سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(25) کیا آخر شب والی وتر چھوڑ دیں یا اول شب والی؟

  • 7356
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 966

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آخری عشرہ (حرم شریف کے اندر)وتر دوبار پڑھی جاتی ہے اور میری خواہش ہوتی ہے کہ امام  کےساتھ پوری نماز پڑھنے کی فضیلت حاصل ہو۔ پھر ایسی صورت میں ہم کیا کریں؟ کیا آخر شب والی وتر چھوڑ دیں یا اول شب والی؟ نیز کوئی ایسی دلیل ہے جس سے نقض وتر (یعنی وتر کو توڑ کر شفیع بنانے ) کا ثبوت ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نقض وتر کا جو طریقہ علماء کے نزدیک معروف ہے وہ صحیح نہیں ہے جس کی صورت یہ ہے کہ اگر کوئی شروع رات میں وتر پڑھ چکا ہے پھر آخر شب میں اٹھ کر اور نماز پڑھنا چاہتا ہے تو وہ دو دو رکعات پڑھنے سے پہلے (ایک رکعت) وتر پڑھ کر اسے شفع (دو رکعت) بنا لے۔ یہ کام اگرچہ بعض سلف نے کیا ہے لیکن سنت سے اس کی کوئی دلیل نہیں۔ نیز پہلی رکعت (جو اول شب میں وتر کی غرض سے پڑھ چکا ہے اس) پر دوسری رکعت کی بناء صحیح نہیں (جسے اب آخری شب میں شفع کی غرض سے پڑھ رہا ہے) کیونکہ پہلی اور دوسری رکعت کے درمیان فاصلہ کافی ہو چکا ہے۔

اس لیے جو شخص اول شب اور آخر شب دونوں وقت قیام کے ختم ہونے تک امام کی متابعت کرنا چاہتا ہے اس سے ہم کہتے ہیں کہ جب پہلا امام جو اول شب میں وتر پڑھاتا ہے اس کے ساتھ وتر پڑھئے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت اور پڑھ کر اسے شفع بنا لیجئے۔ یعنی امام کے ساتھ نماز میں اس نیت سے داخل ہوں کہ آپ دو رکعت پڑھ رہے ہیں پھر جب امام سلام پھیردے تو کھڑے ہو کر ایک رکعت اور پڑھ کر اسے شفع بنا لیں تا کہ امام کی ساتھ آپ کی وہی وتر شمار ہو، جو آخری شب میں پڑھ رہے ہیں۔

 

فتاوی مکیہ

صفحہ 21

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ