سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(929) اقامت ہونے پر فجر کی سنتوں کاوقت

  • 689
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1038

سوال


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی فجر کی نماز کے وقت وضو کررہا تھا۔اتنے میں  جماعت کھڑی ہوگئی ۔اب یہ آدمی کیاکرے سنّت ادا کرے یا جماعت  میں شامل ہوجائے ۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

فرضوں کے بعدسنّتوں کےلئے طلوع آفتاب کی انتظار  ثابت نہیں۔ ہاں فرضوں کے بعد سنتیں ثابت ہیں۔ابوداؤد وغیرہ میں ہے کہ ایک شخص نے فرضوں کے بعد اسی وقت سنتیں  پڑھیں۔آپ نے فرمایا کیا اکٹھی دونمازیں پڑھتا ہے۔اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں  نے پہلے سنتیں نہیں پڑھیں۔فرمایا فلااذًا پس اس وقت کوئی حرج نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ فرضوں کے بعد فجرکی سنتیں  پڑھنا جائز ہیں۔

امام شوکانی ؒ نیل الاوطار جلد2 صفحہ 276 میں اس کی تائید میں لکھتے ہیں:

«واخرجه ابن حزم فی  المحلی من روايه الحسن بن ذکوان عن عطاء بن ابی رباح عن رجل من الانصار قال وأی رسول الله صلی الله عليه وسلم  رجلاً يصلی بعد الغداةِ فقال يا رسول الله لم اکن صلّيت رکعتی الفجرفصليتهما الان فلم يقل  له شيئا ً قال العراقی واسناده حسن ٌ۔»

یعنی ابن حزم ؒ نے محلی  میں روایت کیا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کوفجر کے بعد سنّتیں پڑھتے دیکھا۔اس نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے سنّتیں  فجر کی نہیں پڑھی تھیں اب پڑھی ہیں۔آپ نے اس کوکچھ نہیں  کہا۔اس حدیث کی اسناد اچھی ہے۔

یہ حدیث دلیل ہے کہ فجرکی سنّتیں فرضوں کے بعد پڑھنی درست ہیں۔اورنمازسے پہلے اقامت کے بعد سوائے اس نماز کےجس کی اقامت ہوئی ہے۔دوسری نمازمنع ہےچنانچہ حدیث میں ہے۔«فلاصلوة الاالمکتوبة» اورايک روايت میں ہے «الا التی اقيمت» (منتقی باب النهی عن التطوع بعد الاقامة) یعنی اقامت کے بعد وہی نماز ہےجس کی اقامت ہوئی ہے ۔

جولوگ اقامت کےبعد سنّتوں کےجواز پربیہقی کی یہ روایت  پیش کرتے ہیں «اذا اقيمت الصلوة فلاصلوة الاالمکتوبة الارکعتی الصبح» یعنی اقامت کے بعد صرف وہی نما ز فرض ہے جس کی اقامت ہوئی ہے مگردوسنتیں فجرکی۔

یہ ان کی غلطی ہےکیونکہ یہ روایت قابل استدلال نہیں۔بیہقی خود اس کی بابت لکھتے ہیں۔«هذه الزيادة لااصل لها»(یعنی یہ لفظ (مگردوسنتیں  فجرکی) بے اصل ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں۔اوراس کی اسناد میں دو راوی حجاج بن نصر اورعبادبن کثیر ضعیف ہیں (نیل الاوطار)

علاوہ اس کے بعض روایتوں میں فجرکی سنتوں کی ممانعت آئی ہے چنانچہ اس حدیث «فلاصلوة الاّالمکتوبة» ۔میں ابن عدی نےیہ الفاظ روایت کئے ہیں۔« قيل يارسول الله ولارکعتی الفجر قال ولارکعتی الفجر اخرجه ابن عدی فی ترجمة يحيی بن نصر بن حاجب واسناده حسن عون الباری» شرح بخاری جلد 2 صفحہ315۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےکہاگیاکہ کیا اقامت کے بعد فجر کی سنتیں  بھی نہ پڑھے۔فرمایا فجر کی سنتیں بھی نہ پڑھے اوراس کی اسناد اچھی ہے۔

دیکھیئے اس روایت میں فجر کی سنّتوں  کانام  لے کر منع کردیا ہےاس سےواضح تردلیل کیا ہو گی۔پھر اس کی اسناد بھی اچھی ہےاورنیل الاوطار جلد2 صفحہ331 میں بھی یہ (نام لے کرفجر کی سنتیں منع کرنےکی روایت )ذکر کی ہے مگرحوالہ بیہقی کا دیاہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ یہ روایت دونوں کتابوں (ابن عدی اوربیہقی) میں ہے مگرنیل الاوطار میں بیہقی کی اسناد کےمتعلق لکھا ہے۔

«وفی اسناده مسلم بن خالدالزنجی وهومتکلم فيه وقدوثقه ابن حبان واحتج فی صحيحه»

یعنی اس کی اسناد میں مسلم بن خالدزنجی ہے۔اس میں کچھ کلام ہےلیکن ابن جبان نےاسکوثقہ کہا ہے اوراپنی کتاب صحیح میں اس کی اسناد کوقابل استدلال سمجھا ہےبہر صورت یہ روایت روایت بیہقی والی مذکورہ بالاروایت (گردوسنتیں فجر کی) سے راجح ہے۔پس نتیجہ یہ ہوا کہ اقامت کے بعد فجرکی سنتیں پڑھنی منع ہیں۔اگررہ جائیں توفرضوں کے بعد پڑھے۔

وباللہ التوفیق

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ