سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(75) کیا پیر کے ہاتھ پر بیعت ضروری ہے؟

  • 6533
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 992

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید کہتا ہے انسان کو ضرور چاہیے کہ کسی اچھے پرہیز گار عالم کو اپنا پیر بنالے اس کے ہاتھ پر بیعت ہوجائے اور بکر کا خیا ل ہے کہ کوئی ضرورت نہیں پیر مقررکرنے کی پیر تو قرآن وحدیث ہے اسی کو اپنا پیر بنا لے کون حق بجانب ہے اور اللہ ورسول کاکیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

:۔ کسی شخص کو پیر بنا نا اور اس پر بیعت کرنا کسی مسلمان کے لئےبھی ضروری نہیں ہےپیری مریدی کے ضوری ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور ہندوستان کی موجودپیری مریدی تو مسلمانوں کی اصلاح وتربیت اور دینی ودنیوی سربلندوکامرانی کا ذریعہ بننے کےبجائے بالعموم صدقہ خوری اور نذرانے وصول کرکے غریب مریدوں کی جیبیں خالی کرنے کا ذریعہ اور پیروں کی عیاشی کا کامیاب وسیلہ ہے، حکیم مشرق سراقبال نے سچ فرمایاہے،

ہم کو تو میسر نہیں مٹی کادیا بھی  گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن

شہری ہودہاتی ہو مسلمان ہے سادہ     مانند بتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن

نذرانہ نہیں سود ہے پیران حرم کا    ہر خرقہ ساتوں کے اند ر ہے مہاجن

میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد        زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

اللہ اور اس کے رسول ﷺکایہ حکم ہے کہ ہر مسلمان صرف کتاب اللہ اور سنت صیحہ کو اپنے لئے اسوہ بنائے آنحضرت ﷺفرماتے ہیں، تركت فيكم امدين لن تضلواماتمسكتم بهما كتاب الله وسته رسوله  (موطا) (محدث دہلی جلد ۸ ص ۳)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 116

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ