سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(685) ایک استفتا اور اس کا دیو بندی جواب اور اس کی تنقید

  • 7321
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 857

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک استفتا اور اس کا دیو بندی جواب اور اس کی تنقید


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک استفتا اور اس کا دیو بندی جواب اور اس کی تنقید

علمائے دین اور مفتیان شر ع متین اس مسئلہ میں اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کا کیا حکم ہے کہ ایک شخص مسمی زید کہتا ہے کہ مقتدی ہو کر سینہ پر ہا تھ با ند ہنا اور مقتدی ہو کر رفع الیدین کر نا اور مقتدی ہو کر آمین با لہجر کہنا آنحضرتﷺ کے قو ل وفعل سے ہر گز ثا بت نہیں ایک دو وقت مقتدی ہو نے کے با وجود بھی آپ نے ان مذ کو رہ کسی ایک کو بھی نہیں کیا بکر کہتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے بندوں کے لئے آپ کو اچھا نمو نہ بنا کے نقش قدم چلنے یعنی آپ کی پو ری اتبا ع کر نے کی ہمیں تا کید اکید بفجوائے آیت کر یمہ –لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ کی ہے علا وہ بر یں حدیث صحیح سے بھی یہ با ت چا بت ہو تی ہے کہ آ پ نے فر ما یا حد یث شر یف صلو اكما رايتموني اصلي تم نماز پڑھو جس طرح کہ مجھ کو نما ز پڑھتا ہو ا دیکھتے ہو یعنی تم میری نما ز جیسی نماز پڑھا کر و پس ہر ایک امام اور مقتدی کو آپ کا یہ حکم شا مل ہے اور عا م نا م ہے اس سے کو ئی مستثنی ہو ہی نہیں سکتا میں آپ سے عر ض کر تا ہوں کہ ان دو شخصوں یعنی زید بکر میں سے کس کا کہنا شرع شریف کے مطا بق ہے نصوص شر عیہ کے سا تھ ار قا م فر ما دیں بینوا تو جر وا۔

(العاجز عبدالرزاق عفی عنہ مدرس پنشن خوار محلہ سید واڑی قصبہ چن پٹن ضلع بنگلور ملک میسور)

الجواب۔ زید ٹھیک کہتا ہے کہ بحا لت اور اقتدا سرور کا ئنا ت ﷺسے ان امو ر مذکو ر ہ کا صددر کہیں ثا بت نہیں ہے –من ادعي فعليه البيان اور حضور کا عدم رفع یدین لجہر با لا ئین حدیث سے ثا بت ہے دیکھو ترندی شر یف ان فعا ل کا نہ کر نا بھی اسوہ حسنہ صلو اكما رايتموني اصلي میں داخل ہے اور تا ریخ فعل اور عدم فعل کی کسی کو معلوم نہیں تا کہ ایک دوسرے کو نا سخ منسو خ کہا جا وے اب البتہ تر جیحا ت ہیں لہذا مناقشہ فضو ل ہے۔ ( ریا ض الدین مفتی دارالعلوم دیو بند )

اہلحدیث

کسی فعل کے سنت یا مستحب ہو نے کے لئے یہ کا فی ہے کہ پغبیر خدا ﷺ نے وہ کا م کیا اس پر یہ سوال کہ حا لت امامت میں کیا یا حا لت اقتدا میں بے جا حجت ہے اس سوال کی صحت نہ قر آن و حد یث سے ہو تی ہے اور نہ کتب اصول سے کیو نکہ علماء اصول نے کہیں یہ شر ط نہیں لگا ئی کہ فعل نبوی اقتدا میں ہو یا امامت میں پس جو فعل ثا بت ہے وہ ہر حا ل میؐں قابل اتباع ہے عدم رفع اور عدم جہر کی روایات صحیح نہیں در صورت صحت بطریق علم اصول مسئلہ با لکل صاف ہے کیو نکہ مسنو ن کی امر تعر یف یہ ہے کہ اس کو رسول اللہ ﷺ نے کبھی ترک بھی فر مایا ہو پس ترک نبوی ما ہیت سنت میں داخل ہے لیکن متبع سنت کے لئے اس فعل کا تر ک کر نا اتبا ع سنت نہیں بلکہ نقص ثوا ب ہے مثلا ہر نما ز کے لئے و ضو ما مو ر یہ ہے لیکن وجو ہو نے کی حا لت میں ترک وضو سے نما ز پڑھنی جا ئز ہے مگر وضو کر نے کا ثوا ب نہیں ٹھیک اسی طرح ترک رفع ترک ثوا ب ہے فعل سنت نہیں فا فہم۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 767

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ