سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(287) میں نے آپ کا ایک مکتوبہ پڑھا..الخ

  • 4718
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 787

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے آپ کا ایک مکتوبہ پڑھا جو ’’ ۲۴ ؍ ۵ ؍ ۱۴۲۱ھ ‘‘ کو مسافت قصر اور مدت قصر کے بارے میں رقم کیا گیا تھا۔ مضمون تشفی بخش تھا، لیکن اس میں سے ایک بات سمجھ میں نہیں آسکی، اس لیے کہ فقہ السنہ میں لکھا ہے کہ: (( وحمل ھذہ الآثار علی اَنَّ رسول اللّٰہ  صلی الله علیہ وسلم واصحابہ لم یُجْمِعُوا الاقامۃ البتۃ بل کانو یقولون: الیوم نخرج غدا نخرج وفی ھذا نظر لا یَخْفٰی فان رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم فتح مکۃ وھی کما ھی وأقام فیھا یؤسس قواعد الاسلام ویھدم قواعد الشرک ویمھد امرما حولھا من العرب ومعلوم قطعا ان ھذا یحتاج الی اقامۃ ایام ولا یتاتی فی یوم واحد ولا یومین۔ الخ )) 1[’’ امام احمد فرماتے ہیں جب کسی نے چار روز اقامت کی نیت کرلی ، وہ نماز پوری پڑھے گا اور اگر اس سے کم کی نیت کی تو قصر کرے گا۔ انہوں نے ان تمام روایات کو اس بات پر محمول کیا ہے کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب نے اقامت کی بالکل نیت نہ کی تھی ، بلکہ وہ یہ کہتے تھے کہ ہم آج نکلیں گے، کل نکلیں گے۔ یہ بات محل نظر ہے جو کہ مخفی نہیںہے۔ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے مکہ فتح فرمایا وہ جس طرح کا تھا ویسے ہی تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم وہاں اسلام کی بنیادیں قائم کرنے اور شرک کی بنیادیں گرانے، نیز اردگرد کے عرب کے لیے آپ راستہ ہموار کرنے کو بیٹھے تھے۔ یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اس میں کئی دن ٹھہرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ کام ایک یا دو دن میں نہیں ہوسکتا۔] مندرجہ بالا عبارت کے مطالعہ سے مجھے اس مسئلہ میں کافی تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ لہٰذا شفقت فرماتے ہوئے اس بات کی وضاحت کرکے مشکور فرمائیں۔ اور ان دلائل کا محاکمہ کریں۔        ( ابوبکر عرفان جاوید بن محمد اسلم ، حویلی لکھا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے فقہ السنۃ سے جو عبارت نقل فرمائی وہ محض خطابت و شعر پر مبنی ہے نہ اس میں کوئی آیت لکھی گئی، نہ ہی حدیث اور نہ ہی عقل و واقع کی کوئی بات۔ دیکھیں آپ نے احادیث میں پڑھا ہے جب رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کوئی علاقہ فتح فرماتے، تو وہاں تین دن قیام کرتے۔ 2اب فتح مکہ والے واقعہ کو آپ کے اس اصول سے مستثنیٰ بنانے کی کیا دلیل ہے؟ باقی انیس دن قیام والی روایات میں ارادہ بناکر قیام کا کہیں ذکر نہیں۔ رہی  تأسیس قواعد اسلام اور تہدیم قواعد شرک والی بات تو آپ غور فرمائیں نبوت سے لے کر فتح مکہ تک تقریباً بائیس سال کا عرصہ بنتا ہے آیا اس عرصہ میں آپ نے تاسیس و تہدیم کا مذکور کام نہ کیا؟ کیوں نہیں ضرور کیا۔ سوچیے بدر، اُحد ، خندق ، حدیبیہ اور خیبر کے مغازی کس لیے تھے؟ تو فتح مکہ کے موقع پر انیس دن قیام والی روایات میں سے کوئی ایک روایت بھی اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ مکہ مکرمہ پہنچتے ہی یا پہنچنے سے قبل ہی آپ نے وہاں انیس دن قیام کا ارادہ بنالیا تھا۔ (( من ادعی فعلیہ البیان والبرھان ))

لہٰذا بات بالکل واضح ہے کہ دوران سفر چار دن سے زائد عرصہ ارادہ بناکر قیام کی صورت میں رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم سے قصر ثابت نہیں۔ ثبوت ارادہ کے بغیر قیام کی صورت میں بیس دن سے زیادہ قصر کرنا رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ واللہ اعلم۔                                                                                                        ۱۱ ؍ ۳ ؍ ۱۴۲۲ھ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 فقہ السنۃ ؍ السید سابق؍ کتاب الصلاۃ ، صلاۃ المسافر

2 ابو داؤد ؍ المجلد الثانی ؍ کتاب الجھاد ؍ باب فی الامام یقیم عند الظہور علی العدو لعرصتھم

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ