سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(05) یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا اللہ نام کاوظیفہ کرنا

  • 5512
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1697

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں، علمائے کرام کہ ’’یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا اللہ یادوسرے بزرگوں کے نام کاوظیفہ کرنا مثلاً یا بھیکھ یا مجددیہ موجب ثواب ہے یا موجب کفر یاگناہ صغیرہ ہے یا کبیرہ اور ایسے وظائف کو جائز کہنے والے آدمی کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے یا نہیں اور ایسے وظائف کا منکرگمراہ اور بدعتی ہے یا حق پر ہے‘‘ کتب تفاسیر احادیث صحیحہ اور فقہ معتبرہ سےفتویٰ تحریرفرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غائب کو پکارنے سے کئی طرح پر شرک لازم آتا ہے اولاً یہ صفت علم میں  شرک ہے،دوم یہ صفت تصرف میں  شرک ہے اور یہ دونوں چیزیں عبادت سے تعلق رکھتی ہیں، سوم شرک فی العادت ہے۔

پہلی اور دوسری وجہ کی تشریح اس طرح ہے کہ دور و نزدیک ، ظاہر و پوشیدہ چیزوں کا علمی احاطہ کرنا، اور تمام پکارنے والوں کی دعاؤں کوسننا خواہ وہ کسی زبان میں  ہوں اور بیک وقت لاکھوں کروڑوں آوازوں کو سننا اور سمجھنا یہ صرف خدا تعالیٰ کا خاصا ہے، کوئی بھی مخلوقات میں  سے اس صفت میں  اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ہے اور اسی طرح تمام امور میں  تصرف کرنا، کسی کو نفع ونقصان پہنچانا یہ بھی خدا کا خاصہ ہے اور شرک کے اصول تین ہیں، یا ذات خداوندی میں  شرک ہوگا یا عبادت میں  یا صفات میں  اور ان تمام پہلوؤں میں  کوئی بھی  مخلوق اللہ تعالیٰ کی شریک نہیں ہے اور غیب کا جاننا بھی اسی کی صفت اور خاصہ ہے، اس کو بھی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ قرآن مجید میں  ہے،’’اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ان کو  اس کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘ آلایۃ اور فرمایا،’’آپ کہہ دیں اللہ کے سوا زمین اورآسمان میں  کو ئی غیب نہیں جانتا ‘‘ ہاں اگر وہ کسی  کو اطلاع دے دے تو ہوجاتی ہے ورنہ نہیں، آنحضرتﷺ تمام مخلوقات سے افضل و اشرف ہیں اور پھر بھی اللہ تعالیٰ نے آپ ک وحکم فرمایاکہ ’’ آپ کہہ دیں میں  اپنی جان کے نفع و نقصان کابھی مالک نہیں ہوں، مگر جو اللہ چاہے اور فرمایا’’اگر میں  غیب جانتا ہوتا تو بہت سےبھلائیاں اکٹھی کرلیتا اورمجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں  تو ایمانداروں کے لیے ایک ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔‘‘

کلبی نے کہا کہ مکہ والوں نے آنحضرتﷺسے کہا، اے محمد (ﷺ) تجھے تیرا رب سستے  نرخ کی اطلاع کیوں نہیں دیتا کہ تجھے فائدہ ہوجایا کرے یا قحط سالی کی خبر کیوں نہیں دے دیتا  کہ تو کسی سرزمین شاداب میں  چلا جائے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری،  ولوکنت  اعلم الغیب الآیۃ اور بعض نے کہا  ہے کہ اس سےمراد ایسے امور ہیں جو دین کی کامیابی میں  معاون ہوں کہ آپ ایسے لوگوں کوسمجھانے کی کوشش کرتے جن پر اسلام کی تعظیم اثر کرتی اور ایسے اشخاص پرتوجہ نہ کرتے جن کی قسمت میں  مسلمان ہونا نہیں تھا۔

اور آنحضرتﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ میں  اللہ کا رسول ہوں اور یہ نہیں جانتا کہ میرے متعلق تقدیر خداوندی نے کیا فیصلہ کررکھا ہے‘‘ اور اس سےبھوک، پیاس، صحت، بیماری وغیرہ دنیوی اور بھی مراد ہیں، کیونکہ آخرت کے متعلق تو اللہ تعالیٰ آپ کو ان کے متعلق کامیابی کی اطلاع دے چکے ہیں،حنفیہ نے ایسے آدمی پر کفر کافتویٰ لگایا ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ آنحضرتﷺ غیب جانتے ہیں کیونکہ یہ عقیدہ اس آیت قرآنی کے مخالف ہے، ’’قل لا یعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ‘‘ آلایۃ، شیخ ابن الہمام کے مسامرہ اور ملا علی قاری کی منح الازہر شرح فقہ اکبر میں  بھی اسی طرح اور خانیہ اور خلاصہ میں  ہے، اگر کوئی آدمی اللہ و رسول کی شہادت سےنکاح کرے تووہ نکاح درست نہیں ہوگا اور نکاح کرنے والا کافر ہوجائے گا کیونکہ اس نے یہ عقیدہ رکھا کہ نبیﷺ غیب جانتے ہیں۔

شاہ عبدالعزیز سورہ مزمل کی تفسیر میں  فرماتے ہیں کہ ’’جس کا تقرب حاصل کرنا مقصود ہو، اس میں  دو چیزوں کا ہونانہایت ضروری ہے ایک تو یہ کہ  وہ دور و نزدیک سے ذاکر کے اعمال قلبیہ و لسانیہ سے واقف ہو، جو مختلف زبانوں میں  اس کی پکار کامطلب سمجھتا ہو اور دوسری یہ کہ ہروقت اس کے قریب ہو، تاکہ بروقت اس کی مدد کرسکے اور یہ دونوںصفتیں خدا تعالیٰ کا خاصہ  ہیں کسی بھی مخلوق کو حاصل نہیں ہیں، ہاں بعض جاہل لوگ اپنے پیروں کے متعلق پہلی صفت ثابت کرتے ہیں اور ان سے مدد مانگتے ہیں۔

مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہواکہ یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ اور یا بھیکھ وغیرہ وظائف کرنا ناجائز ہے اور اس میں  شرک کرنا لازم آتا ہےکیونکہ غیب کا علم خدا تعالیٰ کے سوامخلوق میں  ثابت کیاگیاہے جوایسا عقیدہ رکھے اس کے پیچھے نماز نہیں پڑہنی چاہیے کیونکہ وہ مشرک ہے ، خدا تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے متعلق فرمایاہے ، وما یؤمن اکثرہم باللہ الاوہم مشرکون آلایۃ

تفسیر بیضاوی میں  ہے کہ جن کو خدا تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ یاتو پتھر وغیرہ ہیں، وہ تو کچھ سن ہی نہیں سکتے اور یا پھر خدا کے نیک بندے ہیں اور وہ اپنے حال میں  مشغول ہیں، ان کو دوسروں کی خبر ہی نہیں۔

علامہ تفتازانی نے شرح مقاصد میں  فرمایا ہے کہ اس مسئلہ میں  کوئی اختلاف ہی نہیں ہے کہ میت نہیں سن سکتی اور اس مضمون سے فقہ کی کتابیں بھری پڑی ہیں، چنانچہ  ہدایہ کے محشی علامہ محمود عینی نے بالآخر لکھا کسی کو بھی خدا تعالیٰ کے سوا پکارنا اور اس سے حاجت طلب کرنا درست نہیں ہے کیونکہ پکارنے کا مطلب ہوتا ہے، سنانا اور میت سننےکی اہل ہی نہیں ہے کیا تم قرآن مجید کی آیت پر غور نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’تو مرُدوں کونہیں سنا سکتا‘‘ اور ’’جو قبروں میں  چلے گئے تو ان کو سنانے والا نہیں ہے۔‘‘

قصہ مختصر ایسا عقیدہ  ہرگز نہ رکھنا چاہیے کہ بزرگوں کی روحیں ہمارے حالات سے واقف ہیں اور پھر ان کو پکارے اس سےشرک لازم آتا ہے چنانچہ بزاریہ وغیرہ کتب فقہ میں  صاف صاف فتویٰ دیاگیا ہے جو آدمی یہ عقیدہ رکھے کہ ’’مشائخ کی ارواح حاضر ہیں اور ہمارے حالات کوجانتی ہیں، وہ کافر ہے۔

شیخ فخر الدین ابوسعید عثمان بن الجیانی حنفی اپنے رسالہ میں  لکھتے ہیں ’’جو کہے میت اللہ تعالیٰ کے سوا امور میں  تصرف کرسکتی ہے اور یہی عقیدہ رکھے وہ کافر ہے‘‘ بحرالرائق میں  بھی ایسا ہی ہے اور رزق کی فراخی ، مصیبتوں کے دفعیہ اور اولاد وغیرہ کی طلب کی مدد خدا کے سوائے کسی اور سےمانگنا جائز ہی نہیں ہے ، رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے ’’جب بھی تو مدد مانگے تو اللہ تعالیٰ سے مانگ‘‘ پس آنحضرتﷺ نے اس کو شرط و جزا کے طور پرفرمایا ہے کہ خدا سےمانگ ، تو یہ منقول و معقول کامسلمہ قاعدہ ہے کہ لازم کے سوا ملزوم کا پایا جانا محال ہے اور آیت  ایاک نعبد و ایاک نستعین بھی تو یہی مضمون اداکررہی ہے۔

اگر کوئی آدمی یہ عقیدہ رکھے کہ واقعی غیب کی چابیاں تو خدا تعالیٰ کے پاس ہیں، لیکن اس نے اپنے نیک بندوں کے سپرد کررکھی ہیں، جس کی وجہ سے وہ سنتے اور جانتے ہیں تو اس  کے جواب میں  تفسیر نیشاپوری کی عبارت کافی ہے، وہ اسی آیت کی تفسیر میں  لکھتے ہیں ’’یہ غیب کی چابیاں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس ہو ہی نہیں سکتیں کیونکہ عقلی طور پر محاط اپنے محیط کا احاطہ نہیں کرسکتا، ایسے ہی واجب کا احاطہ غیر واجب نہیں کرسکتا تو لازمی طور پر یہ چابیاں اللہ تعالیٰ ہی کے پاس رہیں گی‘‘

اور شرک فی العادت یہ ہے کہ جیسے یا اللہ یا رحیم یا کریم کہتا ہے ویسے ہی یا علی یا حسین وغیرہ کہنے کی عادت بنا لے خواہ ان کو پکارنا مقصود نہ ہو، اس سے بھی پرہیز کرنا چاہیے کہ اس سے شرک کی بو آتی ہے اور اگر اس نظریہ سے ان کو پکارے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مختار بنا دیا ہے اور اپنی رحمت کے خزانے ان کے سپرد کررکھے ہیں اور اب اللہ تعالیٰ بھی ان کی مرضی کے بغیر از خود کچھ نہیں کرسکتے، جیسے کہ دنیاوی بادشاہ اپنی حکومت کے بعض شعبے اپنے  وزراء میں  تقسیم کردیتے ہیں اور پھر ان کے معاملات میں  بادشاہ بھی از خود کچھ دخل نہیں دیتے تاکہ نظام ملکی میں  بدنظمی نہ پیدا ہو، ہاں اگر ضروری ہو، تو بادشاہ اپنے کارمختار وزیر سے سفارش کردے گا کہ یہ کام اس طرح کرو، اگر ایسا ہی عقیدہ خدا کےمتعلق  رکھ کر خدا تعالیٰ کو ان کے پاس سفارشی بنائے تو یہ خدا تعالیٰ کی شان میں  انتہادرجہ کی گستاخی اور بے ادبی ہے۔

چنانچہ ایک بدوی نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ تکلیف حد سے بڑھ گئی ہے ، آپ اللہ تعالیٰ سےدعا کریں کہ وہ بارش نازل فرمائے اور پھر یہ بھی کہہ دیا کہ جب خدا سے کام ہو تو ہم آپ کوسفارشی بناتے ہیں اور جب آپ سے کام ہو تو خدا تعالیٰ کو آپ کے ہاں سفارشی بناتے ہیں، تو بدوی کے اس کلام سے حضور کا چہرہ متغیر ہوگیا آپ تسبیحات پڑہتے رہے اور پھر فرمایا، تجھ پرنہایت افسوس ہے کہ تو اتنا نہ سمجھ سکاکہ خدا تعالیٰ کو کسی کے پاس سفارشی نہیں بناتے کیونکہ اس صورت میں  اصلی اختیار تو کسی دوسرے کا ہوا اور خداوند تعالیٰ سفارش کرنے کے لیے اس کےپاس  گئے تجھے کچھ معلوم بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کی شان کیا ہے اس کاعرش آسمانوں کواپنے گھیرے میں  لے رہا ہے اور اس کی عظمت و ہیبت سے چر چر کررہا ہے۔

اور خدا تعالیٰ نے فرمایا ، وما قدرو اللہ حق قدرہ پس ایسے کلمات سے پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے، درمختار میں  شرح وہبانیہ کے حوالہ سے لکھا ہے، اگر کوئی اس طرح کہے شیئا اللہ (کوئی چیز  مجھے اللہ کے لیےدے تو وہ بعض کے نزدیک تو کافر ہے اوربعض کے نزدیک اس کے کفر کا خطرہ ہے، ہاں اس طرح کہہ لینا جائز ہے کہ یا الہٰی مجھےبحرمت فلاں یا برکت فلاں یہ چیز عنایت کردی اور بحق فلاں نہیں کہنا چاہیے کیونکہ خدا تعالیٰ پر کسی کا کوئی حق نہیں ہے ‘‘ بعینہ یہ مضمون ہدایہ اور شرح وقایہ کتب فقہ حنفیہ میں  بھی موجود ہے۔ واللہ اعلم۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ