سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(668) ایک آرین سوال اور اس کا جواب

  • 7304
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 899

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آرین سوال اور اس کا جواب


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک آرین سوال اور اس کا جواب

بخدمت جنا ب اڈیٹر صا حب اہلحد یث اسلام علیکم مزا ج شر یف چند سوالات آ ر یہ شخص نے کئے جن میں ایک یہ سوا ل ہے اور اس سوال کے کرنے سے حاضرین کی طبع میں اسلام کی طرف سے شہادت کا ذخیرہ جمع ہو گیا بوجہ کم علمی و نا قص فہمی کے حا ضر ین کا عقیدہ ضعیف ہو ا چونکہ اللہ تعا لی نے نے ہم کو اسلا م پر ر کھنا منظور ہے لہذ ا بذریعہ عر یضہ ہذ ا خدمت میں سوال کو پیش کر کے شبہ کو اطمینا ن سے تبدیل کرنا چا ہتا ہوں امید ہے وہ جو اب معقول و پسند یدہ و آ سا ن عبا رت میں مد لل تحر یر فر ما کر مستحق اجر جز یل ہوں گے جو بند ہ کی سمجھ میں ودیگر حا ضر ین کے سمجھا نے کے لئے کا فی و تسلی بخش ہو فہو ہذ ا آ ریہ کہتا ہے کہ خدا تعا لی کی ذا ت مسلما نوں کے نز دیک بے مثل ہے اور واقعی ہے مگر قرآ ن مجید کی بند گی کی نسبت جو عقیدہ اہل اسلا م ہے کہ آ سما نی کتا ب ہے اور سب کتا بوں سے افضل ہے تو سوا ل اس پر ہے کہ آ دم علیہ اسلا م سے لے کر حضرت رسو ل ﷺ تک جس قدر صحا ئف و آ سما نی کتا بیں نا زل ہو ئی ہیں وہ قر آ ن مجید نے کیوں منسو خ کیں اور خد ا تعا لی کو کی پہلی مخلو ق جو قر آ ن سے محر وم رہی غر یز نہ تھی اور سب کے لئے ایک ہی کتا ب قرآ ن مجید کیوں کا فی نہ ر کھی جس سے معلو م ہو ا کہ اب کے مسلما ن سے جو حضرت رسو ل اللہ ﷺ کے وقت سے ہو ئے ان سے بہ نسبت پہلوں کے زیا دہ محبت اور زیادہ پیا ر ہے تو پھر اس سے اللہ تعا لی کی تو حید میں فرق آ یا اور دیگر اللہ تعا لی کو تر میم کی کیا ضرورت پڑ ی سب کے درجے اور سب کی حالتیں کیوں مسا وی الحا ل نہ رکھیں کیا اللہ تعا لی کی بھی ایسی ذا ت ہے کہ کسی کو کسی بات کی نسبت کسی طرح کا حکم فر ما دے اور کسی کو کسی طرح کا گو یا ایک قول پر ثا بت رہنے کی کیا وجہ اور دیگر ایک ہی کتا ب اول سے آخر تک کیوں کافی نہ ہو ئی جس سے قرآن مجید کے آسما نی و حما یت اللہ ہو نے میں شبہ ہے جوا ب با دلائل۔ نیاز ہند مبا رک علی پٹوا ری حلقہ مو ضع نو ر نگ پور ڈا ک خانہ بیگوا ل ضلع جا لندھر)

جواب۔ قر آ ن مجید پہلی کتا بوں کو ما نتا ہے مگر چو نکہ ان میں دست تصرف ہو نا ثا بت ہےچنا نچہ رو من کیتھو لک عیسا ئیوں میں با ئیبل مر وج ہے اس میں چند رسا لے زیادہ پر و ٹسٹنٹ عیسا ئیوں میں جو مروج ہے اس میں کم ہے اسی طرح اور تصر فا ت بھی ہیں اسی سے قرآ ن مجید بطو ر ایک رجسٹر ڈ حکم نا ز ل ہو ا ہے –

اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ﴿٣سورة الأعراف

’’تم لو گ اس قر آ ن کے تابع ہو اور اس کے سوا دوسری کسی کتا ب کے پیچھے نہ چلو کیو نکہ وہ مشتبہ ہو چکی ہیں‘‘ یہی معنی ان کی تنسیخ کے ہیں ورنہ احکا م کی با بت تو قرآ ن مجید خو د کہتا ہے

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ﴿٥ سورة البينة

 اس آیت میں اہل کتاب کے متعلق فرمایا ہے کہ ان کو یہی حکم تھا کہ خدا کی طرف یک سو ہو کر نما ز پڑ ھو اور زکو ۃ ادا کرو یہی دو رکن اسلام میں عام ہیں۔

اصل میں منسو خ کے معنی نہ سمجھنے سے یا عتراض پیدا ہو تا ہے یہ منسو خ اس طر ح کا ہے جو کسی کا غذ کو شتبہ پا کر اس کے مضمو ن کو دوسرے کا غذ پر صا ف کر کے لکھ لیا جا ئے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 685

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ