سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(11) مودودی کا مسلک

  • 513
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 12358

سوال

 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مذہب حنفیہ میں جو مقام روایت کا ہے وہی درایت کا بھی ہے، کیا یہ صحیح ہے ؟ اس کی دلیل مولانا مودودی کا مسلک اعتدال والا مضمون پیش کیا گیا ہے ؟

مولانا مودودی کا یہ مسلک کس حد تک قابل برداشت ہے ؟

اہلحدیث اور احناف کے نقطۂ نظر سےکن اشخاص کو روایتِ حدیث اور مصنفینِ حدیث کی کتب پر جرح وتعدیل کرنے کا حق ہے ؟

مولانا مودودی نے احادیث اور کتب احادیث پر جس انداز سے بحث کی ہے کیا ان سے قبل بھی ایسا ہوا ؟ عیسیٰ بن ابان کا یہ نظریہ تو نہیں تھا ؟

نیز مولانا مودودی نے ترجمان القرآن ماہ مئی ؁ 55ء کے ص 163 پر فرمایا ہے کہ:

ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کرکے اس حد تک پہنچ گیا ہے۔ کہ اسے بخاری و مسلم رحمہما اللہ کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اوراس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عاید ہوتا ہے۔

آگے چل کر فرماتے ہیں:

نہ فن حدیث کے نقطۂ نظر سے کسی حدیث کی سند کا مضبوط ہونا اس بات کا مستلزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابل اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کرکے مان لیا جائے۔ سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود بھی ایسے اسباب ہوتے ہیں کہ جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہوجاتا ہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے جن کی قباحت خود پکار رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبیﷺ کی فرمائی ہوئی نہیں ہوسکتیں۔ اس لئے سند کے ساتھ متن کا دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے اور اگر متن میں واقعی کوئی قباحت ہو تو پھر اس کی صحت میں خواہ مخواہ اصرار کرنا صحیح نہیں۔

آگے چل کر فرماتے ہیں:

کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ جس حدیث کا متن ایسی باتوں پر مشتمل ہو اس کو ہم نبیﷺ کی طرف منسوب کرنے پر صرف اس لئے اصرار کریں کہ اس کی سند مجروح نہیں ہے۔ اس طرح کی افراط پسندیاں معاملہ کو بگاڑ کر اس تفریط تک پہنچا دیتی ہیں جس کا مظاہرہ منکرین حدیث کر رہے ہیں۔ اھ

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کسی روایت کو قوی تصور کر کے بھی قبول نہ کرنا کوئی معنی  رکھتا ہے۔ سند کے قوی ہونے کے بعد تو چھان بین کرنے کا مطلب اس کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ صاحب قرآن کے الفاظ پر جرح ہو جو میرے خیال میں کسی طرح بھی جائز نہیں۔ آپ تفصیل سے سمجھائیں کہ سند کے قوی ہونے کے باوجود کون سے ایسے اسباب ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہوجاتا ہے؟ بخاری ومسلم رحمہما اللہ کے قطعی طورپر صحیح ہونے پر امت کا اجماع ہے مگر ان کے متعلق بھی ایسے الفاظ استعمال کرنا کیا ان کی عظمت پر چوٹ نہیں؟ ازراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

امت مسلمہ اور جماعت اسلامی یہ دونوں کیسے پیارے نام ہیں۔ مگر ان کے تحت جو ہو رہا ہے وہ دشمنی اسلام ہے پہلا فرقہ تو منکر حدیث ہے کلامِ الہی  کے ساتھ اپنی رائے سے کھیل رہا ہے اور حدیث جو قرآن کی تفسیر ہے اس کا مذاق اڑا رہا ہے اور دوسرے نے مرزائی چال اختیار کر رکھی ہے۔ ظاہر اقرار اور اندر سے انکا ر۔

مرزا غلام احمد نے صحت حدیث کی یہ شرط کی تھی کہ میری وحی کے موافق ہواور مودودی نے یہ شرط کی ہے کہ میرے نزدیک وہ صحیح ہے جو میرے ذوق کے موافق ہو۔ گمراہ فرقے اس طرح لیبل اچھا لگا کر گمراہی پھیلاتے ہیں۔ رافضی شیعان علی کہلاتے ہیں ، معتزلہ اہل العدل والتوحید ، مرزائی احمدی ، منکرین حدیث امت مسلمہ اور مودودی جماعت اسلامی وغیرہ۔ جن فرقوں کے ظہور کو کافی عرصہ گزرگیا ہے۔ ان کی گمراہی کا پردہ تو چاک ہو چکا ہے۔ مگر مودودیت نے ابھی ابھی جنم لیا ہے اس سے وہ پردہ اخفاء میں ہے۔ عوام تو کجا کئی خواص بلکہ مولوی بھی اس کو سراہتے ہیں۔ جس سے یہ فتنہ دن بدن زور پکڑرہا ہے۔ یہاں تک کہ کئی مولوی اس شامل میں ہوگئے ہیں۔ اس وقت علمائے حقانی کا فريضہ ہے کہ اس کا استیصال کریں اور لوگوں کو اس کی گمراہی سے بچائیں۔ اب نمبر وار جواب ملاحظہ ہو:

1۔ روایت اوردرایت

 اہلسنت کے کسی فرقے کا یہ مذہب نہیں ہے۔ کہ روایت اور درایت کا درجہ مساوی ہے بلکہ حنفیہ توضعیف حدیث کو بھی قیاس پرترجیح دیتے ہیں۔ جیسے حنفیہ کے نزدیک قہقہہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ حالانکہ قیاس چاہتا ہے کہ وضو نہ ٹوٹے کیونکہ ان کے نزدیک نجس شے کے نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے۔ جیسے نکسیر پھوٹنا ، قے ہونا وغیرہ اور قہقہہ تو کوئی نجس شی نہیں۔ اس وضو ٹوٹنا قیاس کے خلاف ہے اور دلیل اس کی ایک ضعیف حدیث پیش کرتے ہیں۔ کہ صحابہ رضی اللہ عنہم  رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ ایک نابینا گڑھے میں گر پڑا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم دیکھ کر ہنسے آپﷺ نے ان کو وضو لوٹانے کا حکم دیا۔

اسی طر ح حنفیہ کا مذہب ہے کہ کھجوروں کےشربت سے وضو جائز ہے اور دلیل ایک ضعیف حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کھجوروں کے شربت سے وضو کیا۔ حالانکہ یہ بھی قیاس کے خلاف ہے۔  ایسی طہارتوں کے لیے خدا نے پانی مقرر کیا ہے اور شربتوں کا حکم پانی کا نہیں ورنہ دوسرے شربتوں (شربت بنفشہ وغیرہ) سے بھی وضو جائز ہوتا۔ غرض ایسے بہت سے مقامات ہیں جہاں حنفیہ نے ضعیف حدیث کی وجہ سے قیاس ترک کردیا ہے۔

عیسیٰ بن ابان

رہا عیسیٰ بن ابان کا مذہب تو اس کو بھی مودودی کے نظریہ سے کوئی تعلق نہیں۔ مودودی کا نظریہ یہ ہے کہ ذوق سے صحیح حدیث کی تر دید ہوسکتی ہے اورذوق کی تشریح آپ نے یوں کی ہے۔ کہ متن حدیث کی قباحت پکار رہی ہو کہ یہ باتیں نبیﷺ کی فرمائی ہوئی نہیں۔ جیسے منکرین حدیث مظاہرہ کررہے ہیں اورعیسیٰ بن ابان کا نظریہ یہ ہے کہ عام آیتوں ، حدیثوں سے جو ایک عام اصول ثابت ہو وہ برقرار رکھا جائے اور کسی خاص حدیث سے جو مسئلہ اس عام اصول کے خلاف ثابت ہو اس کو ترک کردیا جائے گا۔ مگر اس میں یہ بھی شرط ہے کہ اس خاص حدیث کا راوی غیرفقیہ ہو جیسے ابوہریرہ اور انس وغیرہ رضی اللہ عنہم۔ اگر راوی فقیہ ہو تو پھر یہاں عام اصول ترک کرکے خاص حدیث پرہوگا۔

عام اصول کی مثال انہوں نے یہ دی ہے۔ کہ کسی کی شے تلف ہو جائے اور وہ بھرنی پڑے تو اس کا بازاری نرخ لگا کر قیمت دے دی جاتی ہے۔ عام طور پر قرآن وحدیث کی ہدایت یہی ہے۔ مگر خاص حدیث اس کے خلاف آئی ہے۔ وہ یہ کہ لوگ لیاری فروخت کرتے ہیں تو ایک دو دن اس کا دودھ دوہنا بند کردیتے ہیں۔ تاکہ دودھ دوھ کر دیکھ لے اگر دودھ کم ہو جائے تو اس کو واپس کرسکتا ہے۔ مگر تین دن دودھ کے عوض کھجوروں کا ایک صاع ساتھ دے۔

حالانکہ قیاس چاہتا ہے کہ دودھ کی بازاری قیمت اس وقت کے لحاظ سے لگا کر دے دی جائے۔ اس حدیث کے راوی ابوہریرہ﷜ ہیں۔ ان کو غیر فقیہ بناکر اس عام اصول کی آڑ لے کر ان کی اس حدیث کو ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ عیسیٰ بن ابان کا مذہب ہے مگر عیسیٰ بن ابان پر اہل سنت کے تمام فرقوں کی طرف سے اعتراضات کی اتنی بوچھاڑ ہوئی۔ کہ اس کا ناطقہ بند کردیا ، خود حنفیہ نے اس کے چھکے چھڑادیئے۔ چنانچہ فیض الباری شرح بخاری(میں)مولانا انور شاہ کشمیری جلد3 ص230،231 اور تحریر امام ابن الہمام رحمہ اللہ مع اس کی شرح ابن امیر الحاج باب السنۃ وغیرہ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علماء نے بھی خوب تردید کی ہے۔ تردید کے کئی پہلو ہیں مثلاً:

ابو ہریرہ اورانس رضی اللہ عنہما ایسوں کو غیر فقیہ کہنا یہ واقعہ کے خلاف اور سراسر ظلم ہے۔ کیونکہ یہ مفتی تھے اور مفتی غیر فقیہ نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں انس﷜ کی احادیث تو سینکڑوں بلکہ ہزاروں تک پہنچ گئی ہیں۔ تلقیح ابن الجوزی وغیرہ میں ابوہریرہ﷜ کی احادیث کی تعداد 5374لکھی ہے اور حضرت انس﷜ کی 2282 تو پھر ان کو غیر فقیہ کہنا بڑا ظلم ہے۔

متواتر احادیث کےعلاوہ سب احادیث خبرآحاد ہیں۔ جن کو ظنی کہتے ہیں اور ظنی وہی ہے جس میں غلطی ممکن ہے۔ پس اس طر ح ہر صحابی کی حدیث رد ہوسکتی ہے۔ خواہ ابوہریرہ﷜ ہوں یا کوئی اور۔

2۔ مودودی کا نظریہ

اس سوال کا جواب اوپر آچکا ہے۔ کہ حنفیہ درایت کو روایت کا درجہ نہیں دیتے۔ چنانچہ قہقہہ اورنبیذ تمر(کھجوروں کے شربت) سے وضو کی مثال گذرچکی ہے۔ اور محدثین تو مودودی کے نظریہ سے کوسوں دورہیں۔ کیونکہ اہل الرائے سے ان کو نفرت ہے۔ تو درایت (جورائے کی قسم سے ہے) کو روایت پر کس طر ح مقدم کرسکتے ہیں۔

3۔ مسئلۂ جرح و تعدیل

جرح وتعدیل تاریخ کی قسم سے ہے۔ اورتاریخ اس وقت کے لوگوں کی یا قریب کے لوگوں کی معتبر ہوتی ہے۔ (جبکہ) پچھلے لوگ نقال ہوتے ہیں۔ اس لیے پہلے لوگوں کے خلاف کسی کی جرح وتعدیل کا اعتبارنہیں۔ اس کے لیے مقدمۃ ابن الصلاح کا مطالعہ مفید رہےگا۔ ان شاء اللہ ۔

مودودی صاحب کو بھی اس سے انکار نہیں۔ وہ تفہیمات میں فرماتے ہیں:

(الف) تحقیق کے زیادہ سے زیادہ معتبر ذرائع جو انسان کے امکان میں ہیں۔ وہ سب اس گروہ محدثین نےاستعمال کیے ہیں اور ایسی سختی کے ساتھ استعمال کیے ہیں کہ کسی اور تاریخ میں اس کی نظیرنہیں ملتی۔ دراصل یہی چیز اس کا یقین دلاتی ہے کہ اس عظیم الشان خدمت میں اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال رہی ہے۔ اور جس نے اپنی آخری کتاب کی حفاظت کا غیر معمولی انتظام کیا ہے۔ اس نے اپنے آخری نبیﷺ کے نقوش قدم اورآثار ہدایت کی حفاظت کے لیے بھی وہ انتظام کیا ہے۔ جو اپنی نظیر آپ ہی ہے۔ (تفہیمات ص 290)

(ب) دنیا میں زمانہ گذشتہ کےحالات کا کوئی ذخیرہ اتنا مستند نہیں جتنا کہ حدیث کا ذخیرہ مستند ہے۔ (تفہیمات ص 262 )

(ج) کتبِ حدیث صحاح ستہ وغیرہ میں اس امر میں کسی شبہ کی گنحائش نہیں کہ یہ کتابیں انہی بزرگوں کی لکھی ہوئی ہیں۔ نہ اس میں شبہ ہے کہ ہر حدیث کی سند رسول اللہﷺ تک پہنچتی ہے یا نہیں؟ لہذا ان کتابوں کے ذریعہ سے حدیث کا وہ علم قریب قریب یقینی طو ر پر ہم تک پہنچ گیا ہے۔

  (ترجمان القرآن ، جون ؁  1934 ء و تفہیمات ص 283 )

(د) اگر روایاتِ حدیث نہ ہوتیں تو ہماری مذہبی زندگی کے جتنے اعمال اور جتنے اصول وقوانین ہیں یہ سب کے سب بے سند ہوکر رہ جاتے ہیں۔ نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ اور دوسرے اعمال جس صورت میں ادا کیے جاتے ہیں۔ ان کے متعلق ہم نہ بتا سکتے ہیں کہ یہ سب رسول اللہﷺ کے مقرر کیے ہوئے طریقوں پر ہیں۔ (تفہیمات ص 396، 397)

مودودی صاحب نے تصریح کردی ہے کہ انسانی امکان میں جتنے معتبر ذرائع ہیں وہ سب محدثین نے استعمال کر لئے ہیں۔ اور اسی لئے ذخیرہ سب (دوسرے تاریخی ) ذخیروں سے زیادہ مستند ہے۔ یہاں تک کہ یہ آپ ہی اپنی نظیر ہے۔ اور اب اس میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہیں، نہ اس میں شبہ ہے کہ یہ کتابیں صحاح ستہ وغیرہ انہی بزرگوں کی لکھی ہوئی ہیں، نہ اس میں یہ شبہ ہے کہ ہر حدیث کی سند رسول اللہﷺ تک پہنچی ہے۔ لہذا یہ علمِ حدیث قریب قریب یقینی طور پر ہم تک پہنچ گیا۔ اب اس پر کوئی جرح یا تنقید کرے تو وہ انسانی امکان سے بالا تر ہوکر کر سکتا ہے۔ اور وہ منصب وحی ہے اور وحی کا سلسلہ چونکہ بند ہے اس لئے جرح وتنقید کا معاملہ بھی ختم ہے۔ اس بنا پر سائل کا یہ کہنا بالکل ٹھیک ہے۔ کہ سند کے قوی ہونے کے بعد تو چھان بین کرنے کا مطلب اس کے سوا اورکوئی نہیں ہوسکتا کہ صاحب قرآن کے الفاظ پر جرح ہو۔ جو میرے خیال میں کسی طر ح بھی جائز نہیں۔ سائل نے جس خیال کا اظہار کیا ہے اہل سنت کا موقف تو یہی ہے۔ یہاں پہنچ کر وہ اپنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ اور سرِتسلیم خم کر دیتے ہیں۔ اور آمنا  وصدقنا کہتے ہوئے تعمیل حکم کے میدان میں اتر آتے ہیں۔ لیکن مودودی صاحب کی گڈی چونکہ آج کل چڑی ہوئی ہے۔ اور(اصل میں’’ نہ‘‘بھی ہے) ان کی درایت ذرا زیادہ بلندی پر پرواز کررہی ہے۔ اس لئے وہ سند کے قوی ہونے کے بعد بھی کئی طرح کے خدشات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ جیسے (اصل میں’’جسے‘‘ہے) اول قائس نے کہا تھا :

’’خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ‌ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ ‘‘

’’تو نے مجھے آگ سے بنایا، اور اسے مٹی سے بنایا ہے‘‘(سورۃ ص :76)

چنانچہ جواب نمبر 4 میں اس کی کچھ وضاحت آتی ہے۔

مودودی کا طرز عمل

مودودی صاحب نے جس انداز سے بحث کی ہے یہ منکرین حدیث کا انداز ہے عیسیٰ بن ابان کا یہ انداز نہیں۔ بلکہ دین سے متعلق ان کا قریباً سارا سلسلہ ہی گمراہ کن ہے۔ احادیث کو آپس میں اور قرآن شریف کےساتھ ٹکرانا اور ان میں اختلافات پیدا کرکے ان کی قدر گرانا اور پھر ان کی تردید کرنا یہ ان کی عام عادت ہے۔ اس کے علاوہ لباس کےمتعلق جو احادیث آئی ہیں۔ ان کےمتعلق محدثین رحمہم اللہ پر سخت حملہ کیا ہے۔ کہ وہ ان کا صحیح مفہوم نہیں سمجھ سکے۔ لباس ، وضع قطع میں شریعت میں داخل نہیں بلکہ عادات کی قسم سے ہیں۔ محدثین رحمہم اللہ نے ان کو شریعت قراردینے میں غلطی کی ہے ، ایسے ہی دجال وغیرہ کی احادیث میں رسول اللہﷺ کو غلطی پرکہتا ہے۔ کہ آپ معاذ اللہ دجال کو نہیں سمجھے۔ گویا قریب قریب مرزائیوں والا خیال ہے۔ بلکہ ان  سے بھي ترقی کر گئے ہیں۔ چنانچہ مودودی کے اصل الفاظ جو حدیثِ دجال ذکر کرکے لکھتے ہیں یہ ہیں:

کانا دجال تو افسانے ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ (ترجمان القرآن ، جلد 28 ، نمبر 3 ، ص 172 ۔ 173 بابت ربیع الاول 1365ھ مطابق فروری  ؁ 1964ء)

تمیم داری﷜ کی حدیث میں حضورﷺ نے اکی معین شخص کو دجال فرمایا ہے۔ اس کے متعلق مودودی صاحب لکھتے ہیں:

’’کیا تیرہ سو برس کی تاریخ نے یہ ثابت نہیں کردیا۔ کہ حضورﷺ کا یہ اندیشہ صحیح نہ تھا۔‘‘

(ملاحظہ ہو ترجمان القرآن جلد28نمبرص172/173 بابت ربیع الاول  ؁1365ھ مطابق فروری  ؁1964)

نیز تمیم داری﷜ کی حدیث میں حضورﷺ نے دجال کےنکلنے کی جہت معین کردی ہے کہ مشرق کی جانب سےنکلے گا اور علاقوں کا نام مبہم کردیا ہے اوربعض احادیث میں خراسان ، اصفہان  کا نام بھی آیا ہے اور تمیم داری﷜ کی حدیث میں جس معین شخص کو آپﷺ نے دجال قراردیا ہے وہ ایک جزیرہ میں مقیّد تھا جس سے ثابت ہے کہ وہ حضورﷺ کے زمانے میں پیدا ہوچکا ہے۔ مگر مودودی صاحب دجال کے متعلق اس قسم کی احادیث کا ذکر کرکے لکھتے ہیں کہ وہ دراصل آپ کے قیاسات ہیں جن کے بارہ میں آپ خود شک میں تھے۔ (حوالہ مذکورہ )

غرض اس قسم کی خرافات اس کی بہت ہیں جن کو سن کر یا دیکھ کر ایک مسلمان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس کی تحریر اور چرب زبانی پر فریفتہ نہیں ہونا چا ہیے۔ اس کا لٹریچر اسلام اور شریعت مطہرہ کے لئے سخت خطرناک ہے۔ خدا اس سے بچائے اور اپنے دین کی حفاظت کرے۔ آمین

نیز سند کے قوی ہونے کے بعد بھی مودودی صاحب کی درایت کے لئے پانچ راستےکھلے ہیں۔ جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:

پہلا راستہ 

محدثین اور فقہاء رحمہم اللہ کے فہم پر حملہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے جو مومنوں کا راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر ے۔

’’نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرً‌ا ‘‘

’’ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وه خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وه پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے‘‘(سورۃ النساء:115)

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

لاتجتمع أمتی علی الضلالة

میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔

بلکہ ایک نہ ایک فرقہ ضرور حق پر رہے گا۔ اور ظاہر ہے کہ وہ محدثین و فقہاء ر حمہم اللہ ہیں۔ لیکن مودودی صاحب کاخیال ہے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ سب گمراہ ہوں اور میں بعد میں حق پر ہوں۔ چنانچہ مودودی صاحب کا خیال ہے کہ محدثین وفقہاء رحمہم اللہ نےعادات نبویﷺ کو سنت سمجھ کر اس بارے میں احادیث جمع کی ہیں۔ یہ انہوں نے غلط رویہ اختیار کیا ہے۔ کیونکہ یہ کوئی شرعی چیز نہیں۔ جس کی اتباع کے ہم مامور ہیں۔ چنانچہ مودودی کےاصل الفاظ یہ ہیں:

میں اسوہ اور سنت اور بدعت وغیرہ اصلاحات کے ان مفہومات کو غلط بلکہ دین میں تحریف کا موجب سمجھتا ہوں۔ جو بالعموم آ پ حضرات کے ہاں رائج ہیں۔ (رسالہ ترجمان القرآن : مئی و جون  ؁1945ء )

داڑھی

 آپ کا خیال کہ نبیﷺ جتنی بڑی ڈاڑھی رکھتے تھے اتنی ہی بڑھی ڈاڑھی رکھنا سنتِ رسولﷺ ہے یا اسوۂ(پیروی) رسولﷺ ہے یہ معنی رکھنا ہے۔ کہ آپ عاداتِ رسولﷺ کو بعینہٖ وہ سنت سمجھتے ہیں جس کے جاری اور قائم کرنے کے لئے نبیﷺ اور دوسرے انبیاء علیہم السلام مبعوث کیے جاتے رہے۔ مگر میرے نزدیک یہی نہیں کہ یہ سنت کی صحیح تعریف نہیں ہے۔ بلکہ میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ اس قسم کی چیزوں کو سنت قرار دینا اور پھر ان کے اتباع پر اصرار کرنا ایک سخت قسم کی بدعت اور خطرناک تحریفِ دین ہے ۔ (حوالہ مذکورہ )

قارئیں کرام ! ہم تو ڈاڑھی کے مسئلہ میں خلاف رسو ل اللہﷺ کرنے والے کو برا بھلا کہتے ہیں۔ یہاں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا حساب ہے۔ اور پھر اتنے پر بس نہیں بلکہ عمومیت کے ساتھ اس قسم کی تمام چیزوں کو سخت قسم کی بدعت اور خطرناک تحریفِ دین بتلایا جارہا ہے۔ اس بنا پر انسان آزاد ہے جس قسم کی چاہے حجامت بنوائے، جیسی وضع قطع چاہے اختیارکرے ، انگریزی بال رکھے ، انگریزی لباس ہیٹ ، پتلون وغیرہ زیبِ تن کرے ، شلوار یا تہ بند ٹخنوں سے نیچے رکھے یا اوپر ، کسی چیز میں کفار یا فُسّاق ، فُجّأر کے ساتھ تشبہ ہو اس کی بھي اجازت ہے ، فطرت اور سنتِ انبیاء علیہم السلام کی مخالفت کا بھی کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہﷺ فرماتےہیں:

دس باتیں فطرت (اسلام) سے ہیں:

 1۔ لبیں کٹانا ڈاڑھیاں چھوڑنا مسواک کرنا وضوکےوقت ناک میں پانی چڑھانا ناخن کٹوانا

وضو کے وقت انگلیوں کےجوڑ دھونا بغلیں اکھیڑنا زیرِ ناف بال لینا استنجا کرنا 

10۔ وضوکےوقت کلی کرنا ۔

ایک حدیث میں داڑھی کی جگہ ختنہ کا ذکر ہے۔ اور ترمذی میں حدیث ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: چارچیزیں رسولوں علیہم السلام کی سنتوں سے ہیں:

حیا      ختنہ   مسواک      نکاح

اگر کوئی صاحب جذبہ سنت کے تحت ان چیزوں کی پابندی اور اصرار کرے تو یہ مودودی صاحب کے نزدیک سخت ترین بدعت اور خطرناک تحریفِ دین ہوگی۔

مودودی صاحب نے بیک جنبشِ قلم ان تمام دفتروں پر پانی پھیر دیا۔ بلکہ اتباع رسولﷺ سمجھ کر ان پر ہمیشگی اور اصرار کرنے والے کو سخت قسم کا بدعتی اور دینِ الہی کا خطرناک مُحرِّ ف قرار دیا۔

قارئین کرام ! آپ کو معلوم ہے۔ کہ اس کی زد کہاں پڑتی ہے؟ معاذ اللہ خیرِقرون صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین ، تبع تا بعین رحمہم اللہ پر۔ بلکہ رسول اللہﷺاورانبیاء علیہم السلام ایسی ہستیوں پر سچ ہے:

نادک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانہ میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانہ میں

مجدد

علاوہ ازیں اور سنیے ! حدیث میں ہے کہ ہر صدی کے سرے پر مجدد ہوں گے جو دین کی تجدید کریں گے۔ اور مری ہوئی سنتوں کو زندہ کریں گے۔ مودودی صاحب نے جہاں سنت اور بدعت کا معنیٰ بدل ڈالا ہے وہاں مجدد کے معنیٰ پر بھی ہاتھ صاف کیا ہے۔ اور کوشش کی ہے کہ اس حدیث کو اپنے اوپر چسپاں کریں:

’’نہ میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ اپنے مہدی ہونے کا اعلان کرے گا بلکہ شاید اسے خود بھی اپنے مہدئ موعود ہونے کی خبر نہ ہوگی ۔‘‘ ( ص 33 ، سطر 7 )

’’وہ خالص اسلام کی  بنیادوں پر ایک نیا مذہبِ فکر( Dchool of thought) پیداکرے گا ، ذہنیتوں کو بدلے گا ، ایک زبردست تحریک اٹھائے گا۔ جو بیک وقت تہذیبی بھی ہوگی اور سیاسی بھی ، جاہلیت اپنی تمام طاقتوں کے سا تھ اس کو کچلنے کی کوشش کرے گی۔ مگر بالآخر وہ جاہل اقتدار کو الٹ پھینکےدے گا۔ اور ایسی زبردست اسلامی اسٹیٹ قائم کر ے گا۔ ‘‘

دوسرا راستہ

مودودی صاحب کی درایت کا فلسفیانہ عقل ہے۔ فلسفیانہ عقل کا ایمان بالغیب بہت کمزور ہوتا ہے۔ وہ اسی کو مانتی ہے جو اس میں سما سکے ، جو اس سے بالاتر ہو اس میں اس کا رجحان دو چیزوں کی طرف ہوتا ہے۔ یا سرے سے انکار یا تاویل و تحریف ۔

پھر اس میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو زیادہ غلو کرجاتے ہیں جیسے سید احمد نیچری نے تفسیر لکھی تو قرآن مجید کے تمام معجزات و خرق عادات تاویل کرڈالی مثلاً: موسیٰ علیہ السلام کا عصا کے ساتھ پتھر کومارنا اور اس سے 12 چشمے پھوٹ پڑنا کا مطلب یہ بیان کیا کہ عصا ٹیک کرپہاڑوں میں چلے کہیں اتفاقاً بارہ چشمے مل گئے۔ رسول اللہ کے معراج کا مطلب یہ ہے کہ آپﷺ کو خواب میں سیر کرائی گئی۔ ملائکہ اور شیاطین سے مراد نیک اخلاق اور بد اخلاق ہیں۔ یہاں تک کہ جنت اور دوزخ بھی روحانی معاملہ ہے ، روحوں کی خوشی اور تکلیف ہی جنت دوزخ ہے۔

دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں۔ جو اتنے غلو میں تو نہیں گئے۔ لیکن وہ آدھا تیتر آدھا بٹیر بنے رہتے ہیں۔ جیسے مرزائی وغیرہ مثلاً: عیسیٰ علیہ السلام کا جسم سمیت اٹھائے جانا اس کو نہیں مانتے پھر ان کا دو فرشتوں کے کندھوں پر آسمان سےنزول ، پھر مشرقی مینارۂ دمشق سے سیڑھی لگا کر زمین پر آنا اس سے بھی انکار ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرماتے ہیں: عیسیٰ علیہ السلام کے سانس ہی سے کافر مرجائیں گے۔ اورسانس ان کا وہاں تک پہنچے گا جہاں ان کی نظر پہنچے گی۔ ان سب باتوں سے فلسفیانہ عقل والے منکر ہیں۔ اسی طرح رسول اللہﷺ کا معراجِ جسمانی ، ابراہیم علیہ السلام کے پرندوں کا ذبح ہوکر زندہ ہونا ، داؤد علیہ السلام کےہاتھ میں لوہے کا موم ہونا ، صالح علیہ السلام کی اونٹنی دس ماہ کی حاملہ کا پتھرسے پیدا ہونا ، مریم علیہا السلام کے پاس بے موسم پھلوں کا آنا ، موسیٰ علیہ السلام کا ملک الموت کی آنکھ پھوڑنا ، مائی حوّا علیہا السلام کا حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا ہونا ، اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں۔ جن سے کہیں صریح انکار ہے اور کہیں تحریف وتاویل کا دور دورہ ہے۔

دجال

اس طرح مودودی صاحب دجال کے منکر ہیں حالانکہ دجال کےمتعلق بکثرت احادیث موجود ہیں۔ جن میں بہت سے خرق عادات کا ذکر ہے مثلاً: اس کے ساتھ جنت و دوزخ کا ہوگا۔ مگر درحقیقت دوزخ جنت ہوگا اورجنت دوزخ ، اور اس کے حکم سے آسماں سے بارش ہوگی ، زمین سے انگوریاں اگیں گی ، مردے زندہ ہوں گے ، زمین کے خزانے اس کے پیچھے لگیں گے ، جس گدھے پر سوار ہوگا وہ اتنا بڑا ہوگا کہ اس کے دونوں کانوں کے درمیان ایک چالیس گز کا فاصلہ ہوگا۔ غرض اس قسم کی عادات دجال کی بہت ہیں جن کی بنا پر وہ لوگوں سے اپنا آپ منوائےگا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

یہ بہت بڑا فتنہ ہے (جس سے ہر نماز میں پناہ مانگی جاتی ہے اور)اس سے ہر نبی نے ڈرایا ہے۔ مگر میں تمہیں ایک نشان بتلاتا ہوں جو دوسرے انبیاء نےنہیں بتایا ، وہ کانا ہوگا  تمہارا رب کانا نہیں نیز اس کے ماتھے پر ’’کافر‘‘ لکھا ہوگا۔ ہر مومن پڑھے گا خواہ پڑھا ہوا یا اَن پڑھ ، آدم سے لے کرقیامت تک اس سے بڑا کوئی فتنہ نہیں۔ اس کے متعلق مودودی صاحب ارشاد فرماتے ہیں:

کانا دجال تو افسانے ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔

اور اس سے مودودی صاحب نے اپنا راستہ صاف کرلیا ہے۔ کہ جب کسی خرق عادات سے انکار کرنا چاہا فلسفیانہ عقل کا سہارا لے لیا اورصحیح اور قوی السند احادیث میں شکوک پیدا کرنے شروع کردیئے۔

چنانچہ سائل نے اپنےسوال میں اس قسم کی چند عبارتیں نقل کی ہیں۔ جن میں صحیح احادیث کو مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ آگے چل کر ہم بھی اس قسم کی چند عبارتیں نقل کریں گے۔ ان شاء اللہ

تیسرا راستہ

مودودی صاحب کا تیسرا راستہ تاریخ ہے۔ تاریخ وہ علم ہے جس سے حوادث زمانہ ماضیہ کا پتہ چلتا ہے۔ اور ان کی ترتیب معلوم ہوتی ہے مؤرخ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ واقعاتِ عالم کی جستجو کرے اوران کو اس ترتیب سے جمع کرے جس ترتیب سے وہ دنیا میں رونما ہوئے ہیں۔ پھر آگے مؤرخین کی کےنظریے مختلف ہوتے ہیں۔ کوئی تو صرف بادشاہوں کی تاریخ لکھتا ہے ، کوئی تاریخِ اعیان (بڑی شخصیتوں کی تاریخ) ، کوئی تاریخِ مذاہب ، کوئی تاریخِ اقوام ، کوئی تاریخِ اَلسِنہ وغیرہ وغیرہ۔ پھر ان میں کئی خصوصیتیں پیدا ہوجاتی ہیں مثلاًَ: تاریخِ شاہانِ عرب ، تاریخِ شاہانِ ہند ، تاریخِ یونان ، تاریخِ بغداد وغیرہ۔

اسی طرح تاریخ اسلام ، تاریخ عیسائیت ، تاریخ ہندو ازم وغیرہ۔ ایسے ہی تاریخِ علماءِ اہلحدیث ، تاریخِ علماءِ احناف  یا شوافع وغیرہ جن کوزیادہ ترتراجم سے تعبیرکرتے ہیں۔

اسی قسم سے علمِ اسماء الرجال ہے۔ یعنی راویانِ حدیث کے حالات کا ذخیرہ۔ لیکن ان میں محدثین نے زیادہ تر وہی حالات قلم بند کیے ہیں۔ جن کو حدیث کی صحت وضعف سے تعلق ہے۔ کیونکہ اسی غرض سے وہ لکھے گئے ہیں۔ اور جو انہوں نے قلم بند کیا ہے اس سے زیادہ کوئی قلم بند نہیں کرسکتا۔ جس کی دو وجہیں ہیں: ایک یہ کہ یہ تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخ میں اس وقت کے لوگوں نے یا قریب کے لوگوں نے حوادثِ زمانہ کا جوکچھ ذخیرہ جمع کیا ہوتا ہے۔ پچھلے لوگوں کے لیے صرف وہی ذریعۂ معلومات ہے۔ اس کے بغیر (براہِ راست) تسلی بخش کوئی ذریعہ نہیں۔ اس لیے اسی ذخیرہ پر اعتمادِ کلی کرنا پڑتا ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ صحت وضعف کا معاملہ بڑا اہم ہے اوراسی پر دین کا دارومدار ہے۔ اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے محدثین نےاس معاملے میں انتہائی کوشش کی ہے اور اس غرض کی تکمیل کے لیے تحقیق کے زیادہ سے زیادہ معتبر ذرائع استعمال کئے ہیں۔ کہ کسی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

اب جولوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمیں حق حاصل ہے کہ ہم کسی متفقہ صحیح حدیث کی اسناد میں بحث کریں۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے بخاری ومسلم کی بعض احادیث پر بحث کی ہے۔ وہ دراصل ان حقائق بالا سے ناواقف ہیں وہ نہیں سمجھے کہ امام دار قطنی  رحمہ اللہ وغیرہ بھي انہیں محدثین سے ہیں۔ جن کے ہاتھ پر یہ فن پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ کیونکہ یہ اسی زمانہ کے آدمی ہیں اور جرح و تعدیل  کےامام ہیں۔  اگر ان لوگوں کی آپس میں یہ بحثیں اورتبادلے خیالات نہ ہوتے تو یہ فن ادھورا رہ جاتا۔

مثلاً امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک حدیث پر حکم لگایا کہ یہ متفقہ صحیح ہے۔ دوسرے لوگوں نے کہا یہ متفقہ صحیح نہیں۔ کیونکہ اس کی اسناد میں فلاں عیب ہے۔ اب اس بحث مباحثہ میں ہزاروں محدثین کی تحقیقی نظر اس حدیث پر پڑی۔ کسی نے اس پر اعتراض کیا ، کسی نے اس کاجواب دیا ، اس چھان بین سے ایک محقق کےلئے راستہ کھل گیا۔ کہ وہ راجح یا مرجوح معلوم کرسکے۔ لیکن اس بحث مباحثہ سے بڑا ایک نتیجہ اور نکلا وہ یہ کہ جس حدیث پر انہوں نے اعتراض نہیں کیا اس کی صحت محکم ہوگئی۔ اور وہ یقیناً صحیح قرارپائی اور سب محدثین اس کی صحت پر متفق ہوگئے۔ کیونکہ اگر اس میں کچھ گنجائش ہوتی تو وہ بھی زیر بحث آجاتی۔

کتاب بخاری و مسلم رحمہمااللہ

کا مقام چونکہ صحت میں بلند ہے۔ یہاں تک کہ ان کو(اصح الکتب بعد کتاب الله) مانا گیا ہے۔ خاص کر  بخاری رحمہ اللہ اس میں اول نمبر پر ہیں۔ اس لئے جو حدیث کی شان گھٹانا چاہتا ہے۔ وہ ان دونوں بالخصوص بخاری علیہ الرحمہ کو نشانہ بنالیتا ہے۔ تاکہ ان کی شان گھٹنے سے سارا فنِ حدیث ہی کمزور ہوجائے گا۔ مگر جس کو خدا بڑھائے اس کو کون گھٹائے ، جو خدا موسیٰٰ علیہ السلام کو فرعون کی گودی میں پال سکتا ہے وہ زہر سے تریاق کا کام بھی لے سکتا ہے۔ چنانچہ یہاں ایسا ہی ہورہا ہے۔ جو اعتراض ہوتا ہے وہ معترض پر الٹ جاتا ہے۔ چنانچہ اس کی ایک مثال تو یہی ہے۔ کہ جس بحث سےگنجائش نکالنی چاہی وہی الٹی پرگئی۔

دوسری مثال بخاری ومسلم کا مطالعہ ہے۔ خاص کر بخاری کا۔ جون ؁1955ء میں حدیث کے متعلق لاہور میں مولانا مودودی صاحب نے تقریر کی اس تقریر کا اقتباس جماعت اسلامی کے اخبار ہفت روزہ منیر لائل پور میں شائع ہوا۔ اس میں بخاری وغیرہ کی نسبت لکھا ہے:

صحیح بخاری جو(اصح الکتب بعد کتاب الله)کہی جاتی ہے۔ اس کی احادیث کو بھی فرداً فرداً جانچنے کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اوراہل علم نے اس کی احادیث کے بارے میں کلام کیا ہے۔ یہ کلام اگر دلائل کی بناء پر ہوگا۔ بہر حال بخاری شریف کی احادیث یا دوسری احادیث کےمجموعوں کی روایات پر مسلمہ قواعد کے مطابق تنقید کرنا ہر صاحب علم کا حق ہے۔  (المنیر ہفت روزہ، جلد7،نمبر21۔22مؤرخہ17شوال؁1347ھ مطابق10جون؁1955ء ،ص2،کالم 2)

اس کے بعد کے پرچہ میں مودودی صاحب کا خط شائع ہوا۔ اس میں مودودی صاحب نے بخاری کی نسبت یہ الفاظ کہے ہیں:

’’ آج اگر کوئی اس (بخاری) کی احادیث پرتنقید کرے تومحض اس بناء پر کہ وہ بخاری کی احادیث پر کلام کررہا ہے۔ قابل ملامت نہ ہوگا بشرطیکہ وہ قواعد کے مطابق تنقید کرے۔ ‘‘(المنیرجلد7،نمبر23۔24،شوال  1374ھ مطابق17۔24 جون  ؁ 1955ء ، ص 13)

اس کی تائید میں ادارہ المنیر نے اس اشاعت کے ص9 پر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی یہ عبارت نقل کی ہے :

إن التصحيح لم يقلد الأئمة فيه البخاري ومسلما بل جمهورما صححاه كان قبلهما صحيحا متلقيً بالقبول وكذلك في عصرهما وكذلك بعد هما قد نظر أئمة هذا الفن في كتابيهما فوافقهما علي صحة ما صححاه إلا مواضع يسيرة نحو عشرين حديثا انتقد هما عليهما طائفة من الحفاظ وهذه المواضع المنتقدة غالبها في مسلم وقد انتصر طائفة لهما فيها وطائفة قررت قول المنتقد ( منهاج السنة لابن  تيمية رحمه الله بحواله فتح الملهم بشرح مسلم لمولانا شبير احمد عثماني ص 96)

ترجمہ: احادیث  کی تصحیح میں أئمۂ حدیث نے امام بخاری اور مسلم رحمہا اللہ کی تقلید نہیں کی۔ بلکہ واقعہ یہ کہ جن احادیث کو ان دو حضرات (بخار ی و مسلم) نے صحیح کہا۔ أئمۂ حدیث نے اس سے پہلے بھی انہی حدیث کوصحیح قراردیا اور قبول عام حاصل ہوا۔ اسی طرح ان کے زمانہ میں جو أئمۂ حدیث تھے انہوں نے بھی ان احادیث کو صحیح کہا۔ یہی بات ان کے بعد ظہور پذیر ہوئی۔ فنِ حدیث کے أئمہ نے بخاری اور مسلم دونوں کتب پر نظر دوڑائی۔ اورجن روایات کو انہوں نے صحیح کہا تھا انہیں صحیح ہی پایا۔ البتہ چند مقامات میں أئمۂ حدیث نے امام بخاری ومسلم رحمہا اللہ سے اتفاق نہیں کیا۔ اور ان کی صحیح کردہ روایات کو .......... صحیح نہیں جانا ، یہ احادیث بیس کے قریب ہیں۔ ان پر حفاظِ حدیث نے تنقید کی ہے۔ یہ احادیث زیادہ مسلم میں ہیں۔ بعد کے أئمۂ حدیث کے ایک گروہ نے تنقید کرنے والوں کی تائید کی ہے۔ اور ان احادیث کو مجروح ہی کہا ہے۔ اور ایک دوسرے گروہ نے مجروح احادیث کی تائید کی ہے۔ (المنیر،اشاعت مذکورہ ص 9)

بظاہر تو اس عبارت سے یہ گنجائش نکالی ہے۔ کہ بخاری ومسلم کی احادیث کو بغیر تنقید کے نہیں لینا چاہیے۔ کیونکہ اندھی تقلید ہے لیکن دراصل اس عبارت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے۔ کہ تنقید کی اب کوئی گنجائش نہیں کیونکہ اس کی انتہاء ہوگئی۔ یہاں تک کہ ان کی صحت پر تین زمانے متفق ہیں۔ بخاری ومسلم سے پہلے کے لوگ بھی ان کی صحت پر متفق تھے۔ اور ان سے بعد کے لوگ بھی اور ان کے ہمعصر بھی۔ اب بتلائیے اس سے بڑھ کر کسی کتاب کی شان کیا ہوسکتی ہے۔ کہ جس طرح قرآن مجید کی صحت پر دنیا متفق ہے۔ اسی طرح اس کی صحت پر بھی دنیا متفق ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ اول درجۂ صحت میں کتاب اللہ ہے پھر ان کا نمبر ہے۔

اور اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن احادیث کو مجروح کہا گیا ہے۔ ان میں بھی اختلاف ہے۔ ایک گروہ بخاری ومسلم رحمہا اللہ کے ساتھ ہے اور ایک تنقید کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور یہ چیز اصولِ حدیث میں مسلَّم ہے۔ کہ جس جرح کا تھوڑا بہت جواب ہوسکے۔ اس سے حدیث حسن درجہ سےنہیں گرتی۔ جیسے مسلم رحمہ اللہ کی دوسرے درجہ کی احادیث جو تائیداً لاتے ہیں۔ ملاحظہ ہو مقدمہ مسلم۔ پس اس جرح کا حاصل یہ ہوا کہ بعض مقامات میں بخاری ومسلم رحمہما اللہ کی شرط ( اعلیٰ درجے کی صحت )پوری نہیں ہوئی نہ کہ وہ حدیث قابل عمل نہیں۔ تیسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ بخاری ومسلم کے اتنے بڑے دفتر سے کل بیس احادیث کےقریب ایسی نکلی ہیں۔ جن پر بعض محدثین کی تنقیدی نظر پڑی ہے۔ جو ترازو میں پاسخ بھی نہیں۔ ایسے تو قرآن مجید کی بعض قراءتوں میں بھی اختلاف ہے۔ کہ شاذ ہیں یا متواتر۔ مگر اس سے مشہور سات قراءتوں کو کوئی ضعف نہیں۔ ٹھیک اسی طرح بخاری ومسلم کی ان چند احادیث پر اگر کوئی جرح ہوئی ہے تو یہ کالعدم ہے۔ ہاں اس سے اتنا ضرور فائدہ پہنچا کہ مخالفوں کا منہ بند ہوگیا۔ وہ اس طرح کہ بخاری ومسلم رحمہا اللہ کی احادیث میں کچھ تنقید گنجائش ہوتی تو اتنے بڑے بڑے محدِّث، جرح تعدیل کے امام اتنی کوشش کے باوجود اپنا سا منہ لے کر نہ بیٹھ جاتے ، بہر صورت بخاری ومسلم کی شان اس سے بہت بلند ہوگئی .....اور تنقید کا خاتمہ ہوگیا ۔

والحمد للہ علی ٰ ذلک ۔

چوتھی بات اس عبارت سے یہ معلوم ہوئی کہ بخاری کا مقام مسلم سےاعلیٰ ہے۔ کیونکہ ان مجروح احادیث کا غالب حصہ مسلم میں ہے۔ گویا بخاری کے حصے میں کل پانچ چھ احادیث ایسی آئی ہیں۔ جن کی تنقید کی گئی ہے۔ تو بخاری کی سات آٹھ ہزار احادیث کے مقابلہ میں فی ہزارایک بھی نہ ہوئی۔ اب بھی کوئی بخاری پر جرح کرے تو اس کو شرم کرنی چاہیے اور خدا سے ڈرنا چاہیے کیونکہ تعصب کا انجام برا ہے۔

ہاں یہاں یہ شبہ ہوتا ہے کہ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم کے مقدمہ میں بخاری ومسلم کی قریباً 2 سو احادیث لکھی ہیں۔ جن پر تنقید ہوئی ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری میں دو سو دس لکھی ہیں۔ جن سے 78 صرف بخاری میں ہیں اور دو سو صرف مسلم میں ہیں اور 32 دونوں میں ہیں تو گویا یہ 32 ملا کر ایک سودس بخاری میں ہوئیں اور ایک سو 32 مسلم میں ہوئیں۔ پس ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بیس کے قریب کہنا کیونکر صحیح ہوگا۔

اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مراد وہ احادیث ہیں جن میں محدثین کا اختلاف رہا۔ باقی کے متعلق محدثین کا اتفاق ہوگیا۔ کہ تنقید کرنے والوں کی غلطی ہے۔ چنانچہ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ نے ہر ایک حدیث کے متعلق پوری بحث کی ہے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ ان سے بہت احادیث پر جرح یہ ہے۔ کہ ان میں فلاں راوی مجروح ہے حالانکہ یہ ضروری نہیں۔ کہ راوی کے مجروح ہونے سے حدیث بھی مجروح ہوجائے۔ کیونکہ بعض دفعہ ایک راوی مجروح کے ساتھ دوسرا ثقہ مل جاتا ہے۔ تو اس طرح سے بھی حدیث صحیح ہوجاتی ہے اور بعض دفعہ ایک راوی میں عمر کے تقاضا سے یا کسی اور سبب سے یا حادثے سے حافظہ وغیرہ میں خرابی ہوجاتی ہے۔ جس سے وہ مجروح  ہوجاتا ہے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی پہلی روایت کردہ احادیث بھی مجروح ہوجائیں۔

الغرض اس قسم کی تنقیدات سے حدیث کی صحت پر کوئی برا اثر نہیں پڑتا۔ بلکہ امام نووی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تو سب احادیث کی صحت ثابت کی ہے۔ جن میں وہ بیس بھی آجاتی ہیں جن کا ذکر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ بخاری ومسلم کی شان بہت بلند ہے اور ان کی مسند احادیث کی شان بہت بلند ہے۔ اور ان کی  مسند احادیث سب صحیح ہیں اور اب ان پر تنقید کا دروازہ بند ہے۔ اور جن احادیث پر امام دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے تنقید کی۔ ان میں بھی بخاری ومسلم رحمہا اللہ کا پلڑا بھاری ہے اور تنقید کرنے والے غلطی پر ہیں۔

مودودی صاحب نے جب دیکھا کہ اسناد کے قوی ہونے کے بعد اب تنقید کی کوئی گنجائش نہیں۔ تو درایت اور ذوق کا ایک شاخچہ کھڑا کردیا۔ اس کے لئے کئی قسم کے راستے کھول دئیے۔ جن سے دو کا بیان ہوچکا ہے۔

تیسرا راستہ

ابھی ذکر ہوا ہے کہ تیسرا راستہ تاریخ ہے۔ اور یہ بھی بیان ہوا ہے کہ تاریخ واقعاتِ عالم کا ترتیب وار ذخیرہ ہے۔ مودودی صاحب کا خیال ہے کہ اب تاریخ نے بہت وسعت پیدا کر لی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی وسعت نے تمام واقعاتِ عالم کا احاطہ کرلیا ہے۔ ایسا کوئی واقعہ نہیں جو اس کے احاطہ میں نہ آیا ہو۔ اگر حدیث میں بھی کسی واقعہ کا ذکر ہو اور تاریخ میں اس کی شہادت نہ ملے تو درایت اور ذوق کا یہی فیصلہ ہے کہ وہ غلط ہے۔ اسی بناء پر آپ تمیم داری﷜ کی حدیث جو دجال سے متعلق ہے اس کا ذکر کر کے بڑی جرأت سےلکھتےہیں:

کیا تیرہ سو برس کی تاریخ نے یہ ثابت نہیں کردیا۔ کہ حضورﷺ کا یہ اندیشہ صحیح نہ تھا۔ (ترجمان القرآن ، جلد 28 ، ص 172 )

بلکہ اس سے بھی ترقی کرکے لکھتے ہیں:

وہ دراصل آپ کے قیاسات ہیں۔ جن کے بارے میں آپ خود شک میں تھے۔ (حوالہ مذکورہ )

مودودی صاحب یہاں تو منکرینِ حدیث سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ منکرینِ حدیث حدیث کو تاریخی حیثیت سے مانتے ہیں۔ وحی قرار نہیں دیتے۔ مودودی صاحب نے نہ صرف وحی بلکہ تاریخی حیثیت سے بھی انکار کردیا ہے اور تیرہ سو برس کی تاریخ کا سہارا لیتے ہوئے دجال کے متعلق احادیثِ صحیحہ کو غلط کہہ دیا۔ اگر حدیث کو تاریخی حیثیت دیتے تو تیرہ سو برس کی تاریخ کا حدیث سے موازنہ نہ کرتے کہ ایک طرف دنیا کی تاریخ اور ایک طرف سردارِ دو جہاں محمدﷺ کا بیان۔ چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک کا مصداق ہے۔ پھر لطف یہ کہ مودودی صاحب خود بھی لکھتے ہیں:

دنیا میں زمانۂ گزشتہ کے حالات کا کوئی ذخیرہ اتنا مستند نہیں۔ جتنا کہ حدیث کا ذخیرہ مستند ہے۔ (تفہیمات ص 261 )

مودودی صاحب نے یہاں مخبوط الحواس کا کام کیا ہے۔ ادھر پیغمبرِاسلامﷺ پر جرأت ادھر اپنی تحریروں میں تضاد۔ اگر حدیث کا ذخیرہ سب ذخیروں سے مستند ہے تو پھر تیرہ سو برس کی تاریخ کو اس سے کیا نسبت؟

یاجو ج ماجوج

بعض لوگ سوال کیا کرتے ہیں کہ یاجوج ماجوج کا  ذکر تو قرآن مجید میں ہے اور سَکندر ذوالقرنین اور سدِّ سَکندری کا بھی تفصیلاً بیان ہے۔ اور احادیث میں تو بہت زیادہ تفصیل آئی ہے کہ یاجوج ماجوج نے دو انگلیوں کے حلقے کے برابر سدّ سکندری میں سوراخ کردیا ہے اور عنقریب وہ سد سکندری توڑنے والے ہیں اور ان کی پہلی فوجیں بحیرۂ طبریہ کا سارا پانی پی جائیں گی۔ اور پچھلی فوجیں گذریں گي تو کہیں گی۔ یہاں کسی زمانہ میں پانی ہوگا ، زمین پر قبضہ کرکے پھر آسمان کی طرف تیر چلائیں گے۔ آسمان سے وہ خون آلودہ آئیں گے ، دیکھ کر کہیں گے ہم نے آسمان والے کو بھی قتل کردیا ، اب آسمان پر بھی ہماری بادشاہت ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ ان کو خدا کی طرف سے حکم ہوگا کہ میرے بندوں کو پہاڑ طور کی طرف جگہ دے ، پھر خدا ان کی گردنوں میں کیڑا پیدا کردیں گے۔ جس سے یک لخت سارے کے سارے اس طرح مرجائیں گے جس طرح ایک انسان مرتا ہے ، ان کی لاشوں سے زمین سڑ جائے گی ، عیسیٰ علیہ السلام دعا کریں گے۔ خدا تعالیٰ اونٹوں کی طرح لمبی گردنوں والے پرندے بھیجے گا وہ اٹھا اٹھا کر ان کو نَہبَل (بیت المقدس میں کوئی جگہ ہے) میں پھینک دیں گے۔ پھر بارش ہوگی جس سے زمین صاف ہوجائے گی۔ اور خدا زمین وآسمان کو حکم دے گا۔ اپنی برکات چھوڑدیں ، بس پھر رزق کی اتنی فراوانی ہوجائے گی۔ کہ ایک انار کو چالیس آدمی تک کھائیں گے اور اس کے چھلکے سایہ میں بیٹھیں گے ، اور ایک اونٹنی کا دودھ کئی جماعتوں کو کافی ہوگا ، اور ایک گائے کا ایک قبیلہ کو اور ایک بکری کا ایک گھرانے کو ، اور سانپوں سے زہر نکل جائے گا ، ان سے بچے کھیلیں گے ، شیروں کو بچے بھگاتے پھریں گے ، بھیڑئیے کتوں کی طرح بکریوں کے محافظ بن جائیں گے اور سات سال تک مسلمان یاجوج ماجوج کے تیروکمان کی لکڑیاں جلائیں گے۔ یعنی یاجوج ماجوج کی تعداد اتنی زیادہ ہوگی کہ سات سال تک ان کےتیر کمان ایندھن کا کام دیں گے۔

سَد سَکندری

سد سکندری اوریاجوج ماجوج کا بیان قرآن مجید میں بھی ہے اور احادیث میں بھی۔ مگر دجال کا ذکر صراحتاً قرآن مجید میں نہیں بلکہ اشارۃً ہے۔ وہ یوں کہ عیسیٰ علیہ السلام اولوالعزم اور صاحب شریعت انبیاء سے ہیں۔ ان کی حیات بھی قرآن مجید سے ثابت ہے اور ان کا دوبارہ آنا بھی اور ظاہر ہے کہ اتنا بڑا اہتمام کسی بڑے فتنے کا سد باب ہے اور وہ دجال ہی ہے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:

آدم سے تاقیامت اس سے بڑا فتنہ کوئی نہیں۔ ( مشکوٰۃ )

مصیبت یہ ہے کہ مودودی صاحب میں کچھ نیچریت اور کچھ مرزائیت حلول کرآئی ہے وہ حیاتِ مسیح کے بھی منکرہیں۔ جو امت کا متفقہ مسئلہ ہے چنانچہ لکھتے ہیں:

مسیح علیہ السلام کی حیات کا مسئلہ متشابہات میں سے ہے۔ ( کوثر ، 21 فروری  ؁1951ء)

پس قرآن کی روح سے زیادہ مطابقت اگرکوئی طرز عمل رکھتا ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ رفع جسمانی کی تصریح سےبھی انکار کیا جائے اور موت  کی تصریح سے بھي۔   ( تفہیم القرآن ، ص 421 )

جہاں تک قرآن کا تعلق ہے حیاتِ مسیح ورفع الی السماء قطعی طور پر ثابت نہیں ہے۔ قرآن مجید کی مختلف آیات سے یقین نہیں ہوتا۔ (تقریر مولانا مودودی صاحب بموقعہ درس مقام اچھرہ لاہور ، 28 مارچ ؁ 1951ء)

مودودی صاحب تو تیرہ سو سال کی تاریخ کے سہارے پیغمبر علیہ السلام کی غلطیاں نکال رہے ہیں۔ اصحاب کہف اور سد سکندری کا پتہ بھی تاریخ سے نہیں چلتا ، یاجوج ماجوج کے ذکر نے تو اور حیرانی میں ڈال دیا ہے۔ کیونکہ دجال تو انفرادی حالت میں کسی جزیرہ میں مقید ہے۔ تیرہ سو سال کی تاریخ میں اس کا پتہ نہ لگنا ایک معمولی بات ہے۔ لیکن یاجوج ماجوج تو اپنی کثرت تعداد کے لحاظ سےکسی بہت بڑے ملک میں آباد ہوں گے۔ تیرہ سو سال کی تاریخ ان کا پتہ کیوں نہیں دیتی ؟

پھر اصحاب کہف پر مسجد بھی بنائی گئی ہے جو بہت بڑا نشان ہے اور کھلے میدان سوئے ہوئےہیں اور سد سکندری اس سے بھی بڑی عمارت ہے۔ جو دو ملکوں کے درمیان حائل ہے اور یاجوج ماجوج اس کے توڑنےمیں لگے ہوئے ہیں اور دو انگلیوں کے حلقے کے برابر رسول اللہﷺ کےزمانہ میں ہی اس میں سوراخ ہوچکا تھا تو یہاں بھی یہ کہ دیا جائے کہ تیرہ سوسال کی تاریخ نے یہ ثابت کردیا کہ رسول تو درکنار خدا کا اندیشہ بھی صحیح نہیں دیدہ باید ۔

چوتھا راستہ

مودودی صاحب کی درایت کیےلئے احادیث میں اختلاف اور ٹکراؤ ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ حدیث بھی قرآن مجید کی طرح وحی ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ میں اعجاز ہے۔ ( یعنی ایسا کلام بنانے پر کوئی اور قادر نہیں) اور حدیث شریف میں اعجاز نہیں اور یوں بھی فرق کرتے ہیں کہ قرآں مجید وحی متلُو ہے یعنی نمازوں غیر نمازوں میں اس کی تلاوت ہوتی ہے اور حدیث وحی غیرمتلُو ہے۔ دوسرے لفظوں میں قرآن مجید وحی جلی ہے اور حدیث وحی خفی ہے۔ جلی کے معنی واضح کے ہیں اور خفی کےمعنی پوشیدہ اور مراد وہی متلو غیر متلو ہے۔ جب ہر وقت نماز غیرنماز میں عام تلاوت ہوگی تو جلی کےمعنی پائے گئے اور جس کی اس طرح تلاوت نہیں اس میں خفی کےمعنی پائےگئے اور جلی خفی کا ایک معنی یہ بھی کرتےہیں۔ کہ اگر الفاظ اورمعنی دونوں خدا کی طرف سے ہو تو یہ جلی ہے اور اگر الفاظ رسول اللہ ﷺ کے ہوں اور معنی خدا کی طرف سے ہوں  تویہ خفی ہے۔ کیونکہ الفاظ ظاہر ہیں اور معنی دل میں ہوتا ہے۔ مگر اس پر یہ شبہ ہوتا ہے کہ حدیث قدسی کےالفاظ اورمعنی دونوں خدا کی طرف سے ہوتے ہیں حالانکہ وہ قرآن نہیں۔

حدیث قدسی

حدیث قدسی کی ایک تیسری تعریف یہ بھي ہے کہ صرف خدا کی طرف  تشریفی طور پر نسبت ہوتی ہے۔ الفاظ خدا کے نہیں ہوتے۔ اس بناء پر جلی کے یہ معنی کرنا کہ الفاظ بھی خدا کے اور مطلب بھی خدا کا اور اس معنی سے قرآن مجید کو وحی جلی کہنا صحیح ہوگا۔ اور اس کے مقابلہ میں وحی خفی کا معنی یہ کرنا کہ صرف مطلب خدا کا ہے الفاظ خدا کے نہیں ہیں۔ اور اس معنی سے حدیث وحی خفی ہے قدسی ہوغیر قدسی۔ لیکن پہلے جو ہم نے کہا ہے کہ ظاہر یہی ہے کہ حدیث قدسی کےالفاظ خدا کے ہوتے ہیں صرف ان میں اعجاز نہیں ہوتا۔ یہ چاہتا ہے کہ حدیث قدسی کی یہ تیری تعریف کچھ کمزور ہو۔ اور اس بناء پر جلی خفی کا یہ معنی بھی کچھ کمزور ہی رہے گا۔ اور جلی کا بعض یہ معنی کرتے ہیں کہ یہ فرشتہ سامنے آتا ہے اور خفی کے یہ معنی ہیں کہ فرشتہ سامنے نہیں آتا۔ جیسے شروع بخاری میں دونوں قسم کی وحی کی تفصیل ہے۔ مگر قرآن کی وحی اور حدیث کی وحی میں یہ فرق کرنا غلط ہے۔ کیونکہ حدیث کی وحی میں بھی فرشتہ سامنے آتا ہے۔ جیسے رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:

ہمسایہ کے حقوق کےنسبت جبرئیل نے مجھے اتنی وصیت کی کہ قریب تھا کہ اسے وارث بنا دیں۔

اور مشکوٰۃ باب المساجد میں جبرائیل اترے۔ قرآن مجید کے نزول میں بعض دفعہ فرشتہ سامنے نہیں آتا۔ جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت کی آیات اتری ہیں۔ اس وقت ویسے ہی رسول اللہﷺ کو استغراق کی حالت ہوگئی اور طبیعت پر بوجھ پڑ گیا۔ اسی طرح پانچویں پارہ آیۃ کریمہ

’’لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ‘‘

’’اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں،‘‘(سورۃ النساء:95)

میں غيراولی الضرر اترنے کے وقت ہوا زید بن ثابت فرماتےہیں کہ میں وحی لکھ رہا تھا میری ران آپ کی ران کے نیچے تھی جب یہ لفظ اترا تو مجھ پر اتنا بوجھ پڑا کہ قریب تھا کہ میری ہڈی ٹوٹ جائے۔ حالانکہ صرف ایک لفظ غيراولی الضرر اترا ہے اور اس قسم کی وحی میں سردیوں میں بھي آپﷺ پسینہ پسینہ  ہوجاتے تھے۔ خواہ وحی قرآن مجید ہو یا حدیث ہو۔ چنانچہ مشکوٰۃ کتاب الرقاق فصل اول میں ابو سعید خدری کی حدیث کا نزول بھی اسی طرح ہوا۔ جو یہ ہے رسول اللہﷺ نےفرمایا کہ دنیا کی نمائش اور زینت سے میں تم پر ڈرتا ہوں۔ ایک شخص نےکہا یا رسول اللہ ! کیا خیر بھی شر کو لاتی ہے۔ آپ چپ ہوگئے ہم نےخیال کیا کہ آپ پر وحی ہورہی ہے۔ پس آپﷺ نےپسینہ پونچھا۔ اور فرمایا سائل کہاں ہے؟ ایسا معلوم ہوتا تھا  کہ آپﷺ نے اس کا سوال نا پسند کیا ہے۔ فرمایا خیر شر کو نہیں لاتی لیکن بہار میں جو کچھ زمیں اگاتی ہے اس کو چارپائے  کھاتے ہیں۔ کئی چارپائے کھا کر مرجاتے ہیں کئی قریب المرگ ہوجاتے ہیں جو چارپایہ کھا کر دھوپ میں آکھڑا ہو ، پسینہ آئے ، گوبر کرے ، پیشاب کرے ، پیٹ ہلکا ہوجائے ، پھر جاکر چرنے لگے ، اس چارپائٰے کویہ غذا مفید پڑتی ہے۔ سو اسی طر ح یہ دنیا کا مال ودولت سبز اور بیٹھا ہے جو حلال طریقے سے لے۔ اور جہاں خرچ کرنے کا حکم ہے وہاں خرچ کردے۔ اس کے لئے یہ مال بہتر معاون ہے اور جو ایسا نہ کرے اس کی  مثال اس چارپائے کی ہے جو کھا تا ہے اورسیرنہیں ہوتا۔ اور قیامت کے دن یہ مال اس پر گواہ ہوگا۔

رسول اللہﷺ کا مطلب یہ تھا کہ خرابی مال سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ سوء استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔ جیسے قرآن کی بابت فرمایا کہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بہت کو ہدایت کرتا ہے اور بہت کو گمراہ کرتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ جلی خفی میں فرشتے کےسامنے آنے نہ آنے کے ساتھ فرق کرنا صحیح نہیں۔ بلکہ فرق وہی ہے جو پہلے بیان ہوا یعنی جلی سے مراد وحی متلُو ہے اور خفی سے مراد وحی غیر متلُو ہے۔ پس قرآن مجید میں اور حدیث شریف میں دوطرح سےفرق ہوا ایک یہ کہ قرآن مجید وحی متلُو ہے اور حدیث شریف وحی غیر متلُو ہے ۔بہرحال حدیث کے  وحی ہونے میں شبہ نہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ وحی میں اختلاف یا تضاد نہیں ہوتا کیوں کہ وحی خدا کی طرف سے ہے۔

’’وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ‌ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرً‌ا ‘‘ 

ترجمہ:’’اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے‘‘(النساء:82)

اب چاہیے تویہ تھا کہ احادیث میں بظاہر جہاں اختلاف ہو وہاں موافقت کی کوشش کی جائے۔ اور اگر کسی سے موافقت نہ ہوسکے تواسے چاہیے کہ اس کے جاننے والے کے حوالے کردے۔

بخاری جلد 2 ص 712 پر سورۂ حٰم سجدہ کی آیہ:

’’قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُ‌ونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْ‌ضَ فِي يَوْمَيْنِ‘‘

’’آپ کہہ دیجئے! کہ کیا تم اس (اللہ) کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کردی‘‘(سورۃ فصلت:9)

کےتحت سعید بن جبیر﷜ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص (نافع بن ازرق) نے ابن عباس﷜ کو کہا کہ قرآن مجید کی کئی آیتوں میں مجھے تعارض معلوم ہوتا ہے:

خدا ایک جگہ فرماتا ہے  ولايتساءلون  (المؤمنون101)

یعنی قیامت کےدن کوئی ایک دوسرے کو نہیں پوچھے گا۔ اور دوسری آیت  میں ہے:

’’وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ ‘‘

’’اور آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں گے‘‘(سورۃ طور:25)

یعنی قیامت کے دن ایک دوسرے کوپوچھیں گے ۔

ایک آیت میں ہے ولا يکتمون الله حديثا (النساء 42 )

یعنی خدا سے کوئی بات نہیں چھپائیں گے اور دوسری آیت میں ہے

والله ربنا ما کنا مشرکين (الأنعام 23 )

یعنی خدا کی قسم ہم مشرک نہ تھے ۔ اس آیت میں انہوں نے چھپایا۔

سورۂ نازعات میں ہے کہ آسمان کو زمین سے پہلے پیدا کیا اور سورۂ حٰم سجدۃ میں کی آیۃ مذکورہ میں ہے کہ زمین پہلے پیدا کی۔

خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وکان اللہ غفوراًرحیما ً ۔ عزیزاً حکیما ً ۔ سمیعاً بصیراً ۔

یعنی خدا بخشنے والا مہربان تھا۔ غالب حکمت والا تھا۔ سننے والا دیکھنے والا تھا  گویا پہلے زمانے میں تھا اب نہیں۔

ابن عباس﷜ نےجواب فرمایا :

پہلے نفخہ میں کوئی نہیں پوچھے گا دوسرے نفخہ میں پوچھیں گے۔

جب اللہ تعالیٰ اہل توحید کو بخشے گا تو مشرک کہیں گے آؤ ہم بھی قسم کھائیں کہ ہم مشرک نہ تھے اس کے بعد ان کے منہ پر مہریں لگا دی جائیں گی۔ اور ہاتھ بولیں گے پس اس وقت کچھ نہیں چھپائیں گے۔

زمین آسمان سے پہلے پیدا ہوئی ہے اور سورۂ نازعات میں زمیں کی پیدائش کا ذکر نہیں بلکہ بچھا نے کا ذکر ہے۔ اور بچھانے سے مراد اس میں چشمے جاری کرنا ، اس سے چارہ پیدا کرنا ، اس میں پہاڑ گاڑنا ، اونٹ ، ٹیلے اور باقی اشیاء پیدا کرنا ہے۔

یہ اوصاف خدا تعالیٰ کے چونکہ قدیمی ہیں۔ اس لئے ماضی کا لفظ استعمال کیا اور یہ مطلب نہیں کہ اب نہیں۔ کیونکہ خدا جب کوئی ارادہ کرے مثلاً کسی کوبخشش ، رحمت پہنچانی چاہیے تو اس کو کوئی رکاوٹ نہیں۔ اس لئے اس کے حق میں یہ اوصاف منقطع نہیں۔ (اسی لئے کتب نحو میں کان کی دو قسمیں لکھی  ہیں منقطعہ اور دائمہ) پس قرآن مجید تجھ پر مختلف نہ ہو کیونکہ سارا خدا کی طرف سے ہے۔

تفسیر ابن کثیر جلد4 ص 420 پر سورۂ سأل سائل کی آیہ

’’فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُ‌هُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ‘‘

’’ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے‘‘(سورۃ المعارج:4)

کے تحت لکھا ہےکہ :

ایک شخص نے ابن عباس﷜ سے اس دن کے متعلق سوال کیا جس کا اندازہ پچاس ہزار سال ہے۔ ابن عباس﷜ نے فرمایا یہ ( سورۂ سجدہ میں ہزار سال کا دن ) دونوں دن خدا نے اپنی کتاب میں ذکر کئے ہیں۔ خدا کی جو مراد ہے وہ بہتر جانتا ہے۔ میں اللہ کی کتاب میں بغیر علم کے کچھ کہنا مکروہ  سمجھتا ہوں۔

یہی حال حدیث کا ہونا چاہیے۔ کیو ں کہ وہ بھي وحی ہے اول تو موافقت کی کوشش کرنی چاہیے اگر اتنا علم نہ ہو تو اپنے سے زیادہ علم والے کی طرف رجوع کرے یا پھر توقف کرے۔ جیسے ابن عباس﷜نے کیا۔ مگر مودودی صاحب حدیث سے ظالمانہ برتاؤ کررہے ہیں۔ دیدہ دانستہ حدیث کو ٹکراتے ہیں اور پھر ان کی تردید شروع کرتے ہیں۔ یہ ان کی درایت ہے جو عموماَ حدیث پر ہمیشہ غالب رہتی  ہے۔ چنانچہ مودودی صاحب نے ان احادیث کو جن میں دجال کا ذکر ہے۔ آپس میں ٹکرا کر نتیجہ یہ نکالا ہے کہ یہ محض آپ ﷺ کے قیاسات ہیں۔ حالانکہ خراسان او راصفہان مدینہ منورہ سے قریباً مشرقی جانب میں اور عراق تو بالکل مشرق میں ہے اور حدیث میں درمیانی علاقہ شام وعراق نہیں آیا۔ بلکہ خَلّہ بین الشام والعراق آیا ہے اور خَلّہ  کے معنی راستہ کے ہیں جو ریگستان میں ہو۔ اور وہ راستہ شام کے نسبت عراق کی طرف زیادہ نزدیک ہو تو وہ بھی قریباً مشرق میں ہوگیا۔ سندھی حاشیہ ابن ماجہ میں لکھتے ہیں:

قال القرطبی قد جاءَ أنه من خراسان ومن أصبهان ووجه الجمع أنّ مبدأ خروجه من خراسان من ناحية أصبهان ثم يخرج إلي الحجاز فيها بين الشام والعراق .

قرطبٍی کہتے ہیں۔ احادیث میں خراسان سے نکلنے کا ذکر بھی آیا ہے اور اصبہان سے بھي آیا ہے۔ اور موافقت اس طرح ہے کہ ابتداء خروج خراسان سے شہر اصبھان کی جانب سے ہے۔ پھر حجاز کی طرف اس کا خروج شام وعراق کےدرمیانی راستہ سے ہوگا۔

کم عقلی

پہلے علماء سب کچھ لکھ گئے ہیں۔ مگر مودودی صاحب کو اپنا علمی مظاہرہ کرنا تھا۔ اس لئے ان کو نئی نئی سوجھتی ہے۔ اور دراصل یہ علمی مظاہرہ نہیں بلکہ اپنی کم عقلی کا مظاہرہ ہے۔ معاذاللہ آپﷺ کوئی شیخ چلی تو تھے نہیں کہ محض اٹکلوں کی بناء پر خیالات کی عمارت چنتے رہیں۔ بلکہ آپﷺ کی تو وہ بلند شخصیت ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ ذمہ دارانہ طور پر فرماتے ہیں:

’’وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ۔ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ‘‘

’’اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ۔ وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے‘‘(سورۃ النجم:3،4)

پھر یہ  بھی  سوچنا چائیے کہ خراسان ایک علاقہ کا نام ہے اور اصبھان ایک شہر ہے اور خلہ ریگستان کا راستہ ہے یہ تعینات اس قسم کی پیش گوئی ہے۔ کہ اس میں قیاس کا کوئی دخل ہی نہیں۔ اس کا ذریعہ صرف وحی ہو سکتی ہے۔ مودودی صاحب کو دعویٰ اتنا بڑا ہے کہ نبیﷺ کی غلطیاں نکالتے ہیں۔ مگر یہ کبھی نہیں سوچا کہ ان چیزوں کے نام حضورﷺ کی زبان پر کس طرح آگئے اور دجال کا چکر ان راستوں سے کیوں ہوگا ؟ کیا اس کو نکلنے کا کوئی او رراستہ نہیں ؟

کاش مودودی صاحب اصول حدیث ہی پڑھ لیتے۔ اس میں یہ اصول صاف لکھا ہے کہ اسرائیلیات سے نہ لینے والا صحابی اگر کوئی اس قسم کی خبر دے جس میں رائے ، قیاس کا دخل نہ ہو تو محدثین اس کو مرفوع شمار کرتے ہیں۔ یعنی وہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہوتا ہے۔ کیونکہ صحابہ کے لئے ایسے معلومات کا ذریعہ صرف آپ ہی کی ذات بابرکات تھی۔ تو کیا رسول اللہﷺ کے خدا کی ذات کے سوا کوئی اور ذریعہ تھا ؟ پس اس بناء پر آپﷺ کا ارشاد بطریق اولی وحی ہونا چاہیے۔ خاص کر جبکہ آپﷺ کے حق میں ذمہ دارانہ فرمان الہی

’’وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ۔ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ

’’اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ۔ وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے‘‘(سورۃ النجم:3،4)

بھی موجود ہے لیکن مودودی صاحب کی درایت نے یہ سب باتیں ان کی آنکھ سے اوجھل کردیں۔ کیا اس سے یہ بہتر نہیں کہ آپ منکرین حدیث میں شامل ہوجائیں۔ اوپر سے اقرار کا لیبل لگا کر اندر سےانکار۔ یہ تو وہی یہود کا ٹیڑھا سجدہ ہے جبکہ ان پر پہاڑِ طُور اٹھایا گیا۔ آپ کی حکومتِ الہیہ بھی ایسی ہی ہوگی۔

انا للہ وانا لیہ رجعون ۔

پانچواں راستہ

مودودی صاحب کی درایت کا ، قرآن و حدیث کا آپس میں ٹکراؤ ہے۔ ابھی ذکر ہوا ہے کہ حدیث بھی وحی ہے اختلاف نہیں ہوتا ہا ں ظاہر میں کسی وقت اختلاف معلوم ہو تو اس کی موافقت کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر سمجھ میں  نہ آئے تو کسی دوسرے کے حوالے کردے یا توقف کرے۔ اس کی مثالیں بے شمار ہیں:

پہلی  مثال

قرآن مجید میں ہے :

’’فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ ۔ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرً‌ا ‘‘ 

ترجمہ :’’تو (اس وقت) جس شخص کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا۔ اس کا حساب تو بڑی آسانی سے لیا جائے گا‘‘(الانشقاق 7،8)

من حوسب عذب.

یعنی جس کا حساب کیا گیا اس کو عذاب دیا جائے گأ ۔

اس آیت وحدیث میں بظاہر مخالفت ہے۔ آیت میں ہے جن کو اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملے گا ان کا حساب ہو گا حسابِ آسان اور حدیث چاہتی ہے کہ جس کا حساب ہو اس کو عذاب ہو۔ خواہ حساب آسان ہو یا سختی سے ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ شبہ رسول اللہﷺ پر پیش کیا ، رسول اللہﷺ نے دونوں میں یوں موافقت کی کہ آیت سے مراد دراصل حساب نہیں بلکہ عرض (سامنے کرنا) ہے۔ یعنی دائیں ہاتھ میں عملنامہ ملنے والوں کے گناہ سامنے کرکے کہہ دیا جأئے گا۔ یہ تمہارے گناہ معاف کردیے گئے۔ تاکہ ان کو پتہ لگے کہ خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اور حدیث کامطلب یہ ہے کہ من نوقش فی الحساب عذب یعنی جو حساب میں کرید کیا گیا۔ اور ذرا ذراسی بات کی پوچھ ہوئی تو اس کو ضرور عذاب ہوگا۔ گویا رسول اللہﷺ نےآیت کی تاویل کی کہ وہ برائے نام حساب ہے اصل حساب نہیں۔ پس آیت وحدیث میں کوئی مخالفت نہیں۔

دوسری مثال

قرآن مجید میں ہے :

’’وَإِذَا ضَرَ‌بْتُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُ‌وا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا‘‘ 

ترجمہ :’’جب تم سفر میں جا رہے ہو تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناه نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے،‘‘(النساء101 )

حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہﷺ مکہ وغیرہ تشریف لےگئے۔ تو دوگانہ پڑھتے رہے حالانکہ وہاں کسی قسم کا ڈر نہ تھا۔ کیونکہ مکہ وغیرہ فتح ہوچکا تھا اور ہرطرح سے امن قائم ہوچکا تھا۔

یہ آیت چاہتی ہے کہ دوگانہ اس وقت ہو جب کفار کا ڈر ہو اور حدیث میں اس شرط کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ حضرت عمر﷜ نے جب یہ شبہ رسول اللہﷺ پر پیش کیا تو آپﷺ نے فرمایا:

صدقة تصدق الله بها فاقبلوا صدقة.

یعنی دورکعت کی معافی یہ خدا کی طرف سے صدقہ ہے پس اس کاصدقہ قبول کرو۔

آپﷺ کا مطلب یہ ہے کہ شروع میں اگرچہ ڈر کی وجہ سے رخصت ہوئی مگر اب اس شرط کی معافی ہے۔ تو گویا یہاں بھی رسول اللہﷺ نے آیت کی تاویل کی۔

تیسر مثال

بخاری کی حدیث میں ابراہیم علیہ السلام کےمتعلق تین جھوٹ بولنے کا ذکرآیا ہے۔ ایک جب بت توڑے اور کفار نے پوچھا کہ یہ کام کس نے کیا ہے ؟ تو ابراہیم علیہ السلام نے کہا ان کےبڑے نے کیا ہے۔ دوسرا جب قوم اپنے میلہ پر جانے لگی تو ابراہیم کو بھی ساتھ لے جانا چاہا۔ آپ علیہ السلام نے ویسے ستاروں کی طرف نظر کرکے کہہ دیا کہ میں بیمار ہوں۔ تیسرا عراق سے شام کی طرف ہجرت کی تو راستہ میں ایک ظالم بادشاہ نے آپ علیہ السلام کی بیوی سارہ علیہا السلام کو پکڑ لیا اورحضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ یہ تیری کیا لگتی ہے ؟ تو کہا میری بہن ہے۔ کیونکہ اگر بیوی کہتے تو وہ آپ علیہ السلام کو قتل کردیتا۔ چنانچہ خاوند کوقتل کردینا اس کا دستور تھا۔ یہ تین جھوٹ حدیث میں مذکور ہیں۔ ایک جان بچانے کے لئے اور دو اللہ کے راستہ میں اور یہ دونوں (جو اللہ کے راستہ میں ہیں) قرآن مجید میں بھی موجود ہیں اور تیسرا صرف حدیث میں ہے۔ اس کے متعلق اس حدیث میں صاف یہ الفاظ ہیں۔ میں نے بہن اس بناء پر کہا ہے کہ تو میری اسلامی بہن ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ یہ شکل جھوٹ کی ہے۔ دراصل جھوٹ نہیں لیکن باوجود اس کے مودودی صاحب ترجمان القرآن جلد 5 ص 282، 44 بابت دسمبر ؁ 1955ء میں اس حدیث پر اعتراض کرتےہیں۔ کہ یہ قرآن مجید کے خلاف ہے کیونکہ قرآن مجید میں ابراہیم علیہ السلام کو صِدِّیق (بڑا سچا) کہا ہے۔ حالانکہ دو جھوٹ جب قرآن مجید میں موجود ہیں۔

تو دراصل یہ قرآن مجید پر اعتراض ہے نہ کہ حدیث پر اگر کہا جائے۔ کہ حدیث میں ان پر جھوٹ کا لفظ بولا ہے۔ قرآن میں جھوٹ کا لفظ نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جھوٹ کا لفظ بولنے سے حقیقت پر تو پردہ نہیں پڑ سکتا۔ جو واقعہ میں جھوٹ ہے وہ جھوٹ نہیں بلکہ صرف شکل اس کی جھوٹ کی ہے مگر باوجود اس کے یہ لوگ صرف حدیث پر ہی آوازے کس رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے قرآن مجید کی تفسیر پہلے قرآن مجید سے کرنی چاہیے پھر حدیث سے پھر آثارِ سلف سے۔ قرآن مجید نے جو صدیق کا معنی بیان کیا ہے وہ حسب ذیل آیت میں ہے:

’’وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ‘‘

ترجمہ :’’اللہ اوراس کے رسول پر جو ایمان رکھتے ہیں وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق ہیں‘‘(الحديد:19)

اللہ رسول کے ساتھ ایمان لانےمیں ان باتوں پر ایمان لانا بھی داخل ہے جواللہ رسول نے فرمائی ہیں۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جان بچانے کےلئے جھوٹ بولنا جائز ہے جوتوریہ ایک قسم سے ہے۔ چنانچہ بخاری شریف کی اسی حدیث میں جس میں بیوی کو بہن کہا ہے کہ اخوت سے اخوت اسلامی مراد ہے۔ اورتوحید سمجھانے کے لئٰے حیلہ کرنا قرآن مجید سے ثابت ہے۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام نےبتوں کو توڑ کر کہا کہ یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے کہا میں بیمار ہوں (بیماری سےمراد دل کی پریشانی ہے) مگر ستاروں میں نظر  کرکے بیمار کہنے سے قوم کو دھوکا دیا کہ ان کی مراد جسمانی بیماری ہے۔

اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے غلّہ کی بوریوں میں شاہی پیمانہ رکھوا کر بھائیوں کو چور کہلوایا۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

’’كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ‘‘

’’ہم نے یوسف کے لئے اسی طرح یہ تدبیر کی۔‘‘(يوسف 76)

(یہ حیلہ ہم نے یوسف کوسکھلایا) پس جب تک اس قسم کی باتوں پر کوئی ایمان نہ لائے وہ بحکم آیہ مذکورہ بالا

’’وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ‘‘

ترجمہ: ’’اللہ اوراس کے رسول پر جو ایمان رکھتے ہیں وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق ہیں‘‘ (الحديد:19)

صدیق نہیں ہوسکتا۔ پس صحیح معنیٰ صدیق کا وہی ہے جو کہ قرآن مجید نے خود بیان کردیا ہے۔

خلاصہ یہ کہ صدیق وہ ہے جس کا تعلق خدا ورسول سےسچا ہو۔

مودودی اور حدیث

مودودی صاحب کا خیال ہے۔ کہ صحت وضعفِ احادیث میں محدثین کے قواعد ہم پر ضروری نہیں اس کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ان (محدثین) کی نگاہ میں احادیث معتبر یا غیر معتبر ہونے کا جو معیار ہے ٹھیک ٹھیک اسی معیار کی ہم پابندی کردیں۔ مثلاً مشہور (حدیث) کو شاذ پر ، مرفوع کو مرسل پر ، اور مسلسل کو منقطع پر لازماً ترجیح دیں اور ان کی کھینچی ہوئی حد سے تجاوز نہ کریں۔ یہی وہ مسلک ہے جس کی شدت نے بہت سے کم علم لوگوں کو حدیث کی کلی مخالفت ..... کی طرف دھکیل دیا ہے۔    ( تفہیمات ص 118)

مودودی صاحب کی مثال اندھوں میں کانا راجہ کی ہے۔ ان کی جماعت خدا جانے علمی میدان میں ان کو کتنا بڑا انسان سمجھتی ہے۔ کہ ان کی اندھی تقلید کررہی ہے حالانکہ حال ان کا یہ ہے کہ جس فن پر وہ تنقید کر رہے ہیں اس کے معمولی مسائل کا بھی پتہ نہیں۔ شاذ کے مقابلہ میں محفوظ ہے اور مرفوع کےمقابلہ میں موقوف ہے اور منقطع کے مقابلہ میں متصل ہے۔ مودودی صاحب چونکہ زمانہ حال کےمجدد ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہرچیز میں جدت پیدا کریں اور جماعت کی طرف سے آواز آئے سبحان اللہ:

یہ ٹھہرے ہیں دیں کے رہنما اب

لقب ان کا ہے وارثِ انبیاء اب

اصل بات یہ ہے۔ کہ کامل استاد کے بغیر انسان کا علم پختہ نہیں ہوتا اور جب علم پختہ نہ ہو تو پھر ان کی بات کا توازن قائم نہیں رہتا۔ مودودی صاحب نے حدیث کا پایا جتنا بلند کیا تھا ظن کی دلدل میں پھنس کر اتنا ہی اس کو نیچے گرادیا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچی ہیں۔ جن سے اگر کوئی چیز حد سے ثابت ہو سکتی ہے تو وہ گمانِ صحت ہے نہ علمِ یقین۔  (ترجمان القرآن  ، ربیع الاول ؁1365ھ )

یہ بھی مسلم ہے کہ نقدِ احادیث کے لئے جو مواد انہوں نے فراہم کیا ہے وہ صدر اول کے اَخبار وآثار کی تحقیق میں بہت کارآمد ہے۔ کلام اس میں نہیں۔ بلکہ اس امر میں ہے کہ کلیۃً ان پر اعتماد کرنا کہاں تک درست ہے ؟ وہ بہرحال تھے تو انسان ہی۔ انسان کے لئے جو حدیں فطرۃ اللہ نے مقرر کررکھی ہیں ان سے آگے تو وہ نہیں جا سکتے۔ انسانی کاموں میں جو نقص فطری طور پر رہ جاتا ہے اس سے تو ان کے کام محفوظ نہ تھے۔      (تفہیمات ص 318)

تیسری اہم چیز سلسلۂ اسناد ہے محدثین نے ایک ایک حدیث کے متعلق یہ تحقیق کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ راوی جس شخص سے روایت لیتا ہے آیا اس کا ہمعصر تھا یا نہیں ؟ ہم عصر تھا تو اس سے ملا بھی تھا یا نہیں اور ملا تھا تو آیا یہ خاص حدیث خود اس سے سنی یا کسی اور سے سن لی اور اس کا حوالہ نہیں دیا۔ ان سب چیزوں کی تحقیق کہ یہ سب امور ان کو ٹھیک ٹھیک معلوم ہوگئے ہوں۔ بہت ممکن ہے کہ جس روایت کو متصل السند قرار دیتے رہے ہیں وہ درحقیقت منقطع ہو اور انہیں یہ معلوم نہ ہوسکا ہو کہ بیچ میں کوئی ایسا مجہول الحال راوی چھوٹ گیا ہے جو ثقہ نہ تھا۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ جو روایتیں مرسل یا معضل یا منقطع ہیں اور اس بناء پر یہ اعتبار سےؔگری ہوئی سمجھی جاتی ہیں۔ ان میں بعض ثقہ راویوں سے آئی ہوں اوربالکل صحیح ہوں اور ایسے ہی بہت سے امور ہیں جن کی بناء پر اسناد اورجرح وتعدیل کے علم کو کلیۃً صحیح نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ مواد اس حد تک قابل اعتماد ضرور ہے کہ سنتِ نبویﷺ اور آثار صحابہ کی تحقیق میں اس سے مدد لی جائے اور اس کا مناسب لحاظ کیا جائے۔ مگر اس قابل نہیں ہے کہ بالکل اس پر اعتماد کرلیا جائے۔   ( تفہیمات ، ص 321،322 )

کیا ضروری ہے کہ جس کو انہوں (محدثین) نے ثقہ قراردیا ہو وہ بالیقین ثقہ اور تمام روایتوں میں ثقہ ہو۔ اور جس کو انہوں نے غیر ثقہ ٹھہرایا ہو وہ بالیقین غیرثقہ ہو۔ اور اس کی تمام روایتیں پایہ اعتبارسےساقط ہوں۔  ( تفہیمات ص 321، 322)

آپ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ کہ جس کو وہ (محدثین) صحیح قرار دیتےہیں وہ درحقیقت صحیح ہے صحت کا کامل یقین ان کو بھی نہ تھا۔ وہ بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہتے تھے کہ اس حدیث کی صحت کاظنِ غالب ہے۔ مزید برآں یہ کہ ظنِ غالب جس بناء پر ان کو حاصل تھا وہ بلحاظ روایت نہ کہ بلحاظ درایت ، ان کا نقطۂ نظر زیادہ تر اخباری ہوتا تھا ، فقہ ان کا اصل موضوع نہ تھا۔ اس لئے فقیہانہ نظر سے احادیث کےمتعلق رائے قائم کرنے میں وہ فقہاء مجتہدین کی نسبت کمزورتھے۔ پس ان کے کمالات کا جائز اعتراف کرتے ہوئے یہ ماننا پڑے گا۔ کہ احادیث کے متعلق جوکچھ بھی تحقیقات انہوں نے کی ہیں اس میں دوطرح کی کمزوریاں موجود ہیں۔ ایک بلحاظ  اَسناد دوسری بلحاظ تفقہ۔ ( تفہیمات ص 319)

محدثین رحمہم اللہ کا خاص موضوع  اخبار وآثار کی تحقیق بلحاظ روایت کرنا تھا۔ اس لئے ان پر اَخباری  نقطۂ نظر غالب ہوگیا تھا اور وہ روایت کو معتبر غیر معتبر قراردینے میں زیادہ ترصرف اسی چیز کا لحاظ فرماتے تھے۔ کہ اسناد اوررجال کے لحاظ سے وہ کیسی ہیں ؟ رہا فقیہانہ نقطۂ نظر تو وہ ان کے موضوع ِ خاص سے ایک حد تک غیر متعلق تھا۔ اس لئے اکثر وہ ان نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا تھا اور روایات پر اس حیثیت سے کم ہی نگاہ ڈالتے تھے۔ اسی وجہ سے اکثرایسا ہوا کہ ایک روایت کو انہوں نے صحیح قراردیا ہے۔ حالانکہ معنی کے لحاظ سے وہ زیادہ اعتبار کے قابل نہیں اور ایک دوسری روایت کو وہ قلیل الاعتبار قرار دے گئے ہیں۔ حالانکہ معنیً وہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ یہاں اس کا موقع نہیں کہ مثالیں دے کر تفصیل کے ساتھ اس پہلو کی توضیح کی جائے۔ مگر جو لوگ امور شریعت میں نظر رکھتے ہیں۔ ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ محدثانہ نقطۂ نظر بکثرت مواقع پر فقیہانہ نقطۂ نظر سےٹکرا گیا ہے۔ اور محدثین صحیح احادیث سےاستنباطِ احکام ومسائل میں وہ توازن اور اعتدال ملحوظ نہیں رکھ سکے ہیں۔ جو فقیہان مجتہدین نے رکھا ہے۔        (تفہیمات ص 329 )

یہ بات قابلِ انکار ہے۔ کہ جیسا مستند اور معتبر ذریعہ قرآن مجید ہے ویسا مستند اور معتبر ذریعہ حدیث نہیں ہے۔ اس لئے صحت کا اصلی معیار قرآن  ہی ہونا چاہیے۔             ( تفہیمات ص 329 )

احادیث کسی مسئلہ میں حجت نہیں قرار پاسکتیں۔  (ترجمان القرآن فروری 1946ء)

بعض گمراہ فرقے ایسے گذرے ہیں۔ جن کا دماغی توازن قائم نہیں ہوتا۔ وہ واقعات سے بالا تر ہوکر ایسی ادھیڑ بنت میں لگے رہتے ہیں۔ جس میں مودودی صاحب لگے ہوئے ہیں۔ مثلاً ایک کہتا ہے: ساری امت گمراہی پر جمع ہو سکتی ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ:

’’ہر آدمی سے خطا ممکن الوقوع ہے تو سب سے بھی ممکن ہے۔ جیسے یہ کہا جائے کہ ہر ایک حبشی سیاہ ہے تو سب حبشی بھی سیاہ ہوں گے۔‘‘( رسالۂ اجتہاد وتقلید ثنائی ص 73)

دوسرا اس پر تضریح کرتا ہوا یہ کہتا ہے۔ کہ قرآن مجید جن کی معرفت ہم تک پہنچا ہے وہ تعداد میں خواہ کتنے ہی ہو آخر تھے تو انسان ہی۔ انسان کے لئے جو فطرۃاللہ نے حدیں مقرر کر رکھی ہیں۔ ان سے آگے تو نہیں جا سکتے۔ انسانی کاموں میں جو نقص فطری طور پر رہ جاتا ہے اس سے تو ان کے کام محفوظ نہ تھے۔ اور جب ہر فرد انسان اس فطرت کے تحت ہے تو مجموعہ بھی اس فطرت کے تحت ہے۔ اس بناء پر قرآن مجید  میں بھی غلطی کا امکان ہوگیا۔        ( کتاب تعریف اہل سنت ، ص 302 )

تیسرا کہتا ہے کہ نقل سے یقین حاصل نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ منطق کی کتاب حمد اللہ کے ص 222 پر صناعت خمس کی بحث میں معتزلہ اور جمہور اشعریہ کا مذہب لکھا ہے۔ اور ان کی دلیل یہ ذکر ہے کہ اول تو ایک لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پھر متکلم کے ارادے کا علم مشکل ہے۔ کہ اس نے  کون سا معنی ارادہ کیا ہے ؟ حقیقی یا مجازی ، عام یا خاص ، مطلق یا مقید اور کبھی یہ بھی شبہ ہوجاتا ہے کہ شاید یہ حکم منسوح ہو اور ناسخ کا علم نہ ہوا ہو۔ نیز ناقل بعض دفعہ جھوٹا ہوتا ہے یا اس کی طبیعت میں تکاسل ( طبعاً سست ہونا ) ہوتا ہے۔ اور اس کو ثقہ سمجھ لیاجاتا ہے اور بعض دفعہ ثقہ سے بھی غلطی ہوجاتی ہے۔

غرض اس قسم کے بہت سے شبہات ہوجاتے ہیں۔ تونقل پر کس طرح یقین ہوسکتا ہے گویا ان لوگوں کے نزدیک نہ علوم عربیہ کا کوئی مسئلہ قطعی ہے نہ اسلام کا کوئی عقیدہ یقینی ہے۔ گویا جنت ، دوزخ ، حساب ، کتاب ، حشر نشر کوئی بھی یقینی نہیں۔ اسی طرح نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ  وغیرہ  بلکہ اس بات پر بھی یقین نہیں کہ محمدﷺ ایک شخص مدعی نبوت عرب میں گذرے ہیں۔ اور ان پر یہ کتاب اتری ہے جو اہل اسلام کے ہاتھ میں ہے۔ بلکہ اس پر بھی یقین نہیں کہ مکہ ، مدینہ وہی شہرہیں جن میں قرآن مجید اترا تھا۔ بلکہ اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ جن لوگو ں نے مکہ ، مدینہ ، قسطنطنیہ وغیرہ شہر نہیں دیکھے ان کو ان شہروں کے وجود پر یقین نہ ہو کہ یہ بھی دنیا میں شہر بس رہے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ لیجئے سب کچھ صفا ہوگیا:

مجرد سب سے علیٰ ہے             نہ جورو ہے نہ سالا ہے

غرض اس قسم کی موشگافیاں کرنے والوں کی دنیا میں کمی نہیں۔ جو وہم وخیالات کی عمارت اتنی بلند کرتے ہیں جو شاعرانہ تخیل سے بھی آگے گزر جاتی ہے۔ جس کےمتعلق خدا تعالیٰ  فرماتے ہیں:

’’أَلَمْ تَرَ‌ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ‘‘

’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ شاعر ایک ایک بیابان میں سر ٹکراتے پھرتے ہیں‘‘(الشعراء 225 )

یعنی شاعر ہر جنگل میں حیران پھرتے ہیں۔ اب مودودی صاحب بھی اس میدان میں اترے ہیں۔ اورقلم کی ایک جنبش سے دنیا کا سارا سلسلہ ہی تہ بالا کردیا ہے۔ کسی قابل استاد کی کفش برداری کی ہوتی۔ تو اتنی بڑی لغزش نہ کھاتے۔ جس سے اسلامی دفتر پر پانی پھر جاتا۔ فقہاء اور محدثین کی ظن کے متعلق ایک معمولی سی اصطلاح نہ سمجھنے کی وجہ سے یوں دماغ لڑانا شروع کردیا کہ ثقہ غیر ثقہ ہوسکتا ہے۔ اور صحیح غیرصحیح وغیرہ وغیرہ اور یہ نہیں سمجھتے کہ خدا کی خدائی میں کیا نہیں ہوسکتا۔ کیا محمدﷺ کی مثل یا آپ کی اتباع سےنیا نبی اب نہیں ہو سکتا ؟ اتباع سے ہی ہو سکتا ہے۔ کیا خدا اب قادر نہیں رہا ؟ سوال تو ہونے سے ہے نہ ہو سکنے  سے۔

بے شک ثقہ غیرثقہ سب کچھ ہوسکتا ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے۔ کہ ہے بھی کہ نہیں محدثین نے تو اپنی تحقیقات سے ثابت کردیا کہ یہ ثقہ ہے۔ اب آپ اپنی تحقیقات کا نیا دفتر کھولیں جس سے اس کے غیرثقہ ہونے کا علم ہو جب تحقیق کے تمام ذرائع جو انسان کے امکان میں ہیں وہ محدثین نےاستعمال کرلئے ہیں۔ تو اب آپ کے ہاتھ میں امکان بھی نہ رہا۔

مودوی صاحب کیا سہل انگاری سےلکھتےہیں:

’’تھے تو انسان ہی۔ انسان کے لئے جو حدیں فطرت اللہ نےمقرر کررکھی ہیں ان سے آگے تو وہ نہیں جا سکتے۔‘‘

توجناب عالی ! آپ کون ہیں ؟ فرشتہ ہیں یا مقام نبوت کو پہنچ گئے ہیں ؟ اگر آپ کامقام بھی انسانی حدود ہی ہیں۔ تو پھر آپ کا ’’ہوسکنا ‘‘ محدثین کے ’’ ہونے ‘‘ کے مقابلٰے میں کیا حیثیت رکھتا ہے ؟ شاید آپ نے کسی عدالت میں پیش ہو کر کبھی کہا ہوگا کہ فلاں گواہ جس کو آپ معتبر سمجھ رہے ہیں۔ مجھے اس کی گواہی میں شک ہے۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ یہ غیر ثقہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ یہ جھوٹ بولتا ہو۔ مارشل لاء کے دنوں میں تو ضرور ایسا معاملہ پیش آیا ہوگا اور عدالت نے آپ کا یہ اعتراض معقول سمجھ کر ضرور مقدمہ خارج کردیا ہوگا۔ اگر آپ انکارکریں اور کہیں کہ ایسا معاملہ پیش نہیں آیا تو ہوسکتا ہے آپ بھول گئے ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے حافظہ میں اختلاط آگیا ہو۔ اور اگر آپ کا یہ اعتراض عدالت نے نہیں سنا تو ہوسکتا ہے کہ آپ اپنا وقار قائم رکھنے کے لئے دیدہ دانستہ اس معاملہ کے پیش آنے سے انکار کرتے ہوں۔ تاکہ لوگوں میں خفت نہ ہو کہ عدالت نے اعتراض نہیں سنا۔

مولانا صاحب ! یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک بیڑہ سمندر میں جارہا ہو پھر ہوسکتا ہے کہ طوفان کے تھپیڑوں میں آکر پھٹ گیا ہو۔ پھر ہوسکتا ہے کہ ایک پھٹہ پر بیگانے دو مرد عورت رہ گئے ہوں پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی جزیرے میں اترے ہوں اور پھر یہ بھی ہوسکتا ہےکہ پیٹ کی فکر کی بجائے دوسری خواہش غالب آگئی ہو نتیجۃً ظاہر ہےکہ متعہ جائز ہے ....

قارئین کرام ! یہ ہم اپنی طرف سےنہیں کہہ رہے۔ بلکہ یہ متعہ کے جواز کی دلیل آج کل مولانا صاحب کے ماہوار رسالہ ترجمان القرآن کے صفحات کی زینت بنی ہوئی ہے۔

مولانا صاحب ! آپ نے محدثین اورفقہاء کے ظن کو اپنے روز مرہ کی بول چال  کا ظن سمجھ کر کس قدر گمراہی پھیلائی ہے۔ کوئی چیز بھی صحیح طریق پرنہیں رہ سکتی۔ یہ سب بے استادی کےنتائج ہیں۔

حوالہ :(فتاوی اہلحدیث، 12 تا 40 )

   

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 01 

 

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ