سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(135) نو مسلم کا کسی وجہ سے اسلام کا اظہار نہ کرنا

  • 3917
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1004

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک ہندو خفیہ طور پر اسلام کو مانتا ہے الوہیت اور رسالت کا قائل ہے دو مسلمانوں کو اپنی زبان سے کلمہ طیب سنا کر گواہ بناتا ہے لیکن اظہار اسلام اس لیے نہیں کرتا کہ میں اس حالت میں شریف القوم ہوں اگر اسلام ظاہر کر دوں تو نو مسلم بھنگی چماروں کے برابر داخل اسلام ہو کر سمجھا جائے گا اور میری اولاد کا تعلق یا شادی بیاہ کا رشتہ جھوٹی قوموں میں کرنا پڑے گا اس حالت میں اگر یہ شخص مر جائے تو اللہ تعالیٰ کا اس کے ساتھ کیا برتاؤ ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس ہندو کی مثال بالکل ابو طالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کی مثال ہے وہ بھی قومی عار کی وجہ سے اسلام کا اظہار نہیں کرتا تھا، اور ویسے کہتا تھا کہ اسلام سچا دین ہے اور سب دنیوں سے بہتر ہے چنانچہ اس کا یہ شعر ہے۔

ولقد علمت بان دین محمد

من خیر ادیان البریة دینا

’’میں نے جان لیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین تمام دینوں سے بہتر ہے یعنی توحید جو لا الٰہ الا اللہ کا مضمون ہے۔‘‘

اس شعر میں ابو طالب کا کلمہ کی بابت اقرار ہے لیکن اس کا اظہار نہیں کیا جس کی وجہ اگلے شعر میں بیان کی ہے جو یہ ہے۔

لو لا الملامة او حذار مسبة

لوجدتنی سمحا بذاك مبینا

’’اگر ملامت اور لوگوں کے طعن وتشنیع کا ڈر نہ ہوتا تو میں تیرے دین کا خوشی سے اظہار کرتا۔‘‘

لوگوں کی ملامت اور طعن وتشنیع سے یہی مراد ہے کہ لوگ کہیں گے اتنا بڑا ہو کر اپنے بھتیجے کے پیچھے لگ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی امداد کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کیا فائدہ پہنچایا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا حاصل یہ ہے کہ میں اس کو نجات تو نہیں دلا سکا لیکن عذاب میں سب کافروں سے ہلکا ہو گا، اس کو آگ کا جوتا پہنایا جائے گا جس سے اس کا دماغ ہنڈیا کی طرح اُبلے گا، اگر میں نہ ہوتا تو جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوتا۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا صرف قومی طعن کی وجہ سے اسلام کے اظہار نہ کرنے پر ہمیشہ کے لیے جہنمی ہو گیا تو دوسرا کس طرح امید وار نجات ہو سکتا۔(فتاویٰ اہلحدیث روپڑی: جلد اول، صفحہ۱۴۰،۱۴۱)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 324

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ