سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(02) یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ کا حاضر ناظر جان کر ورد کرنا

  • 5509
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 6404

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین ان مسائل میں :

(اوّل) یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ کا حاضر ناظر  جان کر ورد کرنا جائز ہے یا نہ اور اس ورد کا پڑھنے والا کیسا ہے؟

(دوم) بغداد کی طرف جو منہ کرکے اور بعضے گلے میں  کپڑا بھی ڈال کر دست بستہ ہوکر گیارہ قدم چلتے ہیں اور پیر پرستی ، استمدداد و استعانت کرتے ہیں ، یہ لوگ کیسے ہیں؟

(سوم) گیارہویں جو واسطے ازدیاد مال اور استعانت اور استغاثہ کے مصائب میں  کرتے ہیں، جائز ہے یا نہ،اور اگر یہ اعتقاد محض ایصال ثواب کے لیے کیا جائے تو تعیین یوم کیسا ہے؟

(چہارم) جو شخص ان افعال مذکورہ کامجوز و مفتی اور مروج اور مثبتگ اور مصر ہو وہ کیسا ہے؟ اس کے پیچھے نماز پڑھنی درست ہے یا نہ، اور اہل سنت والجماعت اور مذاہب اربعہ سے کسی مذہب میں  داخل ہے یا نہ؟

(پنجم) جو لوگ افعال مذکورہ کے مرتکب اور معتقد ہوں ان کے ساتھ مخالطت اور مجانست اور مواکلت اور مشاربت اور مناکحت درست ہے یا نہ؟ ان کے ساتھ السلام  علیکم کرنا جائز ہے یانہ؟

(ششم) جو شخص ان افعال مذکورہ سےمانع ہو، اس پر فتوے تکفیر اوراتہمام وہابیت، و انکار ولایت اولیاء اللہ کا لگانا کیسا ہے؟ اور اس مانع کے پیچھے نماز پڑہنی درست ہے یا نہ؟ بینوا  بالایات القرآنیۃ والاحادیث النبویۃ والروایات الفقہیۃ توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ان الحکم الا اللہ قیود سوالات سائل سے صاف ظاہر ہےکہ جس کا یہ عقیدہ ہے، و ہ مشرک ہے،کیونکہ غیراللہ کو حاضر ناظر جاننا اور اس کےنام کامثل اسماء الہٰی ورد و وظیفہ کرنا اور اس سے حاجات طلب کرنا اور گیارہ قدم بسوئے بغداد بہ نسبت توجہ جانب  قبر غوث الاعظم مثل داب نماز دست بستہ ہوکر چلنا اور پھر رجعت قہقری اسی آداب سے کرنا کہ جس کو اصطلاح مشرکین مبتدعین میں ’’نماز غوثیہ اور ضرب الاقدام‘‘ کہتے ہیں اوراستمداد اور استعانت غیراللہ سے کرنا اور ایسے افعال شرکیہ بدعیہ کا مرتکب ہونا طریقہ مشرکین کا ہے کیونکہ  عقیدہ ثبوت علم غیب کا سوائے ذا ت باری عزاسمہ علام الغیوب کے کسی نبی یا ولی یا غوث یا قطب یا پیر یامرشد کے ساتھ رکھنا عین شرک ہے ، بدلیل آیات بینات قرآن مجید و احادیث رسو ل کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم اور روایات فقہیہ کے۔

اما الایات۔ قل لا یعلم[1] من فی السموات والارض الغیب الا اللہ وما یشعرون ایان یبعثون۔ومن اضلممن یدعو من دون اللہ من لا یستجیب لہ الی یوم القیمۃ وھم عن دعائہم غافلون۔ولا تدع من دون اللہ مالا ینفعک ولا یضرک فان فعلت فانک اذا من الظالمین۔

واما الاحادیث۔ نفی [2] حدیث الجاریات قالت احدنہن و فینا نبی یعلم ما فیغد فقال دعی ھذہ وقولی الذی کنت تقولین۔ وعن عائشۃؓ من اخبرک ان محمدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعلم الخمس التی قال اللہ تعالیٰ ان اللہ عندہ علم الساعۃ الایۃ فقد اعظم الفریۃ رواہ مسلم۔ قال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واللہ لا ادری واللہ لا ادری وانا رسول اللہ ما یفعل بی ولا بکم۔ (رواہ البخاری کذا فی المشکوٰۃ‎)

اور بخاری و مسلم میں  حدیث الافک مصرح ہےکہ جب منافقین نے بہتان حضرت عائشہؓ پرباندھنا ایک مدت تک رسول اللہﷺ کو کس قد ر اہتمام تحقیق برأت صدیقہ ؓ میں  رہا اور قلب مبارک سے شک ذنب کا ان سے قبل از نزول آیات برأت کے بارگاہ قدوس سے رفع نہ ہوا، جب آیات برأت نازل ہوئیں، تب یقین ہوا اگر علم غیب آپ کو ہوتا تو اس قدر رنج و غم اور اہتمام شان حادثہ کیوں ہوتا، قصہ حدیث کا اس بات کے واسطے نذیر عریان ہے اور حدیثیں بھی بہت ہیں۔

واما الروایات الفقہیۃ۔ قال الملا علی قاری فی شرح فقہ الاکبر ثم اعلم ان الانبیاء لا یعلمون المغیبات لمعارضۃ قولہ تعالیٰ قل لا یعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ۔ وقال فی البزاریۃ و غیرھا من الکتب الفتاوی من قال ارواح المشائخ حاضرۃ تعلم یکفر وقال الشیخ فخر ین بن سلیمان الحنفی فی رسالۃ ومن ظن ان المیت یتصرف فی الامور دون اللہ و اعتقد بہ ذلک کفر کذا فی البحر الرائق فعلم ان علم اللہ سبحانہ و تعالیٰ ازلی و ابدی و محیط بما کان وما یکون من جمیع الاشیاء بقضہا و قضیضہا وقلہا وجلہا و نقیرھا و قطمیرھا و صغیرھا و کبیرھا ولا یخرج من علمہ و قدرتہ شئ لان الجہل بالبعض والعجز عن البعض نقص و اقتضاء ھذہ النصوص القطعیۃ ناطقۃ العموم و شمول قدرتہ فھو بکل شئ علیم وھو علی کل شئ قدیر۔

 پس یہ علم اور قدرت خاصہ باری عالم الغیب قادر مطلق کا ہے اس میں  شریک کرنا نبی کو یا ولی کو عین شرک ہے اور جو امور غائبہ پر انبیاء علیہم السلام یا اولیائے کرام کو انکشاف ہوا ہے ، سو محض بوحی و اعلام بالہام الہٰی ہوا  قال[3] اللہ تعالیٰ ولا یحیطون بشئ من علمہ الا بمشاء، اور یہ علم جو باعلام حق سبحانہ و تعالیٰ مقربان کاص الخاص کو ہوتا ہے ذات سیدکائنات علیہ الصلوٰۃ کو بہ نسبت اور انبیائے عظیم اور اولیائے کرام کے اگرچہ بوجہ اکمل ہے لیکن علم علام الغیوب ہے مماثل نہیں قال[4] اللہ تعالیٰ قل لا اقول لکم عندی خزائن اللہ ولا اعلم الغیب الایۃ۔ وقال الامام فخرالدین الرازی رحمۃ اللہ علیہ فی تفسیرہ الکبیر تحت ایۃ قل لا یعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ الایۃ انہ ما بین انہ المختص بعلم الغیب والایۃ سیقت لاختصاصہ تعالیٰ بعلم الغیب و ان العبا لا علم لھم بشئ منہ واما قولہ و ما یشعرون ایان یبعثون صفۃ لا ھل السموات والارض نفی ان یکون لھم علم الغیب انتہی مختصرا۔

جواب سوال (دوم):

یہ گیارہ قدم چلنا اصطلاح اہل شرک و بدعت میں  اس کا نام ’’صلوۃ غوثیہ‘‘ ہے اور ’’ضرب الاقدام‘‘ بھی کہتے ہیں یہ بھی شرک ہے کیونکہ  نماز خاص عبادت معبود حقیقی کی ہے، وحدہ لاشریک لہ، غیر کی عبادت بدنی ہو یا مالی شرک ہے اور فاعل مشرک۔

جواب سوال (سوم):

گیارہویں جو معمول بہ اور مہتم بالشان اہل بدعت کی بہ نسبت نذر غیراللہ اور تقرب غیراللہ کے ہے ، یہ بھی شرک ہے کیونکہ عبادت مالی بھی غیرمعبود برحق کے لیے حرام اورشرک ہےاور اگر نیت ایصال صواب ہو تو خالصاً لوجہ اللہ دے کر بے تعیین یوم ایصال میت کریں اور نام گیارہویں کا زائل کردینا واجب ہے، کیونکہ  یہ نام رکھا ہوا اہل شرک و بدعت کا ہے اگر کوئی خالص نیت سے گیارہویں نام رکھ کر ایصال کرے تو بھی اہل توحید و سنت کے نزدیک محل تہمت ہے اور مواضع تہمت سے بچنا ارشاد رسول اللہﷺ ہے۔

جواب سوال (چہارم):

جو شخص مجوز اور مفتی اور مروج ان امور کا ہے ۔العیاذ باللہ منہ وہ راس المشرکین ہے یعنی اپنے تابعین مشرکین کارئیس ہے اس کے پیچھے نماز درست نہیں اور جب کہ دائرہ توحید و سنت سے وہ خارج ہوا تو کسی مذہب میں  مذاہب اربعہ سے کب داخل رہا۔

جواب سوال (پنجم):

جن لوگوں کا یہ عقیدہ بد اور ایسے افعال شرکیہ بدعیہ ہوں ان سےمعاملہ ترک کرنا چاہیے جب تک تائب نہ ہوں، قد جاء فی الحدیث[5] من احب للہ و ابغض للہ واعطی اللہ و منع للہ قد استکمل الایمان۔

جواب سوال (ششم):

 جو شخص ان افعال شنیعہ سے مانع ہو وہ موحد سنی محب اولیا ہے قابل امامت ہے اور اس کی امامت اولیٰ اور انسب ہے اور اس کی تکفیر خود مکفر ہے، واللہ تعالیٰ اعلم و علمہ اتم۔ حررہ الفقیر محمد حسین الدہلوی عفا اللہ عنہ۔               (فقیر محمد حسین)

کیف یکون عبد مساویا للہ جل جلالہ وعز اسمہ لان اللہ کبیرا المتعال ذا العظمۃ والجلال موجد و معطی للعبادوھم الاخذون منہ والمحتاجون الیہ فی الدنیا والاخرۃ کتبہ محمد ابراہیم الدہلوی۔

یقال لہ ابراہیم                                                 قادر علی  عفی عنہ

اولاً معلوم کرنا چاہیے کہ قرآن فرقان و کلام رحمٰن جونازل اشرف المخلوقین پر ہوا تو محض اسی عقیدہ کی درستی کے لیےنازل ہوا ہے،مشرکین کے عقائد بد تھے یعنی اللہ تعالیٰ و رسول کے نزدیک ورنہ فی زعمہم الباطل اپنے آپ کو تابعین ابراہیم کہلاتے تھے اور حج بیت اللہ اور طواف و صوم وغیرہ عبادات کرتے تھے، لیکن عقائد ان کے بد تھے کہ انبیاء و اولیاء کی تصویریں اور مورتیں بناکر ان کی تعظیم و نذر و نیاز کیا کرتے تھے کما اخبر اللہ سبحانہ عنہم فی عدۃ مواضع و لیست بمخفیۃ علی من لہ ادنی مس من القرآن والحدیث جس طرح کہ آج کل کے مسلمان تمام عبادات صوم و صلوۃ و حج وغیرہ بجا لاتے ہیں اور انبیاء و اولیاء کے حق میں  ایسے  عقائد رکھتے ہیں، جیساکہ سائل نے بیان کیا اور مجیب نے استعملہ اللہ لما یحب و یرضی جواب دیا تو حقیقت میں  یہ لوگ مشرک باللہ  ہیں وان[6] صلوا و صاموا و زعموا انہم مسلمون، جس طرح سے اللہ سبحانہ نے مشرکین مکہ کی عبادت قبول نہیں فرمائی اور عقیدہ کی درستی کاارشاد فرمایا، ویسے ہی جب تک آج کل کے مسلمان عقیدے ٹھیک موافق فرمان خدا و رسول کے نہ کریں گے کوئی عبادت قبول نہ ہوگی۔ واللہ اعلم ، حررہ العاجز ابومحمد عبدالوہاب الفجابی

خادم شریعت رسول الاداب ابومحمد عبدالوھاب

ایسا عقیدہ رکھنے والا سرے سے اسلام ہی میں  داخل نہیں، چار مذہب کا کیا ذکر ہے۔ کریم الدین عظیم آبادی۔

ایساعقیدہ صریحکفر اور شرک ہے ۔ عبدالکریم بنگالی،الجواب صحیح، عبدالحمید عفی عنہ عظیم آبادی۔

واقعی جوابدونوں مجیبوں کا صحیح ہے ۔ رد شرک اور ندا غیر اللہ میں  اور جھکنے کی طرف غیر اللہ کے شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے جھک کر سلام علیک کرنے کو یا جواب دینے کو نہایت منع لکھا ہے اور لکھا ہے کہ بعض علماء کوجھکتے ہوئے دیکھ کر فریب میں  نہ آئے، حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ۔ الجواب صحیح، محمد زیب الدین ساکن شہر بدایون حنفی المذہب۔

جواب بہت صحیح ہے۔ ولی محمد فیض آبادی

جو شخص ایسا عقیدہ رکھے، یا رواج دیوے، بلا ریب وہ مشرک ہے۔مصطفی ٰ خان سوتری

غلام حسین ... غلام حسین ضلع مونگیر

ہذا الجواب صحیح۔ محمد دبیر الرحمٰن بنگالی .... ابوعبدالرحمن محمد دبیر الرحمٰن... ابو محمد تائب علی

اس طرح کا عقیدہ رکھنے والا فتوے دینے والا چاروں مذہب میں  کافر اور مشرک ہے۔ لاریب ولا شک فیہ۔ ابواسماعیل یوسف حسین خان پوری پنجاب۔

جواب صحیح ہے۔                    محمد عبدالحکیم عفی عنہ

چاروں امام علیہم الرحمۃ کے نزدیک بےشک ایسا عقیدہ شرک اور کفر ہے۔ محمد عبدالغفور امرتسری

سید محمد عبدالسلام غفرلہ ... سید محمد ابوالحسن ... محمد عبدالحمید جلیسری

ایسا اعتقاد رکھنا سراسر شرک اور کفر ہے اس کے معتقد کو ہرگز اسلام میں  کچھ حصہ و نصیب نہیں ہے۔                     رحیم اللہ پنجابی

اس عقیدہ والا آدمی جیسا کہ سائل نے لکھا ہے بےشک کافر اور مشرک ہے، چاروں مذاہب سے خارج ہونا تو برکنار ہے۔     نور محمد

جس شخص کا یہ عقیدہ ہو، وہ شخص بلا شبہمشرک ہے، کما ثبت رحمت اللہ دنیا پوری

المجیب مصیب ، نمقہ علی احمد بن مولوی محمد سامرودی عفی عنہ الصمد۔

جس شخص کا یہ اعتقاد ہے، بلاشک سب اماموں اور صحابہ کےنزدیک کافر ہے، مسکین فضل الہٰی۔

الجواب صحیح والرائے نجیح           محمد حیات اللہ عفی عنہ جلیسری



[1]   آیات قرآنیہ تو یہ ہیں آپ کہہ دیں کہ آسمانوں اور زمین میں  کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتا اور کسی کو یہ بھی  معلوم نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ اس آدمی سے زیادہ گمراہ کون شخص ہے جواللہ تعالیٰ کے سوا اوروں کو پکارے جو اس کی التجاؤں کو قیامت تک بھی قبول نہیں کرسکتے بلکہ وہ تو ان کے پکارنے ہی سےبے خبر ہیں۔ تو اللہ کے سوا ایسی چیزوں کو نہ پکارو جو نہ تجھے نفع دے سکیں اور نہ نقصان پہنچا سکیں۔اگر تو نے ایسا کیا تو ظالموں میں  سے ہوجائے گا۔

[2]   اب رہیں احادیث تو لڑکیوں والی حدیث میں  یہ بھی ہے کہ ایک لڑکی نے ان میں  سے کہا ’’ہم میں  ایسے نبی ہیں جو کل ہونے والی باتیں جانتے ہیں،تو آپ نے فرمایا: اس بات کو چھوڑ دے اور جو پہلے کہتی تھی وہی کہتی جا اور حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، آپ فرماتی ہیں  کہ جو آدمی تجھے یہ خبر دے کہ محمد ﷺ ان پانچ چیزوں کو جانتے تھے ، جن کےمتعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم الآیۃ تو اس نے بہت بڑا جھوٹ بولا، اس کومسلم نے روایت کیا۔ نبیﷺ نے فرمایا، خدا کی قسم میں  نہیں جانتا ، خدا کی قسم میں  نہیں جانتا، حالانکہ میں  اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں کہ میرے متعلق کیاکیا جائے گا اور تمہارے متعلق کیا فیصلہ ہوگا اس کو بخاری نے روایت کیا،مشکوٰۃ میں  بھی اسی طرح ہے۔

اب رہیں فقہی روایات تو ملا علی قاری نے ’’فقہ اکبر‘‘ کی شرح میں  کہا ہے،’’پھر جان لینا چاہیے کہ انبیاء (علیہم السلام) غیب کی باتیں نہیں جانتے کیونکہ یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ کی اس آیت کریمہ کے خلاف ہے کہ آپ کہہ دیں کہ کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں  اللہ تعالیٰ کے سوا غیب نہیں جانتا اور بزاریہ وغیرہ کتب فتاویٰ میں  کہا  ہے کہ ’’جو آدمی یہ کہے کہ بزرگوں کی روحیں حاضر ہیں اور سب کچھ جانتی ہیں اس پرکفر کا فتویٰ دیا جائے اور شیخ فخر ین بن سلیمان حنفی نے اپنے رسالہ میں  کہا ہے کہ جو آدمی یہ عقیدہ رکھے کہ مردہ اللہ تعالیٰ کے سوا لوگوں کے امور میں  تصرف کرسکتاہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ بحرالرائق میں  بھی اسی طرح ہے تو اب معلوم ہوا کہ اللہ سبحان  کا علم ازلی ابدی ہے اور ماکان وما یکون (جو ہوچکا ہے اور جو ہوگا) سب اشیاء کو محیط ہے، خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی ، تھوڑی ہوں یا بہت، اور اس کے علم اور  قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے ، کیونکہ بعض اشیاء سےبے خبری اور بعض اشیاء سے عاجز آجانا نقص ہے۔

اور ان نصوص قطعیہ کا بولتا ہوا تقاضا ہے کہ اس کا علم عام ہے اور اس کی قدرت ہر چیز کو شامل ہے اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

[3]   اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور وہ اس کے علم میں  سے کوئی چیز بھی معلوم نہیں کرسکتے مگر جو وہ چاہے ۔

[4]   اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آپ کہہ دیں کہ میں  نہیں کہتا کہ میرےپاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی غیب جانتا ہوں الایۃ

     امام فخر الدین رازی  نے اپنی تفسیر کبیر میں  آیت قل لا یعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ کے ماتحت فرمایا ہے ’’جب اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر کردیاکہ وہی علم غیب کے ساتھ مختص ہے اور آیت  اللہ تعالیٰ کے علم غیب کی خصوصیت کے متعلق پہلے گزر چکی ہے اور بندوں کو اس کی اشیاء میں  سے کسی چیز کا علم نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول ’’وما یشعرون ایان یبعثون‘‘ یہ تمام آسمانوں اور زمین والوں کی صفت ہے اور اس میں  ان کے علم غیب کی نفی بیان کی گئی ہے، انتہی۔

[5]    حدیث میں  آیا ہے، جو شخص اللہ کے لیے محبت رکھے اور اللہ کے لیےدشمنی رکھے اور اللہ کے لیے دے اور اللہ کے لیے بخل کرے تو اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا۔

[6]    اگرچہ  وہ نمازیں بھی پڑھیں اور روزے بھی رکھیں اور اپنے آپ کو مسلمان بھی کہیں۔

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ