سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(677) شیعی فتاویٰ

  • 7313
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1170

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شیعی فتاویٰ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیعی فتاویٰ

لاہور کے شیعہ علماء میں ایک صاحب مولوی حائری صاحب ہیں جن کے فتاوی اخبار ذوالفقار میں چھپا کرتے تھے اس کے بعد ہو نے کے بعد اب دہلی کے اثنا عشری میں نکلتے ہیں آپ کے فتاوی کیا ہو تے ہیں عموما عقایدہ اہل سنت کی تردید اور تغلیط چنا نچہ شیعہ مفتی صاحب سے سوال ہو تا ہے۔

سوال۔ اہل سنت کے ہاں یہ روایت فضا ئل میں بیا ن کی گئی ہے جنا ب پیغمبرﷺ نے ارشاد فر ما یا الحق ينطق علي لسان عمر رضي الله تعالي عنه ’’یعنی حق کلام کر تا ہے عمر کی زبا ن سے‘‘ اس روایت کی آپ کے متعلق حضور کی کیا رائے ہے 1/ فرورییہ روایت چو نکہ مز ہب شیعہ کے مخالف تھی اس لئے مفتی صاحب نے اس کی تر د ید کرنی ضروری سمجھی چا ہئے تھا کہ اس کی تنقید بطریق محدثین کرتے ہیں وہ تو کی نہیں زاید مشکل ہو یا کا میا بی کی امید نہ ہو اس لئے آپ ایک طرح سے اس روا یت کی تر د ید کرتے ہیں جو خا ص آپ ہی کا حصہ ہے فرما تے ہیں۔

الجوب۔ اگر اسی روایت کو صحیح ما ن لیا جائے تو لا زم آئے گا کہ خلافت مآ ب عمر کا یہ کہنا کہ ماشكلت في نبوتك كشك يومي هذا بخاری١ یعنی جیسا آج میں نے یا محمدﷺ آپ کی نبوت میں شک کیا ہے اس سے پیشتر کبھی ایسا شک نہیں کیا۔ یہی کلام حق ہو دراصل اس کا کلام ما خذ

کیا تھا اس کو محدثین نے حسب ذیل لکھا ہے کہ بروز حد یبیہ جنا ب ختمی رسا لت فدا ہ وحی نے جب اہل مکہ سے صلح کر نی چا ہی تو خلا فت مآب عمر بہت خفا ہو کر رسا لت مابﷺ سے کہنے لگے یہی وہ وعدہ ہے جو آپ نے دخول مکہ کے متعلق ہم سے کیا ہے اور اس روز اس آیت کو پڑھ کر سنا تے رہے جو رسول خدا ﷺنے کہا تھا جبریل وحی لے کر آئے

لَّقَدْ صَدَقَ اللَّـهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّـهُ ﴿٢٧سورة الفتح

جناب رسا لت مآب ﷺ نے جب عمر کا اس قدر جرات سے اعتراض کر نا ملا حظہ فرمایا تو ارشاد کیا میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اس سال ہم مکہ معظمہ میں دا خل ہو جا یئں گے پھر جب آیندہ سال مکہ فتح ہوا تو جنا ب رسول اللہﷺ دروزہ سقا یت حاج پر کھڑے ہو گئے اور فرما یا عمر خطا ب کہاں ہے ان کو بلا یا گیاپس حضورﷺ نے ارشاد فر مایا یا ابن الخطا ب بتائو اب ہم مسجد الحرام میں دا خل ہوئے یا نہیں اس وقت خلا فت ما ب عمر نے جب غیظو غضب کے آثار چہرہ مبا رک پغمیر ﷺ پر مشا ہدہ کیے تو کہا ’’امنت بالله ربا وبالاسلام دينا وبالقرآن كتابا وبمحم دنبيا‘‘ پس اگر روایت مذکو ر الحق ينطق علي لسان عمر رضي الله تعالي عنه صحیح ہو تی تو خلا فت مآب عمر جنا ب پغمبرﷺکے حق میں کبھی یہ خلاف حق کلمہ زبا ن سے نہ نکالتے۔ کہ جیسا میں نے آج تیری نبوت میں شک کیا ہے اس سے پیشتر کبھی نہیں کیا اس کے خلا ف حق ہو نے پر ان کا پشیمان ہو نا اور آمنت با اللہ کہنا ہی دلیل ہے کہ مذکو رہ روایت مو ضو ع ہے ورنہ پھر یہ اظہار شک فی ا لقبوۃ کر نا زبا ن عمر بھی فطق با لحق تھا یا نہیں بصورت اول خلیفہ صاحب کا اس نطق با لحق پر پشیمان ہ نا بقول امنت باللہ ربا الخ غلط ہو تا ہے اور بصورت ثا نیہ الحق نیطق الخ یہ مو ضو ع ہے اور قا بل تسلیم نہیں ہے 1فروری

اہلحدیث۔

حدیث کے مذکو ر الفاظ یہ ہیں۔

قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ان الله جعل الحق علي لسان عمر وقلبه (رواه ترمذي) وفي رواية ابو دائود ان الله وضع الحق علي لسان عمر بقول به

’’ترند ی اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فر ما یا اللہ تعالی نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کیا ہے اور حق بو لتا ہے۔‘‘  اس حدیث کی تر دید کے لئے حا ئری صاحب نے حد یبیہ کا واقعہ پیش کیا جو بجائے تردید کے تا ئید کر تا ہے کیونکہ اس کا سا را قصہ یوں ہے کہ فتح مکہ سے قبل آنحضرتﷺ کو خوابمیں معلوم کرایا گیا کہ ہم کعبہ شریف میں داخل ہو کر طواف کر تے ہیں آپنے شوق میں تیاری کر کے کو چ کر دیا مکہ کے قریب پہنچے تو مکہ والوں نے روک دیا آ خر مقام حد یبیہ پر عہد نا مہ ہوا کہ آیندہ نو سال تک مسلمانوں اور قریش مکہ میں مصالحت ٹھہری ہے مگر شرط بڑی کڑی تھی کہ جو مشرک مسلمانوں میں جائے اس کو مسلمان واپس کریں اور جو مسلمان مشر کوں کے پاس واپس آئے اس کو مشرک واپس نہ کریں یہ شرط ایسی کڑی تھی کہ آج بھی اگر کسی مو قع پر کی جا ئے تو مسلما ن با ختیار خود تسلیم نہ کر یں اسی وقت ایسا واقعہ پیش آیا جو زیادہ جوش مو جب کا ہوا ابو جندل صحابی جس کو مشرکوں نے اسلام کی وجہ سے زنجیروں میں بند کر رکھا تھا بدقت دوشواری چھپتا چھپا تا اسلامی کیمپ میں آ پہنچا جسے دیکھ کر مسلمانوں میں جو ش پیدا ہو کہ ہیں ہمارے ایک مسلما ن بھائی کو یہ تکلیف ہے ہم اسے واپس کر دیں مگر یہاں معا ملہ دگر گوں تھا دربار رسا لت سے فیصلہ ہو ا کہ ہم وعدہ کی پا بندی میں اس قیدی کو نہیں رکھ سکتے اس مو قعہ پر کو ن مسلما ن ہے جس کی آنکھوں سے خون کے آنسو جا ری نہ ہوں اور دل میں ایک دفعہ بھی جو ش نہ آئے مگر بپاس ادب سب خا مو ش ہیں لیکن سب سے بڑا غیرت مند اور اسلام اہل اسلام پر اظہار جوش کر نے والا عمر فاروق نہ رہ سکا دربا ر رسا لت میں آکر ان لفظوں میں عرض کرتا ہے۔

يا رسول الله صلي لله عليه وسلم الست نبي الله قال بليٰ قلت السنا علي الهق وعدونا علي الباطل قال بلي فقلت علي ما نعطي الدنية في ديننا ونرجع ولما يحكم الله بيننا وبين اعائنا فقال اني رسول الله وهو نا صري ولست اعصيه قلت اولست كنت تحدثنا اناسناقي البيت ونطوف به قال بلي انا خبر تك انك تاتية العام؟قلت لا قال فانك تاتية ونطوف به(زادالمعاد مصري ج ١ ص ٣٨٣)

 یاحضرت کیا آپ نبی نہیں ہیں فرمایا ہاں کہا کیا ہم حق پر اور دشمن نا حق پر نہیں ہیں فرمایا ہاں کہا پھر ہم کو اس شرط کی وجہ سے کیوں ذلیل کیا جاتا ہے اور بغیر فیصلہ کے ہم کیوں گھروں کو واپس جا تے ہیں حضور نے فرما یا میں رسول اللہﷺہوں وہی میرا مدد گا ر ہے میں اس کی نا فرمانی نہیں کروں گا عرض کیا کیا آپ نہیں فرما تے تھے کہ ہم بیت اللہ میں پہنچ جائے گے اور طواف کر یں گے فرما یا ہاں مگر میں یہ بھی کہا تھا کہ اسی سال عرض کیا نہیں فرما یا پھر کیا کبھی تم پہنچ ھا ئو گے اور طواف کروگے اللہ اللہ کس قدر دینی جو ش ہے اور کتنی غیرت قومی ہے اے کا شاس ہزاروں حصہ بھی شعیہ دوستوں کو ایران معاملہ میں ہو تا تو یہ نو بت نہ پہنچتی جو پہنچی۔

ہاں جب یہ جوش ٹھنڈا ہوا اور بحکم صاحب الوحی دل کو تسکین ہوئی تو آپ اپنا حال خود ہی کہتے ہیں -ماشككت منذا سلمت الا يومئذ فاتيت النبي صلي لله عليه وسلم الخ-جب سے میں مسلمان ہو اہوں مجھے اسلام میں کبھی شک نہیں ہوا اس روز جب ابو جندل کی واپسی میں نے دیکھی تو میں نے حضور کے پاس جاکر مذکو رہ بالا گفتگو کی نا ظرین خدا را انصاف کیجیے کہ یہ واقعہ حضرت عمر فا روق رضی اللہ عنہ کی دینی غیرت اور ایمانی تصدیق کا ثبوت ہے تا تردید۔؟

تمثیل

خدا کی حکمتوں کو خدا ہی جا نتا ہے مگر جب ان حکمتوں کا ظہور ہوتا ہے تو مو من کے دل کو عجب سر ور حاصل ہو تا ہے حد یبیہ میں اس واقعہ کے ساتھ ہی ایک دوسرا واقعہ جنا ب مر تضی کا پیش آیا جو معا ہدہ کے تب تھے معاہدہ کی عبارت کا شروع یوں تھا –هذا ما صالح به محمد رسول الله وقريش مكة-یہ وہ معاہدہ صلح ہے جو رسول اللہ ﷺاور قریش مکہ میں ہوا قریش نے محمد ﷺ کے ساتھ رسول اللہ کا لفظ ہونے پر اعتراض کیا کہ ہم آپ کو رسولاللہ ﷺ نہیں ما نتے آپ یوں لکھئے محمد بن عبداللہ حضور اکرم ﷺنے ان کا سوال معقول سمجھا اور جنا ب علی مر تضی کو حکم دیا کہ اس عبارت میں سے رسول اللہﷺ کاٹ کر محمد بن عبداللہ لکھ دو حضرت علی اس پر بگڑگےعرض کیا میں رسول اللہ کالفظ نہیں کاتونگاآہ کیا غیرت ہے اور کیا جوش ہے مگر اعدا علی کو یہ مو قعہ ملا ہے کہ وہ جناب کی نسبت بے فرما ئی کا گمان کر یں اور اپنی سیاہ دلی سے جھٹ یہ آیت پڑھیں۔  وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ ﴿٢٣سورة الجن لیکن ایک صاف دل مو من جا ن سکتا ہے کہ حضرت علی کی یہ بے فرما نی دراصل بے فرما نی نہیں ہے بلکہ کمال جو ش ایمانی۔

عارفانہ نگاہ

میں اس واقعہ میں حکمت الٰہیہ یہ ہے کہ آیندہ چل کر حضرت علی کے دشمن اعتراض کر یں گے تو حضرت عمر کا واقعہ ان کو جواب دے گا اور حضرت عمر کے دشمن اعتراض کر یں گے اور حضرت علی کا واقعہ جواب دینے کو کا فی ہو گا کہ غیرت ایمانی اس کو کہتے ہیں کیا سچ ہے۔

غیرت از چشم برم روئے تودیدن نہ دہم      گو شرا نیزہ حدیث توشنیدن نہ دہم

اسی طرح حضرت عمر فا روق کا اپنی با بت حضرت حذیفہ سے سوال کرنا بھی کسر نفسی ہے ور نہ جنا ب اپنا خکم حضور ہی ہے اگر نصیب اعداد فاروق منافق ہوتا تو پو چھتا ہی کیوں کیا اپنا پردہ فاش کرانے کو کو ئی ایسا کر تا ہے اسی طرح –آمنت باللہ-کہنا بھی کمال خوف خدا کا ثبوت ہے نہ کہ عدم خوف یا نفاق کا مگر ع۔

گل است سعدی دور چشم دشمناں خاراست

ہاں بیت اللہ کے پا س کھڑے ہو کر حضورﷺ کا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا نا حوالہ کا محتاج ہے امید ہے کہ اس کا صحیح حوالہ درج کرایئں گے ایسا ہی اس کا حوالہ مطلوب ہے جو آپ نے لکھا ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے تیری نبوت میں شک کیا۔ ہاں یا د آیا کہ شا ید آپ کو یہ خیال آیا کہ حضرت عمر پر حق نا ز ل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ہر آن اور ہر وقت جناب محدوح کی زبان سے ایسا ہی نکلتا تھا اے جناب سنئے اس قسم کے قضایا اوقات کے لحا ظ سے منطقی اصطلاح میں مہملے ہوتے ہیں اس لئے کو ئی ایسا ویسا واقعہ اس کے منا فی نہیں کیا آپ کو معلوم نہیں قرآن مجید میں ارشاد ہےعفا الله عنك لم اذنت لهم-(اللہ تجھے معاف کرے تونے ان کو کیوں اذن دیا ) نیز وہ نطق بھی آپ کو یا د ہو گا جس کے جواب میں عتاب آمیز ارشاد پہنچتا ہے –لم تحرم ما احل الله لك -اے نبی جو چیز خدا نے تیرے لئے حلا ل کی ہے تو اس کو حرام کیوں کرتا ہے کیا یہ دونوں واقعات ما ينطق عن الهوي کے مخالف ہیں مفتی صاحب فتوی دیتے ہوئے اتنا خیال کر لیا کریں کہ ملک میں قران حدیث جا ننے والے بھی ہیں۔

 سنبھل کے رکھیو قدم دشت خار میں مجنوں

کہ اس نواح میں سواد بر ہنہ پا بھی ہے

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 736

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ