سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(93) اقوال الصحابة ومذهبهم

  • 6551
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2055

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اقوال الصحابة ومذهبهم


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اقوال الصحابة ومذهبهم

مخالف ہوآیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ کے نیز امام ترمذی نے اس کو روایت کیا اور کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آیت کو پڑھنا اس پر دلالت کرتا  ہے کہ آپؐ نے رسی کا گرانا اللہ کے علم اورقدرت اورسلطانپر مراد لیا ہے اور اس  کا علم اورقدرت اور سلطان ہرمکان میں ہے اوروہ عرش پر ہے جیسا اس نے اپنی کتاب میں اپنی ذات کی وصف کی ہے اس کو صاحب مشکوۃ اورقاضی ثناءاللہ نے تفسیر مظہر ی میں ترمذی سے نقل کیا ہے اور اگر تو ہمارے معاصرین اس نئی بات گھڑنے والوں کے رسائل میں دیکھئے تو ان آیتوں کی تفسیر میں کسی سلف سے ان کا قول منقول نہ ہوگا حالانکہ انہوں نے بہت ورقوں کو سیا ہ کیا اور اپنے دعوی کے اثبات میں کوشش بلیغ کی اوربہت ہاتھ پاوں پھیلائے اور اپنی طرف سے کو ئی دقیقہ باقی نہ رکھا لیکن تب بھی کوئی بات کام کی نہیں لائے جو پیاسے کو سیر کرےیا بیمار کو شفادے بلکہ سب کی سب راہیں ہیں بیماراورفکرین ہیں ضعیف جن سے بھوک نہیں جاتی موٹا ہونا تو بہت دور ہے یہ کیوں کر ہوا چھا پھل تو اچھے ہی بیج سے ہوگا پس میں نے چاہا کہ اپنے دینی بھائیوں کے لئے اہل سنت وجماعت کا مذہب ائمہ حدیث وفقہ سے نقل کرکے بیان کروں تاکہ ان کے رسائل کے مزخرفات بھائیوں کو دھوکے میں نہ ڈالیں، بیان صحابہ کے اقوال اور ان کے مذہب

فى هذا قال ابوبكرن الصديق رضى الله  عنه من كان يعبدمحمدافان محمدا قدمات ومن كان يعبدالله فان الله فى السماءحى لايموت رواه البخارى فى تاريخه وقال عمر ابن الخطاب رضى الله  عنه لخولة بنت حكيم هذه امرأة سمع الله شكواها من فوق سبع سموت اخرجه عثمان الدارمى قال ابن عبدالبر حدثنا من وجوه عن عمر مثله وقالت عائشة علم الله فوق عرشه انى لم احب قتل عثمان اخرجه عثمان الدارمى وقال ابن عبدالبر وينا من وحوه صحاح ان عبدالله بن رواحة-

وان العرش فوق الماء طاف                   و فوق العرش رب العالمينا

قال ابن مسعود العرش على الماء والله فوق العرش ويعلم انتم عليه اخرجه البخارى فى رسالته خلق افعال العباد-

و الدارمى و اخرجه عبدالله ابن الامام احمدفى كتاب السنة

له وابن المنذروالعمال والطبرافى واللالكائى

کااس مسئلہ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوجتا تھا تو وہ فوت ہوگئے اور جواللہ کو پوجتا تھا تو وہ آسمان پر زندہ ہے کبھی نہیں مرے گا روایت کیا اس حدیث کو امام بخاری نے اپنی کتاب تاریخ میں اور حضرت عمرؓ نے فرمایا خولہ بنت حکیم کے حق میں کہ یہ عورت وہ ہےجس  کا شکوی اللہ نے سنا ساتوں آسمان کے اوپر سے روایت کیا اس حدیث کو عثمان دارمی نے ابن عبدالبر نے کہا کہ حضرت عمر ؓسے  مثل اس کے کئی طریقوں سے ہمیں پہنچا ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ نے کہا کہ اللہ عرش کے اوپر جانتا ہے کہ میں عثمانؓ کے قتل کو نہیں چاہتی روایت کیا اس کو عثمان دارمی نے اورابن عبدلبرنے کہا کہ صیح طریقوں سے ہمیں روایت پہنچی ہے کہ عبداللہ بن رواحہ نے کہا،

گواہی دیتا ہوں کہ پانی پر عرش بریں ہے    اورعرش کے اوپر رب العالمین ہے

ابن مسعود رضی اللہ  عنہ نے  کہا کہ عرش پانی پر ہے اور اللہ اوپر عرش کے ہے، اور تمھارے سب حالات کو جانتا ہے روایت کیا اس کو بخاری نے اپنے رسالہ خلق افعال العباد میں اوردارمی نے اور روایت کیا اس کو عبداللہ ان امام احمد نے اپنی کتاب السنہ میں اور ابن منذراورعسال اور طبرانی اورلالکائی اور

والطلمكينى والبيهقى وابن عبدالبرفى تواليفهم بلفظ العرش على الماء والله فوق العرش والايخفى عليه شئى من اعمالكم قال الذهبى اسناده صحيح وقال ابن عباس فى قوله تعالى وهو معكم اينماكنتم هو على العرش وعلمه معهم اخرجه ابن ابى حاتم وقال ابو هريرة لما القى ابراهيم فى النار قال اللهم انك فى السماء واحدوانا فى الارض واحد عبدك اخرجه الدارمى باسنادجيدقاله الحافظ ابن القيم وقال عدى بن عمرة جرجت مهاجرا الى النبى صلى الله عليه وسلم فاذاهوومن معه يسجدون على وجوههم ويزعمون ان الهم فى السماء اخرجه يحيى بن سعيدفى مغازيه وقال ابن ابن عبدالبر فى التمهيدوعلمائ الصحابة والتابعين الذين حمل عنهم التاويل قالوافى تاويل قوله تعالى مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ هو على العرش وعلمه فى كل مكان وماخالفهم احدفى ذلك يحتج به وقال ابن وهب المالكى فى شرح عقيدة الامام مالك الصغيرعبدالله بن ابى زيد

طلمکینی اوربیہقی اور عبدالبر نے ان سب نے اپنی کتابوں میں ساتھ ان لفظوں کے کہ عرش اوپر پانی کے ہے اور اللہ عرش کے اوپر ہے اوراس پر تمھارے عملوں میں سے کچھ پوشیدہ نہیں کہا ذہبی نے کہ اسناد اس حدیث کی صیح ہے اورابن عباس نے اللہ تعالی کے اس قول وهو معكم اينماكنتم کی تفسیر میں کہا، کہ اللہ اوپر عرش کے ہے اورعلم اس کا ساتھ ان کے ہے روایت کیا اس کو حاتم نے ابوہریرہ رضی اللہ  عنہ نےکہا کہ جب ابراہیمؑ آگ میں ڈالے گئے تو کہا کہ یا اللہ تو آسمان پر ایک ہے اورمیں زمین پر ہوں بندہ تیرا روایت کیا اس کو دارمی نے ساتھ اسناد پختہ کے کہا اس کو حافظ ابن قیم نے اور عدی بن عمرہ نے کہا کہ میں ہجرت کرکے پیغمبر خدا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ اور آپؐ کے ساتھ کے منہ پر سجدہ کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ ان کا معبود آسمان پر ہے روایت کیا اس کو یحیی ابن سعید نے اپنی کتاب مغازی میں اورابن عبدالبر نے تمہید میں کہاکہ علماءصحابہ اورتابعین جن سے تفسیر اورتاویل لی جاتی ہے انہوں نے اللہ تعالے کے اس قول مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ کی تفسیر میں یوں کہا ہے کہ اللہ  تعالی اوپر عرش کے ہے اورعلم اس کا ہر مکان میں ہے اوراس میں ان کا کسی نے خلاف نہیں کیا جس کی حجت پیش کی جائے اور ابن وہب مالکی نے شرح عقیدہ امام مالک صغیرعبداللہ بن ابی

قول مالك مما فهمه عن جماعة ممن ادرك من التابعين-ممافهموه عن الصحابة مما فهموه عن النبى صلى الله عليه وسلم ان الله فى السماء بمعنى فوقها وعليها وقال ابن بطه فى كتاب الابانه وكان من كبارالايمة فى المائة الرابعةاجمع المسلمون من الصحابة والتابعين ان الله على عرشه فوق سموته بائن من خلقه فاماقوله وهو معكم

 فهم كما قالت العلماء علمه وقال الحافظ الذهبى فى كتاب العلومقالة السلف وائمة السنة بل الصحابة والله ورسوله والمومنين ان الله عزوجل فى السمآء وان الله فوق سموته وانه ينزل الى السماء الدنيا وقالت الجهمية ان الله فى جميع الامكنته تعالى الله عن قولهم بل هو معنا اينما كنا بعلمه-

اقوال التابعين

قال الضحاك فى قوله تعالى مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ هو على العرشه وعلمه معهم اخرجه العسال وابن بطه وابن عبدالبر باسنادجيد،  قاله الذهبى فقال مقاتل بن حيان فى

زیدمیں کہا ہے کہ قول مالک کا جو اس نے تابعین سے سمجھا، انہوں نے صحابہ سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےیہ ہے کہ اللہ آسمان میں ہے یعنی اوپر اس کے ہے اورابن بطہ نے جوچوتھی صدی کے ایمہ کبارسے کتاب ابانہ میں ہے کہ اجماع کیا ہے صحابہ اورتابعین نے کہ اللہ اپنے عرش پر ہے اوپر آسمانوں کے اور مخلوق سے جدا ہے پس قول اللہ تعال کا وهو معكم وہ تمہارے ساتھ ہے یعنی علم اس کا جیسا کہ اہل علم نے کہا ہے اور حافظ ذہبی نے کتاب العلومیں کہا ہے کہ قول سلف کا اورایمہ سنت کا بلکہ صحابہ اور اللہ تعالے اور اس کے رسول اور سب مومنوں کا یہ ہے کہ اللہ عرش پرہے اوریہ کہ وہ اوپر آسمانوں کے ہے اور یہ کہ وہ آسمان دینا کی طرف اترتا ہے اورجھمیہ کہتے ہیں کہ ہرمکان میں ہے پاک اوربلند ہے اللہ ان کے قول سے بلکہ وہ ہمارے ساتھ ہے جہاں ہم ہوں ساتھ علم اپنے کے،  تابعین کے اقوال ضحاکنےکہا اللہ تعالے کے اس قول مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ کی تفسیر میں کہا کہ وہ اوپر عرش اپنے کے ہے اورعلم اس کا ساتھ ان کے ہے روایت کیا اس کو عسال اور ابن بطہ اور ابن عبدالبر نے ساتھ اسناد پختہ کے کہا اس کو ذہبی نے مقاتل بن حیان نے اللہ تعالی کے اس قول

قوله تعالى وَهُوَ مَعَهُمْ يقول عمله معهم اخرجه البيهقى قال الذهبى ومقاتل هذا ثقة امام ماهوبائن سليمان ذاك مبتدع ليس بثقة وقال محمد بن كثير سمعت الاوزاعى يقول كناوالتابعون متوافرون نقول ان الله ذكره فوق عرشه اخرجه البيهقى فى الاسماء والصفات-وروى الاعمش عن ابراهيم قال كانوافى كتاب سيرالفقهاء قال الحافظ ابن القيم هوكتاب عزيز العلم وفال سليمان التيمى لوسئلت اين الله لقلت فى السماء اخرجه ابن خثيمة فى تاريخه-

اقوال تابعى التابعين:- قال ابن القيم روى الدلرمى والحاكم و البيهقى باصح اسنادالى على ابن الحسن قال سمعت عبدالله بن المبارك يقول نعرف ربنابانه فوق سبع سموت على العرش استوى بائن من خلقه ولانقول كما قالت الجهمية قال الذهبى الجهمية يقولون ان الله فى جميع الامكنة تعالى الله عن قولهم بل هو معنا اينما كنا بعلمه وردى غير واحد عن معدان

وَهُوَ مَعَهُمْکی تفسیر میں کہا کہ علم اس کا ان کے ساتھ ہے روایت کیا اس کو بیہقی نے ذہبی نے کہا کہ یہ مقاتل ثقہ اورامام ہے نہ مقاتل بن سلیمان کہ وہ مبتدع ہے اور ثقہ نہیں ہے، محمد بن کثیر نے کہا کہ میں نے اوزاعی سے سنا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اور بیشمار تابعین بھی کہتے تھے کہ اللہ تعالے اوپر عرش اپنے کے ہے روایت کیا اس کو بیہقی نے اپنی کتاب الاسماء  والصفات میں اور اعمش نے ابراہیم سے نقل کیا کہ اصحاب عبداللہ بن مسعود کے اس کہنے کو کہ اللہ جہان ہے اور اللہ ہر مکان میں ہے براجانتے تھے روایت کیا اس کو یحی بن ابراہیم نے کتاب سیرالفقہاء میں حافظ ابن قیم نے کہا کہ وہ کتاب کثیرالعلم ہے اور سلیمان  یتمی نے کہا کہ اگر میں پوچھا جاوں کہ اللہ کہاں ہے تو کہوں کہ آسمان پر ہے روایت کیا اس کو ابن ابی خیثمہ نے اپنی کتاب تاریخ میں تبع تابعین کے اقوال ابن قیم نے کہا کہ روایت کیا دارمی اورحاکم اوربیہقی نے صیح تر اسناد سے علی بن حسن تک کہا کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ ہم اپنے رب کو یوں پہنچانتے ہیں کہ وہ سات آسمانوں کے اوپر عرش پر قائم ہے اور اپنی مخلوق سے جدا ہے اور نہیں کہتے جیسے جہمیہ کہتے ہیں ذہبی نے کہا کہ جہمیہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہر مکان میں ہے پاک ہے اللہ ان کے اس قول سے بلکہ وہ اپنے علم سے ہمارے ساتھ ہے جہاں ہم ہوں اور کئی ایک نے معدان سے روایت کیا اس

قال سفيان الثورى عن قوله عزوجل وهو معكم اينماكنتم قال علمه نقله الذهبى فى كتاب العلو-

وقال الامام ابوحنيفةان الله سبحانه فى السماء دون الارض فقال له رجل ارايت قول الله عزوجل وهو معكم اينماكنتم قال هوكماتكتب الى الرجل انى معك وانت عنه غائب اخرجه البيهقى مسنداثم قال البيهقى لقداصاب ابوحنيفة رحمه الله تعالى فيما لفى عن الله عزوجل من الكون فى الارض واصاب فيماذكرمن تاويل الاية-وتبع مطلق السمع بان الله تعالى فى السماء كذافى كتاب العلوللذهبى والجيوش لابن القيم-

وقال الامام مالك:-الله فى السماء وعلمه فى كل مكان اخرجه عبدالله بن احمدبن حنبل فى كتاب الردعلى  الجهمية وابن عبدالبر فى التمهيد-

وقال الامام الشافعى:-التى انا عليها ورايت اصحابنا عليها مثل سفيان الثورى ومالك وغيرهماالاقراربان الله على عرشه فى سمائه يقرب من خلقه كيف يشاء وان الله ينزل الى السماء الدنيا كيف شاء اخرجه ابن ابى حاتم-

نے کہاکہ میں نے سفیان ثوری سے اللہ کے اس قول وهو معكم اينماكنتم کی تفسیر پوچھی تو کہا کہ علم اس کا ساتھ تمہارے ہے نقل کیا اس کو ذہبی نے کتاب العلومیں اور امام ابو حنیفہؒ نے کہا کہ اللہ تعالی آسما ن پر ہے نہ زمین پر تو ایک آدمی نے کہا کہ وهو معكم اينماكنتم کاآپ کیا جواب دیں گے انہوں نے کہا کہ وہ ایسا محاورہ ہے کہ جیسا تم ایک آدمی کو لکھتے ہوکہ میں تمھارے ساتھ ہوں حالانکہ تم اس سے غائب ہوتے ہو روایت کیا اس کو بیہقی نے اپنی اسناد سے پھر بیہقی نے کہا ٹھیک ہے ابوحنیفہ نے جو نفی کی اسبات کو اللہ زمین میں ہے اور آیت کی تفسیر میں ہے ٹھیک کہا اور بغیر تاویل کے قبول کیا اس بات کو کہ اللہ تعالی آسمان پر ہے ایسا ہی مذکور ہے ذہبی کی کتاب العلواورابن قیم کی کتاب جیوش میں اور امام مالک ؒ نے کہا کہ اللہ  آسمان پر ہےاورعلم اس کا ہر مکان میں ہے روایت کیا اس کو عبداللہ بن احمد بن حنبل نے کتاب الددعلی الجھمیہ میں اورابن عبدالبر نے تمہید میں اورامام شافعی نے کہا کہ طریقہ میرا اورمیرے استادوں کا مثل سفیان ثوری اورمالک وغیرہ کا یہ ہے کہ اقرار کرتے ہیں اس کا کہ اللہ آسمان پر اپنے عرش کے اوپر ہے قریب ہوتا ہے اپنی مخلوق سے جیسا چاہئے اوریہ کہ اللہ تعالی اترتا ہے آسمان دنیا کی طرف جس طرح چاہے روایت کیا اس کو ابن ابی حاتم نے اور

وقال الامام احمد

فى عقيدته فان احتج مبتدع اومخالف بقوله تعالى وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِ‌يدِ وبقوله عزوجل وهو معكم اينماكنتم اوبقوله مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ ونحوهذامن متشابه القران قيل انما يعنى بذلك العلم واخرج الخلال فى كتاب السنة قيل لاحمدابن حنبل ربنا تبارك وتعالى فوق السماء السابعة على عرشه بائن من خلقه وقدرته وعلمه بكل مكان قال نعم هوعلى عرشه ولايخلواشئى عن علمه وقال ابوطالب سالت احمد بن حنبل عن رجل قال الله معنا وتلا مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ فقال قدهذاياخذون باخرالاية يدعون اولها هلاقرأت عليه أَلَمْ تَرَ‌ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ فعلمه معهم كذافى كتاب العلوللذهبى وقداطال احمد بن حنبل فى هذافى كتابه الردعلى الجهمية شاء فليطالعه فانه

امام احمد نےاپنےعقیدہ میں کہا کہ اگر کوئی بدعتی یا مخالف دلیل پکڑے ساتھ اس قول اللہ تعالے کے وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِ‌يدِ یا وهو معكم اينماكنتم مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ اورمانند اس کے متشابہ قرآن سے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مراد اس سے علم اس کا ہے اورخلال نے کتاب السنہ میں روایت کیا کہ احمد بن حنبل کو کہا گیا کہ رب ہمارا ساتویں آسمان کے اوپر عرش پر اپنی مخلوق سے جدا ہے اور اس کی قدرت اور علم ہر مکان میں ہے تو کہا کہ ہاں وہ اپنے عرش پر ہے اور علم اس کے سے کوئی چیز الگ نہیں اور ابوطالب نے کہا کہ میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا کہ ایک شخص کہتا ہے اللہ ہمارے ساتھ ہے اور اس آیت مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ ۔ دلیل لاتا ہے کہا کہ بےشک وہ شخص جہمی ہوا یہ لوگ آخرآیت کو لیتے ہیں اور اول آیت کو چھوڑتے ہیں تو نے اس شخص کو اول سے کیوں نہیں پڑھ سنایا کہأَلَمْ تَرَ‌ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ پس علم اس کا ساتھ ان کے ہے ایسا ہی مذکور ہے ذہبی کی کتاب العلومیں اور امام احمد نے اپنی کتاب الددعلی الجھمیہ میں اس مسئلہ کوبہت طول سے بیان کیا ہے جس کو خواہش ہوا سےمطالعہ کرے وہ ایک بہت

كتاب مفيدجداوقدطبع فى الدهلى ضميمة لجامع البيان ولله الحمدوهذاالامام وان لم يكن من تابعى التابعين لكن ذكرته تبعا للائمة الثلثة-وقال محمد بن يحيى الذهلى اخبرنى صالح ابن  الفريس قال جعل عبدالله يضرب راس قرابة له برى برأى جهم فرايته يضرب بالنعل على راسه ويقول لا حتى تقول الرَّ‌حْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْ‌شِ اسْتَوَىٰ بائن من خلقه اخرجه ابن ابى حاتم وقال الخفاف جاء بشربن الوليدالى القاضى ابى يوسف فقال بشر المريسى وعلى الا حول وفلان يقولون الله فى كل مكان فقال ابويوسف على بهم فانتهوا اليهم وقدقام بشر فجىء بعلى الاحول وبالاخرشيخ فقال ابويوسف ونظر الى الشيخ لوان فيك موضع ادب لاوجعتك وضرب الاحول وطوف به اخرجه ابن ابى حاتم وقال يحيى ابن على بن عاصم قلت لابى ان بشرا المريسى يقول القران مخلوق-

ہی مفید کتاب ہے اور خدا تعالی کا شکر ہے کہ وہ دہلی میں تفسیر جامع البیان کے ساتھ چھپ چکی ہے اوریہ امام اگرچہ تبع تابعین سے نہیں ہیں لیکن ائمہ ثلاثہ کے ساتھ اس کا ذکر بھی مناسب سمجھا اور محمد بن یحیی ذہلی نے کہا کہ مجھ کو صالح بن فریس نے خبر دی کہ عبداللہ اپنے ایک رشتہ دار کو جو جہم کا مذہب رکھتا تھا جوتی سے پیٹ رہا تھا اس کے سر پر جوتے لگاتا تھا اور کہتا تھا کہ نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ تو قائل ہو اس کا کہ اللہ عرش پر  ہے اوراپنی مخلوق سے جدا ہے روایت کیا اس کو ابن ابی حاتم نے اور خفاف نے کہا کہ بشر بن ولید قاضی ابویوسف کی طرف آیا اور کہا کہ بشر مریسی اور علی احول اور علی حول اور فلانا شخص یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہر مکان میں ہے ابویوسف نے کہا کہ ان کو میرے پاس لاو جب ان کے پاس لے گئے تو بشر وہاں سے چل دیا اور علی احول او ر دوسرے کو جو بوڑھا تھا لائے ابویوسف نے بوڑھے کی طرف دیکھ کر کہا کہ اگر تجھ میں کچھ طاقت ہوتی تو میں تجھے پٹواتا اور شہر میں پھرواتا روایت کیا اس کو ابن ابی حاتم نے اور یحی بن علی بن عاصم نے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے کہا کہ بشر مریسی کہتا ہے کہ قرآن مخلوق ہے۔

وان الله معه فى الارض وكلاماذكرته فمارايته اشتدعليه مثل مااشتدفى ان الله معه فى الارض و ان القران مخلوق ذكره ابن ابى حاتم فى كتاب الردعلى الجهمية-

اقوال اتباع تابعى التابعين

قال نعيم بن حماد الخزاعى شيخ البخارى فى قول الله تعالى وهو معكم معناه لايخفى عليه خافية بعلمه اخرجه ابن مخلد وقال الحسن بن محمد سئل على بن المدينى وانا اسمع ماقول اهل الجماعة قال يومنون بالروية وبالكلام وان الله عزوجل فوق السموت على عرشه استوى فسئل عن قوله تعالى مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ فقال اقراء ما قبله الم تران الله يعلم اخرجه ابواسمعيل الهروى على ابن المدينى شيخ البخارى قال البخارى ما استصغرت نفسى الا بين يدى ابن المدينى وقال خالد بن سليمان قال السمنية لجهم

اوراللہ زمین میں اس کے ساتھ ہے اور دوسری باتیں اس کی میں نے ذکر کیں تو اس قدر اس کی کسی بات سے خفانہ ہوئے جس قدر کے ان دو باتوں سے خفا ہوئے  ایک یہ کہ اللہ اس کے ساتھ زمین میں ہےدوسری یہ کہ قرآن مخلوق ہے ذکر کیا اس کو ابن ابی حاتم نے کتاب الددعلی الجھلیہ میں، اتباع تبع تابعین کے اقوال نعیم بن حماد خزاعی استاذ بخاری نے وھو معلم کی تفسیر میں کہا کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اس کے علم سے کو چیز پوشیدہ نہیں روایت کیا اس کو ابن مخلد نے اورحسن بن محمد نے کہا کہ علی بن مدینی سے کسی نے پوچھا اور میں سنتا تھا کہ اہل سنت وجماعت کا ان مسائل میں کیا مذہب ہے کہا کہ ایمان لاتے ہیں کہ اللہ کا دیدار ہوگا اور اللہ کلام کرتا  ہے اور اللہ اوپر آسمانوں کے اپنے عرش پر ہے پھر سائل نے یہ آیت مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ ان کے پیش کی جواب میں کہا کہ اس کے پہلےأَلَمْ تَرَ‌ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ کو پڑھ یعنی ماقبل دلالت کرتا ہے کہ مراد اس سے علم ہے روایت کیا اس کو ابو اسمعیل ہروی نے علی بن مدینی امام بخاری کے استاذ ہیں، بخاری کہتے ہیں کہ میں نے اپنے کو کسی کے سامنے چھوٹا نہیں سمجھا مگر علی بن مدینی کے سامنے اور خالد بن سلیمان نے کہا کہ سمنیہ نے جہم سے کہا کہ

وصف لناربك الذى تعبده فقال هوهذالهوى مع كل شئى وفى كل شئى ولايخلومنه شئى قال خالد بن سليمان كذب عدوالله ان الله فى السمآء على العرش اخرجه ابن ابى حاتم- وقال اسحاق بن راهويه قال الله تعالى الرَّ‌حْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْ‌شِ اسْتَوَىٰ اجمع اهل العلم انه فوق العرش ويعلم كل شئى فى اسفل الارض السابعة قال حرب بن اسمعيل قلت لاسحق بن راهوبه قوله تعالى مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ كيف تقول فيه قال حيث ماكنت فهواقرب اليك من حبل الوريدوهوبائن من خلقه ثم ذكر عن ابن المبارك قوله هوعلى عرشه بائن من خلقه اخرجهما الخلال وقال قتيبه بن سعيد قول الائمة فى الاسلام والسنة والجماعة تعرف ربنا فى فى السماء على العرش اخرجه الحاكم اسمع وجيك الى هذين الامامين كيف نقلاالاجماع على هذه المسئلة قال موسى الطرطوسى  قلت لسنيد بن ابى داودهوعلى عرشه بائن من خلقه قال نعم الم تسمع قوله تعالى

وصف بیان کر اپنے رب کے جس کو پوجتا ہے کہا وہ یہ ہواہے ہرچیز کے ساتھ اورہر چیز میں اوراس سے کوئی چیز خالی نہیں تو خالد نے کہا جھوٹا ہے، اللہ کا دشمن تحقیق اللہ تعالے اوپر آسمانوں کے عرش پر ہے، روایت کیا اس کو ابن ابی حاتم نے اور اسحق بن راہویہ نے کہا اللہ تعالی فرماتا ہے کر رحمن عرش پر قائم ہوا اہل علم نے اجماع کیا ہے، کہ اللہ تعالی عرش پر ہے اورہر چیز کو ساتویں زمین کے نیچے تک جانتا ہے، حرب بن اسمعیل نے کہا کہ میں نے اسحق بن راوہویہ سے پوچھا کہ آپ اللہ کے اس قول مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ میں کیا فرماتے ہیں کہا کہ جہان تو ہو وہ شاہرگ سے بھی تیرے قریب ہے  (یعنی ساتھ علم کے ) اوروہ مخلوق سے جدا ہے پھر ابن مبارک کا یہ قول ذکرکیا کہ وہ اپنے عرش پر ہے اور مخلوق سے جدا ہے روایت کیا ان ہر دو اثر کو خلال نے اور قتبہ بن سعید نے کہا کہ ائمہ مسلمین اہل سنت وجماعت کا یہ قول ہے کہ ہم اپنے ر ب کو آسمانوں پر عرش کے اوپر جانتے ہیں روایت کیا اس کو حاکم نے افسوس تم پر بھلاان دواماموں کے قول تو گوش ہوش سے سنو کہ انہوں نے اس مسئلہ میں کیسا اجماع نقل کیا ہے موسی طرطوسی نے کہا کہ میں نے سنید بن ابی داود سے پوچھا کیا اللہ اپنے عرش پر مخلوق سے جدا ہے کہا کہ ہاں کیا تو نے نہیں سنا اللہ تعالے

وَتَرَ‌ى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْ‌شِ اخرجه ابوحاتم اخرج ابن ابى حاتم وشنخ الاسلام باسانيدهماان هشام بن عبدالله الرازى حلبس رجلافى التجهم فتاب فجئى به هشام ليمتحنه فقال الحمدلله على التوبة-

فقال اتشهد ان الله على عرشه بائن من خلقه فقال فقال اشهد ان الله على عرشه ولاادرى مابائن من خلقه فقال ردوه الى الحبس فانه لم يتب بعد قال الحافظ الذهبى هشام بن عبيدالله من ائمة الفقه على مذهب ابى حنيبة تفقه على محمد بن الحسن كان ذاجلالة عجيبة وحرمة عظيمة ببلده وقال اصبغ وهو مستوى على عرشه و بكل مكان علمه واحاطته واصبغ من اصحاب مالك وافقهم نقله الحافظ ابن القيم وقال عثمان بن سعيد الدارمى صاحب يحيى بن معين وعلى بن المدينى فى كتاب النقض على بشروالله فوق سموته بائن من خلقه

کےاس قول کو وَتَرَ‌ى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْ‌شِ روایت کیا اس کو ابو حاتم نے اور روایت کیاابن ابی حاتم اور شیخ الاسلام نے اپنی سندوں کے ساتھ کہ ہشام عبداللہ رازی نے ایک شخص کو بسبب جہمی ہونے کے قید کیا پھر جب اس نے توبہ کی اورہشام نے آزمانے کو اپنے پاس بلوایا تو کہا کہ سب تعریف کو ہے جس نے تم کو توبہ کی توفیق دی ہشام نے پوچھا کیا اقرار کرتا ہے کہ اللہ عرش پر ہے، اوراپنی مخلوق سے جدا ہے کہا کہا اقرار کرتا ہوں کہ اللہ عرش پر ہے لیکن اس کا اقرار نہیں کرتا کہ اپنی مخلوق سے جدا ہےہشام نے حکم دیا کہ اس کو قید خانہ  میں پھر لے جاو ابھی تک اس نے مذہب جہم سے توبہ نہیں کی حافظ ذہبی نے کہا کہ ہشام ابوحنیفہ کے مذہب میں فقہ کا امام ہے امام محمد بن حسن سے فقہ کو حاصل کیا اپنے شہر میں اس کی بڑی جلالت اورعزمت تھی اور اصبغ نے کہا کہ اللہ تعالی عرش پر ہے اورعلم اوراحاطہ اس کا ہر مکان میں ہے اور اصبغ امام مالک کے شاگردوں میں سب سے بڑا فقہیہ تھا نقل کیا اس کو حافظ ابن قیم نے اورعثمان بن سعید دارمی صاحب یحی بن معین اور علی بن مدینی نے اپنی کتاب النقض علی بشر میں کہا کہ اللہ آسمانوں پر اپنی مخلوق سے جدا ہے

فمن لم يعرف ذلك لم يعرف الهه الذى يعبده وقال فيه ايضا ولكنا نقول اله السموات والارض على عرش عظيم مخلوق فوق السماء السابعة دون ماسواهامن الاماكن من لم يعرفه بذلك كان كافربه وبعرشه قال الذهبى فال ابو الفضل الفرات ماراينا مثل عثمان بن سعيد ولا رأى هو مثل نفسه قلت وماهوفى العلم بدون ابى محمد الدارمى السمرقندى انتهى وقال عبدالوهاب الوراق شيخ ابى داودو الترمذى والنسائى من زعم ان الله ههنا فهوجهمى خبيث ان الله فوق العرش وعلمه محيط بالدنيا والاخرة قال ابن القيم صح ذلك عنه حكاه عنه محمد بن عثمان فى رسالته فى الفوقية وقال عبدالرحمن بن ابى حاتم سألت ابى وابازرعة عن مذهب اهل السنة فى اصول الدين وما ادركا عليه العلماء فى جميع الامصار ومايعتقدان فى ذلك فقالا ادركنا العلماء فى جميع الامصار حجازاوعراقاومصراوشاماويمنا فكان من مذهبهم ان الله تبارك

جس نےیہ نہ پہچانا اس نے اپنے معبودکو نہ پہچانااوراسی کتاب میں کہا ہے کہ لیکن ہم اہل سنت یہ کہتے ہیں، کہ معبود آسمان اورزمین ولواں کا عرش پر ہے جو ایک بڑی مخلوق ہے ساتوں آسمان سے اوپر اور سوائے عرش کے اللہ اورکسی مکان میں نہیں ہے جو کوئی اس کو اس طرح نہیں پہچانتا وہ منکر ہے اس کا اور اس کے عرش کا ذہبی نے کہا کہ ابوالفضل نے کہا کہ ہم مثل عثمان بن سعید کے کوئی نہیں دیکھا اورنہ اس نے اپنے جیسا کوئی دیکھا میں  (ذہبی) کہتا ہوں کہ وہ علم میں ابومحمد دارمی سمرقندی سے کم نہ تھا اور عبدالوہاب دراق استاذ ابوداوداورترمذی اورنسائی نے کہا کہ جو کوئی قائل ہو اس کا کہ اللہ اس جگہ  (زمین میں) ہے وہ جھمی خبیث ہےتحقیق اللہ اوپر عرش کے ہے اور علم اس کا دنیااور آخرت کو محیط ہے ابن قیم نے کہا کہ یہ روایت صحیح ہےحکایت کیا اس کو اس سے محمد بن عثمان نے اپنے رسالہ فوقیت میں اور عبد الرحمٰن بن ابی حاتم نے کہا کہ میں اپنے باپ ابو حاتم سے اور ابو زرعہ سے پوچھا کہ اس مسئلہ میں اہل سنت کے ائمہ اور زمانہ حال علماء کا جمیع شہروں میں کیا مذہب ہے اور کیا عقیدہ رکھتے ہیں دونوں نے کہا کہ حجاز اور عراق اور مصر اور شام اور یمن سب شہروں میں جن علماء کو ہم نے پایا سب کا یہی مذہب تھا کہ اللہ تبارک

وتعالى على عرشه بائن من خلقه  كما وصف نفسه بلاكيف احاط بكل شئى علما ابواسمعيل الانصارى واخرج ايضا عن زرعة الرازى انه قال هو على عرشه وعلمه فى كل مكان من قال غير هذا فعليه لعنةالله واخرج ايضا عن يحى بن معاذالرازى ان الله على العرش بائن من خلقه احاط بكل شئى علما لايشدعن هذه المقالة الاجهمى كان يحى ابن معاذ و ابوحاتم من طبقة البخارى قال الذهبى ابوزرعة امام اهل الحديث فى زمانه بحيث ان احمد قال ماعبرجمربغداداحفظ من ابى زرعة وكان من الابدال الذين تحفظ بهم الارض و ابوحاتم من كبارائمة اهل الاثرحدث عنه ابوداودوالكبائرقال الحاكم وجدت بحظ ابى عمروالمستملى سئل محمد بن يحيى الذهبى عن حديث ليعلم العبدان الله معه حيث كان قال يريدان الله علمه محيط بكل مكان وهوعلى العرش انتهى وكان الذهبى شيخ ارباب اصحاح الستة وقال اسماعيل بن يحيى المزنى انبل تلامذة المشافعى فى رسالته فى الستة عال عرشه بائن من خلقه وقال ايضا فيها

وتعالی اپنے عر ش پر ہے ۔ اوراپنی مخلوق سے جدا ہےجیساکہ اس نے اپنی ذات کو بلاکیف بیان کیا ہے ۔ احاطہ کیا اس نے ہر چیز کا ساتھ علم اپنے کے روایت کیا اس کو ابواسماعیل انصاری نے اور نیز اس نے روایت کیا ۔ ابوزرعہ رازی سے کہ اس نے کہا اللہ اپنے عرش پر ہے اورعلم اس کا ہر مکان میں ہے جو کوئی سوائے اس کے کہے اس پر اللہ کی لعنت ہے اورنیز اسی نے روایت کیا یحیی بن معاذرازی سے کہ اللہ عر ش پر ہے اوراپنی مخلوق سے جدا ہے، احاطہ کیا اس نے ہر چیز کا ازروئے علم کے کوئی اس قول سے اعراض نہیں کرتا مگر جہمی یحیی بن معاذ اورابوحاتم طبقہ بخاری سے ہیں ۔ ذہبی نے کہا کہ ابوزرعہ زمانے کے اہل حدیث کا امام ہے چنانچہ امام احمد نے کہا کہ پل بغداد پر کسی نے عبورنہیں کیا جوابوزرعہ سے احفظ ہواوروہ ابدال سے ہے جن کے سبب سے زمین محفوظ ہے اورابوحاتم ائمہ کبارسے ہے ابوداوداوربڑے لوگوں نے اس سے حدیث اخذکی ہے حاکم نے کہا میں نے عمر مبسیلی کا لکھا ہوادیکھا کہ کسی نے محمد بن یحیی ذہلی سے اس حدیث کے معنے پوچھے ليعلم العبدان الله معه حيث كان توکہا معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ کا علم ہر مکان کو محیط ہے اور وہ عرش پر ہے انتھی اور ذہلی سب صحاستہ والوں کا استاذ ہے اسماعیل بن یحیی مزنی شاگردرشید امام شافعی نے اپنے رسالہ سنت میں کہا کہ اللہ عرش پر ہے بلند ہے اوراپنی مخلوق سے جدا ہےاوراسی میں کہا کہ اپنے عرش پر

عال على عرشه دان بعلمه من خلقه ايضا قال فيها قريب بالاجابة عندالسوال بغيدبالبعد لاينال على عرشه بائن من خلقه و ذكر سائر المعتقدثم قال وهذه مقالات اجتمع عليها الماضون الاولون من امة الهدى وبتوفيق الله اعتصم به التابعون قدرة ورضا قال ابراهيم الحرنى فيماصح عنه قال احمدبن نصر وسئل عن علم الله فقال علم الله معنا وهو على عرشه- وقال محمد بن ابى شيبة فى كتاب العرش له فسرت العلماء وهو معكم يعنى علمه ثم تواترت الاخياران الله تعالى خلق العرش فاستوى عليه فوق العرش متخلصا من خلقه بائنامنهم-

اقوال ائمة الحديث والفقه والتصوف والكلام بعدالمائةالثالثة الى تمام المائة السادسة

قال حماد بن هنادهذامارايناعليه اهل الامصارومادلت عليه

بلندہے اور اپنے علم کے ساتھ مخلوق سے قریب ہے اوراسی میں کہا کہ ازروئے قبول کرنے سوال کے قریب ہے اورساخت میں بعید ہے ایسا کہ کوئی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا اپنے عرش پر ہے اور مخلوق سے جدا ہے اوردیگر اعتقادیات کو بیان کرکے کہا کہ یہ باتیں جو ہم نے ذکر کی تھیں ان پر پہلے لوگوں ائمہ ہدی (یعنے صحابہ کااتفاق ہے اوراللہ کی توفیق سے تابعین نے بھی جو مقتدااوربرگزیدہ ہیں اس کے ساتھ اعتصام کیا ہے اور ابراہیم حربی نے کہا کہ احمد بن نصراللہ کے علم سے پوچھے گئے توکہا کہ علم اللہ کا ہمارے ساتھ ہے اوروہ عرش پر ہے اورمحمد بن ابی شیبہ اپنی کتاب العرش میں فرماتے ہیں کہ اہل علم نے وھومعکم میں معیت کی علم سے تفسیر کی ہے اور متواترحدیثوں سے ثابت ہےکہ اللہ تعالے نے عرش کو پیداکیا پھر اس پر قرار پکڑا تووہ اوپر عرش کے اپنی مخلوق سے علیحدہ اورجدا ہے ائمہ محدثین اور فقہاء اور ہل تصوف اوراہل کلام جوبعد تیسری صدی کے آخر چھٹی صدی تک گزرہیں ان کے اقوال کا بیان حماد بن ھناد نے کہا کہ ہم نے سب شہروں کے علماء اہل سنت کو اس طریق اور

مذاهبهم فيه وايضاح منهاج العلماء وصفة السنة واهلها ان الله فوق السمائ السابعة على عرشه بائن من خلقه وعلمه وسلطانه وقدرته بكل مكان اخرجه شيخ الاسلام الهروى، واخرج الحاكم فى علوم الحديث وفى تاريخ نيسابورعن محمدبن صالح يقول سمعت الامام الائمة ابابكر بن خزيمة يقول من لم يقر بان الله على عرشه بائن من خلقه فهوكافريستتاب فان تاب والاضربت عنقه وانقى على مزبلة لئلا يتاذى بريحه اهل القبلة واهل الذمة كان ابن خزيمة راسانى الحديث راسانى الفقه من دعاة السنة قاله الذهبى وكفى له منقبة ان اشتهربين المسلمين باماء الائمة وقال زكريا الساجى القول فى السنة التى رايت عليها اصحابنا اهل الحديث الذين لقينا هم ان الله على عرشه فى سمائه يقرب من خلقه كيف شاء اخرجه ابن بطة قال الحافظ الطبرانى الذى قال فيه الذهبى محدث الدنيا انتهى اليه علوالاسنادفى كتاب السنة له باب ما جاء فى استواء الله على عرشه بائن من خلقه فساق حديث الاوعال وغيره فى الباب

مذہب پر  پایا کہ اللہ ساتویں آسمان پر اوپر عرش کے مخلوق سے جدا ہے اور اس کا علم غلبہ اور قدرت ہر مکان  میں ہے روایت کیا اس کو شیخ الاسلام ہروی نے اور حاکم نے علوم الحدیث اور تاریخ پنسا پور میں محمد بن صالح سے نقل کیا وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام الائمہ ابوبکر بن خزیمہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ جو کوئی اس بات کا اقرار نہ کرے کہ اللہ عرش پر ہے اور مخلوق سے جدا ہے تو وہ کافر ہے اس سے توبہ کرے تو نبہبا ورنہ قتل کر کے گندگی کی جگہ ڈال دیا جاوئے تو اس کی بدبو سے اہل قبلہ اور ذمی ایذا نہ پاویں ابن خزیمہ رئیس تھے حدیث میں اور رئیس تھے فقہ میں سنت کی طرف بلانے والے تھے کہا اس کو ذہبی نے اوران کی بزرگی کے لئے یہی کافی ہے جواہل اسلام میں امام الائمہ کے لقب سے مشہور ہیں ذکریا ساجی نے کہا کہ قول موافق سنت کے جس پر میں نے اپنے اصحاب اہل حدیث کو پایا اور ان سے ملاقات کی یہ ہے کہ اللہ عرش پر ہے آسمان کے اوپر قریب ہوتا ہے مخلوق سے جس طرح چاہے روایت کیا اس کو ابن بطہ نے حافظ طبرانی جن کے حق میں ذہبی نے کہا کہ وہ استاذحدیث ہیں سب لوگوں کے علم اسنادانہیں کی طرف منتہی ہے وہ کتاب السنہ میں فرماتے ہیں کہ یہ باب ہے اس بیان میں کہ اللہ عرش پر ہےاورمخلوق سے جدا ہےپھر اس باب میں حدیث بزکوی کی۔

وقال الحافظ ابوبكرالاجرى امام عصره فى الحديث والفقه فى كتاب السنة فان قيل فاى شئى معنى قوله مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ قيل علمه والله على عرشه وعلمه محيط بهاكذافسره اهل العلم والاية تدل اولها واخرهاعلى انه العلم وهو على عرشه هذا قول المسلمين قال الحافظ ابو نعيم صاحب الحلية فى عقيدته وانه سبحانه بائن من خلقه و خلقه بائتون منه بلاخلول ولاممازجة ولااختلاط ولاملاصقة لانه البائن الفردوقال ايضا طريقنا طريق السلف المتبعين للكتاب والسنة واجماع الامة وساق ذكراعتقادهم ثم قال ومما اعتقادوه ان الله فى سمآئه دون ارضه وقال البيهقى فى كتاب المعتقدله وفيما كتبنامن الايات دلالة على ابطال قول من زعم من الجهمية بان الله بذاته فى كل مكان وقوله وهومعكم اينماكنتم انماارادبعلمه لا بذاته شهرة البيهقى وجلالته تغنى عن التعريف-

 (جوپہلے مذکور ہوچکی ہے) اور کئی حدیثیں بیان کیں حافظ ابوبکر آجری جواپنے زمانہ میں حدیث اورفقہ کے امام تھے کتاب السنہ میں کہتے ہیں اگر کوئی کہے کہ آیہ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ کےکیا معنے ہیں تو کہا جائے گا کہ علم اس کا ساتھ ان کے ہے اوروہ عرش پر ہے اورعلم اس کا سب کو محیط ہے اہل علم نے اس کی اس طرح تفسیر کی ہے اور آیت کا اول اورآخر بھی دلالت کرتا ہے کہ مراد اس سے علم ہے اوروہ عرش پر ہے یہی قول ہے مسلمانوں کا حافظ ابونعیم صاحب اپنے عقیدے میں فرماتے ہیں کہ وہ مخلوق سے جدا ہے اورمخلوق اس سے جدی ہے کسی طرح کا دونوں میں نہ حلول ہے اورنہ ملاواورنہ اختلاط اوراجماع کیونکہ وہ جدا اکیلا ہے اوراسی میں کہا کہ ہمارا طریقہ وہی ہے جومتبعین کتاب اللہ اورسنت رسولؐ اللہ اوراجماع امت کا تھا اوران کے اعتقاد کو ذکر کیا پھر کہا کہ ان کے اعتقادوں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ آسمان پر ہے نہ زمین پر اوربیہقی نے اپنی کتاب المعتقد میں کہا کہ ہم نے جو آیتیں لکھی ہیں، اس پر دال ہیں کہ جمہیہ کا یہ قول کے اللہ بذاتہ ہر مکان میں ہے باطل ہے اوراس پر دال ہے کہوهو معكم اينماكنتممیں معیت علمی مراد ہے نہ ذاتی بیہقی کی شہرت اوربزرگی ایسی ہے جو بیان کرنے کی حاجت نہیں،

وقال ابوالقاسم اللالكائى فى كتاب شرح اعتقاد اهل السنة فدلت هذه الايات انه فى السماء وعلمه بكل مكان روى ذلك عن عمروابن مسعودوابن عباس وام سلمة ومن التابعين ربيعة وسليمان التيمى ومقاتل بن حيان وبه قال مالك والثورى واحمد وقال ابوعمر الطلمنكى المالكى فى كتاب اوصول الى معرفة الاصول اجمع المسلمون من اهل السنة على ان معنى قوله وهو معكم اينماكنتم ونحوذلك من القران انه علمه وان الله تعالى فوق السموت بذاته مستوى على عرشه وقال الامام مالك الصغير عبدالله بن ابى زيدفى كتابه المفردفى السنة فصل فيما اجتمعت عليه الامة من امور الديانة فذكرسائر المعتقد الى ان قال وانه فوق سموته على عرشه دون ارضه وانه فى كل مكان بعلمه ثم قال وكل ماقدمناذكره فهوقول اهل السنة وائمة الناس فى الفقه والحديث على مابيناه وكله قول مالك وقال ابن زمنين الملالكى فى كتاب اصول السنة

ابوالقاسم لالکائی کتاب شرح اعتقاد اہل السنہ میں فرماتے ہیں کہ یہ آیتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ آسمان پر ہے اورعلم اس کا ہر مکان میں ہے یہی مروی ہے حضرت عمرؓ اورابن مسعودؓاورابن رعباسؓ اورام سلمہؓ سے اورتابعیوں میں ربیعہ اورسلیمان  تیمی اورمقائل بن حیان سے اوریہی قول ہے مالک اورثوری اوراحمد کا ابوعمرطلمنکی مالکی کتاب الوصول فی معرفت الاصول میں فرماتے ہیں کہ اہل سنت مسلمانوں نے اس پر اجماع کیا ہے کہوهو معكم اينماكنتم اورمانند اس کے آیتوں کے یہ معنے ہیں کہ علم اس کا ان کے ساتھ ہے اوراس پر کہ اللہ تعالی آسمانوں کے اوپر عرش پر بذاتہ ہے اورامام مالک صغیر۔ یعنے عبداللہ بن ابی زید اپنی کتاب المفردفی السنہ میں فرماتے ہیں فصل ان مسائل دینی کے بیان میں جن پر امت کا اجماع ہے پس ذکر کیا سب معتقدات کو یہاں تک  کہ کہا اللہ اوپر آسمانوں کے عرش پر ہے نہ زمین پر اوروہ اپنے علم کے ساتھ ہرمکان میں ہے پھر کہا کہ یہ سب مسائل جو ہم نے ذکر کئے اہل سنت کا مذہب ہے اور ائمہ محدثین اورفقہاء اسی پر ہیں اورامام مالک کا بھی قول ہے، اورابن زمنین مالکی کتاب اصول السنہ میں فرماتے ہیں

من قول اهل السنة ان الله تعالى بائن من خلقه محتجب عنهم بالحجب تعالى الله عما يقول الظالمون علواكبيراوقال امام الشافعية ابوبكر التيمى لا اصلى خلف من ينكر الصفات والا خلف من لم يثبت القران فى المصحف ولايقربان الله فوق فوق عرشه بائن من خلقه رواه الحافظ عبدالقادر مسنداوقال الامام محمد بن الموصلى الشافعى فى كتاب سيف السنة فى قطع رقاب الجهمية ان الله سبحانه قدبين فى القران غاية البيان انه فوق سموته وانه مستوى على عرشه وانه بائن من خلقه وان الملئكة تعرج اليه وانه رفع المسيح اليه وانه يصعداليه الكلم الطيب الى سائر مادلت عليه النقوص من مبائنتة لخلقه وعلوه على عرشه وقال ابوالحسن الاشعرى امام الاشعرية فى الابانة وراينا المسلمين جميعا يرفعون ايديهم اذادعوانحوالسمآء لان الله مستوى على عرشه الذى هو فوق السموت فلولاان الله على العرش لم يرفعو ايديهم نحوا العرش وقدقال قائلون من المعتزلة والجهمية والحرورية ان معنى استوى،  استوى وانه تعالى فى كل مكان وجحدوا

کہاہل سنت کا یہ قول ہے اللہ تعالی مخلوق سے جدا ہے اورکئی حجابوں میں ان سے دور ہے پاک ہے اوربرتر ہے اللہ اس بات پر جو ظالم لوگ  (یعنی جہمیہ) کہتے ہیں اورابوبکر تیمی امام الشافیہ نے کہا کہ میں منکر صفات کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا۔ اورنہ اس کے پیچھے جو قرآن کو اس مصحف میں نہیں جانتا اورنہ اس کے پیچھے جو اقرار نہیں کرتا اس کہ اللہ اپنے عرش پر ہے اورمخلوق سے جدا ہے روایت کیا اس کو حافظ عبدالقادرنے سند سے اورامام محمد بن موصلی شافعی کتاب سیف السندفی قطع رقاب الجہمیہ میں فرماتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن میں بہت واضح طور پر بیان فرمایا ہے ۔ کہ وہ اوپر آسمانوں کے ہے، اوروہ عرش پر ہے اورمخلوق سے جدا ہے۔ اوریہ کہ فرشتے اس کی طرف چڑھتے ہیں اوریہ کہ مسیح علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھالیااوریہ کلمات اس کی طرف چڑھتے ہیں اور کئی آیتیں جودلالت کرتی ہیں کہ وہ مخلوق سے جدا ہے اورعرش کے اوپر  ہےاورابوالحسن اشعری امام اشعریہ ابانہ میں فرماتے ہیں کہ ہم نے سب مسلمانوں کو دیکھا کہ دعا کے وقت آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ تعالی عرش پر ہے جو آسمانوں کے اوپر ہے ۔ اگر اللہ عرش پر نہ ہوتا تو اپنے ہاتھ عرش کی طرف نہ اٹھاتے اورمعتزلہ اورجہمیہ  اورحروریہ یہ کہتے ہیں۔ کہ معنے استوی کے استوی ہیں اوراللہ تعالی ہر مکان میں ہے اورانکارکرتے ہیں۔

ان يكون على عرشه كما قال اهل الحق وقال فيه ايضا ومن دعاء اهل الاسلام جميعا اذاهم رغبواالى الله عزوجل فى الامرالنازل بهم يقولون جميعا ياساكن العرش ومن خلفهم جميعا لاوالذى احتجب بسبع سموت-قلت فيه حديث ابن عمر مرفوعا ان الله خلق سموت سبعا فاختارالعليافسكنها واسكن سموته من شاء من خلقه اخرجه ابن خزيمة فى كتاب التوحيد قال الذهبى هو حديث منكروفيه دعاء داودعليه السلام اليك رفعت راسى ياعامرالسماء نظر العبيدالى اربابهاياساكن السماء وصله الذهبى الى ثابت البنانى وقال اسناده صالح وفيه دعاء يونس عليه السلام سيدى فى السماء مسكنك وفى الارض قدرتك وعجائبك فى سنده ابوحذيفة البخارى كذاب قال الذهبى حديث باطل فمثل هذه الروايات لايصلح للاحتجاج فاطلاق هذا للفظ عليه سبحانه عندى والله اعلم

اس  کے عرش ہونے کا جیسا کہ اہل حق کہتے ہیں اوراس میں کہا کہ سب اہل اسلام وقت نزول بلاکے اللہ کی طرف رغبت کرکے اس کو اس طرح پکارتے ہیں کہ اے رہنے والے عرش کے اورقسم ان سب کی یہ ہے کہ قسم ہے اس ذات کی جو سات آسمانوں کا حجاب رکھتا ہے، میں کہتا ہوں کہ اس میں حدیث مرفوع بھی ابن عمر سے مروی ہے، کہ اللہ نے سات آسمان بنائے پھر سب بلند پر سکوت اختیار کی اور آسمانوں میں خلقت بسائی روایت کیا اس کو ابن خزیمہ نے کتاب التوحید میں ذہبی نے کہا کہ یہ حدیث منکر ہے اوراسی کی اطلاق سکونت میں ہے دعا ءداودکی کہ تیری طرف اٹھایا میں نے سر اپنے کو اے آباد کرنے والے آسمان کے مانند نظر بندوں کی طرف مالکوں اپنوں کے اے رہنے والےآسمان کے وصل کیا اس کو ذہبی نے ثابت بنائی تک اورکہاکہ اسناد اس کی صالح ہےاوراسی میں ہے دعا یونسؑ کی کہ اے سردارمیرے آسمان پر ہے جائے سکونت تیری اورزمین پر ہے قدرت تیری اورعجب نمونے قدرت تیر ی کے اس کی سند میں ابو حذیفہ بخاری کذاب ہے ذہبی نے کہا کہ یہ حدیث باطل ہے پس ایسی روایتیں حجت کے لائق نہیں اورحقیقت حال تو اللہ تعالی

ماخوذمن الاستواء كالاستقرارمالاستواء والاستقرار والسكون بمعنى وقال ابوالحسن الطبرى تلميذ الاشعرى فى كتاب مشكل الايات فى باب قوله الرَّ‌حْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْ‌شِ اسْتَوَىٰ اعلم ان الله فى السماء فوق كل شئى مستوى على عرشه بمعنى انه عال عليه ومعنى الاستواء الاعتلاءكماتقول العرب استويت على ظهرالرابة واستويت على السطح بمعنى علوته و استويت الشمس على راسى واستوى الطيرعلى قمدراسى بمعنى على فى الجوفوجد فوق راسى الى ان فان قيل فما تقولون فى قوله وهو الله فى السموت والارض –

قيل له ان بعض القرائ يجعل الوقف فى السموت ثم يبتدى وفى الارض يعلم وكيف ما كان فلوان قائلا قال فلان بالشام والعراق ملك لدل على ان ملكه بالشام والعراق لا ان ذاته فيهما قال الذهبى الطبرى راس فى المتكلمين وقال ابن كلاب ولاوجدنااحداغيرالجهمية يسئال عن ربه

خوب جانتا ہے لیکن لفظ سکونت کا اللہ تعالی پر مانند استقرارکے استواءسےماخوذہےپس استواء اور استقرار اورسکون کے ایک ہی معنے ہیں اورابوالحسن طبری شاگرداشعری نے شکل الایات میں بیچ باب آیتہ الرحمن علی العرش استوی کے کہا ہے کہ جان اوریقین کراس بات کا کہ اللہ آسمانوں پر ہر چیز سے بلند عرش پر مستوی یعنی بلند ہے اوراستواء کے معنی اعتلایعنی بلندی کے ہیں جیسا عرب بولتے ہیں کہ میں دابہ کی پیٹھ پر مستوی ہوا یعنی اس پر چڑہااورچہت پر مستوی ہوا یعنی چڑہا اورسورج میرے سر پر مستوی ہوایعنی سرکے برابر چڑھ آیا اورجانور میرے سر کی چوٹی پر مستوی ہوا یعنی خلا میں میری چوٹی کے برابر قائم ہواآگے چل کرکہا کہ اگر کوئی کہے کہ اس آیت وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَوَاتِ وَفِي الْأَرْ‌ضِ ہیں کہتے ہوکہا جاوئے گاکہ اول توبعض قراء فِي السَّمَوَاتِ پروقف کرتے ہیں اور وَفِي الْأَرْ‌ضِ کوماقبل سے علیحدہ کرکے پڑھتے ہیں ثانیااگروقف نہ بھی کیا جائے توبھی اگر کوئی کہے کہ فلان شام اورعراق میں بادشاہ ہے تواسی پر دلالت کرتا ہے کہ بادشاہی اس کی شام اورعراق میں ہے نہ  یہ کہ اس کی ذات ان میں ہے ذہبی نے کہا کہ طبری متکلمین میں سرادر ہے اورابن کلاب نے کہا کہ ہم نے سوائے جہمیہ کے کسی کو نہیں پایا جواپنے رب سے

فيقول فى كل مكان كمايقولون وهم يدعون انهم افضل الناس كلهم فتاهت العقول وسقطت الاخبارواهتدى جهم وخمسون رجلامعه نعوذبالله من مضلات الفتن نقله ابن فورك فيما جمعه من مقالاته وقال شيخ الصوفية الامام العارف معمرالاصبهانى احببت ان اوصى اصحابى بوصية من السنة واجمع ما كان عليه اهل الحديث واهل التصوف والمعرقة فذكراشياء الى ان قال وان الله استوى على عرشه بلاكيف ولاتشبيه ولاتاويل والاستواء معقول والكيف مجهول وانه بائن من خلقه والخلق بائنون منه فلاحلول ولاممازجة ولاملاهقه نقله الحافظ الذهبى وقال شيخ الاسلام الانصارى امام الصوفية كتاب الصفات له باب اثبات استواء الله على عرشه فوق السماء السابعة بائنا من خلقه من الكتاب والسنة فساق حجة من الايات والحديث الى ان قال وفى اخبار شى ان فى السماء السابعة على عرشه بنفسه وينظركيف تعلمون وعلمه وقدرته واسماعه ونظره ورحمته وكل مكان وقال العارف عبدالقادر جيلانى الغنية وهو بائن من خلقه ولايخلومن علمه مكان لايجوزوصفه بانه فى كل مكان بل

پوچھاجاوئے تو کہے کہ وہ ہر مکان میں ہے جیسا کہ یہ کہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سب سے افضل ہیں سب کی عقلوں پر پردہ آگیا اور سب حدیثیں ساقط ہوگئیں اور ایک مبہم اور اس کے ساتھ پچاس آدمی ہدایت والے ہوئے اللہ ان گمراہیوں سے پناہ میں رکھے نقل کیا اس کو ابن فورک نے اس مجموعہ میں جس میں مقالات ابن  کلاب کو جمع کیا اور شیخ صوفیہ امام عارف معمر اصبہانی نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنے یاروں کو وصیت کروں سنت کی اور جس پر اہل حدیث اور اہل تصوف اور مورفت چلے آتے ہیں۔ پس ذکر کیا کئی چیزوں کو یہاں تک کہ کہا کہ اللہ عرش پر مستوی ہے سوائے کیفیت اور تشبہہیہ اور تاویل کے استواء معلوم ہے کہ کیفیت اس کی نامعلوم اور وہ مخلوق سے جدا ہے اور مخلوق اس سے جدا ہے پس نہ حلول ہے اور نہ ملائو اور پیوندی نقل کیا اس کو ذہبی نے اور شیخ الاسلام انصاری امام صوفیہ کی کتاب الصفات میں فرماتے ہیں کہ باب اس بیان میں کہ اللہ کا عرش ساتوں آسمان کے اوپر ہونا اوراس کا  مخلوق سے جدا ہونا ہردوقرآن حدیث سے ثابت ہیں پھر کیا آیتوں اورحدیثوں کو یہاں تک کہ کہا کہ کئی حدیثوں میں ثابت ہے کہ بذاتہ ساتویں آسمان کے اوپر عرش پر ہے ۔ اوردیکھتا ہے جیسا کچھ کرتے ہو اوراس کا علم اور قدرت اورسننا اوررحمت ہر مکان میں ہے عارف شیخ عبدالقادر جیلانی غنیتہ الطالبین میں فرماتے ہیں کہ اللہ مخلوق سے جدا ہے ۔ اوراس کے علم سے کوئی مکان خالی نہیں ۔ اورجائز نہیں یہ کہنا کہ وہ ہر مکان میں ہے بلکہ یہ کہا جاوے کہ وہ آسمان پر عرش کے اوپر ہے اور

يقال انه فى السماء على العرش وكونه على العرش مذكور فى كل كتاب انزل على كل نبى ارسل بلاكيف انتهى مختصرا وقال اسماعيل التيمى فى كتاب الحجة قال علماء السنة ان الله عزوجل على عرشه و بائن من خلقه وقالت المعتزلة هو بذاته فى كل مكان وقد صرح بفوقية تعالى على العرش ومباينته عن المخلوق ابن وهب المالكى فى شرحه لرسالة ابن ابى زيدوالوعثمان الصابونى فى رسالته المشهورة فى السنة وامام الصوفية محمد بن عثمان المكى فى كتابه اداب المريدين ويحيى ابن عمارفى رسالته والقرطبى فى شرحه و القاضى ابوبكرالباقلانى فى كتاب التمهيدوغيرهم يطول بذكرهم الوصف وهذا باب لايمكن استيعابه لكثرة مايوجدمن كلام اهل السنة فيه وقدذكرت منه ان موزحا ليكون سمة على ما سواه المصنف يكفيه هذا القليل والمتعصب محروم وان اتممت عليه القران والتورية والانجيل ومانقلت فى هذه الوريقات فاكثرها من كتاب

اس کا عرش پر ہونا بلا کیفیت کے سب کتابوں میں جو اللہ نے پیغمبروں پر نازل فرمائیں مذکورہے اوراسمعیل تیمی کتاب الحجتہ میں فرماتے ہیں کہ علماء اہل سنت کہتے ہیں کہ اللہ عرش پر  ہے اور مخلوق سے جدا ہےاورمعتزلہ کہتے ہیں کہ وہ بذاتہ ہرمکان میں ہے اورفوقیت اللہ تعالی کی عرش پر اورمبانیت اس کی مخلوق سے ان ہردوامر کی تصریح کی ہے ابن وہب مالکی نے شرح رسالہ ابن ابی زید میں اورابوعثمان صابونی نے اپنے رسالہ سنت میں اورقرطبی نے اپنی شرح میں اور قاضی ابوبکر باقلانی نے کتاب التمہید میں اور بہت علماء نے جن کے ذکر میں دفترچاہئے اس مسئلہ میں کلام اہل سنت کا اس کثرت سے ہے جو استیعاب اس کا ممکن نہیں اورمیں نے بطور نمونہ بہت ہی قلیل نقل کیا ہے تاکہ باقی کے لئے یہ مشتے نمونہ ازخطوارےہو اورمنصف کو یہ قلیل بھی کافی ہے اورمتعصب حق اسے محروم ہے اگرچہ اس کو سب قرآن اورتورات اورانجیل پڑھ سنائیں اورمیں نے جو کچھ ان چند ورقوں میں نقل کیا ہے پس اکثر تو کتاب حافظ

الحافظ الذهبى والحافظ ابن القيم و بعضها من غيرهماوقليل ماهو

فائدة:- قال الحافظ الذهبى فى كتاب العلواماتكفيرمن قال بخلق القران فقد وردعن سائرائمة السلف فى عصرمالك والثورى ثم عصر ابن المبارك و وكيع ثم عصرالشافعى وعفان ثم عصر احمد بن حنبل وعلى بن المدينى ثم عصر البخارى وابى زرعة الرازى ثم عصر محمد بن نصرالمرزى والنسائى و محمد بن جريروابن خزيمة انتهى- حرراه عبدالجباربن عبدالله الغزنوى عفى عنهما

ذہبی اور ابن قیم سے ماخوذ ہے اوربعض اہل علم سے اوروہ قلیل ہے،

فائدہ:۔ حافظ ذہبی نے کتاب العلومیں کہا کہ تکفیر اس شخص کی جو قرآن کو مخلو ق کہتا ہے ثابت اورمنقول ہے سب ایمہ سلف سے زمانہ مالک اورثوری میں پھر زمانہ ابن مبارک اوروکیع میں پھر زمانہ شافعی اور قعنبی میں پھر زمانہ احمد بن حنبل اورعلی بن مدینی میں پھر زمانہ بخاری اورابوزرعہ رازی میں پھر زمانہ محمد بن نصر مروزی اورنسائی اورمحمد بن جریراورابن خزیمہ میں،

مسئلہ:۔ کتب الہیہ واحادث نبویہ واقوال صحابہ اورایمہ اربعہ جمیع اہل سنت سے اللہ عزوجل کا ہونا عرش پر ثابت ہے جیسا کہ جواب سوال میں اس کا مفصل ذکر ہے فتاوی مذکور سے بخوبی ثابت ہواکہ مولوی محمد شاکر صاحب کا رسالہ ( جس میں اللہ عزوجل کے  عرش پر ہونے سے انکار ہے) ہر خلاف اہل سنت وجماعت ہے معتزلہ اورجہمیہ کی طرز پر ہے ایسے رسائل قابل جلانے ولائق تلف کرنے کے ہوئے ہیں صاحب رسالہ نے تو صحابہ کرام اورسلف صالحین وایمہ اربعہ وتمام اہل سنت کو عیاذاباللہ کافر بنایا کیونکہ یہ سب اللہ کے عرش پر بلاکیف ہونے کے قائل ہیں حدیث شریف میں ہے جوکوئی کسی مسلمان کو کافر کہے وہ خود کافر ہوجاتا ہے پس جو کوئی اعتزال وجہمیت کا طریق پسند کرے جمیع اہل سنت کافر بناوے اس کا کیا ٹھکانہ ہے محمد بن خزیمہ جس کو محدثین امام الایمہ کہتے ہیں اس شخص کے حق میں اللہ عزوجل کے عرش پر بلاکیف ہونےسے منکرہے لکھتے ہیں کہ وہ کافر ہے اگر توبہ نہ کرے واجب القتل ہے مقابر مسلمانوں میں دفن نہ کیا جائے بلکہ اروڑی پر ڈالا جاوے:۔

اخرج الحاكم فى علوم الحديث وفى تاريخ نيسابورعن محمدبن صالح يقول سمعت الامام الائمة ابابكربن خزيمة يقول من لم يقر بان الله على عرشه بائن من خلقه فهوكافريستتاب فان تاب والاضربت عنقه والقى على مزبلة لئلايتاذى بريحه اهل القبلة واهل الذمة

قال الامام ابوعمروبن عبدالبر فى شرحه على الموطا اهل السنة لجمعون على الاقرار بالصفات الواردة كلها فى القران والايمان بها وحملها على الحقيقة لاعلى المجازالانهم لايكيفون شيئا من ذلك ولايجدون فيه صفة مخصوصة وامااهل البدع الجهمية والمتزلة، والخوارج فكلهم ينكروزماويحملون منها شيئا على الحقيقة ويزعمون ان من

امام ابن عبدلبر شرح موطامیں لکھتے ہیں کہ اہل  سنت کا اجماع ہے اس بات پر کہ صفات باری کے معنے حقیقی ہیں نہ مجازی ہاں معنے حقیقی کرکے بلاکیف کہے اورمعتزلہ اورجہمیہ اورخوارج صفات باری کےمعنے نہیں کرتے ہیں مجازی معنے لیتے ہیں اس واسطے اہل سنت ان کو اللہ عزوجل کے نفی کرنے والے کہتے ہیں اوراہل سنت کو مشبہ کہتے ہیں۔ حاکم نے علوم الحدیث اورتاریخ نیساپور میں محمد بن صالح سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے  میں نے امام الایمہ ابوبکر بن خزیمہ کو یہ فرماتے سنا کہ جو کوئی اس بات کا اقرار نہ کرے کہ اللہ تعالی اپنےعرش پر ہے اوراپنی مخلوق سے جدا ہے وہ کافر ہے اس سے توبہ کرائی جاوے اگر توبہ کرے تو بہتر ورنہ اس کی گردن مار کر اروڑی پر ڈالا جاوے تاکہ اس کی بدبو سے اہل قبلہ اورذمی ایذانہ پاوعبدالودود عفی عنہ،

امام عمرو بن عبدالبر نے اپنی شرح موطا میں کہا کہ اہل سنت  (اللہ تعالیٰ کی جتنی صفات)  قرآن شریف میں وارد ہیں سب کے ساتھ اقرار کرنے اور ایمان لانے اور ان کو مجاز چھوڑ کر حقیقت پر حمل کرنے پر مجتمع ہیں مگر وہ ان میں سے کسی کی کیف بیان کرتے بے خلاف اہل بدع جمہیہ اور معتزلہ اور خوارج کے وہ سب کے سب  (اللہ تعالیٰ کی)  صفات سے منکر ہیں اور ان میں کسی ایک کو بھی حقیقت پر حمل نہیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو کوئی  (اللہ تعالیٰ کی)

  اقربها مشبة وهم من  يقربها نافون للمعبودوالحق فيما قاله القائلون بما نطق به الكتاب واسنة وهم ائمة الجماعة والحمدلله رب العالمين- قال يزيدبن هارون ممن زعم ان الرحمن على العرش استوى على خلاف مايفرفى قلوب العامة فهوجهمى وقال محمد بن يوسف من قال ان الله ليس على عرشه فهوكافر- قال عبدالله ابن ادريس هولاء  (جهمية)  لايصلى خلفهم ولايناكحون وعليهم التوبة قال ابوعبدالله  (البخارى) نظرت فى كلام اليهودوالنصارى والمجوس فمارايت اضل

صفات کااقرارکرےوہ مشبہ ہے اوروہ ان لوگوں کے نزدیک جو اللہ کی صفات کا اقرار کرتے ہیں معبود سے منکر ہیں اورحق بات انہی کی ہے جنہوں نے موافق منطوق کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہا اوروہ ایمہ اہل سنت والجماعت ہیں،   والحمدللہ رب العلمین۔

اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ جو کوئی اللہ عزوجل کے اوپر ہونے سے انکار کرے وہ اپنے معبود رب العلمین کی نفی کرنے والا ہے اوریہی مذہب ہے جہمیہ اورمعتزلہ کا امام بخاری اپنی کتاب خلق افعال العبادمیں یزیدبن ہارون سے روایت کرتے  ہیں کہ وہ فرماتے تھے کہ جوکوئی استوی علی العرش، بلند ہوا عرش پر کے معنے جوعامہ کے فہم میں آتا ہے اس سے برخلاف سمجھےوہ جہمی ہے اورمحمد بن یوسف سے روایت کرتا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ جو کوئی اللہ عزوجل کو عرش پر نہ جانے وہ کافر ہے، یزید بن ہارون نے کہا کہ جو کوئی الرحمن  علی العرش کے معنے ان معنے کے برخلاف کرے جو عوام کے دلوں وہ جہمی ہے اورمحمد بن یوسف نے کہا کہ جو کہے کہ اللہ اپنے عرش پر نہیں وہ کافر ہے، اورعبداللہ بن ادریس سے روایت کرتا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ جہمیوں کے پیچھے نماز جائز نہیں عبداللہ بن ادریس نے کہا کہ ان جہمیوں کے پیچھے نہ نماز جائزہے نہ ان سے نکاح جائز ہے اوران پر توبہ کرنی لازم ہے امام بخاری خود بھی جہمیہ کو کافر کہتا ہے اوران کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع فرماتے ہے اور ان  کے ذبیح کو حلا ل نہیں جانتے ہیں اسی خلق افعال العبادمیں لکھتے ہیں، کہ جوشخص جہمیوں کو کافر نہ جانے وہ جاہل ہے، ابوعبداللہ بخاری نے کہا کہ میں نے یہود اورنصاری اورمجوس کی کلام کو دیکھا پس میں نے ان کے کفر میں ان سے بڑھ

فى كفرهم منهم وانى لامتجهل من لايكفرهم وقال ماابالى صليت خلف الجهمى والرافضى ام صليت خلف اليهودوالنصارى ولايسلم عليهم ولايعادون ولايناكحون ولايشهدون ولايوكل ذبائهم-

حرره عبدالجباربن عبدالله الغزنوى عفاالله عنهما  (فتاوى غزنويه ص 123)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 267-292

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ