سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(150) کیا صحابہ رضی اللہ عنہم حوضِ کوثر سے روکے جائیں گے؟

  • 3932
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 2878

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسلم شریف:’’ باب استحباب اطالة الغرة والتحجیل فی الوضوء‘‘ میں ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک گروہ روکا جائے گا میرے پاس آنے سے اور میں کہوں گا کہ یہ میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں اور صحابی کی تعریف یہ ہے کہ جس نے باایمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو باایمان دیکھا اس کے لیے جنت کا وعدہ ہے ، اس مسئلہ کو حل فرمائیں؟( ابو اشفاق محمد اسحاق)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس صحابی رضی اللہ عنہ سے جنت کا وعدہ ہے اس کی یہ تعریف نہیں جو آپ نے کی ہے بلکہ صحابی رضی اللہ عنہ وہ ہے جس نے ایمان کے ساتھ آپ کی ملاقات کی ہو اور وہ اخیر تک اس ایمان پر قائم رہا ہو، اور حدیث مذکور میں جن کا ذکر ہے وہ ایمان پر قائم نہیں رہے لیکن حضور کو اس کا علم نہیں ہو گا کہ یہ قائم نہیں رہے، اس لیے آپ کہیں گے کہ یہ میرے صحابہ ہیں شاید کہا جائے کہ جو اخیر وقت ایمان پر قائم رہا ہو وہ خواہ صحابی نہ بھی ہو تو بھی اس سے جنت کا وعدہ ہے تو پھر صحابی کی خصوصیت کیا ہوئی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ خصوصیت دو طرح سے ہے ایک تو ابتدا جنت میں جانا دوم صحابیت کے شرف سے کوئی خاص عہدہ عطا ہونا وغیرہ۔

ایک اعتراض یہاں اور پڑتا ہے وہ یہ کہ مسلم کے اسی مقام پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دوست رکھتاہوں کہ اپنے بھائیوں کو دیکھ لوں، صحابہ نے کہا کیا ہم آپ کے بھائی نہیں؟ فرمایا تم میرے صحابہ ہو، بھائی وہ ہیں جو بعد میں آئیں گے، صحابہ نے کہا بعد والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح پہنچائیں گے ؟ فرمایا ان کے منہ اور ہاتھ پاؤں آثار وضو سے چمکیں گے، اور میں حوض پر ان کا پیشرو ہوں گا خبردار! کئی لوگ حوض سے روگے جائیں گے میں ان کو آواز دوں گا آؤ مجھے کہا جائے گا کہ انہوں نے آپ کے بعد دین کو بدل دیا میں کہوں گا دور ہوں، دور ہوں۔

ایک اور روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میری امت میرے پاس حوض کوثر پر آئے گی اور میں دوسرے لوگوں کو حوض سے اس طرح ہٹاؤں گا جس طرح کوئی بیگانے اونٹ اپنے اونٹوں سے ہٹاتا ہے ، صحابہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ ہمیں پہچانیں گے ؟ فرمایا ہاں تمہارے لیے نشانی ہو گی جو کسی اور کے لیے نہ ہو گی تم میرے پاس آؤ گے، تمہارے ہاتھ پاؤں آثار وضو سے چمکیں گے اور ایک جماعت تم سے رو کی جائے گی میں کہوں گا یہ میرے صحابہ ہیں فرشتہ جواب دے گا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے تیرے بعد کیا بدعت نکالی۔‘‘

پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد والوں کو آپ آثار وضو سے پہنچانیں گے اور اس دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کو بھی آپ آثار وضو سے پہچانیں گے مگر ان سے وہ صحابہ مراد ہوں گے جن سے آپ کا زیادہ تعارف نہیں ہوا، یا جنہوں نے آپ کو دیکھا ہے آپ کی نظر ان پر نہیں پڑی جیسے حجۃ الوداع کے موقعہ پر ہزارں مخلوق ایسی تھی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صحابہ کا کہنا کیا آپ ہمیں پہچانیں گے اس سے مراد امت ہو جس س یمراد بعد والے ہوں خیر کچھ ہو یہاں اعتراض پڑتا ہے کہ جب ان کے ہاتھ پاؤں چمکیں گے تو وہ حوض کوثر سے کیوں ہٹائے جائیں گے۔

امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اس کے تین جواب دئیے ہیں کہا ہے کہ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ ان س یکون لوگ مراد ہیں، پھر تین قول ذکر کئے ہیں جن کا خلاصہ مع زیادت درج ذیل ہے۔

ایک یہ کہ منافق اور مرتد ہوں گے ان کو نور ملے گا۔( مگر پھر بجھ جائے گا جیسے قرآن مجید کی سورۃ حدید میں ہے۔) دوسرا جواب یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لوگ ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف ہے ، ان پر وضو کا نشان نہیں ہو گا تیسرا جواب یہ کہ اس سے مجرم اور اہل بدعت مراد ہیں، جو حد کفر کو نہیں پہنچے، پھر ان میں دو احتمال ہیں ہو سکتا ہے کہ ان کے ہاتھ پاؤں چمکیں، مگر حوض کوثر سے روکے جائیں گے۔(آخر کسی وقت ان کی نجات ہو جائے گی جیسے حدیث میں ہے کہ جو لوگ دوزخ سے نکالے جائیں گے، ان کی سجدہ کی جگہ نہیں جلے گی، پس حوض کوثر پر جانے کے وقت ہی کسی طرح کا چمکنا ہو سکتا ہے۔) اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ مجرم اور اہل بدعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لوگ ہوں جو آپ کے بعد بھی رہے اور ضراب ہو گئے ان کو آپ شکلوں سے پہنچانیں گے نہ کہ آثار وضو سے ۔( لیکن اس پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ یہ صحابہ ہیں یا نہیں اگر نہیں تو پھر ان کے متعلق یہ کہنا کہ حد کفر کو نہیں پہنچے تو ایمانی والے ہوئے اور جو ایمان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا ہو اور اسی پر اس کا خاتمہ ہوا ہو تو وہ صحابی ہوتا ہے اور اگر یہ صحابہ ہوں تو معاذ اللہ لازم آئے گا کہ صحابہ بھی ہوں اور اہل بدعت اور مرتکب کبائر بھی ہوں، جیسے بہت سے شعیہ یہی خیال رکھتے ہیں۔ حالانکہ اس صورت میں پھر ان احادیث کا بھی اعتبار نہیں رہتا، پس صحیح یہ ہے کہ آپ کے زمانہ کے جو لوگ روکے جائیں گے، وہ منافق مرتد ہوں گے اور جو بعد والوں سے روکے جائیں گے وہ منافق بھی ہو سکتے ہیں اور وہ مجرم اور اہل بدعت بھی ہو سکتے ہیں جو حد کفر کو نہیں پہنچے۔ فقط۔ ( عبداللہ امرتسری روپڑی۱۴ محرم۱۳۷۹ھ ۱۹ سی ماڈل ٹاؤن لاہور فتاویٰ روپڑی: جلد اول، صفحہ ۱۷۰،۱۷۱)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 341

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ