سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(227) مسئلہ کفو کی تحقیق

  • 6780
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3271

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسئلہ کفو کی تحقیق


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسئلہ کفو کی تحقیق

از قلم حضرت مولانا سید سلمان صاحب ندوی

نکاح کے متعدد قابل بحث مسائل میں کفو کا مسئلہ بھی ہے۔ خصوصا اس لئے بھی کہ متاخرین فقہائے نے اس میں بے حد غلو کیا ہے۔ یہاں تک کہ نکاح کے جواز وعدم جواز تک اس کا اثر ڈالا ہے۔ اور کفو کے درجوں اور رتبوں تک کی  تعین کی ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ صرف ایک معاشرتی حیثیت ر کھتا ہے۔ اور اس سے زیادہ اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ ''کفو ''کے معنی برابر مساوی ہمسر اور جوڑ کے ہیں۔ اور اصطلاحا اس سے مراد یہ ہے کہ عورت مرد جن کا نکاح باہم مقصود ہے۔  وہ معاشرت اور سوسائٹی کے لہاظ سے ہم مرتبہ اور ہم  درجہ ہوں۔  تاکہ میاں بیوی میں باہم  خوشگوارتعلقات قائم ر ہیں۔ اور ایک دوسرے کو ذلیل یا حقیر نہ سمجھیں۔  بات صرف اتنی تھی۔  مگر عجمی لخوت اور ہندی ذات پات کے جھگڑوں نے اس رائی کو پہاڑ بنادیا۔ اور اب کم از کم ہندوستان میں ہندوں کے اثر سے یہ حالت ہوگئی ہے۔ کہ مسلمانوں میں بھی برہمن چھتری دیش اور شودر کی طرح ۔ سید ۔ شیخ۔ مغل۔ پٹھان گویا چار ذاتیں ہوگئی ہیں۔ اور پیشوں کے لہاظ سے اور بھی ماتحت تقسیمیں ہوگئیں ہیں۔ اور ان میں باہمی حسب ونسب کی تعریفیں قائم کردی گئی ہیں۔

کفو کی حیثیتیں

چنانچہ فقہ حنفی میں کفو کی چار حیثیتیں قائم کی گئی ہیں۔ نسب اخلاق تقویٰ مال ودولت اور پیشہ اور یہ ضروری سمجھا گیا ہے کہ اگر کوئی بالغ لڑکی اپنے اختیار سے کسی ایسے مرد سے شادی کرے۔ جو خود یا اس کا خاندان  لڑکی سے یا لڑکی کے خاندان سے نسب میں یا اخلاق وتقویٰ یا مال ودولت یا پیشہ میں کم درجہ ہو تو لڑکی کے اولیاء کو حق حاصل ہوگا۔ کہ وہ قاضی کی عدالت میں دعوے دائر کرکے اس کا نکاح فسق کرادیں بعض فقہاء نے غلو کرکے یہاں تک فتویٰ دے دیا ہے۔ کہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہ ہوگا۔

نسب کے اعتبار میں اختلاف

نسب میں قریش کو بڑا درجہ دیا گیا ہے۔ ان کے برابر کوئی غیر قرشی نہیں۔ پھر عام عرب قبائل کا درجہ ہے۔ پھر عجم کا اسی طرح وہ نو مسلم جو بذات خود مسلمان ہوا ہے۔ اس نو مسلم کا مقابل نہیں۔ جو چند پشت پہلے مسلمان ہوا ہو۔ مال ودولت کے لہاظ سے یہ اجازت دی گئی۔ کہ اگر کوئی دولت مند لڑکی کسی فقیر مفلس سے جو عورت کے دین مہر اور نفقہ کو ادا نہ کرسکتا ہو۔ شادی کرلے۔ تو لڑکی کے اہل خاندن ایسے نکاح کو توڑدیں۔ (توحید امرتسر 6 ربیع الاول 1347ہجری)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 188

محدث فتویٰ

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ