سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(237) اہلحدیث واحکام فقہ حنفیہ نکاح شرعی کا اطلاق ہوسکتا ہے یا نہیں؟

  • 6829
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1995

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہندہ معمر پندرہ سال کا نکاح ا س کی مرضی کے خلاف زید سے اس طرح کردیا۔ کہ نکاح کی اطلاع پا کر ہندہ نے رونا اورزبان سے انکار صریح کرنا شروع کردیا۔ اتفاق سے مجلس کے گواہ جو نصف ساعت کے بعد گوہ بنتے والے تھے۔ اس انکار صریح کو اپنے کانوں سے سن کر بہت متعجب ہوئے تو ہندہ کے باپ نے جا کر ہندہ کو بہت سمجھایا لیکن ہندہ انکاری کرتی رہی۔ بالا آخر مجبور ہوکر شرما شرمی اور رسوائی کے خیال سے باپ نے گواہوں کو کہہ دیا کہ میں سمجھا رہا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد  زید سے قاضی نے ایجاد قبول کروایا۔ لیکن گواہوں کو ہندہ کے پاس اس ڈر سے نہ بھیجا نہ یہ خود گئے یونہی بلاستیذان ہندہ خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے عاقدین کا کلام سنائے بغیر ہندہ کا نکاح زید کے ساتھ کردیا گیا۔

ہندہ مذہب اہلحدیث کی پابند ہے۔ اور زید حنفی مقلد ہے۔ ایسے نکاح پر ازروئے مذہب اہلحدیث واحکام فقہ حنفیہ نکاح شرعی کا اطلاق ہوسکتا ہے یا نہیں؟

زید واقعہ انکار نکاح سے مغلوب الغضب ہوکر ہندہ کے ساتھ بے رحمانہ سلوک اور جابرانہ وظالمانہ برتائو رکھتا ہے۔ ہندہ اور زید میں شدید نااتفاقی ہے۔ ہندہ کو زید سے طبع نفرت ہے۔ اور زید کی ناقابل برداشت ایزا رسانی سے ہندہ کی جان سخت خطرہ میں ہے۔  قاضی کو اس صورت میں افتراق کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؟مذہب اہل حدیث اور جو احکام  تفریق سے متعلق ہیں۔  مع حوالجات مستند کتب حنفیہ اور احادیث صحیحہ جواب سے سرفراز فرما جائے۔ (محمد عثمان خان عفی عنہ از محبوب نگر )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث شریف میں ہے کہ باکر ہ سے بھی استفسار کیا جاوے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح بالجبر جائز نہیں۔ بات اصل یہ ہے کہ نکاح میں نباہ کرنا ہے لڑکی نے نہ باپ نے لڑکی اگر پسند نہیں کرتی۔ تو نباہ کیسے ہوگا۔ اس لئے جبر سے نکاح کو جائز کہنا گویا دونوں میں فساد کو قائم رکھنا ہے۔ (6مئی 1932ء)

الجواب۔ صورت مسئولہ میں جب کہ عورت عاقلہ بالغہ مذکورہ اپنے شوہر معین ہونے کے وقت اور عین ایجاب کے وقت کہہ رہی تھی کہ میرا نکاح زید کے ساتھ نہ کرنا اور ساتھ اس کے گریہ زاری بھی کر رہی تھی۔ مگر اس کے باپ نے نہ اس کی مرضی پرتوجہ کی اور نہ کسی غیر کا کہنا مانا اور بلا مرضی اس کے اس کا نکاح زید کے ساتھ کردیا۔ اور تاحال وہ راضی نہیں ہے۔ تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوا۔ کیونکہ عورت عاقلہ بالغہ کے نکاح کے منعقعد ہونے کےلئے ا س کی اجازت ومرضی شرط ہے۔ مشکواۃ شریف میں ہے۔

عن ابن عباس ان النبي صلي الله عليه وسلم قال الا يم احق بنفسها من وليها والبكر تستاذن في نفسها واونها صماتها وفي رواية قال الشيب احق بنفسها ن وليها اولابكر تستامرواذنها سكوتها وفي رواية قال اشيب احق بنفسها والبكر يستاذ نها ابوها واذ نها صماتها (رواه  مسلم)

وعن ابن عباس ان جارية بكرا اتت رسول الله صلي الله عليه وسلم فذكرت ان با ها زوجها وهي كارهة ذخيرها النبي صلي الله عليه وسلم (رواه ابوداؤد)

اور اس کے باپ نے جو یہ کہہ کر اگر تو وہاں راضی نہ ہوئی تو تمھیں ان سے واپس کرالوں گا۔ خسر کے گھر روانہ کردیا۔ اور وہ وہاں جا کر واپس چلی آئی سو باپ کے اس کہنے سے اس کا خسر کے گھر چلے جانا موجب رضا وقبول نہیں ہوسکتا۔  ہاں وہاں جا کر زید سے بلا جبرواکراہ راضی ہوتی تو اس کا یہ فعل البتہ موجب رضا وقبول ہوتا۔ مگر جب کہ وہاں سے بلا رضا مندی واپس چلی آئی۔ اور تاحال وہ ر اضی نہیں ہے۔ تو اس کا خسر کے گھر مجرد چلے جانا ہرگز موجب رضا وقبول نکاح نہیں ہوسکتا۔ واللہ اعلم۔ حررہ عبدالرحیم عفی عنہ(سید محمد نزیر حسین فتاویٰ نزیریہ جلد 2 ص 195)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 194

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ