سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(850) اعتکاف جو ہے صرف تین مسجدوں میں ہی کر سکتے ہیں؟

  • 5218
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1238

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عالم سے ملاقات ہوئی تو ان کا قول یہ ہے کہ اعتکاف جو ہے صرف تین مسجدوں میں ہی کر سکتے ہیں۔ میں نے ان سے اس کی دلیل مانگی تو انہوں نے کہا : ((قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم لَا اِعْتَکَافَ إِلاَّ فِیْ ثَلَاثَۃِ مَسَاجِدَ مسجد الحرام والمسجد الرسول والمسجد الاقصی))(رواہ البیہقی) کیا یہ حدیث صحیح ہے؟یا ضعیف ہے؟

۲۔ اسی طرح ایک اور حدیث وہ یہ ہے کہ : ((قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم لَا یَحِلُّ لِثَلَاثَۃِ نَفَرٍ یَکُوْنُوْنَ

بِأَرْضِ فَلَاۃٍ إِلاَّ أَمَّرُوْا عَلَیْھِمْ أَحَدَھُمْ))(رواہ احمد) اس کی سند کیسی ہے؟ (محمد حسین ، سری لنکا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لَا اِعْتَکَافَ إِلاَّ فِیْ ثَلَاثَۃِ مَسَاجِدَ)) [’’اعتکاف صرف تین مساجد میں ہی ہوتا ہے مسجد حرام ، مسجد نبوی ، مسجد اقصیٰ۔‘‘]

۲۔((لَا یَحِلُّ لِثَلَاثَۃِ نَفَرٍ یَکُوْنُوْنَ بِأَرْضِ فَلَاۃٍ إِلاَّ أَمَّرُوْا عَلَیْھِمْ أَحَدَھُمْ)) [’’تین آدمیوں کے لیے حلال نہیں ہے جو کسی بیابان زمین میں ہوں مگر یہ کہ وہ اپنے اوپر ایک کو امیر بنا لیں۔‘‘]

۱۔ اس حدیث کے متعلق اہل علم کے دو قول ہیں: 1…ضعیف ہے۔2صحیح ہے۔ اس فقیر الی اللہ الغنی کے نزدیک پہلا قول درست ہے کیونکہ اس حدیث کا مدار سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ تعالیٰ پر ہے اور وہ اس کو جامع بن ابی راشد رحمہ اللہ تعالی سے بلفظ ’’ عن ‘‘ بیان کرتے ہیں ، معلوم ہے مدلس راوی بصیغۂ ’’عن ‘‘ روایت کرے تو روایت ضعیف ہوتی ہے۔ بتتبع بسیار سفیان سے سماع کی تصریح کہیں نہیں ملی اور نہ ہی کوئی ایسی چیز ملی ہے جس سے ان کی تدلیس و الا نقص اس روایت سے دور ہو سکے۔

۲۔مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ میں اس کی سند کے اندر ابن لہیعہ ہیں جن کے متعلق امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی مایۂ ناز کتاب جامع میں لکھتے ہیں: ’’ و ابن لھیعۃ ضعیف عند أھل الحدیث ‘‘ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ان میں ضعف ان کے کتب خانہ کے جل جانے کے بعد پید اہوا ہے مگر میزان الاعتدال میں بعض محدثین کی تصریح موجود ہے ’’ضعیف قبل احتراق کتبہ و بعدہ‘‘ کچھ اہل علم کا نظریہ ہے اگر عبادلہ عبداللہ بن مبارک ، عبداللہ بن وہب وغیرہ ان سے روایت کررہے ہوں تو ان کی روایت مقبول ہو گی۔ مگرمسند میں تو اس روایت کو ان سے حسن بیان کر رہے ہیں ۔ ہاں اس روایت کا ایک شاہد ابو داؤد میں موجود ہے: ((عَنْ أَبیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ  صلی الله علیہ وسلم قَالَ: إِذَا کَانَ ثَلَاثَۃٌ فِیْ سَفَرٍ فَلْیُؤَمِّرُوْا أَحَدَھُمْ))1 [’’جب تین آدمی کسی سفر میں نکلیں تو وہ اپنے میں سے کسی کو امیر بنا لیں۔‘‘]شیخ البانی رحمہ اللہ نے تعلیق مشکاۃ میں لکھا ہے: ’’وإسنادہ حسن‘‘ واللہ اعلم                                            ۱، ۶، ۱۴۲۳ھ

1 سنن أبی داؤد، کتاب الجہاد، باب فی القوم یسافرون یؤمرون احدھم قال النووی فی ریاض الصالحین ۔ رواہ ابو داؤد باسناد حسن۔

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 804

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ