سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(92) آیت ولوکنت اعلم الغیب الایتہ کامطلب

  • 593
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1077

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آیت کریمہ :

﴿وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ﴾ ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ‎﴿٢٦﴾‏ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ﴾

 کے قبل نازل ہوئی یابعد؟دوسرے :

’’علم بالشئی لایستلزم القدرة علیک مافی قصة احدفانه صلی اللہ علیہ وسلم کان عالمابانکسارالمسلمین لرؤیاراہاکمافی کتب السیرمع انه لم یقدرعلی ردماقدرہ اللہ،،(جمل ج 2ص 217)ایضا فیتحمل ان یکون قاله علی سبیل التواضع والادب ،،

تیسرے آیت:

﴿وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ﴾--سورة الاعراف188

 میں لوشرطیہ ہے۔ تووقوع جزا شرط کومستلزم ہے یانہیں؟اور یہ آیت قیاس افترائی ہوسکتی ہے یانہیں؟اگرہے توآپ بصورت قیاس اقترافی اورمنطق آپ اس کوبیان فرمائیں؟ ا زراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں۔جزاكم الله خيرا

 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

پہلی آیت سورۃ اعراف کی ہے ۔اوردوسری سورۃ جن کی دونوں سورتیں مکی ہیں ۔تفسیراتفان میں لکھاہے۔اعراف جن سے پہلے اتری ہے  اور ایک قول کی بناء پرآیت واسئلہم عن القریة مدینہ میں اتری ہے۔اورایک قول کی بناء پرواسئلہم سے لیکرواذنتقناالجبل تک مدینہ میں اتری ہے ۔ملاحظہ ہواتفان ص 15و31اورتفسیرجامع البیان میں ایک قول واسئلہم سے واعرض عن الجاہلین تک مدنی ہونے کانقل کیاہے ۔مگراس کوقیل کےساتھ نقل کیاہے ۔خیراگریہ قول صحیح ہوتوپھرآیت ولوکنت اعلم الغیب بھی مدنی ہوگی ۔کیونکہ یہ واسئلہم اورواعرض کے درمیان ہے ۔اس صورت میں آیت فلایظہرعلی غیبہ پہلے ہوگی ۔مگراس پہلے ہونے سےسائل کااگریہ مقصودہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہلے غیب نہیں تھاپیچھےہوگیا۔تواس کاجواب یہ ہے کہ آیت فلایظہرسےعلم غیب کلی ثابت نہیں ہوتا بلکہ صرف اتنا ثابت ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی بعض باتوں کااظہارنبی پرکردیتاہے ۔سو اس سے کسی کوانکارنہیں ۔چنانچہ پہلے سوال میں ذکرہوچکاہے ۔

اس کے علاوہ آیت کریمہ

﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ﴾--سورت النمل65

سورۃ نمل کی آیت ہے اورنمل سورۃ جن کے بعداتری ہے چنانچہ تفسیراتقان کے ص 15 میں اس کی تصریح ہے ۔پس آیت قل لایعلم آیت فلایظہرکے بعدنازل ہوئی ہے ۔اوراس کےعلاوہ دیگرآیات  وواقعات سے بھی ثابت ہوتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوعلم غیب نہیں تھا۔ صرف بذریعہ وحی جس بات کاآپ کوپتہ لگ گیااس کاعلم ہے باقی باتوں میں آپ دیگرانسانوں کی طرح بےخبرتھے چنانچہ پہلے سوال کے جواب میں بیان ہوچکاہے ۔اوربخاری ص 974جلد2میں حدیث ہے کہ کئی لوگ حوض کوثرپرآئیں گے ۔فرشتے ان کوہٹادیں گے میں کہوں گا:یہ تومیرے آدمی ہیں ۔ان کوکیوں ہٹایاجاتاہے ؟میرے جواب میں کہاجائے گا۔انک لاتدری مااحدثوابعدک ’’یعنی تجھے علم نہیں کہ انہوں نے تیرے بعددین میں کیاکچھ بدعات پیداکیں۔‘‘پھرمیں کہوں گا:فسحقا لمن غیربعدی ’’یعنی لعنت ہواس شخص کے لیے جس نے میرے بعددین کوبدل دیا۔اس حدیث سے ثابت ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کووفات کے بعدبھی علم غیب نہیں۔چہ جائیکہ زندگی میں ہوان آیتوں کے پہلے پیچھے ہونے کاسوال یہاں لایعنی ساہے جس کاکچھ نتیجہ نہیں۔اس طرح مسئلہ علم بالشئی قدرت کومستلزم نہیں ۔اس کاتذکرہ بھی بےمحل ہے ۔بلکہ سائل کومضرہے ہم تفسیرجمیل کی پوری عبارت نقل کیے دیتے ہیں ۔اس طرح ناظرین پرحقیقت حال واضح ہوجائے گی ۔ان شاء اللہ ۔

 «قولہ ۔ولوکنت اعلم الغیب الخ لقائل ان یقول لم لایجوز ان یکون الشخص عالمابالمغیب لکن لایقدرعلي دفع السراء والضراء اذاالعلم بالشئ لایستلزم القدرة علیه کمافی قصة احدفانه صلی اللہ علیہ وسلم کان عالمابانکسارالمؤمنین لرؤیاراہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمافي کتب السیرمع انه لم یقدرعلی ردماقدرہ اللہ واجیب بان استلزم الشرط للجزاء لایلزم ان یکون عقلیاولاکلیابل یجوز ان یکون في بعض الاوقات لزومیاّ فان قلت قداخبررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن المغیبات وقدجاء ت فی الصحیح بذالک وہومن اعظم معجزاته صلی اللہ علیه وسلم فکیف الجمع بینه وبین قوله ولوکنت اعلم الغیب لااستکثرت من الخیرقلت یحتمل ان یکون قاله علي سبیل التواضع والادب المعنیٰ لااعلم الغیب الاان یطلعنی اللہ ویقدرہ لي ویحتمل ان یکون قال ذالک قبل ان یطلعہ اللہ عزوجل علی الغیب فلمااطعمه اللہ اخبربه کماقال فلایظہرعلی غیبه احداً لامن ارتضیٰ من رسول اویکون خرج ہذاالکلام مخرج الجواب عن سوء لہم ثم بعدذالک اظہرہ اللہ تعالی علي اشیاء من المغیبات فاخبرعنہالیکون ذالک معجزة له ودلالة علی صحة نبوته صلی اللہ علیہ وسلم» (اھ خازن تفسیرجمل جلد2ص 258)

          ترجمہ :۔آیت کریمہ ولوکنت اعلم الغیب پرکوئی یوں اعتراض کرسکتاہے کہ یہ کیوں جائزنہیں کہ ایک شخص کوغیب کی بات کاعلم ہو۔ مگرخیرشرکے حاصل یا دفع کرنے کی اس کوقدرت نہ ہو۔کیونکہ علم قدرت کونہیں۔چنانچہ جنگ احدکےواقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوشکست کاعلم تھا۔بوجہ خواب کے جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھی جیسے کتب سیرمیں ہے ۔مگر باوجوداس کے تقدیرالہیٰ کوردنہیں کرسکے۔ جواب اس کایہ ہے کہ جزاء کاشرط کولزوم ضروری نہیں کہ عقلی ہویاکلی ہو۔بلکہ جائز ہے کہ لزوم فی بعض الاوقات ہو۔اگرتوکہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی غیب کی باتوں کی خبردی ہے ۔اور اس بارہ میں صحیح احادیث واردہیں ۔اوریہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعظم معجزات سے ہے اوریہ آیت اس کی نفی کررہی ہے ۔پس ان دونوں میں موافقت کس طرح ہوگی؟میں کہتاہوں ۔ہوسکتاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ کہنامیں غیب جانتاہوں تو بہت بھلائی جمع کرلیتااور مجھے برائی نہ پہنچتی۔ یہ بطورتواضع اور ادب کے ہومطلب یہ ہو۔کہ میں غیب نہیں جانتا۔ مگر یہ کہ خدا مجھے مطلع کردے اورمیرے لیے مقدرکردے اوراحتمال ہے کہ آپ کایہ کہنااطلاع علی الغیب کےپہلے ہو۔جب اللہ تعالیٰ نے آپ کواطلاع دی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبرکردی ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :"فلا یظہرعلی غیبہ احداالایة یایه کلام ولوکنت اعلم الغیب" کفارکے سوال  کے جواب میں واقع ہوئی ہے اس کے بعداللہ تعالیٰ نے کئی غیب کی اشیاء پرمطلع کردیا۔پس ان کی خبردی تاکہ یہ آپ کامعجزہ بن کرآپ کی نبوت کے صحیح ہونے پردلیل ہوجائے۔

اس عبارت میں دواعتراض کیے ہیں:

ایک یہ کہ علم کوقدرت لازم نہیں توشرط وجزاء میں لزوم نہ ہوا۔حالانکہ لزوم ضروری ہے ۔دوسرااعتراض یہ کیاہے کہ یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سےغیب کی نفی کرتی ہے۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مغیبات  سے خبردی ہے۔چنانچہ احادیث میں آیاہے ۔

پھرہرایک اعتراض کاجواب دیاہے کہ

          لزوم فی بعض الاوقات کافی ہے ۔لزوم فی بعض الاوقات کی صورت یہ ہےکہ انسان کوخدانے مکلف بنایاہے۔نیکی بدی کی قدرت دی ہے۔ کسب معاش کرتاہے اپنی ضروریات کے لیے کوشاں رہتاہے۔اس قسم کی قدرت سب انسانوں کوحاصل ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی حاصل ہے۔ پس قدرت کے ساتھ اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخیروشرکاعلم ہوتاتوبہت سی خیرآپ صلی اللہ علیہ وسلم جمع کرلیتے اوربرائی سے بچ جاتے ۔یہی وجہ ہے لااستکثرت من الخیر’’بہت سی خیرجمع کرلیتا‘‘فرمایا’’لااستوعبت الخیر‘‘’’تمام خیرجمع کرلیتا‘‘نہیں فرمایا۔کیونکہ تمام خیراس وقت جمع ہوسکتی ہے جب ہرشئے پرقدرت ہوتی ۔جیسے اللہ تعالیٰ کوہرشئے پرقدرت ہے اوراس وقت لزوم کلی ہوتا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الایمان، مذاہب، ج1ص213 

محدث فتویٰ 

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ