سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(889) نحوست انسان بالخصوص عورات از روئے شرع شریف ثابت ہے یا نہیں

  • 5492
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1101

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں، علمائے دین سوالات مندرجہ ذیل میں :

(1)نحوست انسان بالخصوص عورات از روئے شرع شریف ثابت ہے یا نہیں مثلاً کسی عورت کے کسی حصہ بدن پربالخصوص پشت پر بال و بھونری ہو جس کو عوام جہلا بتقلید مذہب ہنود  ساپن کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اور ایسی عورت کے ساتھ نکاح کرنے کو باعث ہلاکت زوج اعتقاد کرتے ہیں ، ثابت  ہے یا نہیں؟

(2) بصورت اخیر ایسا اعتقاد کرنا داخل شرک ہے ، یا معصیت کبیرہ یاصغیرہ۔

(3) اگر شرک ہے تو کیا اس قسم کے شرک میں  داخل ہے، جس کے معتقد کا نکاح باطل ہوجاتا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شوم و نحوست کے بارے میں  حدیثیں مختلف آئی ہیں۔ ان احادیث مختلفہ کی تطبیق و توفیق کے متعلق شیخ عبدالحق محدث دہلوی ترجمہ مشکوۃ میں  لکھتے ہیں:

’’بدانکہ احادیث واردہ در باب طیرہ مختلف آمدہ از بعضے نفی تاثیر طیرہ و نہی از اعتقاد و اعتبار آن مطلق مفہوم گرود و این بسیار است واز بعضے ثبوت آن در مرأۃ و دابہ و دار بصیغہ جزم چنانکہ در حدیث بخاری و مسلم آمدہ انما  الشوم فی ثلاث الفرس والمرأۃ والدار  ودرردایتے درربع و خادم و فرس یا بلفظ شرط چنانکہ درین حدیث (یعنی حدیث ابی داؤد ان رسول اللہﷺ قال لا ھامۃ ولا عددی ولا طیرۃ وان تکن الطیرۃ فی شئ نفی الدار والفرس والمرأۃ) و مانند آن آمدہ داز بعضے انکار ثبوت شوم و این امور مثل سائر امور چنانکہ در حدیث ابن ابی ملیکہ از ابن عباس آمدہ و در بعضے احادیث آمدہ کہ اعتقاد شوم دریں امور  در اہل جاہلیت بود چنانکہ در حدیث عائشہؓ امدہ وجہ تطبیق آنکہ تاثیر بالذات منفی است و اعتقاد آن از امور جاہلیت است، و مؤثر درکل اشیاء اللہ تعالیٰ است و ہمہ بخلق وتقدیر اوست و اثبات آن درین اشیاء بجریان عادۃ اللہ است کہ پیدا کردہ داینہارا اسباب عادیہ ساختہ و حکمت  و تخصیص آن اشیاء بخصائص و احوال موکول و مفوض بعلم شارع است پس نفی راجع  تباثیر ذاتی اسف و اثبات بہ سبب عادی چنانکہ درعدوی و جذام وما نند آن گفتہ اندد بعضے گفتہ اند کہ مرا د آن است کہ تطیر در ہیچ چیز نیست و اگر فرض کردہ شود ثبوت دے درین اشیاء مظنہ و محل آن است دجائے ان دارد کہ درینہا ثابت باشد برطریقہ قول آنحضرتﷺ لوکان شئ سابق القدر لسبقتہ العینچنانکہ گذشت و برین طریق است کلام قاضی کہ گفتہ بعقب قول وے لاطیرۃ باین شرط دلالتدارد کہ شوم و تطیر منفی است از آنہا یعنی اگر شوم  راد جودے دثبونے می بودے درین اشیاء می بود کہ قابل تر اند آن راولیکن وجود و ثبوت نیست درنیہا پس اصلاً وجود  ندارد، انتہی و بعضے گویند کہ شوم درزن ناسازگاری اوست و آنکہ زائندہ نباشد و اطاعت زوج نکند یا مکروہ و مستقج باشد، نزد دے، و درسرا د خانہ تنگی جاویدی ہمسایہ و ناخوشی ہو است ، ودراسپ حروقی و گرانی بہاونا موافق غرض و مصلحت و مثل این دور خادم نیزد یاشوم محمول برکراہت و ناخوشی است بحسب شرع یا طبع پس نفی شوم و تطیر برعموم و حقیقت محمول باشد، انتہی کلام الشیخ۔ امام نووی شرح صحیح مسلم میں  لکھتے ہیں۔

واختلف العلماء فی ھذا الحدیث رای حدیث الشوم فی الدار والمرآۃ و الفرس فقال مالک و طائفۃ ھو علی ظاھرہ وان الدار قد یجعل اللہ تعالیٰ سکناھا سببا للضرر اوالھلاک وکذا اتخاذ المرأۃ المعینۃ اوا لفرس او الخادم قد یحصل الھلاک عندہ بقضاء اللہ تعالیٰ و معناہ قد یحصل الشوم فی ھذہ والثلاثۃ کما صرح بہ فی روایۃ ان یکن الشوم فی شئ الخ۔

 حاصل و خلاصہ ان دونوں عبارتوں کا یہ ہے کہ بہت سی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی  چیز میں  شوم و نحوست نہیں ہے نہ کسی مرد میں  اورنہ کسی عورت میں  اور نہ کسی اور چیز میں  اور بعض احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت اور گھر اور گھو ڑا ان تین چیزوں میں شوم و نحوست ہے امام مالک اور ایک جماعت کا قول انہیں بعض احادیث کے موافق ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اس کی قضا سے یہ تینوں چیزیں باعث ضرر یا ہلاکت کا ہوتی ہیں یعنی یہ تینوں چیزیں بذاتہ مؤثر نہیں ہیں بلکہ مؤثر بالذات اللہ تعالیٰ ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ گاہے ان چیزوں کو ضرور یا ہلاکت کا سبب بنا دیتا ہے اور یہ لوگ ان احادیث کثیرہ کو جن سے مطلقاً شوم و نحوست ثابت ہوتی  ہے ، نفی تاثیر بالذات پر محمول کرتے ہیں اور ان لوگوں کے سوا باقی تمام اہل علم کا قول احادیث کثیرہ کےمطابق ہے، یعنی ان کا یہ قول ہےکہ کسی چیز میں  شوم و نحوست نہیں ہے، نہ عورت میں  اور نہ گھروں میں  اور نہ گھوڑے میں  اور نہ کسی اور چیز میں ، اور یہ لوگ بعض احادیث کو ظاہر پر محمول نہیں کرتے، بلکہ ان کی تاویل کرتے ہیں، جب یہ سب باتیں معلوم کرچکے تو اب سوالات مذکورہ کا جواب لکھا جاتا ہے۔

جواب سوال اوّل و دوم و سوم۔ شرع شریف سے کسی شے میں  نحوست اس معنی سے ثابت نہیں ہے کہ وہ بذاتہ ضرر پہنچانے والی یا ہلاک کرنے  والی ہو نہ کسی مرد میں  ثابت ہے اور نہ کسی عورت میں  اور نہ کسی اور شے میں  پس کسی عورت میں  کوئی خاص علامت مثلاً پشت پر بال و  بھونری دیکھ کر اس کو اس معنی سےمنحوس سمجھنا اور ایسی عورت کے ساتھ نکاح کرنے کو باعث ہلاکت زوج اعتقاد کرنا جیساکہ ہنود و کفار اعتقاد کرتے ہیں اور ان کی تقلید سے عوام وجہلا مسلمان بھی اعتقاد کرتے ہیں بلاشبہ داخل شرک ہے، ہاں امام مالک  وغیرہ  نے عورت اور گھر اور گھوڑے میں  جس معنی سے نحوست و شوم ثابت کیاہے اس معنی سے ان تینوں چیزوں میں  نحوست سمجھنا داخل شرک نہیں ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب،کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفی اللہ عنہ۔                                  سید محمد نذیر حسین



قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ