سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(08) جوکوئی حاکم حقیقی پروردگار کو کہ ہربات سنتا ہے..الخ

  • 5515
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1758

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جوکوئی حاکم حقیقی پروردگار کو کہ ہربات سنتا ہے اور ہر چیز سے خبر رکھتا ہے۔ ساتھ حاکم مجازی دنیا کے باین معنی تشبیہ دیوے کہ جیسے حاکم دنیاوی سے کسی چیز کو مانگنا اور ان سے داد چاہنا اور استعانت کرنا بغیروسیلہ کے نہیں ہوسکتا ہے ویسا ہی خداوند تعالیٰ سے کہ دربار اس کا سب درباروں سے عالیٰ ہے ، بغیر وسائل کے حاجت روائی نہیں ہوسکتی ہے اور بغیر وسیلہ کے اللہ کسی بات نہیں سنتا ہے پس واسطے اس شخص کے از روئے شرع  شریف کے کیا حکم ہونا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں  توسل اولیاء و اموات کی حاجت نہیں، بلا وسیلہ وہ سنتا ہے کیونکہ حق سبحانہ خود فرماتا ہے ، نحن[1] اقرب الیہ من حبل الورید واسروا قولکم  اوا جہروا بہ انہ علیم بذات الصدور۔ وغیرہا من الایات الکریمۃ، حدیث شریف میں  وارد ہے ، عن[2] ابن عباس قال کنت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوما فقال یا غلام احفظ اللہ یحفظک احفظ اللہ تجدہ تجاھک واذا سألت فاسئل اللہ واذا استعنت فاستعن باللہ رواہ احمد والترمذی کذا فی المشکوٰۃ، ملاعلی قاری اس کی شرح میں  لکھتے ہیں، قولہ اذا سألت فاسئل اللہ ای فاسئلہ[3] وحدہ لان خزائن  العطا یاعندہ و مفاتیح المواھب والمزایابیدہ و کل نعمۃ او نقمۃ دنیویۃ و اخرویۃ فانہا تصل الی العبد او تند فع عنہ برحمتہ من غیر شائبۃ غرض و علۃ لانہ الجواد المطلق والغنی الذی لا یفتقر فینبغی انلا یرجی الا رحمتہ ولا یخشی الانقمتہ ویلتحی عظام المہام الیہ و یعتمد فی جمہور الامور علیہ ولا یسأل غیرہ لان غیرہ غیر قادر علی العطایا والمنع والنفع والضرر و جلب النفع فانہم لا یملکون لا نفسہم نفعا ولا ضرا ولا یملکون موتا ولا حیاۃ ولانشورا۔انتہی ما فی المرقات الملا علی القاری ، قال ربکم ادعونی استجب لکم الایۃ، کیا رحمت کاملہ اس ارحم الراحمین کی ہے کہ طلب دعا کے واسطے بصیغہ امر بتاکید ارشاد فرماتا ہے۔

عن النعمان بن بشیر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الدعاء ھو العبادۃ وفی روایۃ اخری الدعا مخ العبادۃ ثم قرئ قال ربکم ادعونی استجب لکم رواہ احمد والترمذی و ابوداؤد و ابن ماجۃ[4]

در عدم ما مستحقان کے بُدیم

کہ برین جان و بدین دانش شدیم

ما نبودیم و تقاضا ما نہ بود

لطف تو ناگفتہ ما  می شنود

عن [5] ابی ہریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال ینزل ربنا تبارک و تعالیٰ کل لیلۃ الی السماء الدنیا حین یبقی ثلث اللیل الاخر یقولمن یدعونی فاستجب لہ من یسئنی فاعطیہ من یستغفرنی فاغفرلہ کما رواہ  البخاری وغیرہ من  المحدثین ، یعنی بخوانید مرا دازمن خواہید کہ خزانہ عامرہ رحمت من مالا مال است و کرم من بخشندہ امال،کدام گدائے دست نیاز پیش اوردہ کہ نقد مراد برکف امیدش نہ نہادم و کدام محتاج زبان سوال کشادہ کہ رقعہ حاجتش بتوقیع اجابت موشح نساکتم اے غافلان مردہ دلان بشنوید

بر آستان ارادت کہ سرنہاد شبے

کہ لطف دوست بردیش ہزار درنکشاد

اور حدیث شریف میں  وارد ہے کہ  جوکوئی دعا و استعانت و سوال اللہ جل شانہ کی جناب میں  نہیں  کرتا تو اللہ کریم و رحیم اس سے ناخوش ہوتا ہے۔ عن[6] ابی ہریرۃ قال قالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من لم یسأل اللہ یغضب علیہ رواہ الترمذی ۔ عن  ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیس شئ اکرم علی اللہ من الدعاء رواہ الترمذی۔

یجہم و یجبونہ چہ اقرار است

بزیر پردہ نگر خویش را خریدار است

ارباب شریعت پر مخفی نہیں کہ بندوں کی طاعت وسیلہ ہے ظاہر میں  نجات کا یعنی امتثال اوامر و اجتناب نواہی وسیلہ ہے ظاہر میں  اور باطن میں  نظر اوپر رافت کاملہ اور رحمت شاملہ کے چاہیے۔ یاایہا[7] الذین امنوا اتقوا اللہ وابتغوا الیہ الوسیلۃ من فعل الطاعات وترک السیئات کذا فی المدارک وغیرہ من التفاسیر و جاھدوا فی سبیلہ لعلکم تفلحون الایۃ۔

این طلب مابے طلب تو دادہ

گنج احسان برہمہ بکشادہ

این طلب درماہم از ایجاد تست

رستن از بیداد یارب داد تست

این قد رار شاد توبخشیدہ

 تابدین بس عیب ما پوشیدہ

قطرہ دانش کہ بخشیدی زپیش!

متصل گردان بدریا ہائے خویش

کتب  [8]ربکم علی نفسہ للرحمۃ انہ من عمل منکم سوء ا بجھالۃ ثم تاب من بعدہ واصلح فانہ غفور رحیم۔

درد مندان گنہ را  روز و شب

شربتے بہتر ز استغفار نیست

آرزو مندان وصل یاررا

چارہ غیر از نالہائے زار نیست

قال [9]اللہ تعالیٰ ولا تکونوا کالذین قالوا سمعنا مباشید مانند آنا نکہ گفتند شنیدیم مامثل اہل کتاب یامنافقان  وھم یسمعون و حالانکہ ایشان نمی شنوند، شنیدنی کہ بدان نفع گیرند، پس گویا کہ نمی شنوید۔

گو کہ می شنوم ہرچہ گفتی سعدی

چہ شد کہ می شنوی چون سخن نمی شنوی

قال[10] اللہ تعالیٰ انما المؤمنون الذین اذاذکر اللہ وجلت قلوبہم واذا تلیت علیہم ایاتہ زادتہم ایمانا وعلی ربہم یتوکلون الایۃ ،چہ  ہرکسے کہ درسطوت غلبہ نورانیت حق مضمحل و مقہور شدا درا پردائے ماسوی اللہ نہ می ماند

ہر کہ او در بحر مستغرق شود

فارغ از کشتی و از زورق شود

غرقددریا بجز دریا ندید

غیر دریا ہست بردے ناپدید

توز روزی دہ بروزی واممان

از سبب بگذر مسبب بین عیان

از مسبب می رسد ہر خیر و شر

نیست زاسباب و سائط اے پسر

اصلبیند دیدہ چون اکمل بود

فرع بیند ویدہ چون احول بود

تفسیربیضاوی میں  تحت آیت کریمہ ومن  [11]اضل ممن یدعو مندون اللہ من لا یستجیب لہ الی یوم القیامۃ وھم عن دعائھم غافلون لانہم اما جماد واما عباد مسخرون مشتغلون باحوالہم۔انتہی کلام قاضی البیضاوی، واضح  ہو صاحبان دانش پرکہ  کفار بھی معبودان باطلہ کو برابر خدا تعالیٰ کے کسی طرح کی قدرت میں  نہیں جانتے تھے بلکہ بمجرد تشبیہ نہ تحقیق ان سے حاجت روائی چاہتے تھے۔ سو اللہ تعالیٰ نے  ان کو  اس تشبیہ مجرد پرمشرک فرمایا، جیسا کہ تفسیر بیضاوی میں  تحت آیت فلا تجعلوا للہ اندادا وانتم تعلمون[12] کے  مذکور ہے ۔ تسمیۃ ما یعبدہ المشرکون دون اللہ اندادا وما زعموا انہا تساویہ فی ذاتہ و صفاتہ ولا انہا تخالفہ فی افعالہ لانہم لما ترکوا عبادتہ الی عبادتہا سموھا الھۃ شابھت حالھم حال من یعتقد انہا ذوات واجبۃ بالذات قادرۃ علی ان تدفع عنہم باس اللہ و تمنعہم مالم یرد اللہ بہم الی اخرما فی البیضاوی۔

اور چلہ کرنا قبروں کے پاس اس نیت سے کہ یہ سبب مجاورات اہل لقبور کے حاجت روائی ہماری ہوجائے گی اور اس لیے  لوگ مقبرہ بزرگان  میں   بامید استعانت چلہ کرتے ہیں تو اس طرح کے چلہ اور عکوف اصنام میں  کہ عادت کفار کی تھی کچھ فرق نہیں، دونوں برابر ہیں،کیونکہ چلہ عبارت اسی سے ہے کہ کسی بزرگ کی قبر پر اقامت اور مجاورت و بودو باش رات دن کااختیار کرنا چند روزہ اور یہی معنی عکوف کے ہیں تو یہ چلہ نوع شرک ہے کہ امید نفع و ضرر کااپنی حاجت براری کے لیےاعتقاد کرکے چلہ بیٹھتے ہیں قبروں کے پاس اور اسی پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے الزام دیا اپنی قوم کو ، عکوف برچیز ے مقیم بودن ورد آوردن صلہ  بعلی قولہ تعالیٰ  یعکفون علی اصنام لھم و یقال فلان عکف علی فرج حرام ، وگرد چیزے برگشتن عکف الجوہر فی النظم کذا فی الصراح۔ الاعتکاف [13]والعکوف الاقامۃ علی  الشئ و بالمکان ولزومہا کذا فی  مجمع البحار للشیخ العلامۃ ابن طاہر المفتنی قال اللہ تعالیٰ ماھذہ التماثیل التی انتم لہا عاکفون، ترجمہ شاہ ولی اللہ والد شاہ عبدالعزیز قدر سرہما۔ چیست این صورتہا کہ شما برآن مجاورت وارید۔ انتہی ما فی فتح الرحمٰن۔ ترجمہ شاہ عبدالقادر برادر شاہ عبدالعزیز قدس سرہما یہ کیا  مورتیں ہیں جن پرتم لگےبیٹھے ہو۔ (موضح القرآن)

آنحضرتﷺ نے قبر کے پاس نماز پڑھنے سے روکاہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قبر پر بیٹھنے سے مشرک کا ایک اور ذریعہ پیدا نہ ہوجائے اور ان کے دلوں میں  ڈر اور امید کاتعلق نہ پیدا ہو۔ اور یہ تو واضح بات ہے کہ مصیبت زدہ آدمی بہ  نسبت عافیت والے کے جلدی فتنہ میں  مبتلا ہوجاتاہے اور دعا کرنے والے عموماً بےقرار اور مصیبت زدہ ہی ہوتے ہیں تو  اس خطرہ سے قبر کے پاس دعا و نماز سے روک دیا گیا کہ مبادا قبروں سے لوگ مرادیں نہ مانگنے لگیں۔ اب قابل غور یہ امر ہے کہ جب اس فتنہ سےبچانےکے لیے اس نماز اور دعا سے بھی روک دیاگیا ہے جو خدا کے سامنے ہو تو صاحب قبر سے دعامانگنے کی نہی تو اس سے بھی زیادہ مؤکد ہوگی۔

پھر یہ بھی سوچیں کہ دعا کے لیے سب سےبہتر جگہ قبر ہے یاکوئی اور؟ اگر قبر سب سے افضل ہے تو نبی ﷺ اور تمام صحابہ اور تابعین اور دوسرے ائمہ ہدیٰ اس سے بےکبر تھے کیونکہ کسی نے بھی قبر کے پاس جاکر کبھی دعانہ کی اور یہ ناممکن ہے کہ ایک چیز بہتر ہو اور اس کا پتہ ان لوگوں کونہ ہو اور اگر کوئی اور جگہ بہتر ہے مثلاً مسجد وغیرہ تو پھر دعا اورنماز اس جگہ ہونی چاہیے نہ کہ قبر کے پاس، یہ دین میں  ایسی ایجاد ہےجس کی اللہ نے اجازت نہیں فرمائیں پھر امام ابوحنیفہ کے تمام شاگردوں میں  سے کسی ایک نے بھی  امام ابوحنیفہ کی قبر کے پاس جاکر دعانہ کی۔



[1]   ہم اس کی شاہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں، اور فرمایا ، تم بات آہستہ کرو یاظاہر کرو، وہ سینے کی باتیں بھی جانتا ہے۔

[2]    ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں  آنحضرتﷺکے پیچھے سواری پر تھا آپ نےفرمایا بیٹا اللہ کا خیال رکھنا  اللہ بھی تیرا خیال رکھے گا اور جب مانگے تو اللہ سے مانگ  اور مدد کی ضرورت ہو تو اللہ سےطلب کر۔

[3]   صرف ایک  اللہ سے مانگ ، کیونکہ  تمام خزانے اسی کے پاس ہیں، تمام دنیاوی اور اخروی نعمتیں اسی کے قبضہ میں  ہیں، وہ بغیر کسی لالچ کے بندہ پراحسان کرتاہے اور اس کی تکلیفیں دور کرتا ہے ، سو اسی پربھروسہ رکھنا چاہیے اور اسی سے توقع رکھنی چاہیے اور تمام کام اسی کے سپرد کرنے چاہیئیں اور اس کے علاوہ اور کسی سے کوئی توقع نہ رکھنی چاہیے کہ کسی کے  پاس کوئی بھی اختیار نہیں ہے، نہ کوئی  دے سکتا ہے ، نہ لے سکتا ہے، بلکہ کوئی بھی اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں۔

[4]   انحضرتﷺ نے فرمایا، ’’دعا ہی عبادت ہے‘‘ اور فرمایا’’ پکارنا عبادت کا مغز ہے‘‘ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ’’مجھے پکارو میں  تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘

[5]   اللہ تبارک و تعالیٰ ہر رات پچھلے تیسرے حصہ میں  آسمان و دنیا کی طرف نزول اجلال فرماتے ہیں، کون مجھے پکارتا ہے کہ میں  اس کی دعا کو قبول کرو کون مجھ سے مانگتا ہے کہ میں  اس کو دوں، کون گناہوں کی معافی چاہتا ہے کہ میں  اس کو بخشوں۔

[6]   آنحضرتﷺ نے فرمایا ’’جو اللہ  سے نہ مانگے ، اللہ اس پرناراض ہوجاتا ہے اور فرمایا دعا سے بڑھ کر خدا کے نزدیک کوئی چیز بھی معزز نہیں ہے۔‘‘

[7]   اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور بُرائیاں چھوڑ کر اور نیکی کرکے اس تک پہنچنے کا کوئی وسیلہ بناؤ۔

[8]   مقرر کیا ہے تمہارے رب نے اپنے آپ پرمہربانی کرنی، بےشک جو تم سے جہالت کی وجہ سے بُرے کام کرے، پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرے، تو بےشک  وہ خشنے والا مہربان ہے۔

[9]   اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم نےسنا اور وہ حقیقت میں  نہیں سنتے‘‘ یعنی ایسا سننا جس سے کوئی نفع حاصل  نہ ہو۔

[10]  اللہ تعالیٰ نےفرمایا، مومن وہ ہیں کہ جب اللہ  تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر خدا کی آیات پڑھی  جاتی ہیں توان کا ایمان زیادہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔

[11]   تفسیربیضاوی میں  اس آیت  ’’اور کون آدمی  اس سے گمراہ تر ہے جو  اللہ کے سوا کسی اور کو پکارے جو قیامت تک اس کو جواب نہ دے سکے اور وہ  ان کے پکارنے سے بے خبر ہیں‘‘ کے تحت لکھا ہے کہ یا تو وہ جمادات ہیں، یا بندے ہیں، جواپن حال میں  مشغول ہیں۔

[12]   تفسیر بیضاوی میں  تحت آیت ’’فلا تجعلوا للہ اندادا وانتم تعلمون‘‘ کے تحت  لکھا ہے کہ مشرکوں کے معبودوں کو اندادا (برابر) فرمایا ہے، حالانکہ مشرکین کا یہ عقیدہ نہیں تھاکہ  وہ صفات و احوال میں  خدا کے برابر ہیں، لیکن چونکہ وہ خدا کی عبادت چھوڑ کر ان کی عبادت میں  مشغول ہوگئے تھے تو گویا ان کی حالت اس آدمی جیسی ہوئی جو یہ عقیدہ رکھے کہ وہ ذات واجب بالذات ہیں اور خدا کا عذاب روکنے اور خدا کی بند کی ہوئی نعمتوں کو عطا کردینے کی قدر رکھتے ہیں۔

[13]  اعتکاف کا معنی ہے بیٹھنا،کسی جگہ کو لازم پکڑ لینا ۔ اللہ تعالیٰ نےفرمایا ’’یہ کیا مورتیاں ہیں جن پرتم دھرنا مار کر بیٹھے ہو۔‘‘


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ