سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(65) تصویر کشی جائز کرنے کے بیان میں

  • 5844
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1942

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید کہتا ہے کہ تصویر کا رکھنا او ر اتارناف جائز ہے۔ بشرط یہ کہ تصویر کی پشت پر ہاتھ پھرایا نہ جائئے۔ جائز ہے ایسی تصویر جو آج ہر جگہ فوٹو نظر آرہی ہے۔اُتار لینا جائز ہے۔بکر بحوالہ قرآن وحدیث کہتا ہے۔ اسلام میں خوا ہ کیسی ہی تصویر ہو جاندار کی اتارنا اور  تصویر کا مکان میں رکھنا جائز نہیں۔بلکہ مطلقاً حرام اور ممنوع ہے۔ زید بحوالہ قرآن وحدیث ایک نظیر پیش کرتا ہے۔کہ شریعت میں تا کیدی امر ہونے پر بھی ہمارے پیشوا بڑے بڑے علماء دین جیسے کہ شوکت علی صاحب۔مولنا ابو الکلام آذاد۔مولانا محمد علی صاحب اور خواجہ حسن نظامی صاحب۔وغیرہوغیرہ کیوں اپنی تصویر لیتے ہیں۔کیا ان کو خدا کا خوف نہیں۔یا ان کے لئے جائز ہے۔ہمارے لئے ممنوع ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اول تو یہ قاعدہ ہے کہ خدا اور رسولﷺ کے  حکم کے خلاف کسی کا قول اور فعل سند تو کیا قابل قبول نہیں۔مولانا آذاد نے تصویر کی اجازت سے خود رجوع کیا ہوا ہے۔(دیکھو دیباچہ تذکرہ)دوسرے اور تیسرے صاحب علمائے دین نہیں ہیں۔ اخبارات میں عزت کے طور پر ان کو مولانا لکھتے ہیں۔خواجہ حسن نظامی کی کوئی تحریر کی اجازت ہم نے نہیں دیکھی۔اگر انہوں نے بھی اجازت دی ہے۔تو یہ اجازت ان کی ویسی ہی ہوگی جو سجدہ پیر کی بابت انھوں نے دے رکھی ہے۔اس لئے شریععت میں سوائے نبی علیہ السلام کے کسی کا قول وفعل سند نہیں۔

شرفیہ

صحیح بخاری مسلم کی حدیث ہے۔کہ یہود و نصاریٰ قبروں پر بناتے بنواتے تھے۔ان کورسول اللہﷺ نے فرمایا! اولئك شرار الخلق(انتہٰی ۔مشکواة) ’’تصویریں بنانے رواج دینے والے مخلوق میں شریر ہیں‘‘ اور دوسری حدیث مرفوع میں ہے۔من رضي عمل قوم كان شريك من عمل به اخرجه (ابو یعلیٰ وغیرہ ہدایہ 365 ص) ’’پس تصویر بنانا۔رکھناپسند کرنا شرار االخلق بننا ہے۔‘‘

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

 

 

جلد 01 ص 206

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ