سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(50) صحیح اورغلط عقیدہ

  • 7381
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1239

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صحیح اورغلط عقیدہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح اورغلط عقیدہ

الحمدلله وحده ، والصلوة  والسلام علي من لانبي بعده، وعلي آله وصحبه _ امابعد:

جب صیح عقیدہ،دین اسلام کی اصل اورملت اسلامیہ کی اساس ہے ،تومیں نے یہ مناسب سمجھا کہ آج کے درس کا یہی موضوع ہو۔کتاب وسنت کے شرعی دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ اعمال واقوال صرف اسی وقت صیح اور مقبول قرارپاتے ہیں جب عقیدہ صیح ہو ،اوراگرعقیدہ صیح نہ ہو تو پھر تمام اعمال واقوال باطل قرارپاتے ہیں،جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :

﴿وَمَن يَكْفُرْ‌ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَ‌ةِ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ﴾

 (المائدہ۵/۵)

(اور جوشخص ایمان کا منکر ہو،اس کے عمل ضائع  ہوگئے اوروہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہوگا ۔)

نیزفرمایا:

﴿وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَ‌كْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ﴾ (الزمر۳۹/۶۵)

(اور(اے محمد !ﷺ)یقینا آپ کی طرف اورآپ سے پہلے کے تمام نبیوں کی طرف یہی وحی بھیجی گئی کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمھارے عمل برباد ہوجائیں گے اورتم زیاں کاروں میں سے ہوجاوگے۔)

اس مضمون کی اوربھی بہت سی آیا ت ہیں ،اللہ تعالی کی کتاب مبین اور سنت رسول امین عليه من ربه افضل الصلوة والتسليم سے ثابت ہے کہ صیح عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی،اس کے فرشتوں ،اس کی کتابوں ،اس کے رسولوں،یوم آخرت اوراچھی بری تقدیر کے ساتھ ایمان لایا جائے۔صیح عقیدہ کے یہ چھ امور،وہ اصول ہیں جنہیں اللہ تعالی کی کتاب عزیز میں بیان کیا گیا ہے اور یہی اصول دے کر اللہ تعالی نے اپنے رسول حضرت محمد علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے۔ تمام امور غیب اوروہ تمام امورجن کی اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺنے خبردی ہے،کے ساتھ ایمان لانا بھی  انہی اصولوں ہی کے برگ وبارہیں۔ان چھ اصولوں سے متعلق کتاب وسنت کے دلائل بہت زیادہ ہیں،مثلا۔ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ لَّيْسَ الْبِرَّ‌ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِ‌قِ وَالْمَغْرِ‌بِ وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ‌ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ﴾ (البقرۃ۲/۱۷۷)

(نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق ومغرب (کو قبلہ سمجھ کران )کی طرف منہ کرلو بلکہ نیک تو وہ ہے جو اللہ تعالی پر،قیامت کے دن پر فرشتوں پر،کتاب اللہ پر ،اورنبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو۔)

اورفرمایا: ﴿ آمَنَ الرَّ‌سُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّ‌بِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُ‌سُلِهِ لَا نُفَرِّ‌قُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّ‌سُلِهِ﴾ (البقرۃ۲/۲۸۵)

(رسول اللہ (ﷺ)،اس کتاب پر جو ان کے پروردگارکی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اورمومن بھی،یہ سب اللہ تعالی ،اس کے فرشتوں،اس کی کتابوں اوراس کےپیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں(اورکہتے ہیں)کہ اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے ۔)

مزید فرمایا:

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَ‌سُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ‌ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُ‌سُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴾ (النساء۴/۱۳۶)

(اے ایمان والو!اللہ تعالی پر،اس کے رسول (ﷺ) پر اوراس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (ﷺ) پر نازل کی ہے اوران کتابوں پر جو اس نے پہلے اس نے نازل فرمائی ہیں،(ان سب پر) ایمان لاو اور جوشخص اللہ تعالی سے،اس کے فرشتوں سے ،اس کی کتابوں سے  اوراس کےرسولوں سے اورروزقیامت سے انکار کرے،تووہ بہت ہی دور کی گمراہی میں جاپڑا۔)

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْ‌ضِ ۗ إِنَّ ذَٰلِكَ فِي كِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرٌ‌ ﴾ (الحج۲۲/۷۰)

(کیا تم نہیں جانتے کہ جو کچھ آسمانوں اورزمین میں ہے ،اللہ اس کو جانتا ہے،یہ (سب کچھ)کتاب میں (لکھا ہوا)ہے،بے شک یہ سب اللہ کے لئے آسان ہے۔)

ان اصولوں پر دلالت کرنے والی احادیث صیحہ بھی بہت زیادہ ہیں مثلا مشہور صیح حدیث ہے ،جسے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نےاپنی "صیح"میں  امیرالمومومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سےروایت کیا ہے کہ جبریل علیہ السلام نے نبی کریم ﷺسے ایمان کے بارے میں پوچھا تو آپؐ نے فرمایا (ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالی پر ،اس کے فرشتوں،اس کی کتابوں اوراس کےرسولوں،آخرت کے دن اوراچھی بری تقدیر پر ایمان لاو۔)...الحدیث۔امام بخاری اورامام مسلم رحمۃ اللہ علیہم نے الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے ۔اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات گرامی آخرت اوردیگرامورغیب جن کا اعتقاد رکھنا ایک مسلمان کے لئے واجب ہے،وہ انہی  اصولوں کی شاخیں ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات گرامی پر ایمان لانے میں یہ بھی شامل ہے کہ اس بات پر بھی ایمان لایا جائے کہ صرف اور صرف وہی معبود حقیقی اورمستحق عبادت ہے،اس کے سوا کوئی اور اس بات کا ہرگز ہرگز مستحق نہیں ہے کیونکہ وہی بندوں کا خالق ہے،ان پر احسان کرنے والا ،انہیں رزق دینے والا اوران کے ظاہر باطن کو جاننے والا ہے،وہ فرماں برداروں کو ثواب اورنافرمانوں کو عذاب دینے پر قادر ہے،اسی عبادت کے لئے ہی اللہ تعالی نے جنوں اورانسانوں کو پیدا کیا اور انہیں اس عبادت کا حکم دیا ،جیسا کہ اس نے ارشاد فرمایا ہے:

﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ مَا أُرِ‌يدُ مِنْهُم مِّن رِّ‌زْقٍ وَمَا أُرِ‌يدُ أَن يُطْعِمُونِ ﴿٥٧﴾ إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الرَّ‌زَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ ﴾ (الذاریات۵۱/۵۶/۵۸)

(اورمیں نے جنوں اورانسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں،میں ان سے طالب رزق نہیں اورنہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے (کھانا)کھلائیں ،اللہ ہی تو سب کا روزی رساں ،زورآور(اور)مضبوط ہے۔)

ارشاد ربانی ہے:

﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَ‌بَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿٢١﴾ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْ‌ضَ فِرَ‌اشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَ‌جَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَ‌اتِ رِ‌زْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (البقرۃ۲/۲۱۔۲۲)

(اے لوگو!اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمھیں اورتم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے)بچو،جس نے تمھارے لئے زمین کو بچھونا اورآسمانوں کو چھت بنایا اور آسمان سے بارش برساکرتمھارے کھانے کے لئے انواع اقسام کے میوے پیدا کئے،خبردار!کسی کو اللہ کا شریک مت بناواور تم جانتے تو ہو۔)

اللہ تعالیٰ نے اسی حق کو بیان فرمانے اور اس کی طرف دعوت دینے کے لئے ہی تمام رسولوں کو مبعوث اور کتابوں کو نازل فرمایا اور اس کے متضاد عقیدہ رکھنے سے ڈرایا ہے،جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّ‌سُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ﴾ (النحل۱۶/۳۶)

"اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو!صرف اللہ کی عبادت کرو اور بت پرستی سے بچو۔"

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَمَا أَرْ‌سَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّ‌سُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾ (الانبیاء۲۱/۲۵)

"اور آپ سے پہلے جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں لہٰذا(تم سب)میری ہی عبادت کرو۔"

مزید فرمایا:

﴿ الر‌ ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ‌ ﴿١﴾ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّـهَ ۚ إِنَّنِي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ‌ وَبَشِيرٌ‌ ﴾ (ھود۱۱/۱۔۲)

"یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور اللہ حکیم وخبیر کی طرف سےبالتفصیل بیان کر دی گئی ہیں(وہ یہ)کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور میں اس کی طرف سے تم کو ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔"

اس عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ بندوں نے عبادت کی جن جن صورتوں کو بھی اختیار کیا ہے،مثلا دعا،خوف،امید،نماز،روزہ،ذبح،نذر وغیرہ،ان تمام اقسام کو اللہ تعالیٰ ہی کی ذات گرامی کے لئے اس طرح مخصوص کر دیا جائے کہ بندہ اس معبود حقیقی کے سامنے عاجزی وانکساری کااظہارکرےتواس کاشوق بھی دامن گیرہو،اس کاخوف دل میں ہو تو اس سے کمال درجہ کی محبت بھی ہو اور اس کی عظمت کے سامنے انسان عجز وانکساری کی بھی انتہا کر دے۔قرآن کریم کا اکثروبیشترحصہ،دین کے اسی عظیم الشان اصول کی تشریح وتوضیح کے بارے میں نازل ہوا ہے،ارشادباری تعالیٰ ہے:

﴿ فَاعْبُدِ اللَّـهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ﴿٢﴾ أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ﴾ (الزمر۳۹/۲۔۳)

"اللہ کی عبادت کرو(یعنی)اس کی عبادت کو(شرک)سے خالص کر کے،دیکھو!خالص عبادت اللہ ہی کے لئے(زیبا)ہے۔"

اور فرمایا:

﴿ وَقَضَىٰ رَ‌بُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ﴾ (الاسراء۱۷/۲۳)

"اور تمہارے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔"

اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿ فَادْعُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِ‌هَ الْكَافِرُ‌ونَ ﴾ (الغافر۴۰/۱۴)

"اللہ کی عبادت کو خالص کر کے صرف اسی کو پکارو اگرچہ کافر برا ہی مانیں۔"

صحیح بخاری وصحیح مسکم میں حضرت معاذؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا"اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔"

اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی پر ایمان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ان تمام فرائض وواجبات پر بھی ایمان لایا جائےجنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض قرار دیا ہے مثلا اسلام کے ظاہری ارکان خمسہ(۱)اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اورحضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں(۲)نماز قائم کرنا (۳)زکوۃ اداکرنا(۴)رمضان المبارک کے روزے رکھنا (۵)اگر زادہ رہ ہوتو بیت اللہ شریف کا حج کرنا۔دیگر فرائض جن کا مطہرہ نے حکم دیا ہے اوران سب میں سے اہم اوراعظم رکن یہ شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورحضرت محمد ﷺاللہ تعالی کے رسو ل ہیں ۔"لاالہ الا اللہ "کی شہادت کا یہ تقاضا ہے کہ عبادت اخلاص کے ساتھ صرف اورصرف اللہ تعالی ہی کی کی  جائے اورغیر اللہ کی عبادت کی نفی کردی جائے چنانچہ "لاالہ الا اللہ "کے یہی معنی ہیں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ہے ۔ اللہ تعالی کے سواجس انسان ،فرشتہ ،جن یا کسی اورہستی کی عبادت کی جائے،وہ معبود باطل ہے جب کہ معبود حقیقی صرف اورصرف اللہ تعالی ہے،جیسا کہ اس نے ارشاد فرمایا ہے:

﴿ ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ ﴾ (الحج۲۲/۶۲)

(یہ اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور(کافر)جس چیز کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں،وہ باطل ہے۔)

یہ پہلے بیان کیا جا  چکا ہے کہ اس عظیم اصول کے لئے اللہ تعالی نے جنوں اور انسانوں کو پیدا کیا اور ان کو یہی حکم دیا ہے،اسی اصول کو لوگوں تک پہنچانے اورانہیں سمجھانے کے لئے اللہ تعالی نے اپنے انبیاءکرام کو مبعوث کیا اوراپنی کتابوں کو نازل فرمایا ہے ۔اس پر خوب اچھی طرح غور فکر فرمایئے تاکہ آپ کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین کے اس اہم اصول کے بارے میں کس قدر زبردست جہالت میں مبتلا اورغیراللہ کی عبادت میں مصروف ہے،انہوں نے وہ حق جو خالص اللہ تعالی کے لئے تھا ،غیر اللہ کو دے دیا۔فالله المستعان!

اللہ سبحانہ تعالی کے ساتھ ایمان میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اس بات پر ایمان لایا جائے کہ وہی اس کائنات کا خالق ،اس کے امور ومعاملات کا مدبر اورجس طرح چاہے اپنے علم وقدرت کے ساتھ تصرف کرنے والاہے۔وہی دنیا وآخرت کا مالک اورتمام کائنات کا رب ہے، اس کے سوا کوئی خالق ہے نہ رب،اسی نے اپنے بندوں کی اصلاح اورانہیں ایسے امور کی دعوت دینے کے لئے ،جن میں ان کی دنیا وآخرت کی نجات اورکامیابی کا راز مضمر ہے حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو مبعوث کیا اوراپنے پاس سے کتابیں نازل فرمائیں اوران تمام امور میں وہ وحدہ لاشریک ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ اللَّـهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ ﴾ (الزمر۳۹/۶۲)

(اللہ ہی ہر چیز کا پیدا  کرنے والا ہےاوروہی ہرچیز کا نگران ہے۔)

اورفرمایا: ﴿ إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ‌ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَ‌اتٍ بِأَمْرِ‌هِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ‌ ۗ تَبَارَ‌كَ اللَّـهُ رَ‌بُّ الْعَالَمِينَ﴾ (الاعراف۷/۵۴)

"یقینا تمھارا پروردگار (اللہ ہی ہے)جس نے آسمانوں اورزمین کو چھ دن میں پیدا کیا،پھر عرش پر قائم ہوا ،وہی رات سے دن کو ڈھانپ (چھپا)دیتا ہے،وہ اس کے پیچھے دوڑتا چلاآتا  ہےاوراسی نے سورج ،چاند اورستاروں کوپیدا کیا ،سب اس کے حکم کے مطابق کام میں لگے ہوئے ہیں۔یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہےخالق ہونا اورحاکم ہونا ،اللہ رب العالمین بڑی برکت والا ہے۔"

ایمان باللہ میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ کے ان اسماءحسنیٰ اور صفات علیا پر بھی ایمان رکھا جائے جو اس کی کتاب عزیزمیں وارد ہیں اور اس کے رسول امینﷺسے ثابت ہیں اور پھر کسی تحریف،تعطیل،تکییف اور تمثیل کے بغیر ایمان لایا جائے اور جس طرح یہ اسماءوصفات،کتاب وسنت میں وارد ہیں ان پر اسی طرح بلاکیف ایمان لایا جائے اور یہ جن عظیم معانی پرمشتمل ہیں ان پر بھی ایمان لایا جائے کہ یہ درحقیقت اللہ عزوجل کے وہ اوصاف ہیں جن کے ساتھ اسے اس طرح موصوف قراردینا واجب ہے جس طرح اس کی ذات گرامی کے شایان شان ہے،نیز یہ بھی واجب ہے کہ ان کی کوئی ایسی تاویل نہ کی جائے کہ جس سے کسی صفت کی ،مخلوق کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہو،جیسا کہ اس نے فرمایا ہے:

﴿ اليس كمثله شئ وهوالسميع البصير﴾ (الشوری۴۲/۱۱)

(اس جیسی کوئی چیز نہیں اوروہ سنتا دیکھتا ہے۔)

اورفرمایا:

﴿فَلَا تَضْرِ‌بُوا لِلَّـهِ الْأَمْثَالَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (النحل۱۶/۷۴)

(لوگو!)اللہ کے بار ے میں (غلط)مثالیں نہ بناواللہ تعالی جانتا ہے اورتم نہیں جانتے۔)

یہ ہے اہل سنت والجماعت ،حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین عظام کا عقیدہ،جسے امام ابوالحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ نےاپنی کتاب "المقالات عن اصحاب الحدیث واہل السنۃ"میں اورکئی دیگر اہل علم وایمان نے بھی ذکر فرمایا ہے۔امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ امام زہری ومکحول سے آیات صفات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ "ان پر اسی طرح ایمان  لاو جس طرح یہ وارد ہیں”ولید بن مسلم رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ امام مالک ،اوزاعی ،لیث بن سعداورسفیان ثوری رحھم اللہ سے ان اخبار کے بارے میں پوچھا گیا جو صفات سے متعلق وارد ہیں توان سب نے فرمایا "ان کو اسی طرح بلا کیف مانو جس طرح یہ وارد ہیں۔" امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں "ہم بہت سے تابعین کی موجودگی میں یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالی اپنے عرش پر ہے، نیز ہم ان تمام صفات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جن کا سنت میں ذکر ہے"جب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے استاد ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے استواء کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا "استواء غیر مجہول ہے،اس کی کیفیت غیر معقول(عقل میں نہ آنے والی) ہےاور اللہ تعالی کا یہ پیغام ہے جسے رسول اللہ ﷺنے واضح طورپر پہنچادیا اوراب ہم پر فرض ہے کہ اس  کی تصدیق کریں۔"اور جب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے اس کے بارے میں پوچھاگیا تو انہوں نے فرمایا"استواء معلوم ہے،کیفیت مجہول ہے،اس کے ساتھ ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے"پھر آپ نے سائل سے کہا تم مجھے برے آدمی معلوم ہوتے ہو اورپھر آپ کے حکم سے اسے وہاں سے باہر نکال دیا گیا ۔یہی معنی ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے۔امام ابوعبدالرحمن عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "ہم اپنے پروردگار سبحانہ وتعالی کو پہنچانتے ہیں کہ وہ ساتوں آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر ہےاوراپنی مخلوق سے جدا ہے۔"اس موضوع سے متعلق ائمہ کرام کے ارشادات بہت زیادہ ہیں اوران سب کو اس لیکچر میں ذکرکرنا ممکن نہیں ہے ،جوشخص ان میں سے اکثر اقوال پر مطلع ہونا چاہئے اسے چاہئے کہ ان کتب کا مطالعہ کرے جو علماء سنت نے اس موضوع پر لکھی ہیں مثلا عبداللہ بن امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی "کتاب السنہ"امام جلیل محمد بن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ کی "التوحید"ابوالقاسم لالکائی طبری رحمۃ اللہ علیہ کی "کتاب السنہ"ابوبکر بن ابی عاصم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "السنہ"اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا اہل حماہ کے سوال کا جواب۔آپ کا یہ جواب بہت عظیم اورکثیر فوائد پر مشتمل ہے، جس میں آپ نے اہل سنت کے عقیدے کی وضاحت فرمائی ہے اور عقیدے کی صحت پر آپ نے ائمہ کے کلام اورشرعی وعقلی دلائل کو کثرت سے نقل فرمایا ہے اوراہل سنت کے مخالفین کے اقوال کو باطل قراردیا ہے،اسی طرح آپ کا وہ رسالہ جو "تدمیریہ"کے نام سے موسوم ہے ،اس میں بھی آپ نے اس موضوع پر بہت شرح وبسط کے ساتھ لکھا اور نقلی وعقلی دلائل کے ساتھ اہل سنت کے عقیدے کو بیان فرمایا ہےاورمخالفین کی اس انداز سے تردید کی ہے کہ اہل علم میں سے جو بھی اس پر صالح مقصد اورمعرفت حق کی رغبت کے ساتھ غور کرے گا تو اس کے سامنے حق اورباطل میں امتیاز نمایاں ہوجائے گا نیز جو بھی شخص اسماء صفات کے بارے میں اہل سنت کے عقائد کی مخالفت کرے گا ،وہ درحقیقت نقلی اورعقلی دلائل کی مخالفت کرے گا اورجوکچھ وہ ثابت کرنا چاہے یا جس کی نفی کرنا چاہے ،اس سلسلے میں وہ واضح تناقض میں مبتلا ہوجائے گا۔

اہل سنت والجماعت نے اللہ تعالی کے لئے صرف وہی کچھ ثابت کیا ہے جواس نے اپنے لئے اپنی کتاب کریم میں ثابت کیا  ہے اوراس کے رسول حضرت محمد ﷺنے اپنی سنت صیحہ میں ثابت کیا  ہے۔اہل سنت اللہ تعالی کے اسماء وصفات کا کسی تمثیل کے بغیر اثبات کرتے اوراللہ سبحانہ وتعالی کی ا س کی مخلوق کے ساتھ مشابہت سے اس طرح تنزیہہ (پاکیزگی بیان)کرتے ہیں کہ جس سے تعطیل (صفات الہی کا انکار) بھی لازم نہ آئے،تنافض پیدا نہ ہو اور تمام دلائل کے مطابق عمل بھی ہوجائے،چنانچہ اللہ تعالی کی بھی اپنے ان بندوں کے بارے میں یہی سنت ہے جو اس حق کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں جس کے ساتھ اللہ تعالی نے اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا ۔وہ حق کو تھامنے کی مقدوربھر کوشش کرتے اور اسے اخلاص کے ساتھ محض اللہ تعالی کی رضا کے حصول کے لئے ڈھونڈتے ہیں تو اللہ تعالی بھی انہیں حق اختیار کرنے کی توفیق عطافرماتا اوران کے دلائل کو غلبہ عطافرمادیتا ہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایاہے:

﴿ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ﴾ (الانبیاء۲۱/۱۸)

((نہیں)بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں تووہ اس کا سرتوڑ دیتا ہے اورجھوٹ اسی وقت نابود ہوجاتا ہے۔)

نیز فرمایا: ﴿وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرً‌ا﴾ (الفرقان۲۵/۳۳)

(اوریہ لوگ تمھارے پاس جو (اعتراض کی )بات لاتے ہیں ہم تمھارے پاس اس کا معقول اورخوب واضح جواب بھیج دیتے ہیں۔)

حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور تفسیر میں حسب ذیل ارشاد باری تعالی:

﴿ إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ﴾ (الاعراف۷/۵۴)

(یقینا تمھارا پروردگار اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اورزمین کو چھ دن میں پیدا کیا ،پھر عرش پر مستوی ہوا۔)

کی تفسیر میں بہت اچھا انداز اختیار کیا ہے ،عظیم فائدہ کے پیش نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہاں نقل کردیا جائے ،حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ "اس مقام کی تفسیر میں لوگوں کے بہت سے اقوال ہیں لیکن ہم ان سب کو یہاں بیان نہیں کرسکتے ،بس ہم اس مقام کی تفسیر میں وہ مذہب اختیار کریں گے جو سلف صالحین مالک ،اوازعی،ثوری،لیث بن سعد،شافعی،احمد،اسحاق بن راھویہ اور قدیم وجدید دیگر ائمہ مسلمین کا ہے اوروہ یہ کہ اس آیت کو اسی طرح لیا جائے جس طرح یہ وارد ہے ،نہ استواء کی کیفیت بیان کی جائے،نہ تشبیہہ دی جائے اورنہ اللہ تعالی کی اس صفت کو معطل قراردیا جائے۔"مشبہین"(تشبیہہ دینے والے)کے ذہنوں میں جو بات بظاہر آتی ہے ،اللہ تعالی کی ذات گرامی اس سے پاک ہے کیونکہ مخلوق میں سے کوئی چیز بھی اللہ تعالی سے مشابہت نہیں رکھتی ((اليس كمثله شئ وهوالسميع البصير))بلکہ بات درحقیقت اس طرح ہے جس طرح ائمہ کرام مثلا نعیم بن حماد خزاعی۔۔۔۔۔استادحضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ۔۔۔۔۔نے فرمائی ہےکہ"جس نے اللہ تعالی کو اس کی مخلوق کے ساتھ تشبیہہ دی وہ کافر ہے۔جس نے اس صفت کا انکار کیا جو للہ نے اپنی ذات گرامی کے بارے میں بیان فرمائی ہے ،وہ بھی کافر ہے نیز اللہ تعالی نے اپنی جو صفت بیان فرمائی ہے اور رسول اللہ ﷺنے اللہ کی جو صفت بیان فرمائی ہے،اس میں تشبیہہ نہیں ہے ۔"جو شخص اللہ تعالی کے لئے ان صفات کو ثابت کرے جن کا ذکرآیات صریحہ اوراحادیث صیحہ میں موجود ہے اورپھر اس طرح بیان کرے جس طرح اللہ تعالی کی جناب کے شایان شان ہے اوراللہ تعالی کی ذات گرامی سے تمام عیوب ونقائص کی نفی کردے تو وہ شخص راہ ہدایت پر گامزن ہے۔ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کی بات یہاں ختم ہوگئی۔

ایمان بالملائکہ کے دوپہلوہیں،ایک پہلواجمال کا اوردوسراتفصیل کا۔پس مومن کا اس بات پر ایمان ہو کہ فرشتے اللہ تعالی کی ایک ایسی مخلوق ہیں ،جنہیں اس نے اپنی اطاعت کے لئے پیدا فرمایا ہے اوران کے بارے میں یہ فرمایا ہے :

﴿ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَ‌مُونَ ﴿٢٦﴾ لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِ‌هِ يَعْمَلُونَ ﴿٢٧﴾ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْ‌تَضَىٰ وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ ﴾         (الانبیاء۲۱/۲۶۔۲۸)

﴿وہ اس کے معززبندے ہیں،اس سے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے اوراس کے حکم پر عمل کرتے ہیں ۔جو کچھ ان کے آگے ہوچکا ہے اورجو پیچھے ہوگا،وہ سب سے واقف ہے اوروہ (اس کے پاس کسی کی )سفارش نہیں کر سکتے مگر اس شخص کی جس سے اللہ خوش ہواوروہ اس کی ہیبت سےڈرتے ہیں۔

فرشتوںکی بہت سی قسمیں ہیں ،ان میں سے کچھ تووہ ہیں جو حاملین عرش الہی ہیں ،کچھ جنت وجہنم کے داروغے ہیں اورکچھ وہ ہیں جن کی دیوٹی بندوں کے اعمال کو محفوظ کرنے پر لگائی گئی ہے۔اسی طرح ان فرشتوں پر ہمارا تفصیلی ایمان ہے جن کا اللہ تعالی اوراسف کے رسول ﷺنے نام لے کرفرمایا ہے مثلا جبریل،میکائیل،مالک (داروغہ جہنم)اوراسرافیل،جسے نفخ صور پر مامورکیا گیا ہے۔احادیث صیحہ میں بھی فرشتوں کاذکر آیا ہے،چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی صیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا"فرشتوں کو نورسے،جنوں کو بھڑکتی ہوئی آ گ سے اورآدم کو ااس چیز سے پیدا کیا گیا جس کا تمھارے سامنے بیان کیا جاچکا ہے۔"(صیح مسلم)اسی طرح کتابوں پر بھی اجمالی ایمان واجب ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے نبیوں اوررسولوں پر کتابیں نازل فرمائیں تاکہ حق کو بیان کیا جاسکے اوراس کی طرف دعوت بھی دی جاسکے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا :

﴿ لَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا رُ‌سُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾       (الحدید۲۵/۵۷)

﴿یقیناہم نے اپنے رسولوں کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجااوران پر کتابیں نازل کیں اورترازو(یعنی قواعد عدل) تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔اورفرمایا:

﴿ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّـهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِ‌ينَ وَمُنذِرِ‌ينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ﴾(البقرۃ۲۱۳/۲)

﴿(پہلےتو سب )لوگوں کا ایک ہی مذہب تھا (لیکن وہ آپس میں اختلاف کرنے لگے)تو اللہ تعالی نے (ان کی طرف)بشارت دینے اورڈرانے والے پیغمبر بھیجے اوران پر سچائی کے ساتھ کتابیں نازل کیں تاکہ جن امور میں لوگ اختلاف کرتے تھے ،ان کا ان میں فیصلہ کردے۔

تفصیل کے ساتھ ہمارا ان کتابوں پر ایمان ہے جن کا اللہ تعالی نے نام لیا ہے،مثلا تورات ،انجیل،زبور،اورقرآن مجید جوان سب سے افضل اورآخری،ان کی نگہبان اورتصدیق کرنے والی کتاب ہے۔تمام امت پر یہ واجب ہے کہ کتاب کی اتباع کرے اوراس کے احکام کو نافذ کرے۔کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ سنت رسول ﷺکی اتباع اور اس کا نفاذ بھی واجب ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے رسول حضرت محمد ﷺ کوتمام جنوں اور انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے اوران پر اس قرآن مجید کو نازل فرمایا تاکہ آپؐ ان کے مابین اس کتاب کی روشنی میں فیصلے فرمائیں۔اس کتاب کو اللہ تعالی نے سینوں کی بیماریوں کے لئے شفاء،ہرچیز کا بیان اورمومنوں کےلئے ہدایت ورحمت بنادیا ہے جیسا کہ اس نے فرمایا ہے:

﴿وَهَـٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَ‌كٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ﴾

(الانعام۱۰۰/۶)

﴿اوریہ بابرکت بھی ہم نے اتاری ہے ،پس تم اس کی پیروی کرو اور(اللہ سے )

ڈروتاکہ تم پر مہربانی کی جائےمزید  فرمایا:

﴿وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَ‌حْمَةً وَبُشْرَ‌ىٰ لِلْمُسْلِمِينَ﴾     (النحل ۸۹/۱۶)

﴿اورہم نےآپپرایسی کتاب نازل کی ہے کہ(اس میں)ہرچیز کا(مفصل)بیان ہے اور مسلمان کے لئےہدایت،رحمت اوربشارت ہے۔

نیز فرمایا:

﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَ‌سُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾

(الاعراف۱۵۸/۷)

﴿اے محمد !(ﷺ) آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو!میں تم سب کی طرف اللہ تعالی کا بھیجا ہوا ہوں (یعنی اس کا رسول ہوں)جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اورزمین میں ہے ،اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ،وہی زندگانی بخشتا ہے اوروہی موت دیتا ہے،تواللہ پر ،اس کے نبی امی پر ،جواللہ پر اوراس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں ،ایمان لاواوران کی پیروی کروتاکہ ہدایت پاو۔

اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔اسی طرح انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ بھی اجمالی وتفصیلی ایمان لانا واجب ہے ۔ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی طرف رسولوں کو بھیجا جو کہ بشارت سنانے والے ،ڈرانے والے اورحق کی طرف دعوت دینے والے تھے۔جن لوگوں نے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت جپر لبیک کہا وہ سعادت کے ساتھ کامیاب وکامران ہوگئے اورجنہوں نے ان کی مخالفت کی ناکامی وندامت ان کا مقدر ٹھہری۔ہمارے نبی کریم حضرت محمد بن عبداللہ ﷺ،تمام انبیاء کرام علیہم السلام،کے بعد تشریف لانے والے اوران سب سے افضل ہیں۔ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّ‌سُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ﴾

(النحل ۳۶/۱۶)

﴿اورہم نے ہرامت میں رسول بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اوربت پرستی سے اجتناب کرو۔اورفرمایا:

﴿رُّ‌سُلًا مُّبَشِّرِ‌ينَ وَمُنذِرِ‌ينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّـهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّ‌سُلِ﴾

(النساء۱۶۵/۴)

﴿(سب)پیغمبروں کو(اللہ نے)خوش خبری سنانے اورڈرانے والے (بناکربھیجا)تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کے لئے اللہ پر الزام کا موقعہ نہ رہے۔

ارشاد ربانی ہے:

﴿ مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّ‌جَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّ‌سُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ﴾            (الاحزاب۴۰/۳۳)

﴿محمد (ﷺ)تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن آپ اللہ تعالی کے رسول اورخاتم النبیین ہیں۔

جن انبیاکرام کا اللہ تعالی نے نام لیا یا جن کا رسول اللہ ﷺسے نام ثابت ہے،ان پر ہمارا تفصیل وتعیین کے ساتھ ایمان ہے مثلا نوح،ہود،صالح،ابراہیم اور دیگر انبیا کرام صلی اللہ علیم وعلی آلھم واتباعھم۔آخرت کے دن کے ساتھ ایمان میں ہر اس چیز کے ساتھ ایمان لانا شامل ہے جس کی مابعد الموت ہونے کی اللہ تعالی اوراس کے رسول نے خبردی ہے۔مثلا قبر کا فتنہ،اس کا عذاب اور اس کی نعمتیں،قیامت کے دن کی ہولناکیاں اور سختیاں،پل صراط،میزان،حساب کتاب،جزا،لوگوں کے سامنے ان کے اعمال ناموں کا پیش کیا جانااور کچھ کا اپنے اعمال ناموں کودائیں ہاتھ میں اورکچھ کا بائیں ہاتھ میں پکڑنااور کچھ کا اپنی پشت کے پیچھے سے پکڑنا۔اس میں یہ بھی داخل ہے کہ ہم اپنے نبی کریمﷺکے حوض اورجنت اور جہنم پر ایمان رکھیں اور اس بات پر بھی ہمارا ایمان ہو کہ مومنوں کواپنےرب سبحانہ وتعالیٰ کا دیدا بھی نصیب ہوگااور وہ ہم کلامی کے شرف سے بھی بہرہ ور ہوں گے۔علاوہ ازیں وہ دیگر سب امور جن کاقرآن کریم اوررسول اللہﷺکی سنت صحیحہ میں ذکر ہے،ان سب پر ایمان لانا واجب ہے اوران کی اس طرح تصدیق کرنا بھی واجب ہے جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺنے انہیں بیان فرمایا ہے۔

ایمان بالقدر میں چار امور پر ایمان لانا شامل ہے۔

اللہ تعالیٰ ماكان وما يكون"جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو گا"اپنے بندوں کے حالات،ان کے رزق،اجل،عمل اور دیگر تمام امور کو جانتا ہے اور اس سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے۔جیسا کہ اس نے فرمایا ہے:

﴿إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾     (التوبہ۹/۱۱۵)

﴿بےشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے

نیز فرمایا:

﴿لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ وَأَنَّ اللَّـهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا ﴾         (الطلاق۱۲/۶۵)

﴿تاکہ تم لوگ جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے،اور یہ کہ اللہ اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے

(۲)اللہ تعالیٰ نے ہر قضا وقدر کو اپنے پاس باقاعدہ لکھ رکھا ہے۔جیسا کہ اس نے ارشاد فرمایا ہے:

﴿ قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الْأَرْ‌ضُ مِنْهُمْ ۖ وَعِندَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ ﴾ (ق۵۰/۴)

﴿ان کے جسموں کو زمیں جتنا(کھا کھا کر)کم کرتی جاتی ہے ہمیں معلوم ہے اور ہمارے پاس تحریری یادداشت بھی ہے

مزید ارشاد گرامی ہے:

﴿وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ﴾(یس۱۱۲/۱۳۶) 

﴿اور ہر چیز کو ہم نے کتاب روشن(یعنی لوح محفوظ)میں لکھ رکھا ہے۔

اور فرمایا:

﴿ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْ‌ضِ ۗ إِنَّ ذَٰلِكَ فِي كِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرٌ‌ ﴾(الحج۲۲/۷۰) 

   ﴿کیا تم نہیں جانتے کہ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے،اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے۔یہ(سب کچھ)کتاب میں(لکھا ہوا)ہے،بے شک یہ سب اللہ کے لیے آسان ہے۔

(۳)اللہ تعالیٰ کی نافذ ہو کر رہنے والی مشیت پر ایمان رکھا جائے کہ جووہ چاہے وہ ہو کر رہتا ہے،جو نہ چاہے وہ نہیں ہوسکتا۔جیسا کہ اس نے فرمایا ہے:

﴿إِنَّ اللَّـهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ۩ ﴾(الحج۲۲/۱۸) 

﴿ بےشک اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

اور فرمایا:

﴿ إِنَّمَا أَمْرُ‌هُ إِذَا أَرَ‌ادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴾(یس۸۲/۳۶) 

﴿ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرما دیتا ہے کہ ہو جا!تو وہ ہو جاتی ہے۔

ایک اور فرمان:

﴿ وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ رَ‌بُّ الْعَالَمِينَ ﴾(التکویر۲۹/۸۱) 

﴿اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہ جو اللہ رب العالمین چاہے۔

(۴)اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہی تمام موجودات کو پیدا فرمایا ہے۔اس کے سوا نہ کوئی خالق ہے اور نہ رب،جیسا کے اس کا ارشاد ہے:

﴿ اللَّـهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ ﴾(الزمر۳۹/۶۲) 

﴿ اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہر چیز کا نگران ہے۔

نیز فرمایا:

﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُ‌وا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ‌ اللَّـهِ يَرْ‌زُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْ‌ضِ ۚ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ﴾ (فاطر۳۵/۳۶) 

﴿لوگو!اللہ کے تم پر جو احسانات ہیں،ان کو یاد کیا کرو۔کیا اللہ کے سوا کوئی اور ایسا خالق ہے جو تم کو آسمان وزمین سے روزی پہنچائے؟اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں بہکے پھرتے ہو؟

اہل سنت والجماعت کے نزدیک ان چار امور پر ایمان لانا ایمان بالقدر میں شامل ہے،اگرچہ بعض اہل بدعت نے اس کا انکار کیا ہے۔

ایمان باللہ میں یہ عقیدہ رکھنا بھی شامل ہے کہ ایمان قول وعمل کا نام ہے جس میں اطاعت الہٰی سے اضافہ ہوتا ہےاور اللہ کی معصیت ونافرمانی سے کمی واقع ہوتی ہے اور یہ جائز نہیں کے شرک اورکفر کے سوا دیگر گناہوں مثلا زنا،چوری،سودخوری،شراب نوشی اوروالدین کی نافرمانی جیسے کبیرہ گناہوں کی وجہ سے کسی مسلمان کو کافر قرار دیا جائے بشرطیکہ وہ ان گناہوں کو حلال نہ سمجھے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ‌ أَن يُشْرَ‌كَ بِهِ وَيَغْفِرُ‌ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾(النساء۴/۴۸)

﴿یقینا اللہ تعالیٰ یہ(جرم)نہیں مخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک ٹھہرایا اور اس کے سوا جو گناہ وہ جس کو چاہے،معاف کر دے گا۔

اور رسول اللہﷺکی احادیث متواترہ سے یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو جہنم سے نکال لے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا۔

ایمان باللہ ہی میں یہ بھی داخل ہے کہ محبت اللہ ہی کی خاطرہواور بغض بھی اسی کی وجہ سے ہو(یعنی)اللہ ہی کی خاطر دوستی اور اسی کی وجہ سے دشمنی ہو۔مومن کو چاہیے کہ وہ مومنوں سے محبت اور دوستی رکھے اور کافروں سے بغض اور دشمنی رکھے۔اس امت کے مومنوں میں سرفیرست رسول اللہﷺکے صحابہ کرام ہیں،یہی وجہ ہے کہ اہل سنت ان سے محبت اور دوستی رکھتے ہیںاور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاءکرامؑ کے بعدصحابہ کرامؓ تمام لوگوں سے بہتر ہیں کیونکہ نبی کریمﷺنے فرمایا ہے"سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں،پھر وہ جو ان کے ساتھ ملتے ہوں گے اور پھر وہ جو ان کے ساتھ ملتے ہوں گے ۔"(متفق علیہ)

اہل سنت والجماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام میں سب سے افضل حضرت ابو بکر صدیقؓ ہیں،پھر حضرت عمر فاروق،پھر حضرت عثمان ذو النورین اور پھر حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہم اجمعین،ان کے بعد باقی عشرہ مبشرہ اور پھر باقی صحابہ افضل ہیں رضی اللہ عنہم اجمعین۔

اہل سنت،مشاجرات صحابہ کے بارے میں توقف کرتے اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ ان کے بارے میں مجتہد تھے،جن کا اجتہاد درست تھا انہیں دوگنا اجر وثواب ملے گااور جن کا اجتہاد درست نہ تھا انہیں ایک اجر وثواب ملے گا۔اہل سنت،رسول اللہﷺکے ساتھ ایمان لانے والے اہل بیت سے بھی محبت رکھتے ہیں،ان سے دوستی رکھتے ہیں اور ازواج مطہرات،امہات المومنین سے بھی ولاء کا رشتہ رکھتے،ان سب کے لئے یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رضا اور خوشنودی کے پھول برسائے۔

اہل سنت والجماعت ان رافضیوں سے اظہار برأت کرتے ہیں جو رسول اللہﷺکے صحابہ کرامؓ سے بغض رکھتے،انہیں دشنام دیتے اور اہل بیت کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہیں اورانہیں اس سے زیادہ مقام ومرتبہ پر فائز کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا ہے۔اہل سنت کا ان ناصبیوں سے بھی اظہار برأت ہے جو اہل بیت  کو اپنے قول وعمل سے ایذاء پہنچاتے ہیں۔

اس مختصر سے درس میں جو کچھ ہم نے ذکر کیا یہ اس عقیدہ صحیحہ میں داخل ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول حضرت محمد مصطفٰیﷺکو مبعوث فرمایا ہے،یہی اس فرقہ ناجیہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے جس کے بارے میں نبی کریمﷺنے فرمایا:

(( لا تزال طائفة من امتي علي الحق منصورين لا يضرهم من خذلهم حتي ياتي امر الله سبحانه )) (مسند احمد٣/٤٣٦)

 "میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر دائم رہے گا،اسے رسوا کرنے والا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتٰی کہ اللہ سبحانہ کا امر آجائے گا۔"

نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا  کہ"یہودی اکہتر فرقوں میں اور عیسائی بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی،جن میں سے ایک کے سوا سب فرقے جہنم رسید ہوں گے۔"صحابہ کرامؓ نے عرض کیا"یا رسول اللہ!یہ فرقہ کون سا ہو گا؟"فرمایا"جو اس دین پر ہوگا جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔"

یہ ہے وہ عقیدہ جسے اختیار کرنا،جس پر ثابت قدم رہنااوراس کے مخالف عقیدہ سے اجتناب کرنا واجب ہے۔

اس عقیدے سے منحرف ہونےاوراس کے مخالف راستے پر چلنے والوں کی کئی قسمیں ہیں۔ان میں سے کچھ تو وہ لوگ ہیں جو بتوں،پروہتوں،فرشتوں،ولیوں،جنوں،درختوں اور پتھروں وغیرہ کی پوجا کرتے ہیں۔انہوں نےانبیاءکرامؑ کی دعوت کو قبول نہیں بلکہ انبیاءکرام سے مخالفت وعناد کا رویہ رکھا جس طرح قریش اور کئی دیگر عربوں نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہﷺسے رویہ رکھا تھا۔یہ لوگ اپنے معبودان باطلہ سے یہ سوال کرتے کہ وہ ان کی ضرورتوں کو پورا کریں،بیماروں کو شفا دیں،دشمنوں پر فتح عطا کریں،یہ لوگ ان کے نام پر ذبح کرتے اور ان کی نذر نیاز بھی دیتے تھے۔رسول اللہﷺنے جب ان کی ان باتوں کی تردید فرمائی اور حکم دیا کہ اخلاص کے ساتھ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو تو انہوں نے اس بات کو بہت تعجب انگیز سمجھتے ہوئے انکار کر دیا اور کہا:

﴿ أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ﴾(ص۵/۳۸)

‘‘ کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا ہے؟یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔’’

لیکن رسول اللہﷺمسلسل اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہے،شرک سے ڈراتے رہے اور اپنی دعوت کی حقیقت کو بیان فرماتے رہے حتٰی کہ اللہ تعالیٰ نے جن کو چاہا ہدایت سے سرفراز فرما دیا اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ لوگ اللہ کے اس دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگے اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمدﷺ،آپﷺ کے پاکباز صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ کی مسلسل دعوت اور طویل جہاد کی برکت سے اپنے دین کو دیگر تمام ادیان پر غالب کر دیا۔کچھ عرصہ بعد حالات پھر بدل گئے،اکثر لوگوں پر جہالت کا غلبہ ہو گیا حتٰی کہ اکثریت پھر سے دین جاہلیت کی طرف لوت گئی،لوگ انبیاءواولیاءکے بارے میں غلو سے کام لینے لگے،انہیں پکارنے اور ان سے مدد مانگنے لگے اور اس طرح شرک کی کئی قسموں میں مبتلا ہو گئے اور انہیں نے‘‘لاالہٰ الاالله’’کے معنی کو نہ پہچانا جس طرح کفار عرب اس کا معنی پہچانتے تھے۔فالله المستعان

تب سے لے کر اب تک جہالت کے غلبہ اور عہد نبوت سے دوری کے باعث یہ شرک لوگوں میں مسلسل پھیل رہا ہے۔

ان متاخرین کو بھی یہی شبہ لاحق ہوا ہے جو پہلے لوگوں کو لاحق ہوا تھا،یعنی یہ کہ:

﴿هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ﴾ (یونس۱۰/۱۸)

‘‘یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔’’

اور:

﴿مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّ‌بُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ﴾ (الزمر۳۹/۳)

‘‘ہم تو ان کی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں۔’’

لیکن اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کو باطل قرار دیا اور واضح فرمایا ہے کہ جو بھی اس کے سوا کسی اور کی عبادت کرے خواہ وہ کوئی بھی ہو تو وہ شرک اور کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿ وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَضُرُّ‌هُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ﴾(يونس۱۸/۱۰)

‘‘ اور یہ(لوگ)اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو نفع دے سکتی ہیں اور نہ کوئی نقصان پہنچا سکتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔’’

اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:

﴿قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّـهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِ‌كُونَ﴾(يونس۱۸/۱۰)

(اے پیغمبر)! ‘‘آپ کہ دیجئے کیا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جس کا وجود اسے نہ آسمانوں میں معلوم ہوتا ہے اور نہ زمین میں؟وہ پاک اور برتر ہے ان کے شرک کرنے سے۔’’

اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ عاضح فرمایا ہے کہ اس کے سوا انبیاء واولیاء اور دیگر لوگوں کی عبادت شرک اکبر ہے،خواہ اس شرک کا ارتکاب کرنے والے اس کا کوئی نام رکھ لیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّ‌بُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ﴾ (الزمر۳۹/۳)

‘‘اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست(کارساز)بنا رکھے ہیں(وہ کہتے ہیں کہ)ہم ان کی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں۔’’

ان کی تردید کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

﴿إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ‌﴾ (الزمر۳۹/۳)

‘‘جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے درمیان ان کا فیصلہ کر دے گا۔بے شک اللہ اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے،ہدایت نہیں دیتا۔’’

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ ان کا اس کے سوا کسی غیر کی عبادت کرنا،اس کو پکارنا،اس سے خوف کھانا،اس سے امید رکھنا اس کی ذات گرامی کے ساتھ کفر ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بات کی بھی تکذیب کی ہے کہ ان کے یہ معبود ان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیتے ہیں۔

عقیدہ صحیحہ کے مخالف کفریہ عقائد اور انبیاءکرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے پیش کردہ عقائد کے خلاف یہ عقائد بھی ہیں جنہیں عصر حاضر کے ملحدین،مارکس اور لینن کے ماننے والوں نے اختیار کر رکھا ہےخواہ وہ ان کا نام سوشلزم رکھیں یا کمیونزم یا انہیں اشراکیت وغیرہ سے موسوم کریں۔ان ملحدین کا اصول یہ ہے کہ اس دنیا کا کوئی معبود نہیں اور زندگی مادہ کا نام ہے۔یہ لوگ آخرت،جنت،جہنم اور تمام ادیان کا انکار کرتے ہیں،جو بھی ان کی کتابوں کا مطالعہ کرے اور ان کے افکار ونظریات کا جائزہ لے اسے یقینی طور پر یہ باتیں معلوم ہو جائیں گی۔بلاشبہ ان کے یہ عقائد تمان آسمانی ادیان کے خلاف ہیں اور ایسے عقائد رکھنے والوں کو دنیا وآخرت میں بدترین انجام سے دوچار کرنے والے ہیں۔

اسی طرح ان بعض باطنیہ اور بعض صوفیہ کے عقائد بھی حق کے خلاف ہیں جو کچھ اپنے اولیاء کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ تدبیر میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک اور کائنات کا نظام چلانے میں اس کے ساتھ تصرف واختیار کے مالک ہیں۔یہ لوگ اپنے ان اولیاء کو اقطاب،اوتاد اور اغواث جیسے ناموں سے موسوم کرتے ہیں۔یہ شرک فی الربوبیت کی بدترین قسم ہے بلکہ یہ زمانۂ جاہلیت کے شرک سے بھی بدترین ہے کیونکہ عرب شرک فی الربوبیت کے مرتکب نہ تھے بلکہ وہ تو شرک فی العبادت کرتے تھے اور وہ بھی صرف خوشحالی کی صورت میں اور جب کسی مصیبت میں پھنستے تو خالص اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرتے تھے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:

﴿ فَإِذَا رَ‌كِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ‌ إِذَا هُمْ يُشْرِ‌كُونَ﴾ (العنکبوت۲۹/۶۵)

‘‘پھر جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے(اور)خالص اسی کی عبادت کرتے ہیں لیکن جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔ ’’

زمانۂ جاہلیت کے لوگ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے معترف تھے جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے:

﴿ وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ﴾ (الزخرف۴۳/۸۷)

‘‘ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے ؟تویقینا یہ جواب دیں گے کہ اللہ نے!’’ نیز فرمایا:

﴿ قُلْ مَن يَرْ‌زُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْ‌ضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ‌ وَمَن يُخْرِ‌جُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِ‌جُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّـهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴾ (یونس ۱۰/۳۱)

﴿(اے پیغمبر)!(ان سے) پوچھئے کہ تمھیں آسمان اورزمین سے روزی کون پہنچاتا ہے یا (تمھارے)کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ،بے جان سے جاندار اورجاندار سے بے جان کون پیدا کرتا ہے اوردنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے؟فورا کہہ دیں گے کہ اللہ !تو کہے کہ پھر تم (اللہ سے )ڈرتے کیوں نہیں ؟

اس مفہوم کی اوربھی بہت سی آیات ہیں۔اس آخری دور کے مشرکوں نے پہلے لوگوں کی نسبت دو اعتبار سے شرک میں اضافہ کیا ہے(۱)انہوں نے ربوبیت میں بھی شرک کیا اور(۲)فراخی وتنگدستی دونوں حالتوں میں شرک کیا جیسا کہ ان کے حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے اور جو کچھ یہ مصر میں حسین اور بدوی وغیرہ کی قبر،عدن میں عید روس کی قبر،یمن میں ہاوی کی قبر،شام میں ابن عربی کی قبر،عراق میں شیخ عبدالقادر جیلانی کی قبر اور دیگر مشہور قبروں کے پاس جو کچھ یہ کرتے ہیں ان کے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان قبروں کے بارے میں یہ لوگ بہت ہی غلو سے کام لیتے اور اللہ تعالیٰ کے بہت سے حقوق میں انہیں تصرف واختیار کا مالک سمجھتے ہیں۔

افسوس کم ہی ایسے لوگ ہیں جو ان کے شرک کی تردید کریں اور ان کے سامنے اس توحید کی حقیقت بیان کریں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمدﷺاور آپﷺسے پہلے کے تمام انبیاءکرام علہیم الصلاۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا۔

﴿إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَ‌اجِعُونَ﴾ (البقرۃ۲/۱۰۶)

ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو رشد وہدایت عطا فرمائے،ان میں بکثرت داعین ہدایت پیدا فرمائے اور مسلمانوں کے قائدین اور علماء کو اس شرک کے خلاف جنگ کر کے اسے نیست ونابود کر دینے کے اسباب ووسائل عطا فرمائے۔اله سميع قريب!

اسماء وصفات کے بارے میں صحیح عقیدہ کے خلاف اہل بدعت،جہمیہ،معتزلہ اور نفی صفات میں ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کا عقیدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو صفات کمال سے معطل قرار دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو معدومات،جمادات اور مستحیلات کی صفات کے ساتھ موصوف قرار دیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی اس سے بہت ہی بلند وبالا اور ارفع واعلیٰ ہے۔ 

اشاعرہ نے اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کی نفی کی اور بعض کو تسلیم کیا حالانکہ ان کے لئے یہ لازم ہے کہ جن صفات کی انہوں نے نفی کی ہے ان کو بھی اسی طرح مانیں جس طرح دیگر صفات کو مانتے ہیں،لیکن انہوں نے سمعی اور عقلی دلائل کی مخالفت کی اور واضح اور بین تناقض کا شکار ہو گئے۔

ان گمراہ فرقوں کے برعکس اہل سنت والجماعت اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو تسلیم کرتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے ثابت کیا ہے یا جن اسماء وصفات کمال کو اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺنے اس کے لئے ثابت کیا ہے۔اہل سنت،اللہ تعالیٰ کو اس کی مخلوق کے ساتھ مشابہت سے اس طرح پاک قرار دیتے ہیں کہ اس میں تعطیل کا شائبہ نہ ہو۔یہ کتاب وسنت کے دلائل کو اسی طرح مانتے ہیں جس طرح یہ ہیں،یعنی نہ ان میں تحریف کرتے ہیں اور نہ تعطیل،اس لئے یہ اس تناقض سے محفوظ ہیں جس میں دوسرے گمراہ فرقے مبتلا ہیں،جیسا کہ تفصیل کے ساتھ پہلے بیان کیا جا چکا ہے اور یہی راہ نجات،دنیا وآخرت کی سعادت اور صراط مستقیم ہے جس پر اس امت کے سلف اور ائمہ کرام گامزن رہے۔

امت کے اس آخری دور کی اصلاح بھی صرف اسی چیز سے ہوگی جس سے اس امت کے پہلے دور کی اصلاح ہوئی اور یہ کہ کتاب وسنت کی پیروی کی جائے اور جو چیز ان کے مخالف ہو اسے ترک کر دیا جائے۔

والله ولي التوفيق‘وهو سبحانه حسبنا ونعم الوكيل‘ولا حول ولا قوة الا به‘وصلي الله وسلم علي عبده ورسوله نبينا محمد واآله وصحبه

 

فتاوی مکیہ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ