سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(128) حدیث کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ کا کیا مطلب ہے؟

  • 3910
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 3524

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ کا کیا مطلب ہے۔ فطرت سے مراد طبیعت سلیمہ ہے یا ملت اسلام اگر اس سے مراد ملت اسلام ہے تو پھر ایک غیر مسلم کے بچہ کا شرعی طور سے جنازہ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ میں فطرت سے مراد اسلام ہے ، لیکن پیدائشی اسلام جزا سزا کا حقدار نہیں بلکہ کسب پر انسان جزا سزا کا مستحق ہوتا ہے ،بچوں کا جنت میں جانا بھی خدا کا ابتداء احسان ہے کسی عمل کی وجہ سے نہیں، جیسے جنت کی حورو غلمان کسی عمل کی وجہ سے جنت میں نہیں، لیکن چونکہ دنیا میں بچوں کی دنیوی تکلیفیں پہنچتی ہیں اس لیے ان کا درجہ حوروغلمان سے بڑا ہو گا جس کی بنا پر ماں باپ کی سفارش بھی کریں گے اور دیگر خصوصیتیں بھی ان کی ہوں گی۔

رہا جنازہ تو اس میں ماں باپ کے تابع ہیں۔ اگر ماں باپ مسلم ہیں تو جنازہ ہو گا ورنہ نہیں کیونکہ ظاہری احکام میں وہ ماں باپ کے تابع ہیں، اسی لیے جنگ میں غلام لونڈیاں بنائے جاتے ہیں۔( فتاویٰ اہلحدیث روپڑی ص ۱۳۴)

سوال:حدیث کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ‘‘ اور حدیث ’’ الا ان نبی اٰدم خلقوا علی طبقات شتی فمن هم من یولد مؤمنا ویحیٰ مؤمنا ویموت مؤمنا ومنہم من یولد کافرا ویحیٰ کافرا ویموت کافراً (الحدیث) رواہ الترمذی فی باب ما اخبر النبی صلی اللہ علیه وسلم اصحابه بہا هو کائن الی یوم القیامة( ترمذی مع تحفة الاحوذی جلد ۳)

مولانا آپس میں دونوں حدیثیں متعارض ہیں ان میں تطبیق کی کیا صورت ہے ؟ نیز بخاری شریف سے تمام بچوں کا جنتی ہونا معلوم ہوتا ہے جس میں ذکر ہے کہ آپ نے اپنے رویاء میں اولاد مشرکین کو ابراہیم علیہ السلام کے پاس دیکھا لیکن حدیث ترمذی کی بتلا رہی ہے کہ بعض مولود کی فطرت اور خلقت ہی کفر پر ہوتی ہے ، تو وہ جنتی کیسے ہو سکتے ہیں ذرا تدبر سے جواب دیں؟

حدیث’’کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ‘‘ پر حافظ ابن قیم رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بڑی بسط سے بحث کی ہے مگر دونوں صاحبوں نے صرف مذاہب مقرر کر دئیے ہیں ، فیصلہ کچھ نہیں فرمایا: حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب شفاء العلیل فی القدر والتعلیل میں خوب لکھا ہے آپ ایک نظر اس کو بھی دیکھ لیں ، یہ کتاب مصر میں چھپ گئی ہے ،مسئلہ تقدیر میں ایک عجیب تصنیف ہے؟

جواب:حدیث’ ومنہم من یولد کافراً‘‘ میں بھی یہی کفر مراد ہے کیونکہ کافروں کے بچے ظاہر کافر ہی شمار ہوتے ہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ کفر پر پیدا ہونے سے یہ مراد ہو کہ سن تمیز کو ۔۔۔ پہنچتے ہیں تو کافر ہوتے ہیں ، یعنی کفر کے کام کرتے ہیں، یہاں تک کہ اسی حالت میں بالغ ہو جاتے ہیں اور سن تمیز س یپہلے کا زمانہ چونکہ بے خبری کا زمانہ ہے، اس لیے اس سن تمیز کے تابع سمجھا جاتا ہے اگر سن تمیز کا زمانہ کفر کا ہے تو پہلا بھی کفر کا ہے اگر سن تمیز کا زمانہ ایمان کا ہے تو پہلا بھی ایمان کا ہے ، اس ک مثال ایسی ہے جیس یسونے کا وقت بیداری کے تابع ہے اگر بیداری میں عبادت کرتا ہے تو نیند میں بھی عابد ہی سمجھا جاتا ہے اور شاہد اسی وجہ سے حدیث میں چار صورتوں پر اکتفا کی ہے ورنہ صورتیں اور بھی نکل سکتی ہیں مثلاً پیدا مومن ہو زندہ کافر رہے، مرے مومن پیدا کافر ہو، زندہ مومن رہے، مرے کافر اور پیدا مومن ہو زندہ کافر رہے، مرے کافر اور پیدا کافر ہو، زندہ مومن رہے مرے کافر اور ہو سکتا ہے کہ یہ چار صورتیں اس لیے ذکر کی ہوں کہ دو ایمانوں کے درمیان کفر کالعدم ہے ،جیسے صحابی کی تعریف میں مشہور ہے کہ درمیان ارتداد آجائے تو وہ کالعدم ہے اور دو کفروں کے درمیان ایمان کالعدم ہے ،بلکہ نفاق پر دلالت کرتا ہے او رسن تمیز سے پہلے کا کفر اور ایمان بھی بغیر کفراور ایمان سن تمیز کے کالعدم ہے کیونکہ اس میں کسب کو دخل نہیں۔ پس اکیلا شمار کے قائل نہیں۔

خلاصہ یہ کہ یولد کافراً میں یا تو ماں باپ کی اتباع میں کفر مراد ہے یا سن تمیز کی اتباع میں کفر مراد ہے اور باقی چار صورتیں نہ ذکر کرنے کی وجہ یا تو یہی ہے کہ سن تمیز کی اتباع کفر اور ایمان مراد ہے ، ان چار صورتیں میں سن تمیز سے پہلی حالت ایک نہیں تو پہلی حالت سن تمیز کے تابع کس طرح ہو یا دو ایمان کے درمیان کفر اور دو کفروں کے درمیان اور سن تمیز کے کفر اور ایمان کے اور ایمان کے بغیر سن تمیز سے پہلے کافر اور ایمان کالعدم ہے اور کل مولود میں پیدائش اسلام مراد ہے جس کو جزا سزا سے کوئی تعلق نہیں اس میں نہ ماں باپ کی اتباع ہے نہ سن تمیز کی اتباع ہے پس دونوں حدیثوں سے تعارض رفع ہو گیا، اور جنازہ نہ پڑھنے کی وجہ بھی معلوم ہو گئی۔ (عبداللہ روپڑی۲۷ ربیع الاخر ۱۳۷۹ھ فتاویٰ روپڑی: ص ۱۳۴تا۱۳۵)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 315-318

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ