سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(109) مودودی مذہب کی تفصیلات

  • 5894
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 2501

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مدرسہ دارلاسلام عمر آباد آمبور کے تعلیم یافتہ ایک مولوی صاحب مسجد گاہ وقصابان کے پیش امام ہیں۔ پیشتر آپ عقیدہ اہل حدیث پر تھے۔ اب مودودی مزہب رکھتے ہیں۔ مذہب اہل حدیث پر آج کل سخت لے دے کرتے ہیں۔ نوکر پیشہ تاجر اور زراعت کرنے والوں کو حرام کھانے والے اور مسلمان نہیں ہوسکتے کہتے ہیں۔ کیا مذکورہ مودودی مولوی صاحب کا ایسا کرنا انصاف پر مبنی ہے۔ (محمد غیاث خان مدارس)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص کوئی مذہب اختیار کرتا ہے۔ اس کی اشاعت بھی کرتا ہے۔ آپ بھی ہمارا رسالہ ''خطاب مودودی(1)۔ 'سنا دیا کریں۔ باقی سارے سوالوں کا جواب قرآن نے یوں دیا ہے۔ وَقُل لِعِبادى يَقولُوا الَّتى هِىَ أَحسَنُ ۚ (بات عمدہ طریق سے کیاکرو) جس سے فتنہ فساد نہ ہو۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا کافر بادشاہ کے ماتحت ہونا قرآن مجید سے ثابت ہے جہاں فرمایا۔ لِيَأخُذَ أَخاهُ فى دينِ المَلِكِ اس آیت سے کافر بادشاہ کے قانون کی ماتحتی ثابت ہوتی ہے۔ اگر کوئی نہ مانے تو اس کی مرضی اس آیت شریفہ سے حرام کہنے کا جواب بھی آجاتاہے۔ ـ (اہل حدیث جلد44 نمبر 23۔ 24۔ 25)

شرفیہ

مولانا ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ! ہم سب الحمد للہ تما م مسلمان ہیں۔ خصوصا اہل حدیث مگر آج کل ایک جماعت نے اپنا نام جماعت اسلامی رکھ لیا ہے اور قبر پرستوں کی طرح اسلام پر قبضہ غاصبانہ کرکے ہم کو اپنے مسلک کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں ہمارے امیر مولنا مودودی نے جو کام کیا ہے۔ وہ آج تک علماء اسلام سے نہ ہوسکا۔ آئو ہمارا لٹریچر دیکھو جو ہمارے امیر نے لکھا ہے ۔ آپ بتایئں کہ ان کا لٹریچر کیا ہے۔ اور ہم کیاکریں۔ بینوا توجروا۔ (عبد الخالق پاکستان)

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاۃ ۔ اما بعد! مودودی صاحب کی داستان تو بہت طویل ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان کا لٹریچر میں نے دیکھا ان کا پہلا

دور اور تھا۔ اب دوسرا دور ہے۔ پہلا پچھلا آپس میں متناقض بھی ہیں۔ جس کا خلاصہ میں نے اخبار اہل حدیث سوہدرہ 1951ء؁ میں 9 قسطوں میں شائع کرایا تھا۔ وہاں ملاحظہ ہو۔ اب بھی ان کے چند نمونے بیان کرتا ہوں۔ پھر ان کی تردید اور تنقید پہلے دور میں لکھتے ہیں۔ اسلام ایک مکمل نظام حیا ت ہے۔ مگر ان چیزوں کے حصول کا ذریعہ نہ قرآن ہے نہ تواتر۔ صرف اخبار احادی ہیں۔ تفہیمات ص317 کتب احادیث صحاح ستہ وغیرہ میں اس امر میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ یہ کتابیں انہیں بزرگوں کی لکھی ہوئی ہیں نہ اس میں شبہ ہے۔ کہ ہر حدیث کی سند رسول اللہﷺ تک پہنچی ہے یا نہ لہذا ان کتابوں کے زریعے سے حدیث کا وہ علم قریب قریب یقینی طورپر ہم تک پہنچ گیا ہے۔ خلاصہ ص 283 و 284 تفہمیات صفر 1353ہجری جون 1934ء)

دوسرے دور میں لکھتے ہٰیں۔ کیا ضرورکہ جس کو محدثین نے ثقہ کہا ہے۔ وہ ایسا ہی ہو او وہ جس کو غیرثقہ کہا ہے وہ ایسا ہو۔ تفہمیات ص 322) محدثین کازخیرہ قابل اعتماد نہیں تفہیمات 295 اور یہ بھی لکھتے ہیں۔ ممکن ہے جن کو انہوں نے متصل صحیح کیا ہے وہ ایسی نہ ہو اور جس کو منقطع متصل بتایاہے۔ وہ بالکل صحیح ہوتفہیمات ص 323 یہ بھی لکھتے ہیں (حدیث رسولﷺ) سراسر زوقی ہے۔ اور کسی ضابطہ کے تحٹ نہیں ۔ تفہیمات ص297 ووقی یعنی وجدانی و خیالی باتیں تھیں۔ من جانب اللہ نہ تھیں۔ اسیلئے لکھتے ہیں۔

دجال کے آنے کی حدیثیں فسانے ہیں۔ ترجمان القرآن ستمبر اکتوبر 1945ء یہ بھی لکھتے ہیں کہ تاریخ سے ثابت ہوگیا کہ آپ کی حدیثیں آپ کے قیاسات تھے اور صحح نہ تھے۔ ترجمان القرآن فروری 1946۔ یہ بھی لکھتے ہیں۔ حدیث متواتر کی بنابھی قیاسپر مبنی ہے۔ تفہمیات ص202

جواب۔ ان اقوال کا پہلا جواب تو یہ ہے۔ ان کے یہ پچھلے اقوال پہلے کے مناقض ہیں۔ لہذا مناقضہ باطل۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ ان کے پچھلے اقوال باوجود آپس میں متناقض ہونے کے قرآن مجید کے خلاف اور قرآن کی تکذیب کرتے ہیں۔ لہذا باطل ہیں۔ اور قران کی مخالفت وتکذیب کفر بھی ہے۔ اور بیان خلاف یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جو اہل اسلام کے لئے معیار صداقت مقرر کیا ہے۔ اور اسی پر محدثین نےعمل کر کے اسلام کی حفاظت وتبلیٖغ میں قرآن مجید کی تفسیر جو صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے رسول اللہﷺنے حاصل کرکے خواہ آپ کے اقوال سے ہو۔ خواہ افعال وتقریرسے اپنے شاگروں کو بتائی انھوں نے اپنے شاگردوں کو بتائی۔ علی ھذا القیاس سلسلہ بہ سلسلہ اسی طرح ہم تک پہنچی۔ اور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے اس تفسیر یا رسول اللہﷺ کی سیرت وفیصل جات و احکامات شرعیہ مذکورہ فی القرآن کی تشریح کی ۔ اس کی روایت میں رواۃحدیث کی صداقت کو محدثین نے قرآن مجید کی آیت زیل سے بعد تجزیہ وتحقیق معلوم کرکے احادیث رسولﷺ کو کتب حدیث وتفسیرمیں قلمبند کیا۔ اور مودودی صاحب کے یہ اقوالان کی تکذیب کرتے ہیں۔ اآیت یہ ہے لَيسَ البِرَّ‌ أَن تُوَلّوا وُجوهَكُم قِبَلَ المَشرِ‌قِ وَالمَغرِ‌بِ وَلـٰكِنَّ البِرَّ‌ مَن ءامَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ وَالمَلـٰئِكَةِ وَالكِتـٰبِ وَالنَّبِيّـۧنَ وَءاتَى المالَ عَلىٰ حُبِّهِ ذَوِى القُر‌بىٰ وَاليَتـٰمىٰ وَالمَسـٰكينَ وَابنَ السَّبيلِ وَالسّائِلينَ وَفِى الرِّ‌قابِ وَأَقامَ الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَى الزَّكو‌ٰةَ وَالموفونَ بِعَهدِهِم إِذا عـٰهَدوا ۖ وَالصّـٰبِر‌ينَ فِى البَأساءِ وَالضَّرّ‌اءِ وَحينَ البَأسِ ۗ أُولـٰئِكَ الَّذينَ صَدَقوا ۖ وَأُولـٰئِكَ هُمُ المُتَّقونَ ﴿١٧٧۔ (پ2ع6)

نیکی اس میں منحصر نہیں کہ تم نماز میں مشرق اورمغرب کی طرف منہ کرو۔ لیکن نیکی اس کی معتبر ہے۔ یا نیک وہ لوگ ہیں۔ جو اللہ تعالیٰاور پچھلے دن یعنی آخرت اور فرشتوں اورسب نبیوں پر ایمان لائے۔ اور سب کو سچ مانا۔ باوجود مال کی محبت کے اپنے قرابت ولاوں۔ اور یتیموں۔ اورمسکینوں اور مسافروںاوردیگر سائلوں کو دیں۔ اورگردن آذاد کرانے میں دیں۔ اور ہمیشہ نمازقائم رکھیں اور ذکواۃ دین۔ اور وہ لوگ نیک ہیں۔ جو ج کسی سے کسی قسم کا وعدہ کریں تواس کو پورا کریں۔ خصوصا تنگ دستی۔ اور ہرقسم کی سختی میں میں صبر کریں۔ (اور پھر جن میں یہ صفتیں ہوں) تو وہ لوگ صادق ہیں۔ سچے مومن مسلم ہیں۔ پرپیز گار ہیں۔ اور سورہ حدید میں بھی ان لوگوں کی چندصفات بیان کرکے فرمایا ہے۔ أُولـٰئِكَ هُمُ الصِّدّيقونَ ۖ وَالشُّهَداءُ عِندَ رَ‌بِّهِم لَهُم أَجرُ‌هُم وَنورُ‌هُم ۖ (الایۃ پ27 ع 18)

ان آیتوں سے ثابت ہوا کہ ان صفات والے لوگ جب قرآن وحدیث رسول ﷺ کی سیرت واحکام وعقائد شرعیہ بیان کریں۔ تو ان کی خبر ان کی روایت کو تسلیم کرنا واجب ہے فرض ہے۔ ورنہ باوجود معیار شرعی کے ثبوت کے صادق متقی کی شرعی خبر وروایت میں حبل ومحبت چون وچرا وشکوک پیدا کرنا قرآن مجید کے مقرر کردہ معیارسےانحراف ہے۔ جو قطعا قرآن مجید کی تکذیب ہے۔ ورنہ ایمان والوں کی صفت تو اللہ نے بیان کی ہے۔ کہ جب ان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کی طرف بلایا جائے۔ تو وہ یہ کہتے ہیں ہم نے سن لیا۔ ان پ عمل کریں گے ایسے ہی لوگ ایسے ہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ إِنَّما كانَ قَولَ المُؤمِنينَ إِذا دُعوا إِلَى اللَّهِ وَرَ‌سولِهِ لِيَحكُمَ بَينَهُم أَن يَقولوا سَمِعنا وَأَطَعنا ۚ وَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ﴿٥١ (پ18 ع 13)

پھر اس میں چون وچرا شکوک ایمان کے خلاف ہے۔ اور بحکم إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ‌ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ﴿٩ (پ14 ع 1) مقرر ہمیں نے اس قرآن کو نازل کیا ہے۔ اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ توحفاظت قرآن کی دونوں قسم سے ہے۔ الفاظ وعبارات کی بھی اع معانی کی بی وہ معافی جوبحکم آیت۔ بِالبَيِّنـٰتِ وَالزُّبُرِ‌ ۗ وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّر‌ونَ ﴿٤٤۔ (پ14ع18) ہم نے قرآن آپپر نازل کیا ہے۔ تاکہ آپ اس نازل شدہ کو جو ان کے لے نازل کیا ہے۔ اس کے معنی ان کو سمجھا دیں۔ بتادیں۔ او ر تاکہ پھر وہ اس میں غور فکر کریں۔ تدبر کریں۔ كَما أَر‌سَلنا فيكُم رَ‌سولًا مِنكُم يَتلوا عَلَيكُم ءايـٰتِنا وَيُزَكّيكُم وَيُعَلِّمُكُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَيُعَلِّمُكُم ما لَم تَكونوا تَعلَمونَ ﴿١٥١ (پ2 ع 2)

ہم نے تم کو تولی کعبہ کا حم دے کہ تم پر اپنی نعمت پوری کی۔ جسےتمھیں میں سے اپنا رسول بھیج کر اپنی نعمت پوری کی۔ کہ وہ تم کو ہماری آیتیں پڑھ کر سناتا ہے۔ اور تم کو قرآن کے الفاظ وعبارات پڑھاتا ہے۔ اور اس کے معنی بتاتا ہے۔ اور تم کو وہ باتیں بتاتا ہو۔ جو تم نہ جانتے تھے۔ ثابت ہوا کہ قرآن کی حفاظت کو یہ بھی لازم ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے جیسے قرآن کے الفاظ وعبارات کی حفاظت حفاظ قرآن کے زریعہ کرائی ہے۔ اسی طرح اس کے معنی شرعیہ بیان کردیں۔ رسول ﷺ کی بھی رواۃ حدیث سے محدثین کے ذریعہ کرئی ہے۔ ورنہ کتب سابقہ کی طرح قرآن کی تحریف ہوجاتی اور یہ حجت باز یہی چاہتے ہیں کہ قرآن کواپنی عقل سے تحریف کرکے اپنا الوسیدھا کریں۔ مگر یاد رکھیں يُر‌يدونَ لِيُطفِـٔوا نورَ‌ اللَّهِ بِأَفو‌ٰهِهِم وَاللَّهُ مُتِمُّ نورِ‌هِ وَلَو كَرِ‌هَ الكـٰفِر‌ونَ ﴿٨۔ (پ10ع11)

اور بحکم قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى۔ (پ3 ع11) ۔ وَأَطيعُوا اللَّهَ وَالرَّ‌سولَ لَعَلَّكُم تُر‌حَمونَ ﴿١٣٢(پ4 ع 5)

اور ۔ فَلا وَرَ‌بِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ‌ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَ‌جًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ﴿٦٥(پ5 ع 6) رسول اللہ ﷺ کے حکم آپ کے فیصلہ جات آپ کی بیان کرو قرآن کی تفسیرآپ کی اطاعت آپ کا اتباع ہر مسلم کے لئے بلا چون چرواجب ہے۔ اس میں شک وتردد یا نکار کفرہے۔ اور بحکم وَما أَر‌سَلنـٰكَ إِلّا رَ‌حمَةً لِلعـٰلَمينَ ﴿١٠٧۔ (پ17 ع 7) ۔ ۔ وَأَر‌سَلنـٰكَ لِلنّاسِ رَ‌سولًا ۚ وَكَفىٰ بِاللَّهِ شَهيدًا ﴿٧٩مَن يُطِعِ الرَّ‌سولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ ۖ (پ5 ع 8)

آپ کی بعثت بھی عامۃ تاقیام قیامت ہے۔ اور بلا وساطت آپ کی کردہ بیان تفسیرقرآن بحکم آیۃ مذکورہلتبين للناسالخ بطریق مذکور ما قبل قطعاً باطل ہے۔ مدعی کازب ہے۔ ورنہ رسول کو معلم و مبلغ ومبین قرآن کرکے بھیجنا۔ معاذ اللہ فضول ہوگا۔ اور یہ امر قطعا بطل پس ثابت ہوا کہ قرآن کی تفسیر بلا بیان رسولﷺ بطریق مذکور۔ ۔ ۔ باطل ہے۔ اور تفسیر بیان رسول ہی صحیح ہے۔ وہی اسوہ حسنہ ہے۔ لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَر‌جُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّهَ كَثيرً‌ا ﴿٢١ (پ21 ع 19)

مقررہ تمہارے لئے رسول اللہﷺ کی پیروی بہت اچھی ہے۔ اس لئے جو یوم آخرت میں اللہ تعالیٰ سے ثواب کاامید وار ہے۔ اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کا زکر کرتاہے۔ منکر ھدیث رسول اسوہ حسنہ کے قائل بنتے ہیں۔ مگر یہ تو بتایئں کہ وہ اسوہ حسنہ کتب تفسیر وحدیث کے سوا کہاں ہے۔ بعد بعثت 23سالہ آپ کی زندگی کے حالات ۔ سیرت۔ نماز۔ روزہ۔ حج۔ جہاد۔ نشست برخاست اہل وعیال سے آپ کا برتائو۔ تبلیغ شریعت

وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم اورآیت۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وغیرہ کا بیان کہاں ہے۔ پھر اگر کتب تفسیر اور حدیث نہین مانتے۔ تو آپ کا دعویٰ اسلام قرآن کا مطلب جو آپ بتاتے ہیں۔ کیسے معلوم ہو کہ صحیح ہے۔ اور اوروں کا غلط معیارصحت کیا ہے۔ قرآن کا مطلب آپ بھی سمجھتے ہیں۔ او مسلم بھی اور شعیہ بھی۔ اور خارجی بھی ۔ آریہ۔ مرزائی۔ بہائی ۔ یہود ونصاریٰ وغیرہ بھی۔ لغت عرب قواعد آ پ کی طرح اور بھی جانتے ہیں۔ میعار صحت بتا کر اپنے معنی کو دلیل سے ثابت کریں۔ وازلیس فلیس۔

سچ کہتا ہوں۔ بیان رسول اللہﷺ ہی معیارصحت ہے۔ اور ہو ہی نہیں سکتا۔ اولہ مذکورہبالاملاحظہ ہوں۔ اس کے سوا آپ کچھ نہیں بتا سکتے۔ فَإِن لَم تَفعَلوا وَلَن تَفعَلوا فَاتَّقُوا النّارَ‌ الَّتى وَقودُهَا النّاسُ وَالحِجارَ‌ةُ ۖ أُعِدَّت لِلكـٰفِر‌ينَ ﴿٢٤(پ1۔ ع3)

اور تو بڑی بات ہے۔ یہ منکرنماز اور حج کی ہی ہیت کزائیہ اور ذکواۃ ہی کی تفصیل کہ کس کس مال کی ذکواۃ ہے ۔ کیا کیا نصاب ہے کتنی کتنی ہے بتایئں۔ مودودی صاحب کا حدیث رسول اللہﷺ کو سراسرزوقی بتانا کہ یہ کسی ضابطہ کے تحت نہیں زوقی کے کئی ایک معنی ہیں۔ جوصوفیہ نے کیے ہیں۔ کہ نورعرفانی۔ جو حق وباطل میں فارق ہو۔ وہ تو یہاں ہو ہی نہیں سکتے۔ کہ وہ قطعا تحت ضابطہ اورحق پر ہوتےہیں۔ او مودودی صاحب نے آگےچل کر ان کو غلطبتایا ہے۔ لہذا دوسرے معنی یہاں مرادہوں گے۔ جو آگے آرہے ہیں۔ طبعیت کما فی المنجدوغیرہ۔ اور یہ کتنی بڑی جرائٹ ہے یہ آیات مذکورہ بالا کے خلاف ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کوقرآن کا معلم و مبین مقرر کیا۔ اور وہی ہاں بھی اللہ تعالیٰ نےآپ کو بتایا۔ اور اس بیان کو اللہ تعالیٰ نے حکمت بتایا۔ او ر مودودی صاحب نے اس کو ایک امروجدائی۔ طبعی۔ خیالی۔ بتایا کہ جس وقت جی میں آیا۔ کہ دیا۔ غلط ہو اس سے بحث نہیں اسکا ثبوت ان کے دوسرے قول سے ثابت ہے۔ جو کہا ہے کہ دجال کے آنے کی حدیثیں فسانے ہیں۔ رتاریخ سے ثابت ہوگیا۔ کہ آپ کے قیاسات تھے جو کہ صحیح نہ تھے۔ دونوں کے حوالے گزر چکے ہیں۔ ان کے فاس قول سے ثابت ہواکہ ان کے نزدیک معاذ اللہ۔ رسول اللہﷺ اپنی عقل سےگھڑ گھڑ کر لوگوں کو بہلایا کرتے تھے۔ یہ تھی رسول اللہﷺ کی حکمت عملی فسانہ کے معنی داستان ڈھکوسلہ کے بھی ہیں۔ معاذ اللہ ثم معاذاللہ۔ یہ ہے ان کے نزدیک محمد رسول اللہﷺ کی شان اللہ تعالیٰ تو فرمائے۔

وَالنَّجمِ إِذا هَوىٰ ﴿١﴾ ما ضَلَّ صاحِبُكُم وَما غَوىٰ ﴿٢﴾ وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ﴿٣﴾ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ ﴿٤﴾(پ27 ع5)

 کہ تمہارا رسول تبلیغ شریعت وحی جلی و خفی میں اپنی نفسانی خواہش سے نہیں بولتا جو کچھ کہتا ہے۔ وہ من جانب اللہ ہوتا ہے۔ اور وہ حکمت ہے اورمودودی صاحب کو اس قیاسات اور فسانے اورمن گھڑت بتایئں۔ پھر یہ کیا رسول اللہ ﷺ کی توہین نہیں۔ کیا یہ قرآن کی تکزیب نہیں۔ کیا یہ کفر نہیں تو اور کیا ہے۔ دجال کے آنے کی حدیثیں صحیح بخاری۔ صحیح مسلم۔ وغیرہ صحاح ستہ میں ہیں۔ جن کو تمام اہل اسلام محدثین ومجتہدین وآئمہ اسلام نے صحیح تسلیم کیاہے۔ ان حدیثوں میں زمانہ ماضی کے انبیاء علھیم کا بھی زکر ہے۔ اور آیندہ زمانے میں دجال کے آنے کا بھی ہے۔ اورفسانہ کے کئی معنی ہیں۔ پچھلی داستان کو بھی کہتے ہیں۔ خصوصابے اصل جھوٹی داستان کوآیندہ کی خبر قیاس سے حساب سےنجوم سے کہانت سے جیسے ۔ نجومی۔ رتال۔ جوگی۔ پنڈت۔ کاہن۔ ٹھگ وغیرہ بتایاکرتے ہیں۔ گاہے صحیح گاہے غلط۔ حدیث میں ہے ایک سچ میں سوجھوٹ ملادیتے ہیں۔ بلکہ زائد

قال رسول الله صلي الله عليه وسلم فيختلطون فيها اكثر من مائة كذبة (متفق علیہ ۔ مشکواۃ۔ ص393ج2) معاذ اللہ ۔ مودودی صاحب کے نزدیک یہ صحیحین کی حدیثیں مسلمہ اہل اسلام سہی قسم کی تھیں۔ کہ ایک میں سو سے زائد جھوٹ پھر دعویٰ یہ کہ میں تو سنت کو مانتاہوں۔ سرسید احمد کو ایک سرحدی نے لکھا تھا۔

ترک احکام رسل حکم خدا رد کردی۔       آنچہ کافر نکند تو سید کردی

یہی موصوف پر صادق آتا ہے۔

یاد آیا مودودی صاحب نے نئی بات نہیں کہی۔ ایسا پہلے بھی ہوچکا ہے۔ جب رسول اللہ نے قرآن مجید کی تبلیغ شروع کی جس میں الفاظ و معانی دونوں ہی تھے تو لوگوں نے کہا تھا۔ ۙ

إِن هـٰذا إِلّا أَسـٰطيرُ‌ الأَوَّلينَ ﴿٣١ (پ7 ع9)

غیاث للغات عین فسانہ کے معنی سرگزشت و ماجراوبمعنی حکایت بے اصل مجاز است لکھاہے۔ اوراساطیر کا معنی بھی المنجد میں اباطیل لکھا ہے۔ الاسطورة والاسيطرة الحديث الذي لا اصل له انتهي لوگوں نے کہا آپ جو کچھ کہتے ہیں۔ یہ سب پہلوں کے جھوٹے قصے ہیں۔ اور کچھ بھی نہیں۔ اس کی تشریح دوسری آیت میں سے ان کا یہ قول نقل کیاہے۔ إِن هـٰذا إِلَّا اختِلـٰقٌ ﴿٧ (پ23 ع1) یہ کچھ نہیں مگراپنے جی سے بنا لیتا ہے۔ یہ ہے مودودی صاھب اور ان کے حواریوں پیروں کا اسلام۔ فاعتبروا یا اولی الابصار ۔ مودودی صاحب نے جو روۃحدیث میں کام کیاہے۔ خبر واحد پر تو بتایئں کہ قرآن مجید بھی تو رسول اللہ ﷺ نے امت کو پڑھایا ہے۔ کیا اس میں بھی آپ کوکچھ کلام ہے۔ آپ بھی توواحد ہی تھےاور آپ خودبدولت اور ہرشخص کو اپنی نسل اور اپنے باپ کا کیا علم ہے۔ کہ میرا باپ فلاںشخص ہے۔ کتنے آدمیوں کی شہادت سے ولدیت ثابت ہوگی۔ نکاح کے گواہ تو دوچار سینکڑوں ہوسکتے ہیں۔ مگر اس کا کیا گواہ کہ یہ شخص اسی کے نطفے سے پیدا ہوا۔ ماںباپ کے سوا کون جانے بلکہ باپ کا علم بھی قطعی نہیں ہاں ماںکو ہوسکتا ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ ہم ہر راوی پر اعتماد نہ کریں گے۔ جس طرح شاہدوں میں ہر شاہد کا اعتبار نہیں کرتے۔ ہم قرآن کے بموجب زوا عدل کی شرط لگاتے ہیں۔ تفہمیات۔ ص276۔ یعنی کم سے کم ددراوی کی بات قبول ہے۔ نہ ایک کی۔ مودودی صاحب آپ کو خبر نہیں یہ تعداد کی شرط معاملات حقوق العباد جرائم وجنایات وحدود شرعیہ میں ہے۔ بلکہ زنا میں چار کی شرط ہے۔ نہ کہ رواۃ حدیث وقرآن وتبلیغ وشرح میں آپ نے خود ہی لکھا ےہ مکہ قرآن مجید کا کلام الہٰی ہونا صر ف ذات پاک رسالت پنا ہی کی خبر پر ہے۔ (تفہمیات از 277 تا 280) پھر آپ کی کونسی بات کا اعتبار کیا جائے۔ وَلا تَكونوا كَالَّتى نَقَضَت غَزلَها مِن بَعدِ قُوَّةٍ أَنكـٰثًا (پ14 ع 19) آپ کی یہی مثال ہے کہ جس امرکو بناتے ہیں پھر اسی کو بگاڑ دیتے ہیں۔ اگر آپ کی بات کوصحیح تسلیم کیا جائے۔ توایک استاذ ایک عالم کی تبلیغ کا اعتبار نہ کیا جائے تا وقت یہ کہ کم سےکم دو مبلغدواستاذ نہ ہوں۔ اور آیت۔ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قوا أَنفُسَكُم وَأَهليكُم نارً‌ا۔ (پ28 ع19)’’ترجمہ۔ اے ایمان والو! اپنی جانوں کواور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سےبچاؤ۔‘‘ اس میں تبلیغ شرح اول درجہ پر ہے۔ اور آپ کے قول پر لازم ہے اگر کوئی شخص اپنی زوجہ کو وعظ ونصیحت تبلیغ شروع کرے۔ تو وہ جب تک اپنی زوجہ کو مسجد یا مدرسہ میں لے جا کر اپنے وعظ کی تصدیق نہ کرائے۔ یا کسی مولوی صاھب کوگھر میں لا کران سے اپنے وعظ کی لفظبہ لفظ تصدیق نہ کرائے۔ اس کے وعظ ونصیحت کا کچھ اعتبار نہ ہوگا۔ اور اگر مسجد سے زوجہ مذکورہ وعظ سن کر آئے۔ تو تا وقت یہ کہ دوسرا عالم اس کے وعظ کی لفظ بہ لفظ تصدیق نہ کرے اس کے لے وہ وعظ و خطبہ بیکار ہوگا۔ اور ایسے ہی تمام مقتدیوں کےلئے وہ خطبہ وعظ قابل عمل وحجت شرعی نہ ہوگا۔ اس لئے کہ موصوف کے اصل پر دو راوی کی شرط ہے۔ واذا فات الشرط فات امشروط

تو ان کے ہاں امیر جماعت اسلامی کے نزدیک علاوہ اولہ مذکورہ کے۔ كُنتُم خَيرَ‌ أُمَّةٍ أُخرِ‌جَت لِلنّاسِ تَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَو ءامَنَ أَهلُ الكِتـٰبِ لَكانَ خَيرً‌ا لَهُم ۚ مِنهُمُ المُؤمِنونَ وَأَكثَرُ‌هُمُ الفـٰسِقونَ ﴿١١٠ سورة آل عمران اور

وَالْعَصْرِ ﴿١ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ﴿٢ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴿٣سورة العصر

ہر شخص کو حسب حیثیتامر بالمععروف نہی عن المنکر دین حق کی ایک دوسرے کووصیت وحکم لازم ہے۔ اور ان کے اصول پر اکثر حصہ تبلیغ کا بلکہ قریبا سارے ہی کا خلاف ہوگا اس لئے کہ ان کی شرط کا وجود النار کالمعدوم ہے۔ اور میں تو یہ کہتا ہوں کہجب ان کا اصل اصول یہ ہے کہ روایت و تبلیغ شریعت قرآن اور اس کا مطلب و معنی وتفسیر بلاد وعادلوں کے معتبر نہیں۔ توپھر مودوی صاحب کی تبلیغ آپ کی روایت آپ کی تفسیر اس کا کیا اعتبار جب تک کہ دو عالم ماہر قرآن وتفسیرقرآن ان کے مصدق نہ ہوں اور وہ مصدق بھی ان کا مرید۔ ان کا ہم خیال نہ ہو۔ اس لئے کہ وہ تو ان کا شاگرد ان کی بات کہے گا۔ وہ سو ہوںتو بھی ان کا اعتبار نہیں۔ وہ ایک ہی حکم میں ہیں۔ ایسے ہی ان کی عدالت میں بھی ان کے مریدوں کا اعتبار نہ ہوگا۔ آپ بتایئں کہ آپ نے قرآن مجید اس کا مطلب کس استاذ سے پڑھا ہے یا از خود ہی معلوم کر لیا ہے۔ اگرصورت ثابیہ ہے۔ تو کیا وحی سے ہے یا کسی اور وجہ سے وہ بتایئں۔ اگر صورت اولیٰ ہے تو کیا پ کی شرط کے مطابق یا بلا شرط مگر شرط لفظ بہ لفظ ثابت کرنی ہوگی جو ؐھال ہے بات وہ منہ سے کہی ہے کہ بنائے نہ بنے ۔ وہ بوجھ سر پر لیا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھائے۔ اور ہاں مودودی صاھب آپ نے یہ کیسے لکھد یا کہ تاریخ سے ثابت ہوگیا کہ آپ کی یہ حدیثیں آپ کے قیاسات تھے صحیح نہ تھے۔ انتہیٰ (ترجمانالقرآن فروری 1946ء)

کیا حدیثوںمیں دجال کے آنے کی تاریخ سن۔ سال۔ مہینہ۔ دن معین ہے۔ جو آنے باوجود تاریخ مذکورکے گزرنے کے اور عدم آمد دجال کے غلطی کاحکم لگایا۔ یا قیامت قریب آگئی۔ اور دجال نہ آیا۔ پھر جب یہ دونوں باتیں نہیں تو آپ نے غلط کیسے کہا کیا یہ آپ کا افترایٰ نہیں کزب نہیں تو اور کیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ حدیث رسول اللہﷺ فسانے نہیں ہیں۔ ہاں آپ کا یہ قول خصوصا اور مودودی صاحب نے لکھا ہے۔ علم کا معتبر زریعہ قرآن ہے حدیث نہیں الخ اس لئے صحت کا اصلی معیار یہی ہونا چاہیے۔ تفہمیات ص331) میں کہتا ہوں کہ آپ نے پیشتر لکھا ہے۔ تواتر کی بنا پر بھی قیاس پر ہے۔ الخ اورقیاس قطعی نہیں ہوتا۔ پھر جو ظن پر مبنی ہو وہ بھی ظنی۔ پس آپ کے اصل پر قرآن بھی قطعی نہ رہا۔ پس قرآ ن وحدیث دونوں کا اعتبار برابر ہوگیا۔ اور بالفرض اگر الفاظ کو قطعی کو تسلیم کیاجائے۔ تو معنی پھر بھی قطعاً ظنی ہیں۔ ان کا اعتبار نہ رہا۔ اور بلا معنی مہمل سے ہدایت صراط مستقیم کیسے ہوسکتی ہے۔ اس سے بھی قطع نظر آپ جو معنی قرآن بیان کرتے ہیں۔ ان کا کیا ثبوت کے صحیح ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہی مراد ہے۔ گر بالفرض اس کوبھی مان لیں تو پھر آیۃ مذکور۔ وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّر‌ونَ ﴿٤٤اورآیت۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ اس کا مطلب اور آپ کا ایک ہی ہے۔ یا دو۔ اگر ایک ہے تو کیاثبوت دو ہیں تو صحیح کونسا اگر امت کی عقل فہم قرآن کے لئے کافی تھی۔ تو پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو معلم اور مبین کیوں بنایا کیا ضرورت تھی۔ آپ کی تحریریں۔ أَم لَهُم شُرَ‌كـٰؤُا۟ شَرَ‌عوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ ۚ﴿٢١ سورة الشورى

کا مصداق ہیں۔ ترک احکام رسل حکم خدا رد کردی ۔ آ پ نے لکھا ہے کہ قرآن کے لئے کسی تفسیر کی ضرورت نہیں۔ ایک اعلیٰ درجے کا پروفیسر کافی ہے۔ جس نے قرآن کا غائر مطالعہ کیا ہو۔ تنقیحات ص217) سچ ہے۔ الجنس الي الجنس يميل آپ پروفیسر تھے۔ لہذادنیا اسلام کے علماء ربانی اساتذہ اہل کمال پابند صوم وصلواۃ وٖغیرہ سے چشم پوشی کر کے آپ کی نظر پڑی تو پروفیسرو ں پر پڑی۔ جنھوں نے برطانیہ کے سکولوں میں عموما غیر مسلم اساتذہ عیسائی سکھ سناتن دھرمی وغیرہ سے تعلیم حاصل کی۔ جن کی صحبت میں رام لچھمن دیوی داس نپولین وغیرہ کے قصے ان کی سیرت تھے۔ برائے نام بعض مسلم اساتذہ جو عموما ً نہ صوم و صلواۃکے پابند تھے نہ اخلاق حمیدہ نہ کتاب وسنت سے واقف صرف عربی کتب ادب یا قصص وغیرہ کے معلم کیا یہ پروفیسر قرآن کی تفسیربیان کریں گے۔ یا رہا سہا اسلام بھی لڑکوںکا کھو دیں گے۔ یہ تمام اولہ مذکورہ بالا ۔ وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّر‌ونَ ﴿٤٤ اورآیت۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وغیرہ کی تکزیب ہے۔ اور أَم لَهُم شُرَ‌كـٰؤُا۟ شَرَ‌عوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ ۚ

کا مصداق ہے۔ امیر صاحب یاد رکھیے۔ بروزقیامت یہ لڑکے کہیں گے رَ‌بَّنا إِنّا أَطَعنا سادَتَنا وَكُبَر‌اءَنا فَأَضَلّونَا السَّبيلا۠ ﴿٦٧۔ سورة الأحزاب

گر ہمیں مکتب است وایں ملا               کار طفلاں تمام خواہد شد

مودودی صاحب لکھتے ہیں۔ اسلامی معاشیات۔ اسلام کے اصول عمران اور حکمت قرآنیہ پرجدید کتابیں لکھنا ضروری ہیں۔ اس لئے قدیم کتابیں ابدرس تدریس کے لئے کار آمد نہیں ۔ تنقحات 217)

میں کہتا ہوں اس تحریر سے پہلی بات یہ ثابت ہوئی کہ اسلامی معاشیات اسلام کے اصول عمران قرآن میں نہیں لہذا اس پر جدید کتابیں لکھنا ضروری ہیں۔ دوسری بات یہ قرءت کی حکمت خود قرآن نے یا رسول اللہﷺ نے بیان کی۔ اور بالغرض کی ہو بھی ہو تو اب موجود نہیں قدیم کتب سب غلط ہیں۔ اس پر یہ نقض ہے کہ ان کے پہلے قول میں ہے کہ قرآن کے لئے کسی تفسیر کی ضرورت نہیں اور اب لکھ رہے ہیں کہ اسلامی معاشیات و اصول عمران اور حکمت قرآنیہ پر کتابیں لکھنا ضروری ہیں۔ کہ یہ امور قرآن میں ہیں نہیں ت قرآن کی تعلیم ناقص ہوئی اور آیتذیل جو آپ کے انتقال سے دو ماہ اکیس روز پیشتر حجتۃ الوداع میں عرفہ کے دن جمعہ کو نازل ہوئی....

اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا ۚ فَمَنِ اضطُرَّ‌ فى مَخمَصَةٍ غَيرَ‌ مُتَجانِفٍ لِإِثمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفورٌ‌ رَ‌حيمٌ ﴿٣سورة المائدة..

’’ترجمہ۔ کہ آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا (اب اس میں کسی قسم کی کمی نہیں رہی۔ اور نہ اہی اس میں زیادتی کی گنجائش ہے۔ )‘‘ اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کردیا۔ اس لئے کہ دین اسلام بہت بڑی نعمت ہے۔ اور میں نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا (کہ سب سے افضل ہے۔ )‘‘ اور وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيكَ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَعَلَّمَكَ ما لَم تَكُن تَعلَمُ ۚ (پ5 ع14) ’’ترجمہ۔ اے نبی اللہ تعالیٰ نے آپ پرقرآن اور اس کی حکمت نازل کئے۔ اور آپ کو وہ باتیں بتایئں جو آپ نہ جانتے تھے۔‘‘ لَقَد مَنَّ اللَّهُ عَلَى المُؤمِنينَ إِذ بَعَثَ فيهِم رَ‌سولًا مِن أَنفُسِهِم يَتلوا عَلَيهِم ءايـٰتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ پ4 ع8) ’’ترجمہ۔ البتہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے جب ایمان والوں میں سے رسول بھیجا تو ان پر بڑااحسان کیا۔ جو وہ اس کی نازل کی ہوئی آیتیں ان کو پڑھ کر سناتا ہے۔ اورانکووعظ و نصیحت و اثرصحبت و عمل سے کفر وشرک ورذائل) سے پاک کرتا ہے۔ اورانکو قرآن پڑھاتا ہے۔ اور اس کی حکمت اس کے معنی بتاتاہے۔ تفسیرکرتاہے۔‘‘ (قولوفعل وتقریر سے) مگر قرآن میں ان کا بیان نہیں تو بھی پہلے قول کے مناقض ہے۔ کے قرآن کےلئے تفسیر کی ضرورت ہے۔ پہلے انکار تھا نیز یہ کہ بحکم۔ وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم مذکورہ بالاکے مخالف اور اس کی تکذیب ہے کہ رسول اللہﷺ نے قرآن کی تفسیرنہیں کی۔ لوگوں کو اس کے معنی ومطلب سے شناسا نہیں کیا۔ تو اللہ کے رسول ﷺ پر اعتراض ہے۔ کہانھوں نے قرآن پر عمل نہیں کیا۔ اور باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بے عمل اور نا فرمان ہونے کے ان کی اتباع فرض کی تو یہ اللہ تعالیٰ پر بھی اعتراض ہے۔ اور یہ کفرصریح ہے۔ اور اگر یہ مراد ہے کہ رسول اللہﷺ نے قرآن کی تفسیر تو بیان کی مگر وہ کافی نہ تھی۔ یہ مراد بھی قرآن کی تکذیب ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے معاذ اللہ جس کو مبین بنایا وہ قابل بیان نہ تھا۔ یہ بھی قرآن کی تکزیب وکفر ہے۔ اور اگر یہ مراد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیا ن تو کیا مگر وہ بیان اب دنیا میں کسی کتاب میں ثابت نہیں تو یہ بھی آیت مذکورہ بالا ۔ إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ‌ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ﴿٩ جس کی تفصیل پیشتر ہوچکی ہے۔ کے مخالف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے الفاظ اور بیان کردہ معنی رسول اللہ ﷺ کو اپنے ذمہ لیا ہے۔ لہذا کلام الہٰی کی تکذیب ہے۔ اور واقع کی بھی خلاف ہے۔ کہ اہل اسلام آئمہ اسلام تمام مذاہب متبعہ اثبات حدیث اور آپ کی تفسیر جوکتب تفسیر وحدیث میں مذکور ہے۔ قائل وعامل ہیں۔ اور یہ قول تمام امت محمدیہ اور سبیل المومنین کے خلا ف ہے۔ وَمَن يُشاقِقِ الرَّ‌سولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ‌ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَساءَت مَصيرً‌ا ﴿١١٥(پ5 ع 14) خلاصہ یہ کہ  بحکم اولہ مذکورہ جب قرآن میں دین اسلام کو کامل بنادیا گیا۔ اور حکمت بھی بیان کی گئی کمی بیشی کی جگہ نہیں رہی۔ تو اب جدید کتب لکھنا اول تو فضول ہے۔ دوم اس کے خلاف تشریح جدید ہے۔ جو کفر ہے۔ أَم لَهُم شُرَ‌كـٰؤُا۟ شَرَ‌عوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ ۚ (پ25 ع4)

کا مصداق ہے۔ پھر ان پر عمل کرنا سراسر گمراہی ہے۔ بے دینی ہے لا دینی ہے۔ مودودی صاحب لکھتے ہیں۔ قرآن وسنت سب پر مقدم ہے۔ مگر تفسیر اور حدیث کے پرانے ذخیروں سے نہیں۔ تنقیحات ص133

 ہم بھی قائل ہیں تیری نیرنگی کے یاد رہے         او زمانے کی طرح رنگ بدلنے والے

اسی لئے کہ کبھی آپ اخبار آحاد پر نظام حیات کا مدار مان کر ان کو صحیح مانتے ہیں۔ تفہیمات ص317 کبھی کتب حدیث صحاح ستہ وغیرہ کوقریب قریب یقینی بتاتے ہیں۔ خلاصہ تفہیمات از ص283 تا 284 صفر 1353ھ؁) کبھی ان میں شکوک پیدا کرتے ہیں۔ کہ کما تقدام فیصلہ اور کبھی خبر متواتر کو کہتے ہیں۔ کہ تمام امت کا اتفاق ہے۔ کہ وہ یقینی ہے۔ تفہیمات ص 314 اور طبع سابع میں ہے۔ کہ عقل بھی یہی فیصلہ کرتی ہے۔ کہ وہ یقینی ہے۔ تفحہمات ص 286 کبھی کہتے ہیں کہ مشاہدہ عینی اور تجربہ حس کے سوا دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو مفید یقین ہوسکتی ہو۔ تواترکو بھی محض اس قیاس پر یقینی سمجھا جاتا ہے۔ کہ بہت سے آدمیوں کا جھوٹ پرمتفق ہونا مستبدعد ہے لیکن خبر متعاتر کے لئے جو شرائط ہیں وہ بہت کم ایسی چیزوں میں پائی جاتی ہیں جن پر تواتر کا گما ن ہوتا ہے۔ تفہیمات 302کبھی تمام کتبمتد اولہ مسلمہامت محمدیہ کا انکار جو ابھی اوپر مذکورہے۔ کبھی سنت کو سب پرمقدم بتا کرصحت کااقرار بھی ہے۔ بتایئے آپ کی کونسی بات کا اعتبا کیاجائے۔

درمیان قععر دریا تختہ بندمکردہ                  باز میگوہی کے دامن تر مکن ہشیارباش

بتایئے یہ آپ کا تقیہ ہے یا بداآ پ تو تواتر خبری کو بھی کہہ چکے ہیں۔ کہ اس قسم کی متواترسنتیں تو ہندئوں بدھوں اوردوسری قوموں میں بھی ہیں۔ تفہمیات 296۔ 297 پھر اب آپ سنت کا ثبوت کہاں سے لایئں گے۔ جس کو آپ سب پر مقدم کریں گے۔ سنت رسول اللہ ﷺ کا ثبوت تو انہیں مذکورطریق سے تھا۔ ان سب کاتوآپ انکار کرچکے کیا وحی سے لاییں گے یا کسی اور طریق سے ہاں یادآیاغالبااس سنت سےمراد آپ کی بات ہے جوآپ اپنے قیاس و خیال سے لایئں گے۔ خواہ وہکسی روایت ہی سے اپنے مطلب کے موافق پاکر کہہ دیں کہ ہاں یہ صحیح ہے۔ کہ اسکا معنی میرے نزدیک صحیح ہے۔ اور اسی طرح آپ جو قرآن کی تفسیر بیان کرتے ہیں۔ کیا یہ آپ کا بیان آیت زیل کا مصداق نہیں۔ ۔ فَوَيلٌ لِلَّذينَ يَكتُبونَ الكِتـٰبَ بِأَيديهِم ثُمَّ يَقولونَ هـٰذا مِن عِندِ اللَّهِ (پ1 ع 9)

اس لئے کہ تحڑیف لفظی و معنوی دونوں کا حکم ایک ہی ہے۔ جب آپ بیان قرآن بیان کردہ رسول ﷺ کو ترک کرکے از خودتراشیں گے۔ تولا محالہ وہ تحریف ہی ہوگی۔ اورآپ اپنے بیان وتفسیرکورسول اللہﷺ سے تو ثابت نہیں کرسکتے۔ کہ ترک مشتبہ کو آپ رد کرچکے۔ یا مشکوک بتا چکے۔ اور معیار صحت آپ ثابت نہیں کر سکتے۔ سچ ہے۔

خشت اول چوں نہد عمار کچ            تا ثریا می رود دویوار کج

آ ٌپ کا یہ بیان آیت زیل کے مصداق ہوگا۔ وَليَحكُم أَهلُ الإِنجيلِ بِما أَنزَلَ اللَّهُ فيهِ ۚ وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الفـٰسِقونَ ﴿٤٧ (پ6ع11) کمودودی صاحب لکھتے ہیں۔ اسلامی نظام کا ددرہم رہم ہوجانا ایک عام مصیبت ہے۔ اورہمارے علماء مشائخ بھی اس میں اتنے حصہ دار ہیں جتنے مدرسوں اورکالجوں کے نکلے ہوئے لوگ تنصیحات ص 234

یہ تحریر آیات زیل کی تکزیب ہے ۔

إِنَّما يَخشَى اللَّهَ مِن عِبادِهِ العُلَمـٰؤُا۟ ۗ  (پ22ع16)

’’ اس کے سوا کوئی بات نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے علماء ہی ڈرتے ہیں۔‘‘ إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ‌ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ﴿٩۔ (پ14ع1)’’ہم نے اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘پیشتر بیان ہوچکا ہے کہ اس کی حفاظت لفظی معنوی دونوں کی یکساں ہے۔ اور وَأوحِىَ إِلَىَّ هـٰذَا القُر‌ءانُ لِأُنذِرَ‌كُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ(پ7ع8) ''ترجمہ۔ اے نبی کہہ دیجئے کہ میری طرف سے اس قرآن کی وحی کی گئی اس لئے مجھ پر قرآن نازل کیا گیا ہے۔ کہ میں اس کے ساتھ تم موجودین کو اور تمام ان لوگوں کو تا قیام قیامت یہ قرآن پہنچے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور دوزخ سے ڈرائوں۔ اس لئے کہ بحکم۔ ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِ‌جالِكُم وَلـٰكِن رَ‌سولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّـۧنَ ۗ (پ22 ع2)

آپ تمام انبیاءؑ کے بعد تشریف لائے۔ اب جدید نہ آئے گا۔ اور بحکم ۔ وَأَر‌سَلنـٰكَ لِلنّاسِ رَ‌سولًا ۚ (پ5 ع8)

’’ترجمہ۔ اور ہم نے آپ کو تمام دنیا کے لوگوں کےلئے رسول مقرر کر کے بھیجا ہے۔‘‘ وَما أَر‌سَلنـٰكَ إِلّا رَ‌حمَةً لِلعـٰلَمينَ ﴿١٠٧۔ (پ17 ع7) ’’ہم نے آپ کو اور کسی وجہ سے رسول مقرر کر کے نہیں بھیجا۔ مگر تا قیام قیامت تمام دنیا کے لوگوں پر مہربانی کر کے بھیجا ہے‘‘ وَما أَر‌سَلنـٰكَ إِلّا كافَّةً لِلنّاسِ بَشيرً‌ا وَنَذيرً‌ا وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ‌ النّاسِ لا يَعلَمونَ ﴿٢٨۔ (پ22 ع9) ’’انبیاء ؑ سابقین کی طرح ہم نے آپ ﷺ کو کسی خاص قوم ملک وزمان کے لئے نہیں بھیجا مگر تاقیام قیامت تمام لوگوں کے لئے بشیر و نزیر کر کے بھیجا ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘ اور هُوَ الَّذى بَعَثَ فِى الأُمِّيّـۧنَ رَ‌سولًا مِنهُم يَتلوا عَلَيهِم ءايـٰتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَإِن كانوا مِن قَبلُ لَفى ضَلـٰلٍ مُبينٍ ﴿٢﴾ وَءاخَر‌ينَ مِنهُم لَمّا يَلحَقوا بِهِم ۚ وَهُوَ العَزيزُ الحَكيمُ ﴿٣﴾۔ (پ28ع11) آیت وآخرین منھم سے اور آیات سابقہ سے تا قیام قیامت محمد رسول اللہﷺ کی بعثت ثابت ہے۔ اور اسی قرآن سے تبلیغ ہے۔ اور آپ ہی قرآن کے مبین ہیں۔ کما تقدم اور آپ کا بیان آپ کے بعدآپﷺ کی احادیث کے ذریعے سے ہے۔ اور اس کے مبلغ و عامل سوا علماء کے اور کوئی ہے ہی نہیں۔ بلکہ ان کے سوا سب جاہل ہیں۔ پروفیسر ہوں یا ور کوئی وہ سبب جہالت از قرآن تبلیغ کے قابل نہیں۔ پس ثابت ہوا کہ علماء ربانی کو اللہ تعالیٰ نے خدا ترس بتایا۔ اور انھیں کے زریعے قرآن کی تبلیغ کرانے کا ذمہ لیا۔ کما تقدم تقریرہ تو اب مودودی صاھب کا ان علماء ربانی کو اسلام کے درہم برہم کرنے والے بتاناقرآن کی تکذیب ہے۔ اور مودودی نے کسی کا استثناء نہیں کیا۔ ہمارے علماء میں اضافت استغفراقی ہے۔ اور ہاں جب قرآن کے الفاظ کے سوا مودودی کے نزدیک دنیا میں کوئی کتاب اسلام کے اصول و فروع کے لئے کار آمد نہیں۔ اور تمام علمائے اسلام اسلام کے درہم برہم کرنے والے ٹھرے۔ تو پھر مودودی صاھب کو اسلام اور قرآن اور اس کے معانی کس کے زریعہ پہنچے۔ کیا شکم مادرسے لے کر آئے تھے۔ تو پھر سالہا سال برطانیہ کے سکولوں میں کیوں پڑھتے رہے۔ وہ بھی انگریزی خصوصا انگریزوں سے کیاپڑھنے کی ضرورت تھی۔ یا کیا نبوت کا دعوی یاخیال ہے۔ خدا خیرکرے ۔ باتیں تو آپ کی اسی قسم کی ہیں۔ دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اورہاں پھر مودودی زہر ہ علماء میں ہیں۔ یا جہلا میں یعنی جائل از علم قرآناگرعلماءمیں توپھرآپ بھی دین بگاڑو وہئے۔ اور آپ کے پیرو آپ کے ساتھ اور اگر علماء سےخارج تو جہلا کی باتیں بھی جہالت وگمراہی ہے۔ مودودی صاحب فرماتے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں جس کو فرشتہ کہتے ہیں۔ وہ تقریبا وہی چیز ہے جس کو یونان ور ہندوستان میں دیوی دیوتا قراردیاہے۔ انتھیٰ۔ تجدید احیاء دین ص10 ہندوستان میں دیوتاسورج۔ سورج ۔ چاند۔ ابر۔ بادل۔ پانی ۔ ہوا ۔ آگ۔ آدمی مرد ہو تو دیوتا۔ اورعورت ہو و دیوی قراردیا گیاہے۔ مہاتما بدھ کودیوتا۔ اور راجہ چندرگمپت کی رانی لکشمی کو دیوی قراردیا گیا ہے۔ متھرا شہروں کےمندروں عمارتوں کودیوتائوں نے بنایا تھا۔ سومنات کے مندر میں چاند دیوتا کابت تھا۔ تاریخ ہندوپاکستان پہلاحصہ۔

اللہ اللہ یہ کتنی بڑی قرآن کی مخالفت یا تحریف ہے۔ کہ ملک کا ترجمہ فرشتہ ہے۔ جس کا زکرقرآن شریف میں اول سے آخر تک بکثرت آیا ہے۔

وَإِذ قالَ رَ‌بُّكَ لِلمَلـٰئِكَةِ إِنّى جاعِلٌ فِى الأَر‌ضِ خَليفَةً ۖ  اورمَن كانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلـٰئِكَتِهِ وَرُ‌سُلِهِ وَجِبر‌يلَ وَميكىٰلَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلكـٰفِر‌ينَ ﴿٩٨۔ (پ1 ع4) ۔ لَيسَ البِرَّ‌ أَن تُوَلّوا وُجوهَكُم قِبَلَ المَشرِ‌قِ وَالمَغرِ‌بِ وَلـٰكِنَّ البِرَّ‌ مَن ءامَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ وَالمَلـٰئِكَةِ وَالكِتـٰبِ وَالنَّبِيّـۧنَ وَءاتَى المالَ عَلىٰ حُبِّهِ ذَوِى القُر‌بىٰ وَاليَتـٰمىٰ وَالمَسـٰكينَ وَابنَ السَّبيلِ وَالسّائِلينَ وَفِى الرِّ‌قابِ وَأَقامَ الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَى الزَّكو‌ٰةَ وَالموفونَ بِعَهدِهِم إِذا عـٰهَدوا ۖ وَالصّـٰبِر‌ينَ فِى البَأساءِ وَالضَّرّ‌اءِ وَحينَ البَأسِ ۗ أُولـٰئِكَ الَّذينَ صَدَقوا ۖ وَأُولـٰئِكَ هُمُ المُتَّقونَ ﴿١٧٧۔ (پ1ع12) ۔ ءامَنَ الرَّ‌سولُ بِما أُنزِلَ إِلَيهِ مِن رَ‌بِّهِ وَالمُؤمِنونَ ۚ كُلٌّ ءامَنَ بِاللَّهِ وَمَلـٰئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُ‌سُلِهِ (پ2ع6) ۔ وَتَرَ‌ى المَلـٰئِكَةَ حافّينَ مِن حَولِ العَر‌شِ يُسَبِّحونَ بِحَمدِ رَ‌بِّهِم ۖ (پ3 ع8) ۔ وَالنّـٰزِعـٰتِ غَر‌قًا ﴿١﴾ وَالنّـٰشِطـٰتِ نَشطًا ﴿٢﴾ وَالسّـٰبِحـٰتِ سَبحًا ﴿٣﴾ فَالسّـٰبِقـٰتِ سَبقًا ﴿٤﴾ فَالمُدَبِّر‌ٰ‌تِ أَمرً‌ا ﴿٥﴾ ۔ (پ30 ع2) ملائکہ یا فرشتے اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے۔ جو سورج بادل ۔ چاند۔ ہوا۔ آگ انسانوں جنوں وغیرہ سے جدا ہے۔ (جن کی پیدا ئش نور سے ہے۔ حدیث صحیح مسلم) مودودی صاحب نے بدھ اور لکشمی رانی۔ چندر گپت کی زوجہ کو بھی فرشتوں میں شمار کیا ہے۔ حتیٰ کہ بعض ہندووں نے ہنومان بندر کو بھی دیوتا مانا ہے۔ پھر کیا یہ قرآن یا شریعت کی تحریف نہیں تو اور کیا ہے۔ ملائکہ یا فرشتوں سے اللہ تعالیٰ کلام کرنا فرشتوں پر ایمان لانا۔ اور اللہ تعالیٰ کے صالح بندے ہونا۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے بعض بعض کاموں پر مقرر کر رکھا ہے۔ اور ان کاموں کو سر انجام دیتے ہیں۔ جنت دوزخ پر مقرر ہیں۔ ان کا حاملان عرش الرحمان ہونا ثابت ہے۔ وہ آسمانوں پر بھی ہیں زمین پر بھی وہ نہ جن میں نہ انسان۔ ان میں انسانی خواہشات اکل شرب جماع وغیرہ کی خواہش نہیں۔ ہاں کفار کا خیال تھا کہ وہ بنات اللہ ہیں۔ معاذ اللہ۔ اللہ کی بیٹیاں بتاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے۔ مودودی صاحب نے انھیں کو دیوی قرار دیا ہے۔ تو یہ ان کی تقلید ہے۔ ہاں آپ کے نزدیک متھر ا کے پجاری بھی فرشتے ہیں۔ معاذ اللہ یہ قرآن کی مخالفت ہے۔ تحریف ہے۔ ہاں ہاں پروفیسر ایسے ی قرآن کی تفسیر کرنی جانتے ہیں۔ جب ہی تو آپ نے فتویٰ دیا ہے۔ کہ قرآن کے لئے کسی تفسیر کی ضرورت نہیں۔ ایک پروفیسر انگریزی دان کافی ہے۔ جامع ترمذی میں حدیث ہے۔ من قال في القران برام فليبتوا مقعده من النار (مشکواۃ ص 35) جو بلاوساطت رسول اللہﷺ صرف اپنی عقل سے غلط شلط قرآن کی تفسیر کرتا ہے۔ وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بناتا ہے۔ ایک اور حدیث ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا جب عالم ربانی مر جایئں گے۔ تو لوگ قرآن سے بے بہروں کو اپنا سردار بنالیں گے۔ پھر وہ لوگ ان سے فتویٰ پوچھیں گے۔ وہ فتویٰ دیں گے۔ پھر وہ خود بھی گمراہ ہوں گے۔ لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (متفق علیہ مشکواۃ۔ ص 33 جلد نمبر 1) دوسری حدیث میں حضورﷺ نے فرمایا۔ اذا وسل الامر الي غير اهله فانتظر الساعة (صحیح بخاري ۔ مشکواۃ۔ ج2 ص469) یہ آثار قیامت میں سے ہے۔ سائل صاحب آپ نے دریافت کیا ہے۔ کہ ہم کو لٹریچر مذکور حوالے ہم کو بلاتے ہیں۔ ہم کیا کریں۔ تو جواب یہ ہے کہ تحقیق مذکور سےحق وضح ہوگیا ہے۔ کہ لٹریچر مذکور غلط سے باطل ہے۔ ان میں داخل ہونا دوزخ میں دیدہ دانستہ داخل ہونا ہے۔ ایک حدیث میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے بعد آخر میں ایسے لوگ ہوں گے۔ جو میری سنت کو چھوڑ کر اپنا الگ مسلک ایجاد کریں گے۔ اور وہ دوزخ کی طرف لوگوں کوبلایئں گے۔ جو ان کی دعوت قبول کرے گا۔ ان کی بات مانے گا اس کو دوزخ میں ڈال دیں گے۔‘‘ (متفق علیہ۔ مشکواۃ ص 461 ج2)

مراد ما نصیحت بود کردیم              حوالت با خدا کردیم ورفتیم

اند کے باتو بگفتم و بدل تر سیدم         کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیاراست

 (راقم ابو سعید شرف الدین دہلوی)

------------------------------------------------

1۔ اس رسالہ یعنی’’خطاب مودودی‘‘کے ساتھ رسالہ جماعت اسلامی کا پس منظر بھی سنادیا کیجئے۔ (راز)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 316-334

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ