سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(49) تقدیر پر تفصیلات

  • 5828
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 888

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تقدیر کے لکھے ہوئے کے خلاف انسان کا م کرسکتاہے کہ نہیں۔ تقدیر لکھی ہوئی تبدیل ہوسکتی ہے یا نہیں۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تقدیر کو تقدیر والا ہی تبدیل کرسکتا ہے۔ آیت يَمحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثبِتُ ۖ

تقدیر کی تفسیر بطرز جدید

تقدیر کیا ہے ؟آئندہ ہونے والے واقعات کا اندازہ یا موازنہ جس طرح سلطنتوں کا نظم ونسق اور موازنہ شائع ہوتا ہے۔ مگر فرق اتنا ہے کہ سلطنتوں کا موازنہ انسانی ہاتھوں کا مرتبہ ہوتا ہے۔ اسی لئے سال ختم ہونے تک اس میں کمی و بیشی کا امکان رہتا ہے۔ بلکہ بین طور پر کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔

موازنہ میں ہر ایک کام کے لئے ایک مقدار رقم کی شریک رہتی ہے۔ لیکن اتنی رخرچ نہیں ہونے پاتی۔ یا زیادہ خرچ ہوجاتی ہے۔ کام جیسا مطلوب تھا انجام نہیں پاتا۔ اسی قسم کے سینکڑوں انقلابات رونما ہوتے ہیں۔ یہ خوددلیل انسانی کمزوری کی ہے۔ موازنہ قدرت کا حال ایسا نہیں۔ اس میں کمی بیشی ناممکن۔ اس میں افراط وتفریط نا ممکن اس میں مقررہ کام کی کمی ناممکن۔ غرض اس میں مقدار مقررہ اور حدود مقررہ سے تجاوز ناممکن ہوتا ہے۔ یہ اس لئے کہ موازنہ موصوفہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کامرتب فر مودہ ہے جس کے قبضہ قدرت میں سارا جہاں اور جہانیاں ہیں۔ اور جس سے زرہ زرہ کسی طرح پوشیدہ نہیں۔ نیز ایک فرق یہ ہے کہ دنیاوی سلطنتوں کا موازنہ صرف رقمی آمد و خرچ کے حسابات تک محدود رہتاہے۔ اور صانع حقیقی کا موازنہ ہر امر کلی و جزئی ارضی سماوی ملکی اور جملہ تغیرات وتصرفات وغیرہ پر محیط رہتاہے۔ سلطنتوں کا موازنہ ایک محدود مدت سال دو سال تک کے لئے ہوتا ہے۔ اور موازنہ الہٰی ازلی و ابدی ہوتا ہے۔ کیونکہ انسان اپنی جہل کی وجہ سے ہر چیز کی تفصیلات پر احاطہ نہیں کرسکتا۔ اور اپنے حادث ہونے کی وجہ سے محل تغیر و انقلاب میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم تغیر فسادسے بری اس کا علم ہرچیز پر محیط ہے۔ اورکوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں تو اس کا موازنہ اُسی شان کا ہونا چاہہیے اور ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: وَكُلُّ شَىءٍ عِندَهُ بِمِقدارٍ‌ ﴿٨ عـٰلِمُ الغَيبِ وَالشَّهـٰدَةِ الكَبيرُ‌ المُتَعالِ ﴿٩سورة الرعد

’’اللہ تعالیٰ کے پاس پرچیز ایک اندازے پر ہے۔ وہ حاضر وغائب سب کو جاننے والا بڑائی والا اور سربلندی والا ہے۔‘‘

اور دوسری جگہ ارشادہے:

إِنّا كُلَّ شَىءٍ خَلَقنـٰهُ بِقَدَرٍ‌ ﴿٤٩وَما أَمرُ‌نا إِلّا و‌ٰحِدَةٌ كَلَمحٍ بِالبَصَرِ‌ ﴿٥٠سورة القمر

’’ہم نے ہر ایک چیز کو ایک اندازے سے پیدا کیا ہے۔ او ر ہمارا ہر امر صرف ایک پلگ جھپکنے کے برابر ہے۔‘‘

جس طرح سلطنتوں کے موازنہ میں قیدیوں کے خوراک کی رقم ا ن کے پوشاک کی رقم اور ان کے جملہ اخراجات کا اندازہ شریک رہتا ہے۔ اور ان کے جرم سے سلطنت ناراض اور ان کے جرائم کے خلاف حکومت سے حکم صادر ہوتے ہیں۔ لیکن باجود اس کے ان کے جملہ اخراجات عدالت پولیس مجلس فوج وغیرہ کے مصارف شریک موازنہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی عاصیوں کے عصیان سے ناراض ہے۔ اور ان کی نافرمانی خلاف امر الہٰی ہے۔ اور اس کی سزا دہی کےلئے اللہ پاک نے دنیا میں مذکورہ اسباب اور آخرت میں دوزخ اور اس کے عذاب پیدا کیے ہیں۔ اللہ محفوظ رکھے۔ آمین

مثلا کسی جگہ قتل کی واردات ہوجاتی ہے۔ تو اس میں شک نہیں کہ قاتل سرکاری ملازم یا رعایا ہے۔ سرکاری اس کا ہتھیار جس سے خون کیا ہے۔  وہ بھی سرکاری یا کم از کم سرکاری حکم واجازت سے بنا ہوا ہے۔ یا سرکاری اجازت سے درآمد کیا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن سرکاری اجازت کسی بے گناہ کے متعلق قتل کی ہرگز نہیں ہوتی۔ اسی طرح ان واقعات کو تقدیر الہیٰ سے سمجھنا چا ہیے۔ کہ ایک خدا کے بندے نے اللہ کے بندے کو اللہ کے پیدا کئے ہوئے ہتھیارسے اللہ کے ملک میں اللہ کی دی ہوئی قوت سے قتل کیا۔ لیکن اللہ نے اس بے گناہ کو قتل کرنے کا حکم کبھی نہیں دیا تھا۔ اس لئے سزا و جزا کا اس سے متعلق ہونا سلطنت کے نزدیک بھی واجبی بات ہے۔ اوراللہ تعالیٰ شانہ کے پاس بھی فرق اس قدر ہے کہ سلطنت کے موازنہ میں ان امور کا اندراج نہیں ہے اس لئے کہ ان واقعات کو رقمی آمد وخرچ سے کوئی تعلق نہیں۔ صرف قیدی مذکور کی خوراک ۔ پوشاک۔ مجلس۔ محافظ دستہ۔ کے اخراجات فیصلہ کنندہ حاکم اور محکمہ کے اخراجات وغیرہ وغیرہ رقمی مدات درج موازنہ ہیں۔ اور اللہ پاک نے اپنے علم محیط اور قدرت علی الاطلاق وغیرہ کے مد نظر ہر امر کو تقدیر میں لکھا ہے۔ جس میں بے شمار حکمتیں ہیں۔ جن کو وہی خوب جانتا ہے۔ اور کسی کو اس میں چون وچرا کرنے کی کوئی مجال نہیں۔ ارشاد ہے۔ آیت لا يُسـَٔلُ عَمّا يَفعَلُ وَهُم يُسـَٔلونَ ﴿٢٣ اس کے کئے ہوئے کی نسبت کوئی سوال کا مجاز نہیں۔ خود ان لوگوںسے باز پرس ہوتی ہے۔ جب ہتھیار کی تیاری یا برآمد اور اس ی فروخت اس کے طریقہ استعمال کی تعلیم وغیرہ(امور جو مبادی قتل ہیں)کے باوجود حکومت پر قتل کی زمہ داری نہیں۔ اور قاتل کو سزا دینے میں وہ حق بجانب ہے۔ تو کس کا منہ ہے کہ جناب باری تعالیٰ شانہ کی جناب میں کوئی دریدہ دہنی کرے۔ اور اس کے کسی فعل پر حرف شکایت یا اعتراض زبان پر لائے۔ معاذاللہ ۔ معاذللہ كَبُرَ‌ت كَلِمَةً تَخرُ‌جُ مِن أَفو‌ٰهِهِم ۚ إِن يَقولونَ إِلّا كَذِبًا ﴿٥﴾ ’’بہت بڑی گستاخی کی بات ہے جو معترضین کی زبان سے نکل جاتی ہے۔ وہ صرف جھوٹ کہتے ہیں۔‘‘ان کو ایسا کہنے کا حق نہیں ہے۔

چونکہ بعض نا فہم یا کج فہم  یا کم فہم لوگ کچھ کا کچھ سمجھ لیتے اور اعتراض کر بیٹھتے ہیں۔ اور مسئلہ تقدیر باریک مسئلہ ہے۔ اس بارے میں حصہ لینے اوراس میں موشگافیاں کرنے یا بحث کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ دوسرے انسان کا کام اپنے فرائض کی انجام دہی ہے۔ نہ کہ موازنہ غور وخوض کرنا۔ کام کرنے والوں کو تو موازنے سے غرض ہی نہیں ان کو صرف اپنے دستور العمل پرکاربند رہنا چاہیے۔ سلطنت کا موازنہ چونکہ انسانی ہاتھوں کا بنایا ہوا ہوتا ہے۔ جس میں کمزوریاں بھی ہیں اور اغراض بھی کسی کی حق تلفی بھی ہے اوردیگراصولی لغزشیں بھی۔ اسی لئے اس پر وہ لوگ بحث کرتے ہیں۔ جو اس کی اصطلاح کراسکتے ہیں۔ تو ان کا بحث کرنا بھی بجا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ہر حکم اکمل ہے۔ اورہر امر کی بنیاد مستحکم یہاں دم مارنے کی کسی کو کیا مجال ہے۔ لہذا بحث کرکے اپنے اوقات ضائع کرنے کے سوا تقدیر میں بحث کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ پس یہ اعتقاد رکھناچاہیے کہ ہر امر خواہ خیر ہویا شر اللہ سبھانہ کی طرفسے ہے۔ خیر سے خدا راضی اور اس کا حکم فرماتا ہے۔ اورشر سے خدا ناراض اور اسکے کرنے کا کبھی حکم نہیں فرماتا۔ جتنے برے کادنیا میں ہوتے ہیں۔ وہ اگرچہ تقدیر الہیٰ سے باہر نہیں لیکن خلاف امرالہٰی ضرور ہیں۔ اس طرح اچھے کام جس قدر ہوتے ہیں۔ وہ بھی تقدیر الہٰی میں داخل اور حکم الہٰی کے مطابق ہیں۔ لہذا برے کام کی سزا اور اچھے اور نیک کام کی جزا ملنی بھی واجبی بات ہے۔ اور یہ بھی تقدیر الہٰی میں داخل اور موازنہ الہٰی میں شامل ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

 

 

جلد 01 ص 187

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ