سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(166) مرزائی، رافضی، چکڑالوی وغیرہ کافر ہیں یا نہیں؟

  • 3949
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1540

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

معتزلہ ، جہمیہ، قدریہ، جبریہ، مرزائیہ، چکڑالویہ، رافضیہ بلا تفضیلہ وغیرہ وغیرہ فرقے یہ قطعی کافر ہیں یا نہیں، نماز میں ان کی اقتداء اور ان سے سلام مصافحہ کرنا ردا ہے یا نہیں ان کی ورثہ مسلم کو یا مسلم کی وراثت ان کو پہنچتی ہے یا نہیں اور مسلم عورت کو ان کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر مسلمان عورت کا خاندان فرقوں میں داخل ہو جائے ، مذہب اہل سنت والجماعت بدل لے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ بلا طلاق وہ دوسری جگہ نکاح لے سکتی ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ان فرق کے گمراہ ،زندیق، ملحد، بدعتی ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں ،البتہ کافر ہونے میں تفصیل ہے، مرزائیہ، چکڑالویہ تو بے شک کافر ہیں۔ معتزلہ، جہمیہ، قدریہ، جبریہ بھی تقریباً ایسے ہی ہیں، لیکن صاف کافر کہنا ذرا مشکل ہے رافضیہ میں سے غالی قطعاً کافر ہیں۔ جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وغیرہم کو مرتد کہتے ہیں اور زیدیہ کافر نہیں جن کا عقیدہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت خطا نہیں ہے۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ افضل ہیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ میں ساکت ہیں نہ اچھا کہتے ہیں اور نہ برا۔

اگر ان فرقوں کی اور ان کے علاوہ باقی فرقوں کی تفصیل مطلبو ہو تو کتاب ملل والنحل ابن خرم اور شہرستانی وغیرہ کا مطالعہ کریں اور نواب صدیق حسن خان مرحوم کا بھی ایک رسالہ خبیءۃ الاکوان اس بارہ میں ہے وہ بھی اچھا ہے۔

رہا ان لوگوں سے میل ملاپ تو یہ بالکل ناجائز ہے۔ ابن کثیر جلد دوم صفحہ ۲۰۱ میں مسند احمد وغیرہ سے یہ حدیث ذکر کی ہے کہ جب تم متشابہ آیتوں کے پیچھے جانے والوں کو دیکھو تو ان سے بچو۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں سے ناطہ رشتہ وغیرہ کرنا یا وسیے میل ملاپ رکھنا یا نماز میں امام بنانا یا اس قسم کا تعلق کوئی بھی جائز نہیں بلکہ جو ان میں سے کافر ہیں،، اگر اتفاقی طور پر ان کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے یا غلطی سے ان کے ساتھ نکاح کا تعلق ہو گیا ہو تو نماز بھی صحیح نہیں اور نکاح بھی صحیح نہیں ۔ نماز کا اعادہ کرنا چاہئے بلکہ اگر نکاح پڑھا ہوا ہو اور بعد میں ایسی بدعت کے مرتکب ہوئے جو حد کفر کو پہنچ گئی تو بھی نکاح خود بخود فسخ (۱) ہو جاتا ہے طلاق کی ضرورت نہیں ۔

(۱) خود بخود نکاح فسخ ہونے پر کوئی دلیل بیان نہیں کی گئی ایسے فرق عند القاضی مسلمان میں ہاں ایسے خاوندوں سے عورت کو اپنا نکاح فسخ کرا نے کا حق حاصل ہے ۔ سعیدی خانیوال

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَ لَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا﴾

’’یعنی مشرک مردوں کو نکاح نہ دو ۔‘‘

اور دوسری جگہ ہے :

﴿وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ﴾

’’یعنی کافر عورتوں کے ساتھ نکاح مت رکھو۔‘‘

اگر اسی حالت میں مر جائیں مسلمان ان کے وارث نہیں اور یہ مسلمانوں کے وارث نہیں۔( عبداللہ امرتسری فتاویٰ اہلحدیث روپڑی: جلد اول، صفحہ ۲)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 363

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ