سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(146) چھوٹے بچوں کو بیماری ام الصبیان وغیرہ کیوں آتی ہے؟

  • 3928
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1737

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

چھوٹے بچوں کو بیماری ام الصبیان وغیرہ کیوں آتی ہے؟ (تنظیم نمبر خریداری ۱۸۲۲)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دنیا میں بیماریوں اور تکلیفوں کا سلسلہ غیر معصوموں کے ساتھ خاص نہیں، چھوٹے بچے کیا حیوانات میں بھی جاری ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی ان کی تکلیف دوسرے کی تکلیف کا باعث ہوتی ہے جیسے بچے یا مویشی کی تکلیف ماں باپ یا مالکوں کی تکلیف ہے اور کبھی ایک کی تکلیف دوسرے کی عبرت کا باعث بنتی ہے اور بعض دفعہ اور فوائد بھی مدنظر ہوتے ہیں جیسے انبیاء علیہم السلام اور نیک بندوں پر امتحانات آتے ہیں تاکہ خدا کے محبوب ہونے کی وجہ سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ ان کو خدائی اختیارات مل گئے ہیں ، نیز ان کی حالت دیکھ کر یہ سبق ملتا ہے کہ دنیا آرام کا گھرنہیں۔اگر ہوتا تو خدا کے پیارے یا معصوم اس کے زیادہ اہل تھے۔ بعض دفعہ کوئی دوسرے اعمال سے ایک درجہ کو نہیں پہنچ سکتا، خدا مصیبت کے ذریعہ اس کو بڑے درجہ تک پہنچا دیتا ہے چنانچہ احادیث میں صراحۃً آیا ہے۔ اسی طرح معصوموں کو بھی مصیبت کے عوض کچھ نہ کچھ ملے گا بکریاں آپس میں بھڑ جائیں تو حدیث میں ان کے متعلق انصاف کا ذکر آیا ہے کہ جس نے زیادتی کی ہے اس سے دوسری کو بدلہ دیا جائے گا ۔اگر ماں باپ کی شامت اعمال بچہ کی تکلیف کا باعث بنی ہے تو ماں باپ کی نیکیوں میں ضرور کمی ہو گی اور بچہ کا درجہ اس سے بلند ہو گا یا خدا اپنے پاس سے بچہ کو راضی کر دے گا۔

بہرصورت دنیا تکلیف کا گھر ہے اس میں دانہ دنکہ کی طرح جو آیا چکی میں پس گیا اگر اور تکلیف سے بچ گیا تو موت کے گھاٹ ضرور اترے گا جو اس دار تکلیف کی آخری گھاٹی ہے بلکہ انسان کا دنیا میں داخل ہونا ہی بڑی مصیبت کے ساتھ ہے ماں کو درزدہ کی اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی بچہ کو ہوتی ہے کیونکہ بچہ کو ہوتی ہے کیونکہ بچہ کا وجود ماں سے زیادہ نازک ہوتا ہے غرض دنیا میں امتیاز نہیں اس لیے ایک دوسرا دن مقرر یہ جس کا نام قیامت ہے اس دن امتیاز بھی ہو گا اور انصاف بھی۔ ( عبداللہ امرتسری روپڑضلع انبالہ ۱۲ شعبان ۱۳۵۵ھ مطابق ۳ اکتوبر ۱۹۳۶ء فتاویٰ روپڑی: جلد اول، صفحہ )

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 337

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ