سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(839) جس نے ننانوے قتل کیے تھے..الخ

  • 5207
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2051

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گزشتہ دنوں ہم نے ایک اہل حدیث مسجد میں جمعہ پڑھا۔اس میں مولانا صاحب نے کہا کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص تھا جس نے ننانوے قتل کیے تھے ، پھر اس نے ایک عالم سے پوچھا کہ کیا اس کی توبہ قبول ہو 2 ابن عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا:تم ان لوگوں کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب (نصرانی) ہیں پس ان کو سب سے پہلے دعوت دو کہ گواہی دینا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور بلا شبہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اگر وہ اس کو ( قبول کر کے ) اطاعت کر لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رات اور دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ اسے بھی تسلیم

          سکتی ہے تو اس عالم نے کہا نہیں۔ اس نے اسے بھی قتل کر دیا ۔ اور اس طرح سو قتل کر دیے۔ پھر اس نے کسی اور عالم سے پوچھا کہ کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے تو اس نے کہا ہاں۔تم فلاں بستی میں چلے جاؤ ، وہاں نیک لوگ رہتے ہیں۔اللہ کی عبادت کرتے ہیں تو بھی ان کے ساتھ اللہ کی عبادت کر اور اپنے علاقے میں واپس نہ پلٹنا کیونکہ یہ برے لوگوں کا علاقہ ہے(یعنی ماحول تبدیل کر) وہ شخص ادھر چل پڑا۔ابھی راستے میں ہی تھا کہ اسے موت آ گئی۔ اس پر رحمت اور عذاب کے فرشتے آپس میں جھگڑنے لگے۔ ان سے ایک فرشتے نے انسانی شکل میں آکر کہاکہ اس کے دونوں طرف کی زمین ماپ لو۔ جس طرف کی زمین کم ہو گی اس کو ادھر والے فرشتے لے جائیں۔ اور جب زمین ماپی گئی تو جس طرف وہ جا رہا تھا اس طرف کی زمین کم نکلی ، چنانچہ اسے بخش دیا گیا۔

آپ سے درخواست ہے کہ کیا واقعی یہ کوئی حدیث ہے؟ اور کیا قتل جیسا جرم بھی محض توبہ کی وجہ سے معاف ہو سکتا ہے؟ اُمید ہے کہ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں گے۔ ان شاء اللہ

                                          (عصمت اللہ ،محمد منیر ، بیرون گیٹ کھیالی گوجرانوالہ )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خطبۂ جمعہ کے دوران خطیب صاحب سے جو حدیث آپ نے سنی وہ صحیح مسلم میں لفظ بلفظ موجود ہے ۔ نیچے وہ درج کی جاتی ہے:

((حدثنا محمد بن المثنی ، و محمد بن بشار ، واللفظ لابن المثنی ، قالا: نا معاذ بن ہشام ، حدثنی أبی عن قتادۃ عن أبی الصدیق عن أبی سعید الخدری رضی اللہ عنہ  أن نبی اللہ  صلی الله علیہ وسلم قال: کان فیمن کان قبلکم رجل قتل تسعۃ و تسعین نفسا، فسأل عن أعلم أھل الأرض ، فدل علی راھب ، فأتاہ ، فقال: إنہ قتل تسعۃ و تسعین نفسا، فھل لہ من توبۃ؟ فقال: لا۔ فقتلہ ، فکمل بہ مائۃ، ثم سأل عن أعلم أھل الأرض فدل علی رجل عالم ، فقال: إنہ قتل مائۃ نفس فھل لہ من توبۃ؟ فقال: نعم ، ومن یحول بینہ و بین التوبۃ؟ انطلق إلی أرض کذا و کذا ،

          (بقیہ)کر لیں تو پھر ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے وصول کی جائے اور ان کے فقیروں میں تقسیم کی جائے گی اگر وہ اس کی بھی اطاعت کر لیں تو ان کے عمدہ مال پکڑنے سے پرہیز کرو اور مظلوم کی پکار سے بچتے رہو کیونکہ مظلوم کی پکار اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے (بہت جلدی قبول ہو جاتی ہے۔) [بخاری،کتاب الزکاۃ،باب اخذا لصدقۃ من الاغنیائ۔ مسلم،کتاب الایمان،باب الدعاء الی شھادتین و شرائع الاسلام ۔ترمذی کتاب الزکاۃ،باب کراھیۃ اخذ خیار المال فی الصدقۃ]

إن بھا أناسا یعبدون اللہ تعالیٰ ، فاعبداللہ تعالیٰ معھم ، ولا ترجع إلی أرضک ، فإنھا أرض سوء ۔ فانطلق حتی إذا نصف الطریق أتاہ الموت ، فاختصمت فیہ ملائکۃ الرحمۃ ، و ملائکۃ العذاب ، فقالت ملائکۃ الرحمۃ: جآء تائبا مقبلا بقلبہ إلی اللہ۔ وقالت ملائکۃ العذاب : إنہ لم یعمل خیرا قط۔ فأتاھم ملک فی صورۃ آدمی ، فجعلوہ بینھم ، فقال: قیسوا ما بین الأرضین ، فإلی أیتھما کان أدنی فھو لہ ، فقاسوا ، فوجدوہ أدنی إلی الأرض التی أراد ، فقبضتہ ملائکۃ الرحمۃ))  (۲، ۳۵۹)

اصل حدیث صحیح بخاری میں بھی موجود ہے ۔ (۱، ۴۹۳۔۴۹۴)اس کے آخر میں لفظ ہیں ’’فغفرلہ‘‘ واللہ اعلم !

                                                                               ۷، ۱، ۱۴۲۴ھ

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 799

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ