سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(01) اس وقت تک کوئی آدمی مؤمن نہیں ہوسکتا..الخ

  • 5508
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1290

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صاحب تذکیر الاخوان نے اپنی کتاب کے ایک باب کے حاشیہ  پر عوارف المعارف کے حوالہ سے یہ عبارت نقل کی ہے کہ اس وقت تک کوئی آدمی مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ لوگ اس کی نگاہ میں  ایک مینگنی کی طرح بے بس نظر نہ آنے لگیں۔ کیا یہ عبارت صحیح ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صاحب تذکیر الاخوان نے جو عبارت نقل کی ہے درست ہے۔ اس کا مضمون اس طرح ہے کہ وہ تریسٹھویں باب میں  لکھتے ہیں،’’آدمی کا صدق و اخلاص دو چیزوں پر منحصر ہے۔ پہلی شریعت کی اتباع اور دوسری تمام  مخلوقات سے امیدیں منقطع کرلینا اور زیادہ تر افت اسی آخری چیز سے پیش آتی ہے، حالانکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’کسی آدمی کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ لوگ اس کی نگاہ میں  مینگنی کی طرح بے بس نظر نہ آنے لگیں۔ (عوارف المعارف)

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے ’’فوائد الفؤائد‘‘ میں  بالکل یہی مضمون نقل کیا ہے اور ان دونوں کتابوں کا مضمون کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کے عین مطابق ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’ اس نے تم کو پاکیزہ چیزوں کارزق دیا‘‘ یہ اللہ ہے تمہارا پالنے والا، سو برکت والا ہے سارے جہانوں کا پالنے والا‘‘ ’’سب تعریفیں اسی کو ہیں، جوسارے جہانوں کا پرورش کرنے والا ہے‘‘ اور جواللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے کشادگی بنا دیتے ہیں‘‘،’’ اور جو اللہ پر بھروسہ کرے ، اللہ اسے کافی ہے‘‘ وغیرہ من الآیات

اور یہ جو تمام مخلوقات کو اونٹ کی مینگنی سے تشبیہ دی ہے ، یہ صرف اس بات میں  ہے کہ کسی کو بھی  معدوم چیز کو موجود کرنے کی یا موجود کو معدوم کرنے کی ذاتی طاقت نہیں ہے جس  طرح مینگنی انسان کی بہ نسبت بالکل  ناچیز اور حقیرہے کہ جس طرح آدمی چاہےاس کو الٹ پلٹ سکتا ہے، پانی میں  پھینک سکتاہے، آگ  میں  ڈال سکتا ہے ہے، پاؤں میں  مسل سکتا ہے ، ریزہ ریزہ کرسکتا ہے، ایسے ہی تمام مخلوقات فرش سے عرش تک خداوند تعالیٰ کی قدرت کے سامنے مجبور و مقہور ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،’’اگر خدا تجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اس کو کوئی دور نہیں کرسکتا اور اگر تیرا بھلا کرنا چاہے تو کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔‘‘

تفسیر کبیر میں  امام رازی نے پانچویں پارہ کی اس آیت کے تحت بڑی تفصیل سے اس مضمون کو بیان کیا ہے ،لکھتے ہیں:’’تمام ممکنات اسی کی طرف منسوب ہے، تمام کائنات اس کی محتاج ہے، رحمت، سخاوت اور وجود اسی سےملتا ہے، یہ آیت بیان کررہی ہے کہ نفع اور نقصان اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں  ہے۔کفر و ایمان، طاعت و نافرمانی، خوشی اور مصیبت ، خیرات اور دُکھ، لذت و راحت اور زخم و بیماریاں سب اسی نفع و نقصان کی تفسیر ہیں اور یہ سب خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں  ہے۔‘‘

اور اس سے نو دس سطر پہلے لکھتے ہیں: ’’اگر کوئی آدمی اپنے مولا کو پہنچاننے کے بغیر غیر کی طرف متوجہ ہو، تو اہل اللہ کے نزدیک ایسا آدمی مشرک ہے اور اگر کوئی آدمی اعتراض کرے کہ بھوکا روٹی کی طرف توجہ کرتا ہے،پیاسا پانی کی طرف رجوع کرتا ہے، تو کیا یہ مشرک ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ یہ شرک نہیں ہے کیونکہ روٹی یا پانی کا وجود اور اس کی سیر کرنے کی صفت سب اللہ تعالیٰ کی ایجاد و تکوین سے ہے تو ان کی طرف رجوع کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف بالکلیہ توجہ کرنے کے منافی نہیں ہے۔ صرف اتنا خیال رکھنا چاہیے کہ تمام چیزیں بذات خود معدوم ہیں اور خدا تعالیٰ کی ایجاد سے موجود ہیں۔

جب انسان کی نگاہ یہاں تک پہنچ جاتی ہے تو پھر تمام مخلوقات اس کی نگاہ میں  مینگنی کی طرح بے حقیقت نظر آتی ہیں۔

 

فتاوی نذیریہ

 

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ