طرح کے مناظر دیکھے ہیں۔الغرض جنون کی اس قسم اور اس کے علاج کا صرف وہی شخص منکر ہوسکتا ہے جس کے پاس علم،عقل اور معرفت کی کمی ہو۔خبیث روحوں کا تسلط اکثر اس وجہ سے ہوتا ہے کہ متاثرہ لوگوں میں دین کی کمی،دلوں اور زبانوں کی خرابی کی وجہ سے اور ذکر،تعوذات اور نبوی وایمانی تحصنات سے دوری کی وجہ سے شیطانوں کو ان پر تسلط جمالینا آسان ہو جاتا ہے کیونکہ خبیث روحیں جب یہ دیکھتی ہیں کہ یہ شخص غیرمسلح ہے یہا کبھی یہ دیکھتی ہیں کہ یہ عریاں تو وہ اس کے جسم میں داخل ہو جاتی ہیں۔’’امام ابن قیمؒ کا کلام یہاں ختم ہوا۔

ہم نے یہ جو اولہ شرعیہ اور اہل سنت والجماعت کے علم کے اجماع کی روشنی میں ذکر کیا ہے کہ جن انسانوں کے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں تو اس سے قارئین کرام کت سامنے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اس شخص کا قول باطل ہے جو اس کا انکار کرے نیز اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ فضیلۃ الشیخ علی طنطاوی نے اس کا جو انکار کیا ہے،تو یہ ان کی غلطی ہے۔انہوں نے اپنی بات میں یہ بھی کہا ہے کہ اگر ان کی حق کی طرف رہنمائی کی جائے تو وہ رجوع کر لیں گے،لہٰذا امید ہے کہ ہم نے ان سطور میں جو کچھ ذکر کیا ہے شاید اسے پڑھنے کے بعد وہ راہ صواب کی طرف لوٹ آئیں۔ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور ان کے لئے ہدایت وتوفیق کی دعا کرتے ہیں۔

ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اخبار‘‘الندوۃ’’نے اپنی۱۴شوال۱۴۰۷ہجری کی اشاعت میں صفحہ۸پرڈاکٹر محمد عرفان کے حوالے سے جو یہ لکھا ہے کہ جنون کا کلمہ‘‘قاموس طبی’’میں موجود ہی نہیں ہے تو یہ بھی غلط ہے،نیز یہ کہ جن کا انسان کے جسم میں داخل ہونا اور اس کی زبان سے بات کرنا سو فی صد غلط علمی مفہوم ہے حالانکہ یہ سب باطل ہے اور اس کا سبب امور شرعیہ کے بارے میں علم کی کمی اور اہل سنت والجماعت کے اہل علم کے اقوال سے ناواقفیت ہے،کیونکہ اگر یہ مسئلہ بہت سے اطباء سے مخفی رہا ہے تو یہ عدم وجود کی دلیل نہیں بلکہ ان اطباء کی بہت بڑی جہالت کی دلیل ہے کہ یہ اس امر سے ناواقف ہیں جسے بےشمار ایسے علماء جانتے ہیں جو صداقت،امامت اور دینی بصیرت میں معروف ہیں بلکہ اس پر تو اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اسے تمام اہل علم سے نقل کیا ہے۔ابو الحسن اشعری نے بھی یہی لکھا ہے کہ‘‘یہ اہل سنت والجماعت سے منقول ہے۔’’نیز امام ابو الحسن اشعری کے حوالہ سے علامہ ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ شبلی حنفی المتوفی۷۰۰ہجری نے اپنی کتاب اكام المرجان في غرانب الاخبار واحكام الجان۔کے باب نمبر۵۱ میں بھی یہی ذکر کیا ہے۔

امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کےحوالہ سے یہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ اطباء کے ائمہ وعقلاء اس کا اعتراف کرتے ہیں،وہ اس کا انکار نہیں کرتے ۔اس کا انکار کرنے والے جاہل ،گھٹیا اورنچلے درجہ کے اطباء اورزندیقیت پر اعتقاد رکھنے والے لوگ ہیں۔لہذا قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان حقائق کو جو ہم نے ذکر کئے ہیں جا ن لیں اور مضبوطی سے تھام لیں اورجاہل اطباء اوران لوگوں کی باتوں سے فریب خوردہ نہ ہوں جوعلم وبصیرت کے بغیر محض جاہل طبیبوں اورمعتزلہ وغیرہ بدعتیوں کی تقلید کی بنیاد پر ان کا انکار کرتے ہیں ۔والله المستعان!

نوٹ:

ہم نے رسول اللہ ﷺکی احادیث صیحہ اوراہل علم کا جو کلام ذکر کیا ہے تویہ اس بات پر بھی دلالت کناں ہے کہ جن سے مخاطب ہونا،اسے وعظ ونصیحت کرنا ،اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا اوراس کا اس دعوت کو قبول کرلینا ،اس ارشاد باری تعالی کے مخالف نہیں جسے اللہ تعالی نے سورہ ص میں حضرت سلیمان علیہ الصلووۃ والسلام کے واقعہ کے ضمن میں ذکر فرمایا ہے  کہ انہوں نے یہ دعا کی تھی کہ :

﴿رَ‌بِّ اغْفِرْ‌ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ﴾ (ص۳۵/۳۸)

‘‘اے میرے پروردگار!میری مغفرت فرما اورمجھ کو ایسی بادشاہی عطاکرجو میرے بعد کسی کو شایان نہ ہو،بے شک تو بڑا عطا فرمانے والا ہے۔’’

اسی طرح جن کو نیکی کا حکم دینا ،برائی سے منع کرنا اوراگروہ انسان کے جسم سے نکلنے سے انکار کرے تواسے مارنا بھی آیت مذکورہ کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ تو واجب اورظالم کو ظلم سے روکنے ،مظلوم کی مدد کرنے ،نیکی کا حکم دینے اوربرائی سے منع کرنے کے قبیل سے ہے کیونکہ جن،درحقیقت انسان پر ظلم کررہا ہوتا ہے اورصیح حدیث کے حوالہ سے  قبل ازیں یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ نبی کریم ﷺنے شیطان کاگلا اس قدردبایاکہ اس کا لعاب آپؐ کے دست مبارک پر بہنے لگااورآپؐ نے فرمایا‘‘اگر میرے بھائی سلیمان کی دعا نہ ہوتی تو لوگ صبح کے وقت اس شیطان کو بندھا ہوا دیکھتے۔’’صیح مسلم میں حضرت ابولدرداءرضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺنےفرمایا‘‘اللہ کا دشمن ابلیس میرے پاس آگ کاایک انگارہ لایا تاکہ اسے میرے چہرے پر لگادے تومیں نے تین بارکہااعوذبالله منك‘‘ميں الله تعالی سے تیری پناہ مانگتاہوں ۔’’پھرمیں نے کہا‘‘میں تجھ پر اللہ تعالی کی مکمل لعنت بھیجتا ہوں۔پھر میں نے ارادہ کیا کہ اسے پکڑ لوں لیکن اللہ کی قسم !اگرہمارے بھائی سلیمان کی دعا نہ ہوتی توصبح تک وہ یہاں بندھا ہوتا حتی کہ اہل مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے ۔’’چنانچہ اس مفہوم کی اوربھی بہت سی احادیث ہیں ۔اس سلسلہ میں اہل علم کے اقوال بھی بہت ہیں لیکن امید ہے کہ ہم نے جوکچھ ذکر کیا یہ کافی ہوگا اوراس میں طالب حق کے لئے قناعت کا سامان ہوگا۔اللہ تعالی سے اس کے اسماءحسنی اورصفات علیا کے واسطہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اورسب مسلمانوں کو دین میں فقاہت واستقامت عطافرمائے اور ہمیں اقوال واعمال میں اصابت حق کی توفیق عطافرمائے اورہمیں اورسب مسلمانوں کو اس بات سے پناہ دے کہ ہم علم کے بغیر کوئی بات کریں یاکسی ایسی بات کا انکار کریں جس کا ہمیں علم نہ ہو،بے شک وہی کارساز وقادر ہے۔

وصلي الله علي عبده ورسوله نبينا محمد واآله وصحبه واتباعه باحسان

 

فتاوی مکیہ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ