سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(52) وجوب عبادت الہی اور دشمنوں پر فتح ونصرت کے اسباب

  • 7383
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1123

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وجوب عبادت الہی اور دشمنوں پر فتح ونصرت کے اسباب


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وجوب عبادت الہی اور دشمنوں پر فتح ونصرت کے اسباب

الحمدلله وحده ، والصلوة  والسلام علي من لانبي بعده، وعلي آله وصحبه _ امابعد:

ہرمکلف انسان کے لئے سب سے اہم واجب اورفرض یہ ہے کہ وہ اپنے اس رب سبحانہ وتعالی کی عبادت کرے جو آسمان وزمین اورعرش عظیم کا رب ہے اورجس نے اپنی کتاب کریم میں یہ ارشاد فرمایا ہے:

﴿ إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ‌ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‌ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَ‌اتٍ بِأَمْرِ‌هِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ‌ ۗ تَبَارَ‌كَ اللَّـهُ رَ‌بُّ الْعَالَمِينَ﴾ (الاعراف۷/۵۴)

"درحقیقت تمھارا پروردگار اللہ ہی ہےجس نے آسمانوں اورزمین کو چھ دن میں پیدا کیاپھر عرش پر قائم ہوا ،وہی رات کو دن پر ڈھانپ دیتا ہےکہ وہ(دن)  اس کے پیچھے دوڑا چلاآتا  ہےاوراس نے سورج ،چاند اورتارے کوپیدا کئے ،سب اس کے فرمان کے مطابق کام میں لگے ہوئے ہیں،دیکھوسب مخلوق بھی اسی کی ہے اورحکم بھی(اسی کا ہے) اللہ رب العالمین بڑی برکت والا ہے۔"

دوسری جگہ اللہ تعالی نے ارشادفرمایا ہےکہ جنوں  اورانسانوں کو تواسی نے اپنی عباد ت ہی کے لئے پیدا فرمایا ہے:

﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات۵۶/۵۱)

‘‘اور میں نے جنوں اورانسانوں کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه میری ہی  عبادت کریں’’

یہ عبادت جس کے لئے اللہ تعالی نے جنوں اورانسانوں کو پیداکیا ،اس سے مراد اس کی توحید ہےاورعبادت کی تمام قسمیں مثلا نماز،روزہ،زکوۃ ،حج،رکوع،سجود،طواف،ذبح،نذر،خوف،امید،استغاثہ،استعانت،استعاذہ اوردعا کی تمام قسمیں بھی اسی میں شامل ہیں۔اس عبادت میں اللہ تعالی کے ان اوامراورترک نواہی میں اس کی اطاعت بھی شامل ہے جو اللہ تعالی کی کتاب کریم اوراس کے رسول امینﷺکی سنت نے بیان کی ہے ۔اللہ تعالی نے تمام جنوں اورانسانوں کو یہ حکم دیا  کہ وہ اس عبادت کو بجالائیں جس کی خاطر انہیں پیدا کیا گیا ہے۔اسی عبادت کے بیان کے لئے اس نے تمام رسولوں کو مبعوث اورتمام کتابوں کو نازل فرمایا ہے،اس کی تفصیل اس کی دعوت اوراسے اخلاص کے ساتھ اداکرنے کا حکم  اللہ وحدہ،ہی کے لئے ہے،جیسا کہ اس نے ارشاد فرمایا ہے:

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَ‌بَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقرہ۲۱/۲)

‘‘اے لوگوں!اپنے پروردگار کی عبادت کروجس نے تم کو اورتم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے)بچو۔’’

اورفرمایا: ﴿وَقَضَىٰ رَ‌بُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ (الاسراء۲۳/۱۷)

‘‘اور تمھارے پروردگارنے فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اورماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔’’

اس میں ‘‘قضی’’کے معنی حکم دینے اوروصیت کرنے کے ہیں ،اسی طرح اس نے یہ بھی فرمایا ہے:

﴿وَمَا أُمِرُ‌وا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ﴾ (البینۃ۵/۹۸)

‘‘اوران کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ (اوریک سوہوکر)اللہ کی عبادت کریں اورنماز پڑھیں اورزکوۃ دیں اوریہی سچا دین ہے۔’’

کتاب اللہ میں اس مفہوم کی بہت سی آیات ہیں،جیسا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے:

﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ (الحشر۷/۵۹)

‘‘جوچیز تم کو رسول (ﷺ)دیں وہ لے لواورجس سے منع کریں(اس سے)بازرہواوراللہ سے ڈرتے رہو،بےشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔’’

اورفرمایا:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّ‌سُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ‌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾ (النساء۵۹/۴)

‘‘مومنو!اللہ اوراس کے رسول کی فرماں برداری کرو اورجو تم میں سے صاحب حکومت ہیں،ان کی بھی اوراگرکسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اس میں اللہ اوراس کے رسول (کے حکم)کی طرف رجوع کرو،یہ بہت اچھی بات ہے اوراس کا مآل(انجام)بھی اچھا ہے۔’’

نیز فرمایا:

﴿مَّن يُطِعِ الرَّ‌سُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ﴾ (النساء۴/۸۰)

‘‘جس شخص نے رسول کی فرماں برداری کی تو بے شک اس نے اللہ کی فرماں برداری کی۔’’

مزیدارشاد ہے:

﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّ‌سُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ﴾ (النحل۱۶/۳۶)

"اور ہم نے ہرجماعت( امت) میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ ہی  کی عبادت کرو اور بتوں( کی پرستش)سے اجتناب کرو۔"

اورفرمایا:

﴿وَمَا أَرْ‌سَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّ‌سُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾ (الانبیاء۲۱/۲۵)

"اورجو رسول ہم نے  آپ سے پہلے  بھیجے،ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں توتم میری ہی عبادت کرو۔"

ارشاد گرامی ہے:

﴿ الر‌ ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ‌ ﴿١﴾ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّـهَ ۚ إِنَّنِي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ‌ وَبَشِيرٌ‌ ﴾ (ھود۱۱/۱۔۲)

"یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور اللہ حکیم وخبیر کی طرف سےبالتفصیل بیان کر دی گئی ہیں(وہ یہ)کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور میں اس کی طرف سے تم کو ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔"

یہ آیات محکمات اوراس مفہوم کی قرآن مجید کی دیگر تمام آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صرف اللہ وحدہ کی اخلاص کے ساتھ عبادت واجب ہے اوریہی دین کی اصل اورملت کی اساس ہے ۔ان آیات سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنوں اورانسانوں کی تخلیق ،انبیاء کی بعثت اورکتابوں کے نزول میں بھی یہی حکمت کارفرما ہے لہذا تمام مکلفین پر یہ واجب ہے کہ اس امر کی طرف کامل توجہ دیں اوراسے سمجھنے کی پوری پوری کوشش کریں اور آج نام کے مسلمان جن بہت سی باتوں میں مبتلا ہوچکے ہیں ان سے پرہیز کریں مثلا انبیاء واولیاء کے بارے میں غلو سے کام لینا ،ان کی قبروں پر عمارتیں،مسجدیں اورقبے بنانا،ان سے سوال کرنا اور مدد مانگنا ،حاجات کو پورا کرنے کے لئے ان کی طرف رجوع کرنا ،ان سے سوال کرنا ،پریشانیوں کے ازالہ،بیماریوں کے لئے شفااوردشمنوں پر فتح ونصرت حاصل کرنے کے لئے ان کی طرف رجوع کرنا اوراس طرح کے دیگر بے شمار امور ہیں جوشرک اکبر کی قسمیں ہیں۔کتاب اللہ کے اس مضمون کی موافقت میں رسول اللہ ﷺکی بہت سی صیح احادیث بھی ہیں،چنانچہ  صحیین میں حضرت معاذرضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ان سے فرمایا‘‘کیا تمھیں معلوم ہے کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے؟اوربندوں  کا اللہ تعالی پر کیا حق ہے؟’’حضرت معاذ نے عرض کیاکہ ‘‘اللہ اوراس کا رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔’’تو نبی کریم ﷺنے  فرمایا‘‘اللہ کا بندوں پریہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اوربندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ جو اس کے ساتھ شرک نہ کرے،اسے وہ عذاب نہ دے۔’’صیح بخاری میں حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے  فرمایا‘‘جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بناتے ہوئے فوت ہو تو وہ جہنم رسید ہوگا۔’’

صیح مسلم میں حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے  فرمایا‘‘جو شخص اللہ تعالی سے اس حالت میں ملاقات کرے کہ یہ اس کے ساتھ کسی کو اس کا شریک نہ بناتا  ہوتو یہ شخص جنت میں داخل ہوگااورجو شخص اللہ تعالی اس حال میں ملاقات کرے کہ یہ اس کے ساتھ شرک کرتا ہو توایسا شخص جہنم رسید ہوگا۔اس مفہوم کی اوربھی بہت سی احادیث ہیں،یہ مسئلہ بہت اہم اورعظیم مسئلہ ہے ۔اللہ تعالی نے اپنے نبی حضرت محمد ﷺکو مبعوث ہی اس لئے فرمایا کہ آپؐ توحید کی  دعوت دیں ،شرک کی نفی کریں،چنانچہ جس مقصد کی خاطر آپؐ کی بعثت ہوئی اس کی تبلیغ کے لئے آپؐ نے بہت احسن انداز میں فرض اداکیا حتی کہ اللہ کی راہ میں آپؐ کو سخت اذیتیں پہنچائی گئیں مگر آپؐ نے اور آپؐ کے ساتھ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے صبر کو خوب خوب مظاہر ہ کیا اور دعوت وتبلیغ میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی حتی کہ اللہ تعالی نے تمام بتوں اور پروہتوں سے جزیرۃ العرب کو پاک کردیا ،لوگ فوج درفوج اللہ تعالی کے دین میں داخل ہوگئے ،کعبۃ اللہ کے گردوپیش اوراس کے اندر رکھے ہوئے بتوں کو توڑ پھوڑ دیا گیا ،لات ،عزی، منات اورقبائل عرب کے دیگر تمام بتوں کو توڑ کر ریزہ ریزہ کردیا گیا جس سے جزیرۃ العرب میں اللہ تعالی کے کلمہ کو سربلندی اوردین اسلام کو غلبہ حاصل ہوگیا ۔پھر مسلمان جزیرۃ العرب سے باہر دعوت وجہاد کے کام کے لئے متوجہ ہوئے اوراس سے اللہ تعالی نے سعادت مند لوگوں کو ہدایت سے بہرہ مند فرمایا اوردنیا کے اکثر حصوں میں حق اورعدل کا بول بالا ہوگیا اور اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہدایت کے امام،حق کے قائد اورعدل واصلاح کے داعی بن گئے اورپھر ان کے بعد تابعین وتبع تابعین نے ہدایت کے امام اورحق کےداعی بن کر کام کیا اوراللہ کے دین کی اشاعت کا کام کیا ۔لوگوں کو توحید الہی کی دعوت دی ،اپنے نفسوں اور مالوں کے ساتھ اللہ تعالی کی راہ میں جہاد  کیا اوراللہ کی خاطر کسی ملامت گر کی ملامت کی قطعا کو ئی پرواہ نہ کی تو اللہ تعالی نے بھی انہیں فتح ونصرت سے نوازااوردشمنوں کے مقابلہ میں انہیں غلبہ عطا فرمایااوراپنے حسب ذیل فرمان میں جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کرکے دکھایا کہ :

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُ‌وا اللَّـهَ يَنصُرْ‌كُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ﴾ (محمد۷/۴۷)

‘‘اے اہل ایمان!اگر تم اللہ (کے دین)کی مددکروگےتووہ بھی تمہاری مددکرے گااورتم کو ثابت قدم رکھے گا۔’’

﴿وَلَيَنصُرَ‌نَّ اللَّـهُ مَن يَنصُرُ‌هُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴿٤٠﴾ الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُ‌وا بِالْمَعْرُ‌وفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ‌ ۗ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ‌﴾ (الحج۲۲/۴۰۔۴۱)

‘‘اورجوشخص اللہ (کے دین)کی مددکرتا ہےاللہ اس کی  مددضرورکرےگابے شک اللہ تعالی زبردست قوت اورغلبے والا ہے ،یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس(قدرت واختیار)دیں تو نماز قائم کریں،زکوۃ اداکریں اورنیک کام کرنے کا حکم دیں اوربرے کاموں سے منع کریں اورسب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار  میں ہے۔’’

پھر اس کے بعد لوگوں میں تبدیلی آگئی ،وہ فرقوں میں تقسیم ہوگئے ،جہاد کے بارے میں سست ہوگئے ،عیش وراحت اورخواہش پرستی کی زندگی کو ترجیح دینے لگے ،ان میں منکرات عام ہوگئیں ۔۔۔مگر جس کو اللہ تعالی نے محفوظ رکھا ۔۔۔تو اللہ تعالی نے بھی ان کے حالات کو بدل دیا اوران کے اعمال کی سزا کے طور پر ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کردیا اوراللہ تعالی اپنے بندوں پر ظلم نہیں فرماتا ۔قانون قدرت یہ ہے کہ :

﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ‌ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُ‌وا مَا بِأَنفُسِهِمْ﴾ (الرعد۱۱/۱۳)

‘‘اللہ اس(نعمت)کو جس قوم کو(حاصل ہے)نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے۔’’

لہٰذا سب مسلمانوں پر،خواہ ان کا تعلق حکومتوں سے ہو یا قوموں سے،یہ واجب ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتوالیٰ کی طرف رجوع کریں،اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت وبندگی بجا لائیں،سابقہ کوتاہیوں اور گناہوں سے توبہ کریں،فرائض کے ادا کرنے میں کمرہمت باندھ لیں،اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور سے رک جائیں اور آپس میں ایک دوسرے کو اس کی وصیت بھی کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کریں۔

سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ شرعی حدود کو نافذ کیا جائے،ہر چیز میں لوگوں کے مابین حکم شریعت کے مطابق فیصلہ کیا جائے اور شرعی قوانین کو اپنا نظام حکومت بنایا جائے ان وضعی قوانین کو فی الفور ختم کر دیا جائے جو اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مخاف ہیں اور ان قوانین کی بنیاد پر اپنا نظام حکومت قطعا استوار نہ کیا جائے اور تمام لوگوں کو حکم شریعت کا پابند بنایا جائے۔حضرات علماءکرام کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ لوگوں میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کریں،ان میں اسلامی بیداری کی روح پھونک دیں،حق وصبر اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی وصیت کریں اور نفاذ شریعت کے سلسلہ میں اپنے حکمرانوں کی حوصلہ افزائی کریں۔

اسی طرح علماء پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ ان ملحدانہ افکار ونظریات مثلا کمیونزم،سوشلزم اور قومیت پرستی وغیرہ کے خلاف جنگ کریں جو اسلامی شریعت کے مخالف ہیں،اس سے ہی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے خراب حالات کی اصلاح فرمائےگا،عظمت گم گشتہ کو واپس لوٹائےگا،دشمنوں پر فتح ونصرت عطا کر کے زمین میں گلبہ عطا فرمائےگا۔جیسا کہ سب سے سچے،اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

﴿وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ‌ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (الروم۳۰/۴۷)

‘‘اور مومنوں کی مدد کرنا ہم پر لازم ہے۔’’

نیز ارشاد فرمایا:

﴿وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْ‌تَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِ‌كُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ‌ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ (النور۵۵/۲۴)

‘‘جولوگ تم میں سے ایمان لائے اورنیک کام کرتے رہےان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادےگاجیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اوران کے دین کو ،جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے ،مستحکم و پائیدارکرےگا اورخوف کےبعد ان کو امن بخشے گا۔وہ میری عبادت کریں گے اورمیرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گےاورجواس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردارہیں۔’’

مزید فرمایا:

﴿إِنَّا لَنَنصُرُ‌ رُ‌سُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ ﴿٥١﴾ يَوْمَ لَا يَنفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَ‌تُهُمْ ۖ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ‌﴾ (غافر۴۰/۵۱۔۵۲)

‘‘ہم اپنے پیغمبروں کی اورجو لوگ ایمان لائے ہیں ان کی دنیا کی زندگی میں بھی مددکرتے ہیں اورجس دن گواہ کھڑے ہوں گے (یعنی قیامت کو بھی )جس دن ظالموں کو ان کی معذرت کچھ فائدہ نہ دے گی اوران کے لئےلعنت اوربراگھر ہے۔’’

اللہ سبحانہ وتعالی کے حضوردست سوال دراز ہے کہ وہ مسلمانوں کے حکمرانوں اورعوام کی اصلاح فرمائے ،انہیں دین کی فقاہت سے نوازے ،انہیں تقوی کی بنیاد پر جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائے ،سب کو صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائے،ان کے ساتھ حق کو نصرت اورباطل کو ذلت عطاکرے،سب کو ایک دوسرے کے ساتھ نیکی وتقوی پر تعاون اور حق وصبر کی وصیت کی توفیق بخشے ،بلاشبہ وہی ذات گرامی کا رساز وقادرہے۔

وصلي الله عليه وسلم علي عبده ورسوله وخيرته من خلقه نبينا وامامنا سيدنامحمد بن عبدالله وعلي آله واصحابه،ومن اهتدي بهداه الي يوم الدين،والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته!

 

فتاوی مکیہ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ