سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(689) منکرین حدیث کی مساعی

  • 7325
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1536

سوال

   السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

منکرین حدیث کی مساعی


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

منکرین حدیث کی مساعی

(قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَىٰ سَبِيلًا﴿٨٤ سورة الإسراء منکرین قرآن پر تو ان لوگوں کی طرف سے حملے اور دن رات مو شگا فیاں ہو تی ہیں جو اسلام سے باہر ہیں مگر حدیث شریف کو یہ مزیت حاصل ہے کہ اس کے منکر وہ لوگ ہیں جو اسلام کے دائرے میں ہیں گو یا حدیث بزبان سعدی کہتی ہے

ہر کس ازد ست غیر نالہ کند      سعدی از دست خو یشین فریاد

ہندوستان میں جب سے سر سید احمد خاں مر حو م نے انکار حدیث کی آواز اٹھائی ہے اس وقت سے اس آواز نے مختلف صورتیں اختیار کی ہیں لاہور میں چکڑالوی اسی کی شا خ ہے گجرات پنجاب وغیر ہ میں حنیف اسی کی فرع ہے امرت سر میں امت مسملہ اسی کی صورت حنیفہ ہے پا نچ نمازوں والے تین نمازوں والے دونمازوں دو رکعتوں والے ایک والے دو سجدوں والے ایک والے وغیرہ سب اسی کلی مشکک کے افراد ہیں اس مختصر سی تہمید کے بعد آج ہمارا روئے سخن ایک فا ضل کے مضمون کی طرف ہے مو لا نا حا فظ اسلم جیراج پوری حال مقیم دہلی قرول باخ نے ایک مضمون رسالہ جا معہ میں لکھا ہے جس کی سرخی ہے منکرین حدیث یہ رسا لہ ہم کو نہیں پہنچا اتفاق حسنہ سے امرت سر ی اہل قرآن پا ر ٹی کا رسالہ بلاغ میں وہی مضمون نقل ہوا جس پر ایڈیٹر بلاغ نے بڑی خوشی ظا ہر کی واقعی بات بھی یہ ہے کہ جب کسی کو مفید مطلب کوئی چیز مل جا ئے تو خو شی ہو تی ہے۔ اس مضمون میں حا فظ صاحب نے منکرین حدیث کی طرف سے جی کھو ل کر انکار حدیث پر دلائل دیئے ہیں جن سے ہمارے کا ن آشنا ہیں کیو نکہ ہم ابھی ابھی شرعۃ الحق کے جواب سے فا رغ ہو ئے ہیں جو خاص اس مضمون انکار حدیث میں مستقل بسیط کتاب ہے لیکن حافظ صاحب مو صوف کا اس مضمون کو بلا جواب شائع کرنا اہل قرآن کو یہ کہنے کا مو قع ہے۔

کہ ہمدرد ہاتھ آیا ایک مفلسی میں

اس میں شک نہیں فا ضل راقم نے اس مضمون کو بڑی قا بلیت سے نبا رہا ہے                تا ہم اس میں بھی شک نہیں کہ بقي خبايا في الزوايا

 مضمون کے شروع میں ہی راقم مضمو ن نے ایک بات ایسی لکھی ہے جو در حقیقت عدالتی طریق پر امر تنقیح طلب ہے جس کے فیصلے پر فیصلہ ہے پس نا ظرین پہلے سنیں آپ نے لکھا ہے۔

 جب سے حد یثوں کی تدوین شروع ہو ئی اسی وقت سے اہل علم کی ایک جماعت ایسی ہو تی چلی آئی جو اس کی دینی حثیت کی منکر رہی یعنی ان کے انکار کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدیث کے با وجو یا اس کی حقیقت ہی کو ما نتے یا اس کو با لکل جھو ٹ جا نتے ہیں بلکہ صرف یہ کہ اس کو دینی محبت تسلیم نہیں کرتے دین خا لص ان کے نزدیک سوائے قرآن کریم کے اور کچھ نہیں حدیث کو صرف دینی تا ریخ قرار دیتے ہیں جس سے عہد رسالت اور زمانہ صحا بہ میں قرآن پر عمل کر نے کی کیفیت معلو م ہو تی ہے اور بس۔

اہلحدث

اس کی عباد ت کا مطلب قانونی الفاظ میں یہ کہتےہے کیا زمانہ صحابہ میں حدیث کی حثیت محض تاریخی تھی یا دینی ہمارا دعوی ہےکہ زما نہ صحا بہ سے آج تک ہر زمانہ میں حدیث کو دینی حثیت حا صل رہی ہے اس دعوے کے ثبوت پر ہمدست دو واقعات پیش کر تے ہیں۔ 1 مسئلہ خلافت پر انصار اور مہاجرین کا جھگڑا ہوا مسئلہ خلافت با لکل ایک مذہبی مسئلہ ہے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث الائمة من قريش-پیش کی تو ساری نز اع ختم ہو گئی۔

نوٹ کیا انتخا ب خلیفہ کے وقت یہ حدیث کسی تا ریخی واقعہ کے لئے پیش ہو ئیہ تھی انصاف 2 تقرر خلافت حضرت خا تو ن جنت رضی اللہ عنہ نے دعوے وراثت ازدالد بر بنا ء تعلیم قرآن کیا کون نہیں جا نتا مسئلہ ورا ثت شرعی مسئلہ ہے اس کے جواب میں حضرت ابو بکر رضی اللہ نے حدیث لا نورث ماتركنا صدقة بتا کر دعوے کا فیصلہ کر دیا۔

یہ دوشہادتیں بتا رہی ہیں صحابہ کرام حدیث کو دینی سند جا ن کر دینی مسا ئل اس سے طے کیا کر تے تھے حا فظ صاحب نے قائلین حد یث کی چند دلیلیں لکھ کر منکرین کی طرف سے ان پر اعتراضات کیے ہیں اس کے بعد لکھا ہے۔ قائلین حدیث کو ان کا جواب یا حدیث کی دینی حثیت کا ثبوت قرآن ہی سے دینا چا ہیئے کیونکہ وہی فر یقین میں مسلم ہے۔ (بلاغ با بت نو مبر 31ء؁ص11)

پہلا مطالبہ اور یہ مطا لبہ الگ الگ ہے پہلے میں صحا بہ کرا م کا حدیث کو دینی حثیت دینے سے سوال تھا یعنی صحابہ کرا م حدیث شر یف کو کسی حثیت سے دیکھتے تھے اس لئے اس کا ثبو ت حدیث ہی سے ہو سکتا ہے چنا نچہ ہم نے دیا دو سرا مطا لبہ اس مطلب کا ہے کہ قرآن حدیث کو کیا حثیت دی ہے بحو لہ وقوتہ اس مطالبہ کو بھی پو را کر تے ہیں اربا ب انصا ف غو ر سے سنیں۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے(وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ ﴿٣٦ سورة الأحزاب ’’جا ئز نہیں ہے کہ جب اللہ اور سول اللہ ﷺ کسی کا م کا حکم دیں تو اس کے کر نے یا نہ کر نے میں کسی مئومن مرد یا عورت کا اختیار نہیں ہے بلکہ واجب العمل ہے‘‘ اس آیت میں مختصی کے فاعل دو ہیں اللہ اور رسول اللہ ﷺ جمع ہے یا یعنی معبنی جمع ہو لازم آئے گا جو حکم اللہ اور رسول اللہ ﷺ مل کر جا ری کر یں وہ واجب الاتبا ع ہو اور جو فقط خدا فقط رسول حکم دین تو وہ واجب الاتباع نہ ہو وھوی کما تری پس معلو م ہو اکہ دائو معبنی ہے کہ معنی یہ ہے کہ جس امر کی با بت اللہ قرآن میں حکم دے یا رسول بغیر بزبا ن خود حکم فر ما ئے اس کے ما ننے سے انکار کر نا کسی مو من کا کام نہیں ہے۔

نا ظرین یہ ہے حدیث کی حثیت جو قرآن مجید نے مسلمانوں کو بتا ئی ہے کیو نکہ قضا الہی تو یقینا قرآن مجید ہے قضا رسا لت پنا ہی سے مراد وہ حکم ہے جو رسول اللہ ﷺ بحیثیت دین ہم کو فر ما ئیں اور قرآن مجید میں نہ ہو ہم نے ثبوت کا ذمہ لے لیا تھا بغرض تکمیل نصاب شہادت دوسری بھی معروض ہے قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ ( فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴿٦٣ سورة النور...’’ یعنی جو لوگ نبی کے حکم کی مخالفت کر تے ہیں ان کو خو ف کر نا چا ہیے کہ انہیں کو ئی فتنہ پہنچے یا ان کو درد نا ک عذاب پہنچ جا ئے۔‘‘ ان آیات کا شروع یوں ہے (لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ)اس لئے سیاق عبار ت سے ثا بت ہے کہ – لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ میں ضمیر آنحضرت ﷺ کی طرف ہے قرآن مجید امر ہے تو امر رسول اللہ حد یث شریف ہے ان دو نوں شہا دتوں کو اگر اہل قرآن خواہ مخواہ کی تا ویلا ت کیکہ کے شکنجے میں لا کر قرآن مجید کو چیتاں نہ بنا ئیں۔

 تو فرمان نبوی قرآن مجید سے الگ واجب العمل ثا بت ہو تا ہے فااللہ الحمد۔ حا فظ صاحب مو سوف فرماتے ہیں ساری بحث تو یہ ہے کہ رسول کا پیغا م امت کے لئے قرآن ہے یا حدیث رسول پر قرآن نا زل کیا گیا اسی کی تلا وت اسی کی تبا ع ا ور اسی کی تبلیغ تعلیم کا حکم دیا گیا رسول نے اس ی کو سنایا اسی کو لکھوایا اسی کو یا د کروا اور اسی پر عمل کیا اس کے اتا ر نے والے نے اس کی حفا ظت کا ذمہ لے لیا کیا حدیثوں کے لئے ان میں سے کو ئی ایک با ت بھی ثا بت کر سکتے ہو حدیثوں کی کیفیت تو یہ ہے کہ جس نے جو دیکھا سنا اس کو بیان کر نا شروع کر دیا یہی با تیں سلسلہ بہ سلسلہ امت میں پھیلیں ایک زمانہ کے بعد تم نے اصول مقرر کر کے ان میں سے کسی کو قا بل تسلیم قرار دیا اور کسی کو مسترد قرار دیا کیا جن حدیثوں کو تم نے تسلیم کیا ہے۔ ان کے اوپر کوئی آسمانی مہر سے یا خود رسول اللہ کے سا منے پیش کر کے ان کی تصدیق کر ائی گئی ہے پھر کس طرح ان کو جزوا یمان یا واجب التسلیم کہنے کا حق رکھتے ہو درآنحالیکہ وہ اصول بھی جن کے اوپر حدیث کی صحت کا داروامدار تم نے رکھا ہے یقینی صحت کی ضمانت سے قا صر ہیں رسول اللہ ﷺ نے صرف قرآن پر ہی عمل کیا ہے اور بحیثیت رسالت وہی امت کے لئے ان کا پیغا م ہے (بلاغ ص ١٢)

اہلحدیث

اگر چہ ہمارے نمبر اول کے بعد اس کے جواب کی ضرورت نہیں کیوں کہ اس نمبر میں ہم نے ثا بت کر دیا ہے کہ صحا بہ کرام حدیث شریف کو دینی حثیت دیتے تھے تا ہم اس نمبر کا جواب بھی دیتے ہیں حا فظ صا حب دیگر منکرین حدیث اس پر بہت زور دیتے ہیں کہ حدیث وحی ہو تی ہے تو قرآن کی طرح اس زمانے میں لکھی جا تی ہے حالانکہ حقیقیت یہ ہے کہ وحی کے لئے لکھا جا نے کی ضرورت وہ کسی آیت قرآنیہ سے ثا بت نہیں کر سکتے وحی کی حقیقت تو صرف یہ ہےکہ خدا کی طرف سے اطلاع ہو کتا بت اس کے مفہوم میں دا خل نہیں بلکہ عارض منفک ہے نہ داخل ما ہیت ہے نہ لا زم ما ہیت۔ خیر یہ تو منا ظرانہ اصطلاح میں ایک قسم کا منع ہے معا وضہ بھی سنئے قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ ( أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَىٰ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ ﴿٨ سورة المجادلة ’’کیا تم نے ان لو گوں کو نہیں دیکھا جن کو کا نا پھوسی سے منع کیا گیا ہے وہ پھر وہی ممنوع کام کر تے ہیں۔‘‘ اس آیت میں نهوا ما ضی مجہول ہے جس کے لئے لا زمی ہے کہ اس سے پہلے نجويٰ سے ممانعت آئی ہو واقعہ یہ ہے کہ اس سے پہلے سارے قرآن مجید میں کسی نجويٰ سے نہی نہیں ملتی حا لا نکہ اس حکا یت کا محکی عنہ ہو نا چا ہیئے اہل قرآن جتنے ہمارے مخا طب ہو ئے ہیں ان کے کا ن تو اس علمی سوال سے آشنا نہ تھے جو وہ جا نتے کہ حکا یت کیا اور محکی عنہ کیا مگر حا فظ صا حب جیرا ج پو ری تو یقینا اس سوال کی حقیقت سے انکا ر نہیں کر سکتے پس وہی ہم کو بتلا دیں کہ اس حکا یت نھواکا محکی عنہ قرآن مکید میں کہاں ہے بنا تے ہو ئے کہیں جلد ی میں –لاخير في كثير من نجواهم نہ پیش کردیں ہمارا دوستانہ مشورہ ہے کہ ایسا سا دہ جواب دوسرے اہل قرآن کے لئے چھوڑ دیں کیو نکہ یہ جملہ خبر اہل علم کے نز دیک -نهواکا محکی عنہ نہیں بن سکتا فا فہم۔

 ثا بت ہو ا کہ یہی نہی جس پر عمل نہ کر نے سےان لو گوں پر خفگی کا اظہار کیا گیا ہے زبا ن رسا لت سے تھی جس کا نام حدیث ہے حا لا نکہ وہ مکتوب نہ تھی۔

دوسری دلیل

قرآن مجید میں ذکر ہے کہ نبی ﷺ نے ایک چیز کو ترک کر دیا تھا اور ایک بیوی کو بتا کر اظہار سے منع فرما دیا تھا اس نے اظہار کر دیا نبینے اس کا اظہار کر نا اس کو بتا یا تو وہ بولی آپ کو یہ واقعہ کس نے بتایا نبی علیہ السلام نے کہا نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ ’’مجھے خدا ئے علیم و خبیر نے بتا دیا‘‘ حا لا نکہ وہ بتا یا ہوا قرآن مجید میں نہیں ہے اور نہ مکتوب ہے تو کیا ہم اس پر یقین نہ کر یں کہ خدا کبھی کبھی سوائے قرآن مجید کے اور طرح سے بھی کو ئی با ت نبی کو بتا دیا کر تا تھا جو نی قرآن میں ہوتی تھی نہ وہ مکتوب ہو تی نہ آج تک مکتوب ہو کر اہل قرآن کے ہا تھوں میں آئی۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 780

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ